موطا امام مالك رواية يحييٰ
كِتَابُ الطَّهَارَةِ
کتاب: طہارت کے بیان میں
1. بَابُ الْعَمَلِ فِی الْوُضُوْءِ
وضوء کی ترکیب کا بیان
قَالَ يَحْيَى: سُئِلَ مَالِك، عَنْ رَجُلٍ تَوَضَّأَ فَنَسِيَ فَغَسَلَ وَجْهَهُ قَبْلَ أَنْ يَتَمَضْمَضَ أَوْ غَسَلَ ذِرَاعَيْهِ قَبْلَ أَنْ يَغْسِلَ وَجْهَهُ، فَقَالَ: وأَمَّا الَّذِي غَسَلَ وَجْهَهُ قَبْلَ أَنْ يَتَمَضْمَضَ فَلْيُمَضْمِضْ، وَلَا يُعِدْ غَسْلَ وَجْهِهِ، وَأَمَّا الَّذِي غَسَلَ ذِرَاعَيْهِ قَبْلَ وَجْهِهِ فَلْيَغْسِلْ وَجْهَهُ، ثُمَّ لِيُعِدْ غَسْلَ ذِرَاعَيْهِ حَتَّى يَكُونَ غَسْلُهُمَا بَعْدَ وَجْهِهِ إِذَا كَانَ ذَلِكَ فِي مَكَانِهِ، أَوْ بِحَضْرَةِ ذَلِكَ.
کہا یحییٰ نے، پوچھے گئے امام مالک رحمہ اللہ اس شخص سے جس نے وضو کیا تو بھول کر قبل کلی کرنے کے منہ دھو لیا، یا پہلے ہاتھ دھو لیے اور منہ نہ دھویا، کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: جس شخص نے منہ دھو لیا کلی کرنے سے پیشتر تو وہ کلی کرے اور دوبارہ منہ نہ دھوئے۔ لیکن جس نے ہاتھ دھو لیے منہ دھونے سے پیشتر تو اس کو چاہیے کہ منہ دھو کر ہاتھوں کو دوبارہ دھوئے تاکہ دھونا ہاتھ کا بعد دھونے منہ کے ہو جائے، جب تک وضو کرنے والا اپنی جگہ میں ہے یا قریب اس کے۔
تخریج الحدیث: «شركة الحروف نمبر: 32/2، فواد عبدالباقي نمبر: 2 - كِتَابُ الطَّهَارَةِ-ح: 7»
موطا امام مالك رواية يحييٰ کی حدیث نمبر 35B1 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافظ ابو سمیعہ محمود تبسم، فوائد، موطا امام مالک : 35
فائدہ:
یعنی اگر بھول کر بغیر ترتیب کے وضو کر لیا اور پھر آدمی وضو والی جگہ سے دور چلا گیا تو امام مالک رحمہ اللہ کے نزدیک دوبارہ ترتیب درست کر کے وضو کرنے کی بھی ضرورت نہیں، کیونکہ امام مالک رحمہ اللہ کے نزدیک ترتیب واجب تو ہے لیکن نسیان کی وجہ سے ساقط ہو جاتی ہے، فقہائے حنفیہ کے نزدیک اعضائے وضو میں ترتیب واجب ہی نہیں۔ جبکہ امام احمد رحمہ اللہ، امام شافعی رحمہ اللہ اور اہل حدیث کے نزدیک اعضائے وضو کو اس ترتیب سے دھونا واجب ہے جو قرآن مجید میں [سوره المائده: 6 میں] موجود ہے، بصورتِ دیگر وضو کا اعادہ لازم ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایک صحابی کو یہی حکم فرمایا تھا:
«توضاً كَمَا أَمَرَكَ اللهُ»
”وضو اس طرح کرو جیسے اللہ نے تمھیں حکم فرمایا ہے۔“
[ابو عوانه: 253/1، بيهقي: 83/1، اس كي سند صحيح هے]
خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ساری زندگی ترتیب کے ساتھ وضو فرمایا، اگر ترتیب واجب نہ ہوتی تو کبھی ایک بار ہی بیانِ جواز کے لیے بغیر ترتیب کے وضو کر کے دکھا دیتے۔ بلکہ حج کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دیا تھا:
«ابداً بِمَا بَدَا الله به»
”میں اُسی سے آغاز کروں گا، جس کا اللہ نے پہلے ذکر فرمایا ہے۔“
[صحيح مسلم: 1218]
ان دلائل سے معلوم ہوتا ہے کہ وضو میں ترتیب واجب ہے اور غیر مرتب وضو کفایت نہیں کرے گا۔
[السيل الجرار: 87/1، فقه السنة: 33/1، الروضة الندية: 140/1]
موطا امام مالک از ابو سمیعہ محمود تبسم، حدیث/صفحہ نمبر: 35