1224 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ، قَالَ: ثنا الزُّهْرِيُّ، عَنِ ابْنِ مَالِكٍ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَي النَّبِيَّ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلَهُ عَنِ السَّاعَةِ فَقَالَ: «مَا أَعْدَدْتَ لَهَا؟» ، فَلَمْ يَذْكُرْ كَثِيرًا إِلَّا أَنَّهُ قَالَ: إِنِّي أُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَنْتَ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ» قَالَ أَبُو عَلِيٍّ: سَمِعْتُ الْحُمَيْدِيَّ يَقُولَ:" لَقِيَ ابْنُ عُيَيْنَةَ سِتَّةً وَثَمَانِينَ مِنَ التَّابِعِينَ وَكَانَ يَقُولُ: مَا رَأَيْتُ مِثْلَ أَيُّوبَ" قَالَ الْحُمَيْدِيُّ:" قَالَ سُفْيَانُ: وَكَانَ لَفْظُ الزُّهْرِيِّ إِذَا حَدَّثَنَا عَنْ أَنَسٍ وَسَهْلٍ: سَمِعْتُ سَمِعْتُ"
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1224
فائدہ:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی محبت قرآن و حدیث کی اطاعت میں ہی ہے، سچا محب نبی صلی اللہ علیہ وسلم پکا مومن ہوتا ہے، اور وہ جو قرآن و حدیث کے قریب نہ آئے اور زبانی دعویٰ کرے کہ میں محب نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہوں، اس کا یہ دعویٰ بےکار ہے۔ نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ لوگوں کو قیامت کی تیاری کا درس دیتے رہنا چاہیے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1222
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 5127
´آدمی جس سے محبت کرے اس سے کہہ دے کہ میں تم سے محبت کرتا ہوں۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو کسی چیز سے اتنا خوش ہوتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا جتنا وہ اس بات سے خوش ہوئے کہ ایک شخص نے کہا: اللہ کے رسول! آدمی ایک آدمی سے اس کے بھلے اعمال کی وجہ سے محبت کرتا ہے اور وہ خود اس جیسا عمل نہیں کر پاتا، تو آپ نے فرمایا: ”آدمی اسی کے ساتھ ہو گا، جس سے اس نے محبت کی ہے ۱؎۔“ [سنن ابي داود/أبواب النوم /حدیث: 5127]
فوائد ومسائل:
1۔
چاہیے کہ انسان صاحب ایمان ہونے کے ساتھ ساتھ مومنین مخلصین کے ساتھ محبت کرنے کو اپنا سرمایہ بنائے بالخصوص نبی اکرمﷺ اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین اور دیگر تمام اہل ایمان خواہ گزرچکے ہوں یا موجود ہوں۔
یا آنے والے۔
اور کفر وکفار اور فاسق وفاجر لوگوں سے بغض وعناد رکھے۔
2۔
اس اظہار محبت میں شرط یہ ہے کہ انسان خود اصول شریعت یعنی توحید وسنت پر کاربند اور کفر اور شرک وبدعت سے دور اور بیزار ہو۔
یہ کیفیت کے اہل خیر سے محبت کا دعویٰ ہو۔
مگر عملا ً کفر۔
شرک۔
بدعت میں مبتلا رہے۔
اور ایسے لوگوں سے ربط وضبط بڑھائے رہے تو اس کا اہل خیر سے محبت کا دعویٰ مشکوک ہوگا۔
بطور مثال ابو طالب اور منافقین کے واقعات پیش نظر رہنے چاہییں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 5127
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2386
´انجام کار آدمی اپنے دوست کے ساتھ ہو گا۔`
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر آدمی اسی کے ساتھ ہو گا جس سے وہ محبت کرتا ہے اور اسے وہی بدلہ ملے گا جو کچھ اس نے کمایا۔“ [سنن ترمذي/كتاب الزهد/حدیث: 2386]
اردو حاشہ:
نوٹ:
(”أنت مع من أحببت ولک ما اکتسبت“ کے سیاق سے صحیح ہے)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2386
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6710
