Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

موطا امام مالك رواية يحييٰ
كِتَابُ وُقُوْتِ الصَّلَاةِ
کتاب: اوقات نماز کے بیان میں
1. بَابُ وُقُوْتِ الصَّلَاةِ
نماز کے وقتوں کا بیان
حدیث نمبر: 1
قَالَ: حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ يَحْيى اللَّيْثِيّ، عَنْ مَالِك بْن أَنَس، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ، أَخَّرَ الصَّلَاةَ يَوْمًا فَدَخَلَ عَلَيْهِ عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ ، فَأَخْبَرَهُ، أَنَّ الْمُغِيرَةَ بْنَ شُعْبَةَ، أَخَّرَ الصَّلَاةَ يَوْمًا وَهُوَ بِالْكُوفَةِ، فَدَخَلَ عَلَيْهِ أَبُو مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيُّ ، فَقَالَ: مَا هَذَا يَا مُغِيرَةُ؟ أَلَيْسَ قَدْ عَلِمْتَ أَنَّ " جِبْرِيلَ نَزَلَ فَصَلَّى فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ صَلَّى فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ صَلَّى فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ صَلَّى فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ صَلَّى فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ: بِهَذَا أُمِرْتُ" . فَقَالَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ: اعْلَمْ مَا تُحَدِّثُ بِهِ يَا عُرْوَةُ، أَوَ إِنَّ جِبْرِيلَ هُوَ الَّذِي أَقَامَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقْتَ الصَّلَاةِ؟ قَالَ عُرْوَةُ: كَذَلِكَ كَانَ بَشِيرُ بْنُ أَبِي مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيُّ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِيهِ. قَالَ قَالَ عُرْوَةُ : وَلَقَدْ حَدَّثَتْنِي عَائِشَةُ زَوْجُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" كَانَ يُصَلِّي الْعَصْرَ وَالشَّمْسُ فِي حُجْرَتِهَا، قَبْلَ أَنْ تَظْهَرَ"
محمد بن مسلم بن شہاب زہری سے روایت ہے کہ عمر بن عبدالعزیز خلیفہ وقت نے ایک روز دیر کی عصر کی نماز میں تو ان کے پاس عروہ بن زبیر گئے اور ان کو خبر دی کہ مغیرہ بن شعبہ نے ایک روز دیر کی تھی عصر کی نماز میں جب وہ کوفہ کے حاکم تھے، پس ان کے پاس ابومسعود عقبہ بن عمرو انصاری گئے اور کہا کہ اے مغیرہ! یہ دیر میں نماز کیا ہے، کیا تم کو نہیں معلوم کہ جبرئیل علیہ السلام اترے آسمان سے اور نماز پڑھی انہوں نے (ظہر کی) تو نماز پڑھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ساتھ ہی ان کے، پھر نماز پڑھی جبرئیل علیہ السلام نے (عصر کی) تو نماز پڑھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ساتھ ہی ان کے، پھر نماز پڑھی جبرئیل علیہ السلام نے (مغرب کی) تو نماز پڑھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ساتھ ہی ان کے، پھر نماز پڑھی جبرئیل علیہ السلام نے (عشا کی) تو نماز پڑھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ساتھ ہی ان کے، پھر نماز پڑھی جبرئیل علیہ السلام نے (فجر کی) تو نماز پڑھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ساتھ ہی ان کے، پھر کہا جبرئیل علیہ السلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے: ایسا ہی تم کو حکم ہوا ہے۔ تب کہا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے عروہ سے کہ سمجھو تم جو روایت کرتے ہو کیا جبرئیل علیہ السلام نے قائم کیے نماز کے وقت حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے۔ عروہ نے کہا کہ ابومسعود بن عقبہ بن عمرو انصاری کے بیٹے بشیر ایسا ہی روایت کرتے تھے اپنے باپ سے۔
اور مجھ سے روایت کیا سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھتے تھے عصر کی اور دھوپ حجرے کے اندر ہوتی تھی دیواروں پر چڑھنے سے پہلے۔

تخریج الحدیث: «صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 521، 522، 544، 545، 546، 3103، 3221، 4007، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 610، 611، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1448، 1449، 1450، 1494، 1521، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 697، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 493، 504، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 1494، 1506، وأبو داود فى «سننه» برقم: 394، 407، والترمذي فى «جامعه» برقم: 159، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1223، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 668، 683، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 1723، 1728، 1729، وأحمد فى «مسنده» برقم: 17364، 22785، شركة الحروف نمبر: 1، فواد عبدالباقي نمبر: 1 - كِتَابُ وُقُوتِ الصَّلَاةِ-ح: 2»

