موطا امام مالك رواية يحييٰ
كِتَابُ الْجَنَائِزِ
کتاب: جنازوں کے بیان میں
14. بَابُ جَامِعِ الْحِسْبَةِ فِي الْمُصِيبَةِ
مصیبت میں صبر کرنے کی مختلف حدیثیں
حدیث نمبر: 561
وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، أَنَّهُ قَالَ: هَلَكَتِ امْرَأَةٌ لِي فَأَتَانِي مُحَمَّدُ بْنُ كَعْبٍ الْقُرَظِيُّ يُعَزِّينِي بِهَا، فَقَالَ: " إِنَّهُ كَانَ فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ رَجُلٌ فَقِيهٌ عَالِمٌ عَابِدٌ مُجْتَهِدٌ، وَكَانَتْ لَهُ امْرَأَةٌ وَكَانَ بِهَا مُعْجَبًا وَلَهَا مُحِبًّا، فَمَاتَتْ فَوَجَدَ عَلَيْهَا وَجْدًا شَدِيدًا وَلَقِيَ عَلَيْهَا أَسَفًا، حَتَّى خَلَا فِي بَيْتٍ وَغَلَّقَ عَلَى نَفْسِهِ وَاحْتَجَبَ مِنَ النَّاسِ، فَلَمْ يَكُنْ يَدْخُلُ عَلَيْهِ أَحَدٌ، وَإِنَّ امْرَأَةً سَمِعَتْ بِهِ فَجَاءَتْهُ فَقَالَتْ: إِنَّ لِي إِلَيْهِ حَاجَةً أَسْتَفْتِيهِ فِيهَا لَيْسَ يُجْزِينِي فِيهَا إِلَّا مُشَافَهَتُهُ، فَذَهَبَ النَّاسُ وَلَزِمَتْ بَابهُ، وَقَالَتْ: مَا لِي مِنْهُ بُدٌّ، فَقَالَ لَهُ قَائِلٌ: إِنَّ هَاهُنَا امْرَأَةً أَرَادَتْ أَنْ تَسْتَفْتِيَكَ، وَقَالَتْ: إِنْ أَرَدْتُ إِلَّا مُشَافَهَتَهُ وَقَدْ ذَهَبَ النَّاسُ وَهِيَ لَا تُفَارِقُ الْبَاب، فَقَالَ: ائْذَنُوا لَهَا فَدَخَلَتْ عَلَيْهِ، فَقَالَتْ: إِنِّي جِئْتُكَ أَسْتَفْتِيكَ فِي أَمْرٍ، قَالَ: وَمَا هُوَ؟ قَالَتْ: إِنِّي اسْتَعَرْتُ مِنْ جَارَةٍ لِي حُلِيًّا فَكُنْتُ أَلْبَسُهُ وَأُعِيرُهُ زَمَانًا، ثُمَّ إِنَّهُمْ أَرْسَلُوا إِلَيَّ فِيهِ أَفَأُؤَدِّيهِ إِلَيْهِمْ، فَقَالَ: نَعَمْ، وَاللَّهِ، فَقَالَتْ: إِنَّهُ قَدْ مَكَثَ عِنْدِي زَمَانًا، فَقَالَ: ذَلِكَ أَحَقُّ لِرَدِّكِ إِيَّاهُ إِلَيْهِمْ حِينَ أَعَارُوكِيهِ زَمَانًا، فَقَالَتْ: أَيْ يَرْحَمُكَ اللَّهُ أَفَتَأْسَفُ عَلَى مَا أَعَارَكَ اللَّهُ، ثُمَّ أَخَذَهُ مِنْكَ وَهُوَ أَحَقُّ بِهِ مِنْكَ، فَأَبْصَرَ مَا كَانَ فِيهِ وَنَفَعَهُ اللَّهُ بِقَوْلِهَا"
حضرت قاسم بن محمد رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ میری زوجہ مرگئی سو آئے محمد بن کعب قرظی تعزیت دینے مجھ کو اور کہا: بنی اسرائیل میں ایک شخص فقیہ عالم عابد مجتہد تھا، اور اس کی ایک بیوی تھی جس پر وہ نہایت شیفتہ تھا اور اس کو بہت چاہتا تھا، اتفاق سے وہ عورت مر گئی تو اس شخص کو نہایت رنج ہوا اور بڑا افسوس ہوا، اور وہ ایک گھر میں دروازہ بند کر کے بیٹھ رہا اور لوگوں سے ملاقات چھوڑ دی، تو اس کے پاس کوئی نہ جاتا تھا، ایک عورت نے یہ قصہ سنا اور اس کے دروازے پر جا کر کہا: مجھ کو ایک مسئلہ پوچھنا ہے، میں اسی سے پوچھوں گی، بغیر اس سے ملے ہوئے یہ کام نہیں ہو سکتا، تو اور جتنے لوگ آئے تھے وہ چلے گئے اور وہ عورت دروازے پر جمی رہی اور کہا کہ بغیر اس سے طے کیے کوئی علاج نہیں ہے، سو ایک شخص نے اندر جا کر اطلاع دی اور بیان کیا کہ ایک عورت تم سے مسئلہ پوچھنے کو آئی ہے، اور وہ کہتی ہے کہ میں تم سے ملنا چاہتی ہوں، تو سب لوگ چلے گئے مگر وہ عورت دروازہ چھوڑ کر نہیں جاتی، تب اس شخص نے کہا: اچھا اس کو آنے دو، پس آئی وہ عورت اس کے پاس اور کہا کہ میں ایک مسئلہ تجھ سے پوچھنے کو آئی ہوں، وہ بولا: کیا مسئلہ ہے؟ اس عورت نے کہا: میں نے اپنے ہمسایہ میں ایک عورت سے کچھ زیور مانگ کر لیا تھا، تو میں نے ایک مدت تک اس کو پہنا اور لوگوں کو مانگنے پر دیا، اب اس عورت نے وہ زیور مانگ بھیجا ہے، کیا میں اسے پھر دے دوں؟ اس شخص نے کہا: ہاں قسم اللہ کی! پھیر دے۔ عورت نے کہا کہ وہ زیور ایک مدت تک میرے پاس رہا ہے، اس شخص نے کہا کہ اس سبب سے اور زیادہ تجھے پھیرنا ضروری ہے، کیونکہ ایک زمانے تک تجھے اس نے مانگنے پر دیا۔ عورت بولی: اے فلانے! اللہ تجھ پر رحم کرے، تو کیوں افسوس کرتا ہے اس چیز پر جو اللہ جل جلالہُ نے تجھے مستعار دی تھی، پھر تجھ سے لے لی، اللہ جل جلالہُ زیادہ حق دار ہے تجھ سے۔ جب اس شخص نے غور کیا اور عورت کی بات سے اللہ تعالیٰ نے اس کو نفع دیا۔
تخریج الحدیث: «مقطوع صحيح، انفرد به المصنف من هذا الطريق، شركة الحروف نمبر: 515، فواد عبدالباقي نمبر: 16 - كِتَابُ الْجَنَائِزِ-ح: 43»