موطا امام مالك رواية يحييٰ
كِتَابُ وُقُوْتِ الصَّلَاةِ
کتاب: اوقات نماز کے بیان میں
6. بَابُ النَّوْمِ عَنِ الصَّلَاةِ
نماز سے سو جانے کا بیان
حدیث نمبر: 24
حَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ مَالِك، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ قَفَلَ مِنْ خَيْبَرَ أَسْرَى حَتَّى إِذَا كَانَ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ عَرَّسَ، وَقَالَ لِبِلَالٍ:" اكْلَأْ لَنَا الصُّبْحَ"، وَنَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ، وَكَلَأَ بِلَالٌ مَا قُدِّرَ لَهُ. ثُمَّ اسْتَنَدَ إِلَى رَاحِلَتِهِ وَهُوَ مُقَابِلُ الْفَجْرِ فَغَلَبَتْهُ عَيْنَاهُ، فَلَمْ يَسْتَيْقِظْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَا بِلَالٌ، وَلَا أَحَدٌ مِنَ الرَّكْبِ، حَتَّى ضَرَبَتْهُمُ الشَّمْسُ، فَفَزِعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ بِلَالٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَخَذَ بِنَفْسِي الَّذِي أَخَذَ بِنَفْسِكَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اقْتَادُوا"، فَبَعَثُوا رَوَاحِلَهُمْ وَاقْتَادُوا شَيْئًا، ثُمَّ أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِلَالًا فَأَقَامَ الصَّلَاةَ، فَصَلَّى بِهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصُّبْحَ ثُمَّ قَالَ حِينَ قَضَى الصَّلَاةَ: " مَنْ نَسِيَ الصَّلَاةَ، فَلْيُصَلِّهَا إِذَا ذَكَرَهَا، فَإِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى يَقُولُ فِي كِتَابِهِ وَأَقِمِ الصَّلاةَ لِذِكْرِي سورة طه آية 14"
سیدنا سعید بن مسیّب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب لوٹے جنگِ خیبر سے، رات کو چلے جب اخیر رات ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اتر پڑے اور سیدنا بلال رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ”صبح کی نماز کا تم خیال رکھو۔“ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سو رہے اور جب تک اللہ کو منظور تھا، سیدنا بلال رضی اللہ عنہ جاگتے رہے، پھر سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے تکیہ لگایا اپنے اونٹ پر اور منہ اپنا صبح کی طرف کیے رہے اور لگ گئی آنکھ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کی، تو نہ جاگے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور نہ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ اور نہ کوئی شتر سوار، یہاں تک کہ پڑنے لگی ان پر تیزی دھوپ کی، تب چونک اٹھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور فرمایا: ”کیا ہے یہ اے بلال!“ کہا سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے: زور کیا مجھ پر اس چیز نے جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر زور کیا (یعنی نیند نے)، فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے: ”کوچ کرو۔“ تو لادے لوگوں نے کجاوے اپنے۔ تھوڑی دور چلے تھے کہ حکم کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو تکبیر کہنے کا۔ تو تکبیر کہی سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے نماز کی، پھر نماز پڑھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کی، بعد اس کے فرمایا جب نماز پڑھ چکے: ”جو شخص بھول جائے نماز کو تو چاہیے کہ پڑھ لے اس کو جب یاد آئے، کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ”قائم کر نماز کو جس وقت یاد کرے مجھ کو۔“