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک اعرابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا، قیامت کب ہو گی؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا:"تونے اس کے لیے کیا تیار کیا ہے؟ اس نے جواب دیا،اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت،آپ نے فرمایا:"تو انہی کے ساتھ ہو گا جن سے تمھیں محبت ہے۔" [صحيح مسلم، حديث نمبر:6710]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے،
قیامت کب ہو گی،
یہ اہم اور قابل سوال چیز نہیں ہے،
اہمیت اس استعداد اور تیاری کو حاصل ہے،
جو قیامت کے احساس اور جواب دہی کے لیے کی جاتی ہے اور اس استعداد اور تیاری کے لیے اللہ اور اس کے رسول کی محبت اور ان کے اطاعت کیش اور فرمانبردار ہونے کو اہمیت حاصل ہے،
کیونکہ انسان جن سے محبت رکھتا ہے،
انہیں کے طوروطریقہ اور اسلوب حیات کو اپنانے کی کوشش کرتا ہے اور محبت کی کسوٹی اور معیار،
اتباع اور پیروی ہی ہے اور انسان جن کا طوروطریقہ اپناتا ہے،
انجام بھی انہی کے ساتھ ہو گا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6710
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6710
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک اعرابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا، قیامت کب ہو گی؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا:"تونے اس کے لیے کیا تیار کیا ہے؟ اس نے جواب دیا،اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت،آپ نے فرمایا:"تو انہی کے ساتھ ہو گا جن سے تمھیں محبت ہے۔" [صحيح مسلم، حديث نمبر:6710]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے،
قیامت کب ہو گی،
یہ اہم اور قابل سوال چیز نہیں ہے،
اہمیت اس استعداد اور تیاری کو حاصل ہے،
جو قیامت کے احساس اور جواب دہی کے لیے کی جاتی ہے اور اس استعداد اور تیاری کے لیے اللہ اور اس کے رسول کی محبت اور ان کے اطاعت کیش اور فرمانبردار ہونے کو اہمیت حاصل ہے،
کیونکہ انسان جن سے محبت رکھتا ہے،
انہیں کے طوروطریقہ اور اسلوب حیات کو اپنانے کی کوشش کرتا ہے اور محبت کی کسوٹی اور معیار،
اتباع اور پیروی ہی ہے اور انسان جن کا طوروطریقہ اپناتا ہے،
انجام بھی انہی کے ساتھ ہو گا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6710
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3688
3688. حضرت انس بن مالک ؓسے روایت ہے، کہ ایک شخص نے نبی ﷺ سے قیامت کے متعلق پوچھا کہ وہ کب آئے گی؟آپ نے فرمایا: ”تونے اس کے لیے کیا تیار کیا ہے؟“ اس نے کہا: کچھ بھی نہیں، صرف اتنی بات ہے کہ میں اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: ”تو قیامت کے دن اسی کے ساتھ ہوگا جس سے تو محبت رکھتا ہے۔“ حضرت انس کا بیان ہے کہ ہم کسی بات سے اتنا خوش نہ ہوئے جس قدر نبی ﷺ کے اس ارشاد گرامی سے خوش ہوئے۔ ”جس کو تو محبوب رکھتا ہے قیامت کے دن اسی کے ساتھ ہوگا۔“ حضرت انس کہتے ہیں کہ نبی ﷺ حضرت ابو بکر ؓ اور حضرت عمر ؓ سے محبت رکھتا ہوں۔ مجھے امید ہے کہ اس محبت کی وجہ سے میں ان کے ساتھ ہوں گا اگرچہ میں نے ان جیسے عمل نہیں کیے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3688]
حدیث حاشیہ:
حضرت انس ؓ کے ساتھ مترجم وناشر کی بھی یہی دعا ہے۔
اور مصحح کی بھی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3688
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6167
