Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

مسند الحميدي
بَابٌ جَامِعٌ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول متفرق روایات
حدیث نمبر 1204
حدیث نمبر: 1204
1204 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ، قَالَ: ثنا زِيَادُ بْنُ سَعْدٍ، قَالَ: سَمِعْتُ ثَابِتًا الْأَعْرَجَ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «شَرُّ الطَّعَامِ طَعَامُ الْوَلِيمَةِ، يُمْنَعُهَا مَنْ يَأْتِيهَا، وَيُدْعَي لَهَا مَنْ يَأْبَاهَا، وَمَنْ لَمْ يُجِبِ الدَّعْوَةَ فَقَدْ عَصَي اللَّهَ وَرَسُولَهُ»
1204- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں: سب سے برا کھانا ولیمے کا وہ کھانا ہے، جس میں شریک ہونے والے کو روک دیا جائے اور اس کی دعوت اسے دی جائے، جو اس کا انکار کرے، جو شخص دعوت قبول نہیں کرتا وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نا فرمانی کرتا ہے۔


تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 5177، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1432، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5304، 5305، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 6577، 6578، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3742، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2110، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1913، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 14633، 14634، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7399، 7739، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 5891، 6250»

مسند الحمیدی کی حدیث نمبر 1204 کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1204  
فائدہ:
اس حدیث میں دعوت سے روک دیا جائے سے مراد غریب لوگ ہیں، کیونکہ وہ شادی کے موقع کے انتظار میں ہوتے ہیں کہ کب شادی آئے اور ہم پیٹ بھر کر کھانا کھائیں، شادی بیاہ کے موقع پر محلہ کے غریبوں کو بھی دعوت دینی چاہیے، اور اس حدیث میں جو دعوت پر نہیں آنا چاہتے، سے مراد امیر لوگ ہیں، کیونکہ امیر لوگ اپنے گھروں میں کئی قسموں کے پر تکلف کھانے کھاتے رہتے ہیں، ان کو ولیمہ وغیرہ کی دعوت کا خاص شوق نہیں ہوتا، نیز اس حدیث سے ثابت ہوا کہ دعوت کو قبول کرنا واجب ہے، خواہ ایک لقمہ ہی کھائیں۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1203   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3742  
´دعوت قبول کرنے کے حکم کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے تھے سب سے برا کھانا اس ولیمہ کا کھانا ہے جس میں صرف مالدار بلائے جائیں اور غریب و مسکین چھوڑ دیئے جائیں، اور جو (ولیمہ کی) دعوت میں نہیں آیا اس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب الأطعمة /حدیث: 3742]
فوائد ومسائل:
فائدہ: ان احادیث مبارکہ سے ثابت ہوا کہ شرعی دعوتوں کا اہتمام کرنا انھیں قبول کرنا اور ان میں حاضر ہونا انتہائی تاکیدی عمل ہے۔
بغیر اس استثناء کے کہ دعوت دینے والا کون ہے؟ لہذا شرعی عذر کے بغیر ان سے پیچھے رہنا قطعا روا نہیں۔
جو ایک اعتبار سے تکبر میں شمار ہوتا ہے۔
ایسے ہی اغنیاء کی دعوت قبول کرنا اور فقراء سے اعراض کرنا بھی بہت بڑا عیب ہے۔
نیز اہم شرط یہ ہے کہ ان دعوتوں میں شرعی امور وآداب کی پابندی اخوت وحب اسلامی کا اظہار اور اکرام مسلم مقصود ہو ریا شہرہ صرف اغنیاء اور امراء کوجمع کرنا فقراء کو اہمیت نہ دینا۔
اسراف وتبذیر اور دیگر شرعی مخالفتوں کا ارتکاب ان دعوتوں کو مکروہ بنا دیتا ہے۔
جن میں شرکت جائز نہیں۔
علاوہ ازیں اس طرح کی دعوت میں شریک ہونے والا بھی محض لذت کام ودہن کو اپنا م مطمع نظر نہ بنائے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3742   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3525  
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بدترین کھانا ولیمہ کا کھانا ہے۔ حاضر ہونے والوں کو محرو م رکھا جاتا ہے، اور انہیں دعوت دی جاتی ہے، جو آنے سے انکار کرتے ہیں، اور جس نے دعوت کو قبول نہ کیا، تو اس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:3525]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
عام طور پر فقراء اور مساکین یا محتاج و ضرورت مند دعوت کو بلا حیل وحجت شوق ورغبت سے قبول کرلیتے ہیں،
لیکن ان کو نظر انداز کردیا جاتا ہے،
اور اصحاب مال وثروت دعوت قبول کرنے سے گریز کرتے ہیں اس میں شرکت کے لیے ناز و نخرے کرتے ہیں بلکہ حاضری کو اپنا احسان سمجھتے ہیں،
لیکن ان کو باصرار دعوت دی جاتی ہے۔
جبکہ اسلامی اخوت و بھائی چارے اور اخلاق کا تقاضا یہ ہےکہ اگردعوت میں کسی معصیت یا بدعت وخرافات کا دخل نہ ہو تو اس کو ہر صورت قبول کرنا چاہیے اگر دعوت میں دکھاوا،
نام آوری اور خود ستائی و شہرت مقصود ہو یا کسی مطلب برآری کے لیے بلایا ہویا کوئی شرعی قباحت ہوتو نہیں جانا چاہیے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3525