موطا امام مالك رواية يحييٰ کی حدیث نمبر 1 کے فوائد و مسائل
  حافظ عبد اللہ رفیق حفظہ اللہ، موطا امام مالك حدیث 1  
فائدہ:
اس حدیث مبارکہ سے اصل مقصود یہ سمجھانا ہے کہ نماز عصر کو جلدی ادا کر لینا چاہیے، یہ بات مشہور بھی ہے اور ہر حاجی اس کا مشاہدہ بھی کرتا ہے کہ اُمہات المومنین کے حجرے چھوٹے چھوٹے سے تھے، اُن کا اندرونی صحن وسیع نہیں تھا اور یہ حقیقت ہے کہ ایسے مکانات کی دیواریں خواہ چھوٹی بھی ہوں، سورج کی دھوپ جلد ہی ان کے صحن سے ختم ہو جاتی ہے اور دیواروں پر چڑھ جاتی ہے۔
عصر کا وقت ایک مثل پر شروع ہو جاتا ہے یعنی جب آدمی کا سایہ اس کے قد کے برابر ہو جائے تو نماز عصر پڑھی جاسکتی ہے اور یہ ایک مثل سایہ، زوال کے وقت باقی رہنے والے سائے سے زائد ہوتا ہے .......
یاد رہے ظہر کا وقت ختم ہوتے ہی عصر کا وقت شروع ہو جاتا ہے، چنانچہ فرمانِ مصطفی علیہ السّلام ہے: وقتُ الظُّهْرِ مَا لَمْ تَحْضُرِ الْعَصْرُ ظہر کا وقت باقی رہے گا جب تک نماز عصر نہ آجائے۔ (مسلم: 173/ 612) نیز اختتام ظہر کے متعلق فرمایا: وَكَانَ ظِلُّ الرَّجُل كَطوله اور آدمی کا سایہ اس کے قد کے برابر ہو جائے۔ (مسلم: 173/ 612)
ایک روایت میں ہے: وَصَلَّى بِيَ الْعَصْرَ حِينَ كَانَ ظِلُّهُ مِثْلَهُ اور جبریل علیہ السّلام نے مجھے نماز عصر اس وقت پڑھائی جب سایہ ایک مثل ہو گیا۔ (ابو داؤد: 393، ترمذی: 419 و غیرہ) یہی وجہ ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے تمام شاگردوں نے یہی موقف اختیار کیا، خود امام صاحب سے بھی ایک روایت میں یہی منقول ہے، مولانا رشید احمد گنگوہی حنفی رحمہ اللہ تعالی اور مولانا عبد الحئی لکھنوی حنفی رحمہ اللہ تعالی نے حاشیہ موطا امام محمد میں اس موقف کی بھر پور تائید کی ہے۔ (مرعاة المفاتيح: 2/289)
اس حدیث مبارکہ سے یہ بھی ثابت ہوا کہ خبر واحد حجت ہے، اسی طرح علماء کا حکمرانوں کی اصلاح کے لیے ان کے پاس جانا درست ہے، بصورت دیگر حکمرانوں کی صحبت سے بچنا ہی بہتر ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیھم و تابعین رحمھم اللہ تعالی کا دور بہت سنہری تھا، وہ فریضہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کو بروقت ادا کرتے تھے اور اس میں غفلت و کوتاہی سے کام نہ لیتے تھے، سنت نبویہ کی ذرہ بھر مخالفت بھی ان کو گوارا نہ تھی، وہ نماز کی ادائیگی میں تھوڑی سی تاخیر پر بھی گرفت کرتے اور حاکموں کے درباروں میں بیباکی سے اظہار حق کرتے تھے، وہ یہ باور کراتے تھے کہ اوقات نماز کا معاملہ بہت عظیم ہے جس کی خاطر اللہ نے سید الملائکہ جبریل علیہ السّلام کو نازل فرمایا اور پریکٹیکل کے ذریعے رسول اللہ ﷺ کو اوقات نماز بتائے ...
حدیث مذکور سے حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ تعالی کی فضیلت اور احتیاط بھی عیاں ہوئی کہ باہمی اختلاف کے حل کے لیے فوراً سنت مصطفی ﷺ کی طرف رجوع کیا اور یہی حکم الہی ہے (سورۂ نساء 59:4) ...
ہر امتی کو چاہیے کہ رسول اللہ ﷺ کی طرف منسوب صرف اسی قول و فعل کو قبول کرے جو قابل حجت سند سے ثابت ہو، کیونکہ بہت سے لوگ مختلف مقاصد کی خاطر جھوٹی روایات گھڑ کر اُن پر حدیث کا لیبل لگا لیتے ہیں، لہذا حدیث کے معاملے میں عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ تعالی کی طرح ضرور تحقیق کر لینا چاہیے۔
نیز معلوم ہوا کہ مفضول یعنی کم رتبے والے کے پیچھے افضل شخصیت کی نماز ہو جاتی ہے جیسا کہ جبریل علیہ السّلام کے پیچھے سید کائنات ﷺ نے نماز ادا فرمائی اور ایسے ہی نبی کریم ﷺ کا ایک دفعہ سید نا عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ کے پیچھے نماز پڑھنا ثابت ہے۔ (صحيح مسلم، كتاب الطهارة، باب المسح على الخفين: 633)
   ۔۔۔، حدیث/صفحہ نمبر: 1