6167. حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ دیہاتیوں سے ایک آدمی نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا: اللہ کے رسول! قیامت کب آئے گی؟ آپ نے فرمایا: ”تیرے لیے خرابی ہو! تو نے اس کے لیے کیا تیاری کی ہے؟“ اس نے کہا: میں نے تو اس کے لیے کوئی خاص تیاری نہیں کی، البتہ میں اللہ اور اس کے رسول سے ضرور محبت کرتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”پھر تم قیامت کے دن ان کے ساتھ ہوگے جن سے تم محبت رکھتے ہو۔“ ہم نے پوچھا: ہمارے ساتھ بھی یہی معاملہ ہوگا؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں“ ہم اس دن بہت زیادہ خوش ہوئے۔ پھر سیدہ مغیرہ ؓ کا ایک غلام وہاں سے گزرا جو میرا ہم عمر تھا، آپ نے فرمایا: ”اگر یہ زندہ رہا تو اس کو بڑھاپا نہیں آئے گا حتیٰ کہ قیامت آجائے گی۔“ اس حدیث کو شعبہ نے قتادہ سےمختصر ذکر کرتے ہوئے کہا میں نے حضرت انس ؓ کو نبی ﷺ سے بیان کرتے ہوئے سنا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6167]
حدیث حاشیہ:
یعنی تم لوگ دنیا سے گزر جاؤگے۔
موت بھی ایک قیامت ہی ہے جیسے دوسری حدیث میں ہے ''مَن مَاتَ فقد قامت قِیامتُهُ'' باقی رہا قیامت کبریٰ یعنی آسمان زمین کا پھٹنا۔
اس کے وقت کو بجز اللہ کے کوئی نہیں جانتا یہاں تک کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی نہیں جانتے تھے ان جملہ مذکورہ روایات میں لفظ ویلك یا ویحك استعمال ہوا ہے۔
اسی لئے ان کو یہاں نقل کیا گیا ہے باب سے یہی وجہ مطابقت ہے۔
اس حدیث کو شعبہ نے اختصار کے ساتھ بیان کیا ہے۔
قتادہ سے کہ میں نے انس سے سنا اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6167
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6171
6171. حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی ﷺ سے سوال کیا: اللہ کے رسول! قیامت کب آئے گی؟ آپ نے فرمایا: تو نے اس کے لیے کیا تیاری کی ہے؟ اس نے عرض کی: میں نے قیامت کی تیاری میں نہ زیادہ نمازیں پڑھی ہیں اور نہ زیادہ صدقات دیے ہیں، البتہ میں اللہ کے رسول ﷺ سے محبت ضرور کرتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: ”تو اسی کے ساتھ ہوگا جس سے محبت رکھتا ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6171]
حدیث حاشیہ:
یہی حال مجھ ناچیز کا بھی ہے اللہ مجھ کو بھی اس حدیث کا مصداق بنائے آمین۔
امام ابو نعیم نے اس حدیث کے سب طریقوں کو کتاب المحبین میں جمع کیا ہے۔
بیس صحابہ کے قریب اس کے راوی ہیں۔
اس حدیث میں بڑی خوشخبری ہے۔
ان لوگوں کے لئے جو اللہ اور اس کے رسول اور اہل بیت اور جملہ صحابہ کرام اور اولیاءاللہ سے محبت رکھتے ہیں۔
یا اللہ! ہم اپنے دلوں میں تیری اورتیرے حبیب اور صحابہ کرام کے بعد جس قدر حضرت امام بخاری کی محبت دلوں میں رکھتے ہیں وہ تجھ کو خوب معلوم ہے پس قیامت کے دن ہم کو حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ بارگاہ رسالت میں شرف حضور عطا فرمانا، آمین یا رب العالمین۔
نیز میرے اہل بیت اور جملہ شائقین عظام، معاونین کرام کو بھی یہ شرف بخش دیجیو۔
آمین۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6171
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3688
3688. حضرت انس بن مالک ؓسے روایت ہے، کہ ایک شخص نے نبی ﷺ سے قیامت کے متعلق پوچھا کہ وہ کب آئے گی؟آپ نے فرمایا: ”تونے اس کے لیے کیا تیار کیا ہے؟“ اس نے کہا: کچھ بھی نہیں، صرف اتنی بات ہے کہ میں اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: ”تو قیامت کے دن اسی کے ساتھ ہوگا جس سے تو محبت رکھتا ہے۔“ حضرت انس کا بیان ہے کہ ہم کسی بات سے اتنا خوش نہ ہوئے جس قدر نبی ﷺ کے اس ارشاد گرامی سے خوش ہوئے۔ ”جس کو تو محبوب رکھتا ہے قیامت کے دن اسی کے ساتھ ہوگا۔“ حضرت انس کہتے ہیں کہ نبی ﷺ حضرت ابو بکر ؓ اور حضرت عمر ؓ سے محبت رکھتا ہوں۔ مجھے امید ہے کہ اس محبت کی وجہ سے میں ان کے ساتھ ہوں گا اگرچہ میں نے ان جیسے عمل نہیں کیے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3688]