تخریج الحدیث: «صحيح، وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 680، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1459، 2069، 2651، 2652، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 617، 618، 622، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 1601، وأبو داود فى «سننه» برقم: 435، 436، والترمذي فى «جامعه» برقم: 3163، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 697، 1155، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 1924، 1925، وأحمد فى «مسنده» برقم: 9665، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 6185، 6208، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 2237، 2244، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 4772، شركة الحروف نمبر: 22، فواد عبدالباقي نمبر: 1 - كِتَابُ وُقُوتِ الصَّلَاةِ-ح: 25»
موطا امام مالك رواية يحييٰ کی حدیث نمبر 24 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافظ ابو سمیعہ محمود تبسم، فوائد، موطا امام مالک : 24
فائدہ:
یہ واقعہ غزوۂ خیبر سے واپسی پر پیش آیا اور صحیح مسلم میں یہ وضاحت موجود ہے کہ: «فكَان رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم أَوَّلَهُمُ استيقاظا» ”رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ان میں سب سے پہلے جاگے۔“ [مسلم: 680]
مذکورہ حدیث مبارکہ کے اخیر میں آیت: «اَقِمِ الصَّلاةَ لِذ كري» [طه 20: 14] سے استدلال کیا گیا ہے، جو اس آیت کی جامعیت، مختلف پہلوؤں اور معانی پر مشتمل ہونے کی بنا پر ہے۔ آیت کا عام مفہوم تو یہ ہے کہ اللہ فرما رہے ہیں: میری یاد اور میرا ذکر قائم کرنے کے لیے نماز قائم کیجیے، کیونکہ ذکر الہی کی اعلیٰ ترین صورت نماز ہے، جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا استدلال لغوی معنی اور محذوف عبارت کے لحاظ سے ہے یعنی: «آقِم الصَّلاةَ لِوَقْتِ ذِكْرِ صَلَاتِي» (نماز کو اس وقت قائم کرو جب میری نماز تمھیں یاد آئے)
رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کا فرمان ہے: «انَّ عَيْنَيَّ تَنَامَانِ وَلَا يَنَامُ قَلْبِي» ”يَقِينا میری آنکھیں تو سوتی ہیں لیکن میرا دل نہیں سوتا۔“ [بخاري: 114، مسلم: 738]
آپ صلى الله عليه وسلم کے اس فرمانِ مقدس اور مذکورہ بالا واقعہ کو سامنے رکھیں تو یہ تطبیق اور نتیجہ سامنے آتے ہیں کہ چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دل نہیں سوتا تھا اس لیے جسم اطہر کے ساتھ پیش آنے والے معاملات مثلاً ہوا کا خارج ہونا، تکلیف پہنچنا، خواب یاد رہنا وغیرہ کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکمل شعور رہتا تھا، لیکن وہ معاملات جو جسم مبارک سے ہٹ کر تھے اور آنکھ کے ساتھ دیکھنے سے تعلق رکھتے تھے مثلاً سورج کا نکلنا، رات کا ختم ہونا، وقت کا گزرنا وغیرہ تو ان کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قلب مبارک محسوس نہیں کرتا تھا، اسی لیے نیند کی بنا پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز قضا ہو گئی۔ [والله اعلم بالصواب]
موطا امام مالک از ابو سمیعہ محمود تبسم، حدیث/صفحہ نمبر: 24
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 466
´صبح ہونے سے پہلے وتر پڑھ لینے کا بیان۔`
زید بن اسلم (مرسلاً) کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو وتر پڑھے بغیر سو جائے، اور جب صبح کو اٹھے تو پڑھ لے۔“ [سنن ترمذي/أبواب الوتر/حدیث: 466]
اردو حاشہ:
1؎:
کیونکہ پہلی حدیث اگرچہ مرفوع ہے مگر عبدالرحمن بن زید بن اسلم کے طریق سے ہے،
اور وہ متکلم فیہ ہیں،
جبکہ ان کے بھائی عبداللہ ثقہ ہیں،
یعنی اس حدیث کا مرسل ہونا ہی زیادہ صحیح ہے۔
2؎:
اس حدیث سے وتر کی قضا ثابت ہوتی ہے،
اس کے قائل بہت سے صحابہ اور آئمہ ہیں،
اس مسئلہ میں اگرچہ بہت سے اقوال ہیں مگر احتیاط کی بات یہی ہے کہ وتر اگر کسی وجہ سے رہ جائے تو قضا کر لے،
چاہے جب بھی کرے،
کیونکہ وتر سنن و نوافل نمازوں کو طاق بنانے کے لیے مشروع ہوئی ہے،
اور اگر کوئی مسافر ہو اور دن بھر میں کسی وقت بھی دو رکعت بھی سنت نہ پڑھ سکا ہو تو ایسے آدمی کو وتر کی ضرورت ہی نہیں،
پھر عشاء کے بعد دو رکعت سنت پڑھ لے تب وتر پڑھے۔
نوٹ:
(شواہد و متابعات کی بناء پر یہ روایت صحیح ہے،
ورنہ یہ خود مرسل روایت ہے)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 466