مسند الحميدي
أَحَادِيثُ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
حدیث نمبر 1221
حدیث نمبر: 1221
1221 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ، قَالَ: ثنا قَاسِمٌ الرَّحَّالُ سَنَةَ عِشْرِينَ وَمِائَةٍ، وَأَنَا يَوْمَئِذٍ ابْنُ ثَلَاثَ عَشْرَةَ سَنَةً وَأَرْبِعَةِ أَشْهُرٍ وَنِصْفٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، يَقُولُ: دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خِرَبًا لِبَنِي النَّجَّارِ، يُرِيدُ قَضَاءَ حَاجَةٍ، فَخَرَجَ مَذْعُورًا، أَوْ قَالَ: فَزِعًا، وَهُوَ يَقُولُ: «لَوْلَا أَنْ تَدَافَنُوا لَسَأَلْتُ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ أَنْ يُسْمِعَكُمْ مِنْ عَذَابِ أَهْلِ الْقُبُورِ مَا أَسْمَعَنِي»
1221- سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بنو نجار کے کسی کھنڈر میں قضائے حاجت کے لیے تشریف لے گئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھبرائے ہوئے واپس تشریف لائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرمارہے تھے۔ ”اگر اس بات کا اندیشہ نہ ہوتا کہ تم لوگ (مردوں کو) دفن کرنا ہی چھوڑ دو گے، تو میں اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرتا کہ قبروں کے عذاب سے متعلق وہ چیز تمہیں سنا ئے، جواس نے مجھے سنائی ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 2868، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3126، 3131، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 118، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2057، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 2196، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4751، وأحمد فى «مسنده» برقم: 12189، 12279، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 2996، 3693، 3727، 4300»
مسند الحمیدی کی حدیث نمبر 1221 کے فوائد و مسائل
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1221
فائدہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ عذاب قبر برحق ہے، ایک دوسری حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«نعم، عذاب القبر حق» ہاں، ”عذاب قبرحق ہے“۔ [صحيح البخاري: 1306]
عذاب قبر قرآن و حدیث کی بے شمار نصوص سے ثابت ہے، بعض لوگوں کا اس سے انکار کرنا واضح گمراہی ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1219
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 126
´قبر میں سوال جواب`
«. . . عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنه حَدثهمْ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا وُضِعَ فِي قَبْرِهِ وَتَوَلَّى عَنْهُ أَصْحَابُهُ وَإِنَّهُ لَيَسْمَعُ قَرْعَ نِعَالِهِمْ أَتَاهُ مَلَكَانِ فَيُقْعِدَانِهِ فَيَقُولَانِ مَا كُنْتَ تَقُولُ فِي هَذَا الرَّجُلِ لِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَمَّا الْمُؤْمِنُ فَيَقُولُ أَشْهَدُ أَنَّهُ عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ فَيُقَالُ لَهُ انْظُرْ إِلَى مَقْعَدِكَ مِنَ النَّارِ قَدْ أَبْدَلَكَ اللَّهُ بِهِ مَقْعَدًا مِنَ الْجنَّة فَيَرَاهُمَا جَمِيعًا قَالَ قَتَادَة وَذكر لنا أَنه يفسح لَهُ فِي قَبره ثمَّ رَجَعَ إِلَى حَدِيث أنس قَالَ وَأَمَّا الْمُنَافِقُ وَالْكَافِرُ فَيُقَالُ لَهُ مَا كُنْتَ تَقُولُ فِي هَذَا الرَّجُلِ فَيَقُولُ لَا أَدْرِي كُنْتُ أَقُولُ مَا يَقُولُ النَّاسُ فَيُقَالُ لَا دَرَيْتَ وَلَا تَلَيْتَ وَيُضْرَبُ بِمَطَارِقَ مِنْ حَدِيدٍ ضَرْبَةً فَيَصِيحُ صَيْحَةً يَسْمَعُهَا مَنْ يَلِيهِ غَيْرَ الثقلَيْن» وَلَفظه للْبُخَارِيّ . . .»
”. . . سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تحقیق بندے کو جب اس کی قبر میں رکھ دیا جاتا ہے اور اس کے ساتھی واپس ہونے لگتے ہیں تو وہ مردہ واپس جانے والوں کی جوتیوں کی آواز سنتا ہے، اس کے پاس دو فرشتے آ کر اس کو بٹھاتے ہیں اور اس سے دریافت کرتے ہیں کہ اس شخص کے بارے میں تم کیا کہتے تھے جو تمہارے پاس نبی بنا کر بھیجا گیا تھا۔ یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق تم کیا کہتے تھے۔ پس مومن بندہ جواب میں کہتا ہے کہ میں اس بات کی شہادت دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں اس سے کہا جاتا ہے تم دوزخ میں اپنے ٹھکانے کو دیکھو (کہ اگر تو ایمان نہیں لاتا تو تیرا ٹھکانا دوزخ میں تھا)، لیکن ایمان لانے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس کے بدلے میں جنت میں تمہارا ٹھکانا مقرر کر دیا ہے تو وہ دونوں جنت جہنم کے ٹھکانے کو دیکھتا ہے۔ اور جو مردہ منافق یا کافر ہوتا ہے اس سے بھی یہی سوال کیا جاتا ہے کہ تم اس کے بارے میں کیا کہتے تھے جو تمہارے پاس نبی بنا کر بھیجا گیا تھا۔ وہ اس کے جواب میں کہتا ہے میں نہیں جانتا جو لوگ کہا کرتے تھے میں بھی وہی کہہ دیا کرتا تھا یعنی منافق بغیر سچے اعتقاد کے کلمہ طیبہ جان بچانے کے لیے کہہ دیتا تھا مگر نہ اس کا مطلب سمجھا اور نہ اس کے مطابق عمل کیا صرف مسلمانوں کے دیکھا دیکھی وہ کہہ دیا کرتا تھا اسی لیے وہ فرشتوں کے جواب میں کہتا ہے کہ میں حقیقت حال کو کچھ نہیں جانتا، جو اور لوگ کہتے تھے میں بھی وہی کہہ دیا کرتا تھا۔ تو اس سے کہا جاتا ہے نہ تو نے عقل ہی سے پہچانا اور نہ قرآن مجید کی تلاوت کی۔ یا یہ مطلب ہے نہ تم نے خود سمجھا اور نہ سمجھداروں کی تابعداری کی یعنی نہ دلیل عقلی سے سمجھا اور نہ دلیل نقلی، قرآن و حدیث سے جانا۔ یہ کہہ کر اسے لوہے کی گرزوں سے مارا جاتا ہے کہ وہ چیخنے لگتا ہے کہ اس کی چیخ کی آواز آس پاس کے سب ہی سنتے ہیں، سوائے انسانوں اور جنوں کے۔ اس حدیث کو بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے۔ اور الفاظ بخاری کے ہیں۔ . . .“ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 126]
تخریج الحدیث:
[صحيح بخاري 1374]،
[صحيح مسلم 7216]
فقہ الحدیث:
➊ سوال و جواب کے وقت میت واپس جانے والے لوگوں کے جوتوں کی آہٹ سنتی ہے۔
➋ قبرستان میں جوتوں سمیت چلنا جائز ہے۔
➌ «هذا الرجل» سے مراد یہ نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبر میں دکھائے جاتے ہیں۔ صحیح حدیث میں آیا ہے کہ میت اس سوال کے جواب میں کہتی ہے: «اي رجل» کون سا آدمی؟ ديكهئے: [المستدرك للحاكم 3801/1 ح1709، وسنده حسن، و صحيح ابن حبان، الاحسان: 3119/3103 و صححه الحاكم و وافقه الذهبي]
اگر قبر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا دیدار ہوتا تو مرنے والا یہ کبھی نہ پوچھتا کون سا آدمی؟
➍ آج کل «ولاتليتَ» سے بعض تقلیدی لوگ تقلید ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، حالانکہ اس سے مراد کتاب اللہ کی تلاوت یا انبیاء کرام علیہم السلام کی اتباع ہے۔
اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 126
حافظ ابويحييٰ نورپوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 1338
´مردہ لوٹ کر جانے والوں کے جوتوں کی آواز سنتا ہے`
«. . . عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ:" الْعَبْدُ إِذَا وُضِعَ فِي قَبْرِهِ , وَتُوُلِّيَ , وَذَهَبَ أَصْحَابُهُ حَتَّى إِنَّهُ لَيَسْمَعُ قَرْعَ نِعَالِهِمْ . . .»
”. . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آدمی جب قبر میں رکھا جاتا ہے اور دفن کر کے اس کے لوگ پیٹھ موڑ کر رخصت ہوتے ہیں تو وہ ان کے جوتوں کی آواز سنتا ہے . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْجَنَائِزِ: 1338]
فوائد و مسائل:
↰ یہ ایک استثناء ہے۔ ان احادیث سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ مردے سن نہیں سکتے۔ مردوں کے نہ سننے کا قانون اپنی جگہ مستقل ہے۔ اگر وہ ہر وقت سن سکتے ہوتے تو «حين يولون عنهٔ» (جب لوگ میت کو دفنا کر واپس ہو رہے ہو تے ہیں) اور «إِذا انصرفوا»، (جب لوگ لوٹتے ہیں) کی قید لگا کر مخصوص وقت بیان کرنے کا کیا فائدہ تھا؟ مطلب یہ کہ قانون اور اصول تو یہی ہے کہ مردہ نہیں سنتا، تاہم اس حدیث نے ایک موقع خاص کر دیا کہ دفن کے وقت جو لوگ موجود ہوتے ہیں، ان کی واپسی کے وقت میت ان لوگوں کے جوتوں کی آہٹ سنتی ہے۔
◈ علامہ عینی حنفی(م:855 ھ) لکھتے ہیں:
«وفيه دليل على أنّ الميت تعود إليه روحه لأجل السؤال، وإنه ليسمع صوت نعال الاحياء، وهو فى السؤال»
”اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ میت کی روح اس سے (منکر و نکیر کے) سوال کے لیے لوٹائی جاتی ہے اور میت سوال کے وقت زندہ لوگوں کے جوتوں کی آواز سنتی ہے۔“ [شرح أبى داؤد:188/6]
↰ پھر عربی گرائمر کا اصول ہے کہ جب فعل مضارع پر لام داخل ہو تو معنی حال کے ساتھ خاص ہو جاتا ہے یعنی «ليسمع» وہ خاص اس حال میں سنتے ہیں۔
↰ اس تحقیق کی تائید، اس فرمان نبوی سے بھی ہوتی ہے جو:
◈ امام طحاوی حنفی نے نقل کیا ہے:
«والذي نفسي بيده! إنه ليسمع خفق نعالهم، حين تولون عنه مدبرين»
”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! یقیناً جب لوگ میت کو دفن کر کے واپس جا رہے ہوتے ہیں تو وہ ان کی جوتوں کی آواز سنتی ہے۔“ [شرح معاني الاثار للطحاوي:510/1، وسنده حسن]
◈ عالم عرب کے مشہور اہل حدیث عالم دین، علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ (1332- 1420ھ)اس حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں:
«فليس فيه إلا السماع فى حالة إعادة الروح إليه ليجيب على سؤال الملكين، كما هو واضح من سياق الحديث.»
”اس حدیث میں صرف یہ مذکور ہے کہ جب فرشتوں کے سوالات کے جواب کے لئے میت میں روح لوٹائی جاتی ہے تو اس حالت میں وہ (جوتوں کی) آواز سنتی ہے۔ حدیث کے سیاق سے یہ بات واضح ہو رہی ہے۔“ [سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة وأثرها السيء فى الأمّة: 1147]
◈ مشہور عرب، اہل حدیث عالم، محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ (م:1421 ھ) فرماتے ہیں:
«فهو وارد فى وقت خاص، وهو انصراف المشيعين بعد الدّفن.»
”مردوں کا یہ سننا ایک خاص وقت میں ہوتا ہے اور وہ دفن کرنے والوں کا تدفین کے بعد واپس لوٹنے کا وقت ہے۔“ [القول المفيد على كتاب التوحيد: 289/1]
ماہنامہ السنہ جہلم ، شمارہ نمبر 46-48، حدیث/صفحہ نمبر: 26
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2051
´سبتی جوتیوں کے علاوہ میں چھوٹ کا بیان۔`
انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بندہ جب اپنی قبر میں رکھا جاتا ہے، اور اس کے ساتھی لوٹتے ہیں، تو وہ ان کی جوتیوں کی آواز سنتا ہے“ ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 2051]
اردو حاشہ:
(1) اس حدیث سے امام نسائی رحمہ اللہ نے استدلال کیا ہے کہ قبرستان میں جوتوں سمیت چلنا جائز ہے لیکن یہ استدلال قوی نہیں۔ تفصیل کے لیے دیکھیے، حدیث: 2050 کا فائدہ۔