حدیث حاشیہ:
1۔
اس حدیث کے پیش نظر مترجم،ناشر اور قارئین کرام ان جذبات کا اظہار کرتے ہیں:
”اے اللہ! ہم بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے محبت کرتے ہیں اس لیے قیامت کے دن ہمیں ان کی رفاقت میسر فرما اگرچہ ہم ان حضرات کا رہائے خیر بجالانے سے قاصر ہیں۔
“2۔
واضح رہے کہ اس معیت سے مراد ثواب اور اجر میں مشارکت اور معیت خاصہ ہے جس میں محب اورمحبوب کے درمیان ملاقات بھی شامل ہے۔
یہ مقصد قطعاً نہیں کہ دونوں ایک درجے میں ہوں گے کیونکہ یہ توعقلی طور پر بھی محال ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3688
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6167
6167. حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ دیہاتیوں سے ایک آدمی نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا: اللہ کے رسول! قیامت کب آئے گی؟ آپ نے فرمایا: ”تیرے لیے خرابی ہو! تو نے اس کے لیے کیا تیاری کی ہے؟“ اس نے کہا: میں نے تو اس کے لیے کوئی خاص تیاری نہیں کی، البتہ میں اللہ اور اس کے رسول سے ضرور محبت کرتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”پھر تم قیامت کے دن ان کے ساتھ ہوگے جن سے تم محبت رکھتے ہو۔“ ہم نے پوچھا: ہمارے ساتھ بھی یہی معاملہ ہوگا؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں“ ہم اس دن بہت زیادہ خوش ہوئے۔ پھر سیدہ مغیرہ ؓ کا ایک غلام وہاں سے گزرا جو میرا ہم عمر تھا، آپ نے فرمایا: ”اگر یہ زندہ رہا تو اس کو بڑھاپا نہیں آئے گا حتیٰ کہ قیامت آجائے گی۔“ اس حدیث کو شعبہ نے قتادہ سےمختصر ذکر کرتے ہوئے کہا میں نے حضرت انس ؓ کو نبی ﷺ سے بیان کرتے ہوئے سنا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6167]
حدیث حاشیہ:
(1)
ایک روایت میں اضافہ ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے محبت کرتا ہوں اور مجھے امید ہے کہ اس محبت کی وجہ سے میں قیامت کے دن ان حضرات کے ساتھ ہوں گا اگرچہ میں ان جیسے اعمال نہیں کر سکا ہوں۔
(صحیح البخاري، فضائل أصحاب النبي صلی اللہ علیه وسلم، حدیث: 3688) (2)
واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت نو روایات مختلف انداز سے بیان کی ہیں، کچھ روایات میں حتمی طور پر ويلك کے الفاظ ہیں جیسا کہ حدیث: 6159، 6160، 6162، 6163 اور 6167 میں ہے اور کچھ روایات میں حتمی طور پر ويحك کے الفاظ ہیں جیسا کہ حدیث: 6161 اور 6165 میں ہے۔
ایک روایت میں حتمی طور پر کچھ راوی ويلك اور کچھ دوسرے ويحك سے بیان کرتے ہیں جیسا کہ حدیث: 6164 میں ہے، جبکہ ایک روایت شک کے ساتھ بیان ہوئی ہے، پھر کچھ نے ويحكم کہا اور کچھ نے ويلكم ذکر کیا ہے۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک ويل اور ويح کے ایک ہی معنی ہیں۔
(3)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس انداز سے ایک روایت کے ضعف کی طرف اشارہ کیا ہے، وہ روایت یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا:
”تم لفظ ويح سے نہ گھبراؤ کیونکہ یہ تو رحمت کا کلمہ ہے، البتہ لفظ الويل پریشان کن کلمہ ضرور ہے۔
“ (مساوئ الأخلاق: 389/5، رقم: 872، وفتح الباري: 679/10)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6167
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6171
