موطا امام مالك رواية يحييٰ
كِتَابُ وُقُوْتِ الصَّلَاةِ
کتاب: اوقات نماز کے بیان میں
5. بَابُ جَامِعِ الْوُقُوْتِ
وقتوں کا بیان
حدیث نمبر: 22
وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ:" إِنَّ الْمُصَلِّيَ لَيُصَلِّي الصَّلَاةَ وَمَا فَاتَهُ وَقْتُهَا، وَلَمَا فَاتَهُ مِنْ وَقْتِهَا أَعْظَمُ، أَوْ أَفْضَلُ مِنْ أَهْلِهِ وَمَالِهِ" .
حضرت یحیی بن سعید رحمہ اللہ کہتے تھے کہ نمازی کبھی نماز پڑھتا ہے اور وقت جاتا نہیں رہتا، لیکن جس قدر وقت گزر گیا وہ اچھا اور بہتر تھا اس کے گھر بار سے۔
تخریج الحدیث: «مقطوع صحيح، التمهيد لابن عبدالبر: 24/75، 4/342، شركة الحروف نمبر: 20، فواد عبدالباقي نمبر: 1 - كِتَابُ وُقُوتِ الصَّلَاةِ-ح: 23» شیخ سلیم ہلالی اور شیخ احمد علی سلیمان نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔
موطا امام مالك رواية يحييٰ کی حدیث نمبر 22 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافظ ابو سمیعہ محمود تبسم، فوائد، موطا امام مالک : 22
فائدہ:
یعنی نماز کو اول وقت میں ادا کر لینا چاہیے، اگرچہ اوقاتِ نماز میں وسعت رکھی گئی ہے لیکن نماز کا ابتدائی وقت زیادہ فضیلت کا حامل ہوتا ہے اور جیسے جیسے وقت گزرتا جاتا ہے فضیلت میں کمی آتی رہتی ہے، لہذا آدمی کو بیوی بچوں اور مال و دولت میں الجھ کر اس عظمت و فضیلت سے محروم نہیں رہنا چاہیے۔ نیز اگر آدی کسی فرض نماز کا وقت شروع ہو جانے کے بعد اس میں تاخیر کا ارادہ کرے تو یہ اندیشہ موجود رہتا ہے کہ کہیں موت یا کوئی دوسرا حادثہ و آفت ادائیگی میں رکاوٹ نہ بن جائے ...
یاد رہے کہ یہ روایت ایک تابعیؒ کا قول ہے، اس مفہوم کی کچھ روایات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی منقول ہیں جن کی سندوں میں کمزوری ہے، البتہ صحیح ترین روایات سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ نمازِ ظہر کو تھوڑا سا مؤخر کر کے خصوصاً گرمیوں میں ذرا ٹھنڈے وقت میں پڑھنا اور نمازِ عشاء کو نصف رات تک جتنا ممکن ہو تاخیر سے پڑھنا افضل اور مستحسن ہے۔
«قَالَ يَحْيَى: قَالَ مَالِكُ: مَنْ أَدْرَكَ الْوَقْت وَهُوَ فِى سَفَرٍ، فَأَخَرَ الصَّلاةَ سَاهِياً أو نَاسِياً، حَتَّى قَدِمَ عَلَى أَهْلِهِ، أَنَّهُ إِنْ كَانَ قَدِمَ عَلَى أَهْلِهِ وَهُوَ فِي الْوَقْتِ فَلْيُصَلِّ صَلَاةَ المُقِيمِ، وَإِنْ كَانَ قَدْ قَدِمَ وَقَدْ ذَهَبَ الْوَقْتُ، فَلْيُصَلِّ صَلَاةَ الْمُسَافِرِ، لأَنَّهُ إِنَّمَا يَقْضِي مِثْلَ الَّذِي كَانَ عَلَيْهِ»