(2) ”سن رہا ہوتا ہے۔“ اس سے بعض اہل علم نے سماع موتیٰ پر استدلال کیا ہے۔ دیگر اہل علم قرآن مجید کی صریح آیت: ﴿ إِنَّ اللَّهَ يُسْمِعُ مَنْ يَشَاءُ وَمَا أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِي الْقُبُورِ﴾ (فاطر: 22:35) ”یقینا اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے سنا دیتا ہے، اور آپ ان کو نہیں سنا سکتے جو قبروں میں ہیں۔“ سے استدلال کرتے ہیں کہ فوت شدگان نہیں سنتے مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ کوئی خاص چیز سنا دے۔ اس طرح ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتَى﴾ (النمل: 8:27) ”یقینا آپ مردوں کو سنا نہیں سکتے۔“ غرض وہ اس قسم کی احادیث کو خصوصی حالت پر محمول کرتے ہیں اور یہی مسلک زیادہ محتاط اور تمام آیات و احادیث کے موافق ہے۔ واللہ أعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2051
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2052
´قبر میں مردہ سے سوال و جواب۔`
انس بن مالک رضی الله عنہ نے بیان کیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بندہ جب اپنی قبر میں رکھ دیا جاتا ہے اور اس کے ساتھی لوٹتے ہیں تو وہ ان کے جوتیوں کی آواز سنتا ہے، (پھر) اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں، اور اسے بٹھاتے ہیں، (اور) اس سے پوچھتے ہیں: تم اس شخص (محمد) کے بارے میں کیا کہتے ہو؟ رہا مومن تو وہ کہتا ہے: میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، تو اس سے کہا جائے گا کہ تم جہنم میں اپنے ٹھکانے کو دیکھ لو، اللہ تعال۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 2052]
اردو حاشہ:
(1) فرشتوں کا آنا، اسے بٹھانا اور پھر سوال و جواب کرنا اور دیگر باتیں برزخی احوال ہیں۔ اس کا دنیوی زندگی سے کوئی تعلق نہیں۔ برزخی زندگی کی حقیقت تو بیان نہیں کی جا سکتی کہ وہ ہماری عقل و حواص سے ماوراء ہے، البتہ اس کی مثال خواب سے دی جا سکتی ہے کہ خواب دیکھنے والا آدمی اپنے خواب میں بولتا بھی ہے، سنتا بھی ہے، چلتا پھرتا بھی ہے، روتا ہنستا، کھاتا پیتا اور دوڑتا بھاگتا بھی ہے لیکن اس کا جسم بالکل ساکن ہوتا ہے۔ اس کے جسم کو دیکھ کر کوئی شخص یہ نہیں سمجھ سکتا کہ وہ خواب کی دنیا میں اتنا کچھ کر رہا ہے۔ میت کا حال بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔
(2) ”اس آدمی“ سے مراد حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ گویا یہ ذہنی اشارہ ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ میت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دکھائے جاتے ہیں مگر اس کا کوئی ثبوت نہیں۔ بالفرض ایسا ہو تو وہ آپ کا تصور ہوگا جو اس کے ذہن میں ڈالا جائے گا نہ کہ آپ کا حقیقی وجود، جیسے ٹی وی وغیرہ میں ہوتا ہے، یعنی اس سے آپ حاضر و ناظر ثابت نہ ہوسکیں گے۔
(3) ”دونوں کو دیکھتا ہے“ صحیح حدیث ہے کہ ہر شخص کا جنت میں بھی ٹھکانا ہے اور جہنم میں بھی لیکن جہنم میں جانے والے چونکہ جنت میں جانے کا استحقاق کھو بیٹھتا ہے، اس لیے وہ جنتی ٹھکانے سے محروم ہو جاتا ہے اور جنت میں جانے والا اپنے عمل کی وجہ سے جہنم سے بچ جاتا ہے تو وہ جہنمی ٹھکانے سے محفوظ ہو جاتا ہے۔ جعلنا اللہ منھم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2052
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2053
´قبر میں کافر و مشرک سے سوال و جواب۔`
انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بندہ جب اپنی قبر میں رکھ دیا جاتا ہے، اور اس کے ساتھی لوٹتے ہیں تو وہ ان کی جوتیوں کی آواز سنتا ہے، (پھر) دو فرشتے آتے ہیں، (اور) اسے بٹھاتے ہیں (پھر) اس سے پوچھتے ہیں: تم اس شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کیا کہتے ہو؟ رہا مومن تو وہ کہتا ہے: میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، (پھر) اس سے کہا جاتا ہے تم جہنم میں اپنے ٹھکانے کو دیکھ لو ا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 2053]
