موطا امام مالك رواية يحييٰ
كِتَابُ الِاسْتِسْقَاءِ
کتاب: نماز استسقاء کے بیان میں
1. بَابُ الْعَمَلِ فِي الِاسْتِسْقَاءِ
استسقاء کا بیان
حدیث نمبر: 450
وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ شَرِيكِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي نَمِرٍ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، أَنَّهُ قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَلَكَتِ الْمَوَاشِي وَتَقَطَّعَتِ السُّبُلُ، فَادْعُ اللَّهَ فَدَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَمُطِرْنَا مِنَ الْجُمُعَةِ إِلَى الْجُمُعَةِ، قَالَ: فَجَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ تَهَدَّمَتِ الْبُيُوتُ وَانْقَطَعَتِ السُّبُلُ وَهَلَكَتِ الْمَوَاشِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اللَّهُمَّ ظُهُورَ الْجِبَالِ وَالْآكَامِ وَبُطُونَ الْأَوْدِيَةِ وَمَنَابِتَ الشَّجَرِ"، قَالَ: فَانْجَابَتْ عَنْ الْمَدِينَةِ انْجِيَابَ الثَّوْبِ . قَالَ مَالِك فِي رَجُلٍ فَاتَتْهُ صَلَاةُ الْاسْتِسْقَاءِ وَأَدْرَكَ الْخُطْبَةَ فَأَرَادَ أَنْ يُصَلِّيَهَا فِي الْمَسْجِدِ أَوْ فِي بَيْتِهِ إِذَا رَجَعَ، قَالَ مَالِك: هُوَ مِنْ ذَلِكَ فِي سَعَةٍ إِنْ شَاءَ فَعَلَ أَوْ تَرَكَ
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص آیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اور کہا اس نے: اے اللہ کے رسول! مرگئے جانور، اور بند ہو گئے راستے، سو دعا کیجیے اللہ سے۔ پس دعا کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو برسا پانی ایک جمعہ سے دوسرے جمعہ تک، پھر ایک شخص آیا اور اس نے کہا: اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! گر پڑے گھر اور بند ہو گئیں راہیں اور مرگئے جانور۔ تب دعا کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے: ”یا اللہ! برسا پہاڑوں پر اور ٹیلوں پر اور نالوں پر اور درختوں کے اردگرد۔“ کہا سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے: جب یہ دعا کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو پھٹ گیا ابر مدینہ سے جیسے پھٹ جاتا ہے پرانا کپڑا۔
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر کسی کو نماز استسقاء کی نہ ملے لیکن خطبہ مل جائے تو اس کو اختیار ہے چاہے دو رکعتیں استسقاء کی مسجد میں پڑھے، یا گھر میں آکر پڑھ لے، یا نہ پڑھے، کیونکہ نماز استسقاء کی نفل ہے۔
تخریج الحدیث: «صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 932، 933، 1013، 1014، 1015، 1016، 1017، 1018، 1019، 1021، 1031، 1033، 3565، 3582، 6093، 6341، 6342، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 897، 895، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 1411، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 877، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 1224، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 1505، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 1440، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1170، 1171، 1174، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1576، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1180، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 5920، وأحمد فى «مسنده» برقم: 12201، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 4910، 4911، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 8533، والطبراني فى "الكبير"، 27، 28، شركة الحروف نمبر: 415، فواد عبدالباقي نمبر: 13 - كِتَابُ الِاسْتِسْقَاءِ-ح: 3»