موطا امام مالك رواية يحييٰ
كِتَابُ وُقُوْتِ الصَّلَاةِ
کتاب: اوقات نماز کے بیان میں
1. بَابُ وُقُوْتِ الصَّلَاةِ
نماز کے وقتوں کا بیان
حدیث نمبر: 5
وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ نَافِعٍ مَوْلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ، كَتَبَ إِلَى عُمَّالِهِ:" إِنَّ أَهَمَّ أَمْرِكُمْ عِنْدِي الصَّلَاةُ، فَمَنْ حَفِظَهَا وَحَافَظَ عَلَيْهَا، حَفِظَ دِينَهُ، وَمَنْ ضَيَّعَهَا فَهُوَ لِمَا سِوَاهَا أَضْيَعُ. ثُمَّ كَتَبَ: أَنْ صَلُّوا الظُّهْرَ، إِذَا كَانَ الْفَيْءُ ذِرَاعًا إِلَى أَنْ يَكُونَ ظِلُّ أَحَدِكُمْ مِثْلَهُ، وَالْعَصْرَ وَالشَّمْسُ مُرْتَفِعَةٌ بَيْضَاءُ نَقِيَّةٌ قَدْرَ مَا يَسِيرُ الرَّاكِبُ فَرْسَخَيْنِ أَوْ ثَلَاثَةً قَبْلَ غُرُوبِ الشَّمْسِ، وَالْمَغْرِبَ إِذَا غَرَبَتِ الشَّمْسُ، وَالْعِشَاءَ إِذَا غَابَ الشَّفَقُ إِلَى ثُلُثِ اللَّيْلِ، فَمَنْ نَامَ فَلَا نَامَتْ عَيْنُهُ، فَمَنْ نَامَ فَلَا نَامَتْ عَيْنُهُ، فَمَنْ نَامَ فَلَا نَامَتْ عَيْنُهُ، وَالصُّبْحَ وَالنُّجُومُ بَادِيَةٌ مُشْتَبِكَةٌ"
نافع سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے مولیٰ (آزاد کردہ غلام) سے روایت ہے، سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے اپنے عالموں کو لکھا کہ تمہاری سب خدمتوں میں نماز بہت ضروری اور اہم ہے میرے نزدیک، جس نے نماز کے مسائل اور احکام یاد کیے اور وقت پر پڑھی تو اس نے اپنا دین محفوظ رکھا۔ جس نے نماز کو تلف کیا تو اور خدمتیں زیادہ تلف کرے گا۔ پھر لکھا: نماز پڑھو ظہر کی جب آفتاب ڈھل جائے اور سایہ آدمی کے ایک ہاتھ برابر ہو یہاں تک کہ سایہ آدمی کا اس کے برابر ہو جائے، اور نماز پڑھو عصر کی جب تک کہ آفتاب بلند اور سفید رہے ایسا کہ بعد نماز عصر کے اونٹ کی سواری پر چھ میل یا نو میل قبل غروب کے آدمی پہنچ سکے، اور نماز پڑھو مغرب کی جب سورج ڈوب جائے اور عشاء کی نماز پڑھو جب شفق غائب ہو جائے تہائی رات تک، جو شخص سو جائے عشاء کی نماز سے پہلے تو اللہ کرے نہ لگے آنکھ اس کی، نہ لگے آنکھ اس کی، نہ لگے آنکھ اس کی اور نماز پڑھو صبح کی اور تارے صاف گہنے ہوئے ہوں۔
تخریج الحدیث: «موقوف ضعيف، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 2130، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 2037، 2038، 2039، 2076، 2128، 2142، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 3249، 7256، 7257، 37589، والطحاوي فى «شرح معاني الآثار» برقم: 953، 1152، شركة الحروف نمبر: 5، فواد عبدالباقي نمبر: 1 - كِتَابُ وُقُوتِ الصَّلَاةِ-ح: 6» شیخ سلیم ہلالی اور شیخ احمد علی سلیمان نے اسے ضعیف اور امام ابن البرََ نے منقطع کہا ہے۔
موطا امام مالك رواية يحييٰ کی حدیث نمبر 5 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافظ ابو سمیعہ محمود تبسم، فوائد، موطا امام مالک : 5
فائدہ:
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے اس خط سے معلوم ہوا کہ حاکمِ وقت کو اپنے ماتحت عہدیداروں کی تربیت کرتے رہنا چاہیے، خصوصاََ نماز کے اہتمام پر زور دینا چاہیے، جو شخص اس فریضہ الہی کو کما حقہ ادا نہیں کر سکتا وہ کسی بھی دینی و دنیوی اور عوامی و اجتماعی ذمہ داری صحیح طریقے سے ادا کرنے کا اہل نہیں ہو سکتا۔
اس روایت میں بھی ظہر کے وقت کا اختتام ایک مثل پر مذکور ہے اور نمازِ عصر کو بھی جلد ادا کر لینے کی تلقین کی گئی ہے۔ شفق کے متعلق حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: «الشَّفَقُ الحُمْرَةُ» شفق سے مراد سُرخی ہے۔ [مصنف عبدالرزاق: 2122، بيهقي: 373/1 - سند صحيح هے]
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ عشاء سے پہلے سو جانے والے کے لیے اس لیے بد دعا کر رہے تھے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم «كَانَ يَكْرَهُ التَّوْمَ قَبْلَهَا وَالْحَدِيثَ بَعْدَهَا» ”نمازِ عشاء سے پہلے سو جانے کو اور اس کے بعد باتیں کرنے کو ناپسند کرتے تھے۔“ [بخاري: 547، مسلم: 647]
نیز تاروں کی موجودگی میں نمازِ فجر پڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ پوری سلطنتِ اسلامیہ میں نمازِ فجر تاریکی میں ادا کی جائے۔
موطا امام مالک از ابو سمیعہ محمود تبسم، حدیث/صفحہ نمبر: 5