اردو حاشہ:
(1) ”جس طرح لوگ کہتے تھے“ گویا اس کا اپنا ایمان نہیں تھا۔ ایمان کا اثر ہی باقی رہتا ہے۔ زبانی باتیں تو ہوا میں اڑ جاتی ہیں، لہٰذا اس کی سمجھ میں کچھ نہ آئے گا۔
(2) ”انسان و جن کے علاوہ“ ورنہ اس کی زندگی برباد ہو جائے اور معاش بگڑ جائے۔ دوسری مخلوقات کا عذاب قبر کو سننا کوئی بعید بات نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے بہت سے حیوانات کو بعض صلاحیتیں انسان سے بڑھ کر دی ہیں، جیسے کتے وغیرہ کی سونگھنے کی قوت انسان سے بہت بڑھ کر ہے۔ ﴿ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ﴾ (یس: 38:36)
(3) دینی مسائل میں تقلید مذموم چیز ہے، ہر مکلف پر اتباع ضروری ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2053
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3231
´قبروں کے درمیان جوتا پہن کر چلنے کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں آپ نے فرمایا: ”جب بندہ اپنی قبر میں رکھ دیا جاتا ہے اور اس کے ساتھی لوٹنے لگتے ہیں تو وہ ان کی جوتیوں کی آواز سنتا ہے۔“ [سنن ابي داود/كتاب الجنائز /حدیث: 3231]
فوائد ومسائل:
1۔
میت کو قبر میں زندہ کیا جاتاہے۔
اور پھر اس کا محاسبہ ہوتا ہے۔
اور یہ سب غیبی معاملہ ہے۔
سماع موتیٰ میں ہمیں صرف اسی قدر خبر دی گئی ہے۔
کہ وہ جانے والوں کے جوتوں کی آہٹ سنتا ہے۔
اور اسی پر ہمارا ایمان ہے اس سے مذید کی نفی ثابت ہے۔
2۔
معلوم ہوا کہ قبرستان میں جوتے پہننا جائز ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3231
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7216
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"بندہ (مرنے کے بعد)جب اپنی قبر میں رکھ دیا جاتا ہے اور اس کے ساتھی اس سے پشت پھیر کر چل دیتے ہیں، یقیناً وہ ان کی جوتیوں کی آواز سنتا ہے۔"آپ نے فرمایا:"اس وقت اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں، وہ اس کو بٹھاتے ہیں، پھر اس سے پوچھتے ہیں۔"تم اس شخص کے بارے میں کیا کہتے تھے؟ آپ نے فرمایا:"پس جو سچا مومن ہوتا ہےتو وہ کہتا ہے، میں گواہی دیتا ہوں (کیونکہ وہ دنیا میں گواہی دیتا... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:7216]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
عرب لوگ اپنے مردوں کو قبروں میں دفن کرتے تھے اور وہ عام طور پر اسی طریقہ سے آگاہ تھے،
اس لیے عام رواج کے مطابق آپ نے قبر میں رکھنے کا ذکرکیا،
وگرنہ اللہ کے فرشتے سوال و جواب ہر مرنے والے سے کرتے ہیں،
خواہ اس کا جسم قبر میں دفن کیا جائے یا دریا میں بہایا جائے،
خواہ آگ میں جلایا جائے،
یا گوشت خور درندے کھا جائیں،
کیونکہ یہ سب کچھ براہ راست اور اصلی طور پر روح کے ساتھ ہوتا ہے اور جسم خواہ کہیں بھی ہو اور کسی حال میں ہو،
وہ تبعا اس سے متاثر ہوتا ہے،
جس طرح دنیا میں تکلیف و مصیبت یا راحت و آرام اور لذت کی کیفیت براہ راست جسم پر طاری ہوتی ہے اور روح اس سے تبعا متاثر ہوتی ہے،
آخرت میں اس کے برعکس ہوگا،
وہاں براہ راست روح متاثر ہو گی اور جسم اس سے تبعا متاثر ہوگا۔
حافظ ابن حجر رحمہُ اللہُ نے لکھا ہے،
کسی صحیح حدیث سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ قبر میں میت کے سامنے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہوتے ہیں اور هذا سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ آپ سامنے ہوتے ہیں،