6171. حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی ﷺ سے سوال کیا: اللہ کے رسول! قیامت کب آئے گی؟ آپ نے فرمایا: تو نے اس کے لیے کیا تیاری کی ہے؟ اس نے عرض کی: میں نے قیامت کی تیاری میں نہ زیادہ نمازیں پڑھی ہیں اور نہ زیادہ صدقات دیے ہیں، البتہ میں اللہ کے رسول ﷺ سے محبت ضرور کرتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: ”تو اسی کے ساتھ ہوگا جس سے محبت رکھتا ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6171]
حدیث حاشیہ:
(1)
ان روایات میں (من أحب)
عام ہے، اللہ تعالیٰ سے محبت کرے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرے اور لوگوں سے صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے محبت کرے، یعنی وہ مخلص ہو، ریا کار نہ ہو، ذاتی مفادات اور نفسانی خواہشات اس محبت کے پس منظر میں نہ ہوں تو جن سے محبت کرے گا قیامت کے دن انہی کے ساتھ ہو گا۔
مطلب یہ ہے کہ حسن نیت کے ساتھ عمل کی زیادتی کے بغیر وہ جنت میں ان کے ساتھ ہو گا اور ان کے ساتھ ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ درجات میں بھی ان کے برابر ہو گا۔
(2)
بہرحال جو شخص اللہ کے لیے نیک لوگوں سے محبت کرے گا اللہ تعالیٰ ان سب کو جنت میں جمع کر دے گا اگرچہ عمل و کردار میں ان سے کم ہو جیسا کہ آخری حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے بدنی اور مالی عبادات سے فرائض کے علاوہ کچھ نہیں کیا تھا لیکن اسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت تھی، اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”چونکہ تو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھتا ہے، لہذا تیرا مقام عام لوگوں سے بلند ہو گا۔
“
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6171
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7153
7153. سیدنا انس بن مالک ؓ سے روایت ہے،انہوں نے کہا: میں اور نبی ﷺ سے نکل رہے تھے کہ ایک شخص ہمیں مسجد کے دروازے پر ملا اور اس نے پوچھا: اللہ کے رسول! قیامت کب ہوگی؟ نبی ﷺ نے فرمایا: ”تو نے اس کے لیے کیا تیاری کی ہے؟“ یہ سن کر وہ شخص خاموش سا ہوگیا۔پھر کہا: اللہ کے رسول! میں نے زیادہ روزے،زیادہ نمازیں اور زیادہ صدقہ وخیرات تو جمع نہیں کیا، البتہ میں اللہ اور اس کے رسول سے محبت ضرور رکھتا ہوں۔آپ ﷺ نے فرمایا: ”(قیامت کے دن) تو ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جن سے تو محبت کرتا ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7153]
حدیث حاشیہ:
1۔
ایک روایت میں ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان سن کر بہت خوش ہوئے کہ قیامت کے دن انسان ان لوگوں کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔
جن سے وہ محبت کرتا ہے۔
انھوں نے مزید فرمایا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سےمحبت کرتا ہوں اور مجھے امید ہے کہ ان سے محبت کرنے کی وجہ سے ان کے ہمراہ قیامت کے دن میرا حشر ہو گا اگرچہ میں ان کے جیسے اعمال کرنے سے قاصر ہوں۔
(صحیح الفضائل اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم حدیث 3686)
2۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ راستہ چلتے فتوی دینا اور فیصلہ کرنا جائز ہے۔
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ راستے میں سواری پپر یا چلتے ہوئے فتوی صادر کرنا اللہ تعالیٰ کے حضور تواضع اور انکسارہے۔
اگر عالم دین کسی کمزور ناتواں اور جاہل شخص کے لیے ایسا کرتا ہے تو عند اللہ اور عوام الناس کے ہاں قابل تعریف ہے نیز اگر کسی کے شر سے بچنے کے لیے راستے میں مسئلہ بتا دیا جائے تو یہ بھی قابل تعریف ہے۔
(فتح الباری: 13/164) w
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7153