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: جس شخص پر کسی نماز کا وقت اس حالت میں آ جائے کہ وہ سفر میں ہو لیکن غفلت سے یا کسی دوسرے کام میں مشغول ہونے کی وجہ سے بھول کر نماز کو موخر کر دے یہاں تک کہ اپنے گھر بار میں پہنچ جائے (حالتِ سفر سے حالتِ اقامت میں آ جائے تو اس کی دو صورتیں ہیں) چنانچہ اگر تو وہ اس نماز کے وقت کے اندر اندر گھر میں آ جائے تو وہ مقیم شخص (جو مسافر نہ ہو) جیسی نماز ادا کرے گا (اُسے چار رکعتی نماز میں قصر اور دو گانہ پڑھنے کی اجازت نہ ہو گی بلکہ پوری چار رکعات فرض نماز ادا کرے گا) اور اگر وہ اس حال میں گھر پہنچا کہ وقت نماز (سفر کے دوران ہی) ختم ہو چکا تھا تو اب وہ چونکہ قضا نماز پڑھے گا اس لیے) اسے چاہے کہ مسافر جیسی نماز پڑھے (یعنی قصر اور دوگانہ کی شکل میں صرف دو رکعات پڑھے) کیونکہ وہ بلاشبہ قضا اُسی چیز کی کرے گا جو (قضا ہوتے وقت) اس پر لازم ہوئی تھی۔
«قَالَ مَالِكٌ فِي مَنْ أَرَادَ سَفَرًا فَأَدْرَكَهُ الْوَقْتُ وَهُوَ فِي أَهْلِهِ، قَالَ: فَإِنَّهُ إِذَا خَرَجَ وَهُوَ فِي الْوَقْتِ، صَلَّى صَلاةَ الْمُسَافِرِ، وَإِذَا خَرَج وَقَدْ ذَهَبَ الوَقْتُ، وَلَمْ يَكُن صَلَّى فى أَهْلِهِ فَلْيُصَلِّ صَلَاةَ الْحَاضِرِ الأَنَّهُ إِنَّا يَقْضِي عَلَى قَدَرٍ مَا أَوْ جِبَ عَلَيْهِ. قَالَ مَالِكُ: وَهَذَا الأَمرُ هُوَ الَّذِي أَدْرَكْتُ عَلَيْهِ النَّاسَ وَأَهْلَ الْعِلْمِ بِبَلَدِنَا .»
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: اگر کوئی شخص اپنے اہل و عیال (گھر) میں موجود ہوا اور ارادہ سفر کر لے اور نماز کا وقت ہو جائے۔ فرمایا کہ سفر کے لیے نکلتے وقت نماز وقت ہو گیا تو وہ مسافر کی نماز پڑھے گا اور جب وہ نکلے اور وقت گزر چکا ہو اور اس نے اپنے گھر میں نماز نہ پڑھی ہو تو وہ مقیم کی نماز پڑھے گا، کیونکہ وہ اسی چیز کی قضا دے گا جتنی اسی پر واجب ہے۔
امام مالک رحمہ اللہ نے کہا کہ یہ وہی حکم اور معاملہ ہے جس پر میں نے لوگوں (تابعینؒ اور تبع تابعینؒ) کو اور اپنے شہر (مدینہ منورہ) کے اہل علم حضرات کو (عمل کرتے ہوئے) پایا۔
«وَقَالَ مَالِكٌ: الشَّفَقُ العُمْرَةُ الَّتِي فِي الْمَغْرِبِ، فَإِذَا ذَهَبَتِ الْحُمْرَةُ، فَقَدْ وَجَبَتْ صَلاةُ الْعِشَاءِ وَخَرَجْتَ مِنْ وَقْتِ الْمَغْرِبِ.»
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: (حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی روایت میں مذکور) ”شفق“ سے مراد وہ سرخی ہے جو مغرب کی جانب (سورج ڈوبنے کے بعد پھیلی) ہوتی ہے، جب یہ سرخی ختم ہو جائے گی تو نماز عشاء واجب ہو جائے گی اور تم نمازِ مغرب کے وقت سے نکل جاؤ گے۔
موطا امام مالک از ابو سمیعہ محمود تبسم، حدیث/صفحہ نمبر: 22