اس کے لیے،
ذہن میں موجود ہونا کافی ہے،
(تکملہ ج 6 ص 241۔
بخاری شریف کی روایت میں بہ تصریح موجود ہے کہ فرشتہ پوچھتا ہے ما تقول فی هذا الرجل محمد تم اس آدمی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کیا رائے رکھتے تھے بعض روایات میں الرجل الذی يبعث فيكم جس آدمی کو تمہارے اندر بھیجا گیا تھا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 7216
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1338
1338. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:”جب بندے کو اس کی قبر میں رکھ دیا جا تا ہے اور اس کے ساتھی دفن سے فارغ ہو کر واپس ہوتے ہیں تو وہ ان کے جوتوں کی آواز سنتا ہے۔ اس وقت اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں اور اسے بٹھا کر پوچھتے ہیں:تو اس شخص محمد ﷺ کے متعلق کیا اعتقاد رکھتا تھا؟ اگر وہ جواب دے:میں گواہی دیتا تھا کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں تو اسے کہا جا تاہے:تو اپنے دوزخی مقام کو دیکھ، اس کے عوض اللہ تعالیٰ نے تجھے جنت میں ٹھکانا دیا ہے۔“ نبی ﷺ نے فرمایا:”وہ دونوں مقامات کو دیکھتا ہے۔ لیکن کافر یا منافق کا یہ جواب ہوتا ہے۔ میں کچھ نہیں جانتا، جو دوسرے لوگ کہتے تھے وہی میں کہہ دیتا تھا، پھر اس سے کہا جاتا ہے:تونے عقل سے کام لیا نہ انبیاء کی پیروی کی، پھر اس کے دونوں کانوں کے درمیان لوہے کے ہتھوڑے سے ایک ضرب لگائی جاتی ہے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1338]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے یہ نکلا کہ ہر شخص کے لیے دو دو ٹھکانے بنے ہیں‘ ایک جنت میں اور ایک دوزخ میں اور یہ قرآن شریف سے بھی ثابت ہے کہ کافروں کے ٹھکانے جو جنت میں ہیں ان کے دوزخ میں جانے کی وجہ سے ان ٹھکانوں کو ایماندار لے لیں گے۔
قبر میں تین باتوں کا سوال ہوتا ہے من ربك۔
تیرا رب کون ہے؟ مومن جواب دیتاہے ربي اللہ۔
میرا رب اللہ ہے۔
پھر سوال ہوتا ہے ومادینك۔
تیرا دین کیا تھا‘ مومن کہتا ہے دیني الإسلام۔
میرا دین اسلام تھا۔
پھر پوچھا جاتا ہے کہ تیرا نبی کون ہے؟ وہ بولتا ہے نبی محمد ﷺ میرے نبی ہیں۔
ان جوابات پر اس کے لیے جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور کافر اور منافق ہر سوال کے جواب میں یہی کہتا ہے کہ میں کچھ نہیں جانتا۔
جیسا لوگ کہتے رہتے تھے میں بھی کہہ دیا کرتا تھا۔
میرا کوئی دین مذہب نہ تھا۔
اس پر اس کے لیے دوزخ کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں۔
لم لادریت ولم لا تلیت۔
کے ذیل مولانا وحیدالزماں مرحوم فرماتے ہیں۔
یعنی نہ مجتہد ہوا نہ مقلد، اگر کوئی اعتراض کرے کہ مقلد تو ہوا، کیونکہ اس نے پہلے کہا کہ لوگ جیسا کہتے تھے میں نے بھی ایسا ہی کیا۔
تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ تقلید کچھ کام کی نہیں کہ سنے سنائے پر ہر شخص عمل کرنے لگا۔
بلکہ تقلید کے لیے بھی غور لازم ہے کہ جس شخص کے ہم مقلد بنتے ہیں آیا وہ لائق اور فاضل اور سمجھ دار تھا یا نہیں اور دین کا علم اس کو تھا یا نہیں۔
سب باتیں بخوبی تحقیق کرنی ضروری ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1338
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1338
