موطا امام مالك رواية يحييٰ
كِتَابُ الصِّيَامِ
کتاب: روزوں کے بیان میں
16. بَابُ النَّذْرِ فِي الصِّيَامِ ، وَالصِّيَامِ عَنِ الْمَيِّتِ
روزہ نذر کا بیان اور میت کی طرف سے روزہ رکھنے کا بیان
قَالَ مَالِك: مَنْ مَاتَ وَعَلَيْهِ نَذْرٌ مِنْ رَقَبَةٍ يُعْتِقُهَا أَوْ صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ بَدَنَةٍ، فَأَوْصَى بِأَنْ يُوَفَّى ذَلِكَ عَنْهُ مِنْ مَالِهِ، فَإِنَّ الصَّدَقَةَ وَالْبَدَنَةَ فِي ثُلُثِهِ، وَهُوَ يُبَدَّى عَلَى مَا سِوَاهُ مِنَ الْوَصَايَا، إِلَّا مَا كَانَ مِثْلَهُ وَذَلِكَ أَنَّهُ لَيْسَ الْوَاجِبُ عَلَيْهِ مِنَ النُّذُورِ، وَغَيْرِهَا كَهَيْئَةِ مَا يَتَطَوَّعُ بِهِ مِمَّا لَيْسَ بِوَاجِبٍ، وَإِنَّمَا يُجْعَلُ ذَلِكَ فِي ثُلُثِهِ خَاصَّةً دُونَ رَأْسِ مَالِهِ، لِأَنَّهُ لَوْ جَازَ لَهُ ذَلِكَ فِي رَأْسِ مَالِهِ لَأَخَّرَ الْمُتَوَفَّى مِثْلَ ذَلِكَ مِنَ الْأُمُورِ الْوَاجِبَةِ عَلَيْهِ، حَتَّى إِذَا حَضَرَتْهُ الْوَفَاةُ وَصَارَ الْمَالُ لِوَرَثَتِهِ، سَمَّى مِثْلَ هَذِهِ الْأَشْيَاءِ الَّتِي لَمْ يَكُنْ يَتَقَاضَاهَا مِنْهُ مُتَقَاضٍ، فَلَوْ كَانَ ذَلِكَ جَائِزًا لَهُ أَخَّرَ هَذِهِ الْأَشْيَاءَ، حَتَّى إِذَا كَانَ عِنْدَ مَوْتِهِ سَمَّاهَا وَعَسَى أَنْ يُحِيطَ بِجَمِيعِ مَالِهِ فَلَيْسَ ذَلِكَ لَهُ
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: جو شخص مر جائے اور اس پر نذر ہو ایک بردہ (غلام) آزاد کرنے کی، یا روزہ رکھنے کی، یا صدقہ دینے کی، یا قربانی کرنے کی۔ پھر وہ وصیت کر جائے کہ میرے مال میں سے یہ نذر ادا کرنا، تو ثلث مال سے ادا کی جائے، اور اس کا ادا کرنا اور وصیتوں پر مقدم سمجھا جائے، مگر جو وصیت مثل اس کے واجب ہو، کیونکہ اور وصیتیں جو نفل ہیں مثل اس وصیت کے نہیں ہو سکتیں جیسے نذر وغیرہ ہے اس لیے یہ واجب ہے، اور یہ وصیت تہائی مال میں اس واسطے خاص ہوئی کہ اگر کل مال میں نافذ ہو تو ہر شخص ایسے امورات جو اس پر واجب ہیں دیر کر کے اپنی موت پر رکھے گا، جب موت قریب ہوگی اور مال اس کے وارثوں کا حق ہوگا تو اس وقت وہ ان چیزوں کو بیان کرے گا، خاص کر ایسی چیزوں کو جن کا تقاضا کرنے والا کوئی نہ تھا، اور شاید کہ یہ چیزیں اس کے تمام مال کو گھیر لیں، اور ورثاء محروم رہ جائیں، اس واسطے کل مال میں اس کو اختیار نہیں ہے۔
تخریج الحدیث: «شركة الحروف نمبر: 623، فواد عبدالباقي نمبر: 18 - كِتَابُ الصِّيَامِ-ح: 42»