Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

مسند الحميدي
أَحَادِيثُ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
حدیث نمبر 1329
حدیث نمبر: 1329
1329 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ، قَالَ: ثنا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: «نَهَي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْمُزَابَنَةِ، وَالْمُحَاقَلَةِ، وَالْمُخَابَرَةِ، وَأَنْ لَا يُبَاعَ التَّمْرُ حَتَّي يَبْدُوَ صَلَاحُهُ، وَأَنْ لَا يُبَاعَ إِلَّا بِالدِّينَارِ، أَوِ الدِّرْهَمِ، إِلَّا أَنَّهُ رَخَّصَ فِي الْعَرَايَا» وَالْمُخَابَرَةِ: كَرْيُ الْأَرْضِ عَلَي الثُّلُثِ وَالرُّبْعِ، وَالْمُحَاقَلَةُ: بَيْعُ السُّنْبُلِ بِالْحِنْطَةِ، وَالْمُزَابَنَةُ: بَيْعُ الثَّمَرِ بِالتَّمْرِ"
1329- سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مزابنہ، محاقلہ اور مخابرہ سے منع کیا ہے اور اس بات سے بھی منع کیا ہے کہ کھجور کے پک کر تیار ہونے سے پہلے اسے فروخت کیا جائے اور یہ کہ اسے صرف دینار یا درہم کے عوض میں فروخت کیا جائے البتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرایا کے بارے میں اجازت دی ہے۔
مخابرہ سے مراد یہ ہے کہ زمین کو ایک تہائی یا چوتھائی پیدا وار کے عوض میں کرایہ پر دیا جائے۔ محاقلہ سے مراد یہ ہے کہ گندم کے کھیت میں موجود بالین کو فروخت کردیا جائے۔ مزابنہ سے مراد یہ ہے کھجور کے عوض میں درخت پر لگی ہوئی کھجور کو فروخت کردیا جائے۔


تخریج الحدیث: «رجاله ثقات غير أن ابن جريج قد عنعن ولكن الحديث صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1487، 2189، 2196، 2381، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1534، 1536، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4957، 4971، 4992، 4995، 5000، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3887، 3888، 3889، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3370، 3373، 3374، 3375، 3404، 3405، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1290، 1313، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2659، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2216، 2218، 2266، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 10709، 10710، وأحمد فى «مسنده» برقم: 14542، 14573، 14581، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 1806، 1841، 1844، 1845، 1879، 1918، 1996، 1997، 2132، 2141، 2143، 2170»

مسند الحمیدی کی حدیث نمبر 1329 کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1329  
فائدہ:
اس حدیث میں بیوع کی بعض قسموں کا بیان ہے، اب بہت زیادہ جدید معاشی مسائل کھڑے ہو چکے ہیں، بیوع اور سود کے نام تبدیل کر دیے گئے ہیں، بہت زیادہ کم پڑھے لکھے لوگ حرام کاروبار میں پھنس چکے ہیں، ان پر تفصیلی کام کرنے کی اشد ضرورت ہے، اللہ تعالیٰ وقت اور صحت میں برکت ڈالے، اس موضوع پر مستقل اہم جدید معاشی مسائل کے عنوان سے کتاب لکھی جائے گی، ان شاء اللہ۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1327   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1316  
1316- سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قدرتی آفت لاحق ہونے کی صور ت میں کچھ ادئیگی معاف کرنے کاذکر کیا۔ سفیان کہتے ہیں: مجھے صرف یہی یاد ہے، راوی نے اس میں کچھ چیز معاف کرنے کاذکر کیا ہے مجھے یہ یاد نہیں ہے، کتنا حصہ معاف کرنا چاہئے۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1316]
فائدہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ اگر کسی نے مال فروخت کر دیا ہو، اس کی کٹائی سے پہلے آفت آ جائے اور مال کو نقصان پہنچ جائے، تو اصل مالک کو چاہیے کہ کچھ مال یا کچھ پیسے چھوڑ دے، اسلام انسانیت کا ہمدرد دین ہے، کسی کو ایذا نہیں دیتا۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1315   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1318  
1318 - سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سالوں کے حساب سے سودا کرنے سے منع کیا ہے۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1318]
فائدہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ ایک فصل کی کئی سال کے لیے بیع کرنا درست نہیں ہے، کیونکہ درمیان میں فصل پر مختلف آفتیں آتی رہتی ہیں بھی سیلاب تو کبھی بیماری آ جاتی ہے، اس لیے اسلام کئی سالوں کی بیع سے روکتا ہے، اور اسلام امن چاہتا ہے، بلکہ ہر سال فصل کو بیچنا چاہے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1317   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2196  
2196. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے پھلوں کی بیع سے منع فرمایا جب تک وہ مشقح نہ ہوجائیں۔ عرض کیا گیا مشقح کیا ہوتا ہے؟ انھوں نے فرمایا:جب تک وہ سرخ یا زرد اور کھانے کے قابل نہ ہوجائیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2196]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت انس ؓ کی روایت میں لفظ زهو استعمال ہوا ہے۔
جب کھجور کا پھل ظاہر ہوکر پختگی پر آنے کے لیے سرخ یا زرد ہوجائے تو اس حالت پر یہ لفظ بولا جاتا ہے اور اس کا موسم ہاڑ کا مہینہ ہے۔
اس وقت ثریا ستارہ صبح کے وقت طلوع ہونے لگتا ہے۔
طلوع ثریا اس کے پختہ ہونے کی علامت ہے۔
اس وقت پھلوں کے لیے خطرات کا وقت ختم ہوجاتا ہے۔
حجاز کے علاقے میں اس وقت سخت گرمی ہوتی ہے اور پھل وغیرہ پک جاتے ہیں۔
(2)
حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں:
امام بخاری ؒ نے حسن ترتیب سے ان احادیث کو بیان کیا ہے۔
حضرت زید بن ثابت ؓ کی حدیث میں ممانعت کا سبب بیان ہوا ہے اور حضرت ابن عمر ؓ کی حدیث میں ممانعت کی صراحت ہے، پھر حضرت انس اور حضرت جابر ؓ کی احادیث میں اس حکم امتناعی کی انتہا کا بیان ہے جہاں اس کا اطلاق نہیں ہوتا۔
(فتح الباري: 502/4)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2196