1338. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:”جب بندے کو اس کی قبر میں رکھ دیا جا تا ہے اور اس کے ساتھی دفن سے فارغ ہو کر واپس ہوتے ہیں تو وہ ان کے جوتوں کی آواز سنتا ہے۔ اس وقت اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں اور اسے بٹھا کر پوچھتے ہیں:تو اس شخص محمد ﷺ کے متعلق کیا اعتقاد رکھتا تھا؟ اگر وہ جواب دے:میں گواہی دیتا تھا کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں تو اسے کہا جا تاہے:تو اپنے دوزخی مقام کو دیکھ، اس کے عوض اللہ تعالیٰ نے تجھے جنت میں ٹھکانا دیا ہے۔“ نبی ﷺ نے فرمایا:”وہ دونوں مقامات کو دیکھتا ہے۔ لیکن کافر یا منافق کا یہ جواب ہوتا ہے۔ میں کچھ نہیں جانتا، جو دوسرے لوگ کہتے تھے وہی میں کہہ دیتا تھا، پھر اس سے کہا جاتا ہے:تونے عقل سے کام لیا نہ انبیاء کی پیروی کی، پھر اس کے دونوں کانوں کے درمیان لوہے کے ہتھوڑے سے ایک ضرب لگائی جاتی ہے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1338]
حدیث حاشیہ:
(1)
حافظ ابن حجرؓ نے ابن منیر کے حوالے سے امام بخاری ؒ کا اس عنوان سے مقصد بایں الفاظ بیان کیا ہے کہ دفن کے آداب کا لحاظ رکھیں، شوروغل اور زمین پر زور زور سے پاؤں نہ ماریں، میت کے ساتھ وہی سلوک کریں جو سوئے ہوئے آدمی سے کیا جاتا ہے، نیز یہ دفن کے بعد سوال و جواب کے جلد شروع ہونے سے کنایہ ہے کہ دفن سے فارغ ہونے والے ابھی قریب ہی ہوتے ہیں کہ اس سے باز پرس شروع ہو جاتی ہے۔
صحیح بخاری کی حدیثِ اسماء میں یہ الفاظ ہیں:
”تمہارا علم اس شخص کے متعلق کیا تھا؟“ (حدیث: 86)
اور حدیث انس میں ہے کہ ”تو دنیا میں اس شخص کے متعلق کیا کہا کرتا تھا؟“ (2)
ان احادیث سے بعض حضرات نے یہ مسئلہ کشید کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ قبر میں خود تشریف لاتے ہیں اور میت سے سوال جواب کے وقت آپ کو سامنے کیا جاتا ہے، حالانکہ اس سے صرف استحضار ذہنی مراد ہے، یعنی وہ نقشہ جو آدمی کے دل و دماغ میں ہوتا ہے، اس کا اظہار مقصود ہے، جیسا کہ ہرقل نے ایک دفعہ حضرت ابو سفیان ؓ سے سوال کیا تھا:
”تم میں سے نسب کے اعتبار سے کون اس شخص کے قریب تر ہے۔
“ (صحیح البخاري، بدءالوحي، حدیث: 7)
جبکہ رسول اللہ ﷺ اس مجلس میں موجود نہیں تھے۔
وہاں موجود نہ ہونے کے باوجود آپ کے لیے اشارہ قریب "هٰذا" استعمال کیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ میت کا جواب بھی اس کا مؤید ہے، وہ جواب میں کہے گا کہ وہ اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔
سوال و جواب کے وقت رسول اللہ ﷺ کے وہاں موجود ہونے کے متعلق کتاب و سنت میں کوئی دلیل نہیں۔
اگر آپ کی شخصیت کو سامنے کر دیا جائے تو ابوجہل کے لیے تو وجودی معرفت بہت آسان ہے، کیونکہ اس نے آپ کو دیکھا ہوا ہے جبکہ آپ کے بعد آنے والے اہل ایمان کے لیے وجودی معرفت بہت مشکل ہو گی، کیونکہ انہیں تو آپ کی رؤیت حاصل نہیں ہوئی، حالانکہ معاملہ اس کے برعکس ہو گا۔
مومن کی معرفت ایمان پر موقوف ہے جس کا تعلق باطن سے ہے اور کافر وجودی معرفت کے باوجود پہچان سے قاصر رہے گا، کیونکہ اس کا دل معرفت ایمان سے خالی ہے۔
(3)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس قبر میں میت کو دفن کیا جاتا ہے سوال و جواب کا سلسلہ بھی وہیں جاری رہتا ہے، پھر راحت و عذاب کا احساس بھی اسی قبر میں ہو گا۔
بعض فتنہ پرور لوگوں نے برزخی قبر کا شاخسانہ قائم کیا ہے جس کا کتب حدیث میں کوئی ثبوت نہیں۔
جس شخص کو قبر نہ مل سکے، یعنی وہ پانی میں غرق ہو کر سمندری جانوروں کی خوراک بن گیا یا وہ جل کر راکھ ہو گیا یا کسی حادثے میں اس طرح ریزہ ریزہ ہوا کہ اس کے اجزاء نہ مل سکے ہوں تو ایسا انسان جہاں کہیں بھی پڑا ہے وہی اس کی قبر ہے اور وہیں اس سے سوال و جواب کا سلسلہ شروع کر دیا جائے گا۔
دراصل یہ لوگ برزخی معاملات کو حسی طور پر معلوم کرنا چاہتے ہیں۔
جب اس سے قاصر رہتے ہیں تو سرے سے برزخی حقائق کا انکار کر دیا جاتا ہے۔
(4)
واضح رہے کہ فرشتے قبر میں "هٰذا الرجل" کے الفاظ سے سوال کریں گے۔
بظاہر یہ الفاظ رسول اللہ ﷺ کی تعظیم و توقیر کے خلاف ہیں۔
یہ انداز اس لیے اختیار کیا جائے گا کہ امتحان کے موقع پر قائل کے تعظیمی الفاظ سے صاحب قبر کو جواب کا اشارہ نہ مل جائے۔
بہرحال صحیح جواب دینے کا مدار قوت ایمان پر ہو گا جو صرف مومن کو حاصل ہو گی۔
والله أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1338
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1374
1374. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے،انھوں نے کہا:رسول اللہ ﷺ نےفرمایا:”آدمی کو جب قبر میں دفن کردیاجاتا ہے اور دفن کرنے والے واپس لوٹتے ہیں، وہ ابھی ان کے جوتوں کی چاپ سن رہا ہوتا ہے کہ اس کے پاس دو فرشتے آجاتے ہیں جو اسے بٹھا کرپوچھتے ہیں کہ تو اس آدمی، یعنی محمد ﷺ کے بارے میں کیا اعتقاد رکھتا تھا؟مومن جواب میں کہتا ہے:میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ پھر اس سے کہاجاتا ہے:تو جہنم میں اپنا ٹھکانہ دیکھ لے، اللہ نے اس کے بدلے تجھے جنت میں ٹھکانا دیاہے۔ وہ دونوں ٹھکانوں کو بیک وقت دیکھتا ہے۔“ حضرت قتادہ ؒ نے کہا:حدیث میں یہ بھی ذکر ہوا ہے کہ اسکی قبر کو کشادہ کردیاجاتا ہے۔ پھر اس نے حدیث انس ؓ کی طرف رجوع کیا،فرمایا:”جب کافر اورمنافق سے سوال کیاجاتا ہے کہ تو اس شخص کے بارے میں کیا اعتقاد رکھتا تھا؟تو وہ کہتا ہے:میں کچھ نہیں جانتا۔جو کچھ لوگ کہتے تھے میں بھی وہی کچھ کہہ دیتا تھا۔ پھر اس سے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1374]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے عذاب قبر ثابت ہوتا ہے جو کفار و منافقین کو دیا جائے گا۔
اگر اللہ چاہے تو نافرمان اہل ایمان کو بھی عذاب قبر سے دوچار کر سکتا ہے، لیکن سوال و جواب اہل ایمان اور کفار دونوں سے ہوں گے۔
ابوداود میں اس حدیث کا سبب ورود بھی بیان ہوا ہے کہ رسول اللہ ﷺ بنو نجار کے ایک نخلستان میں داخل ہوئے تو آپ نے ایک خوفناک آواز سنی جس سے آپ کو گھبراہٹ ہوئی۔
آپ نے دریافت فرمایا:
”ان قبروں میں کون دفن ہیں؟“ لوگوں نے عرض کیا:
اللہ کے رسول! دور جاہلیت میں جو لوگ مر گئے تھے وہ ان میں دفن ہیں۔
آپ نے فرمایا:
”عذاب قبر اور فتنہ دجال سے اللہ کی پناہ مانگو۔
“ لوگوں نے عرض کیا:
اللہ کے رسول! عذاب قبر کیا ہے؟ آپ نے فرمایا:
”مومن کو جب قبر میں دفن کر دیا جاتا ہے۔
۔
“ (سنن أبي داود، السنة، حدیث: 4751)
ابوداود ہی کی اس روایت میں ہے کہ سوال و جواب کے وقت میت میں اعادہ روح ہوتا ہے۔
(سنن أبي داود، السنة، حدیث: 4753)
اس پر بعض حضرات نے اعتراض کیا ہے کہ ایسا کرنے سے تین دفعہ زندگی اور تین دفعہ موت واقع ہو گی جو قرآن کی صریح نص کے خلاف ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿قَالُوا رَبَّنَا أَمَتَّنَا اثْنَتَيْنِ وَأَحْيَيْتَنَا اثْنَتَيْنِ﴾ (المؤمن11: 40)
”کافر کہیں گے:
ہمارے پروردگار! تو نے دو دفعہ ہمیں مارا اور دو دفعہ زندہ کیا۔
“ حافظ ابن حجر ؒ نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ مذکورہ اعادہ روح صرف سوال و جواب کے لیے ہے۔
یہ مستقل زندگی نہیں جو کہ اسے جسم کے ساتھ روح کے قائم ہونے سے حاصل ہوئی تھی۔
یہ ایک عارضی زندگی ہے۔
اس کے بعد اس روح کو اس کے مستقر میں پہنچا دیا جاتا ہے۔
حدیث میں ہے کہ مومن کی روح کو پرندے کی شکل میں چھوڑ دیا جاتا ہے وہ جنت کے درختوں سے کھاتی پیتی ہے۔
(مسندأحمد: 455/3) (3)
یہ اعادہ روح برزخ کے اعتبار سے ہے۔
دنیاوی لحاظ سے اس پر میت کے احکام جاری ہوتے ہیں۔
اس کے متعلق ہم پہلے تفصیل سے لکھ آئے ہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1374