مسند الحميدي
بَابٌ جَامِعٌ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول متفرق روایات
حدیث نمبر 1163
حدیث نمبر: 1163
1163 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ، قَالَ: ثنا أَبُو الزِّنَادِ، عَنِ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «هَذِهِ النَّارُ جُزْءٌ مِنْ سَبْعِينَ جُزْءًا مِنْ نَارِ جَهَنَّمَ، فَضُرِبَتْ بِالْمَاءِ مَرَّتَيْنِ، وَلَوْلَا ذَلِكَ مَا كَانَ فِيهَا مَنْفَعَةٌ لِأَحَدٍ»
1163- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”یہ آگ جہنم کی آگ کا سترھواں حصہ ہے۔ اسے دومرتبہ پانی کے ذریعے ٹھنڈا کیا گیا ہے اگر ایسا نہ ہوتا، تو اس میں کسی کے لیے کوئی فائدہ نہ ہوتا“۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه مالك فى «الموطأ» برقم: 830، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 345، 656، 6147، 6148، 7462، 7463، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 185، 186، 7724، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2589، 3541، 3542، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2827، 2889، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 4293، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7445، 8241، 8531، 9045، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 6372، 6445، 6507، 6509»
مسند الحمیدی کی حدیث نمبر 1163 کے فوائد و مسائل
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1163
فائدہ:
اس حدیث میں جہنم کی گرمی کا ذکر ہے کہ دنیا میں تو ہم اس معمولی سی آگ کو برداشت نہیں کر سکتے تو قیامت والے دن اس آگ سے انہتر گنا زیادہ تپش والی آگ میں ہم کیسے سکون حاصل کرسکیں گے؟
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1161
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4293
´روز قیامت اللہ تعالیٰ کی رحمت کی امید۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کی سو رحمتیں ہیں، ان میں سے ایک رحمت کو تمام مخلوقات کے درمیان تقسیم کر دیا ہے، اسی کی وجہ سے وہ ایک دوسرے پر رحم اور شفقت کرتے ہیں، اور اسی وجہ سے وحشی جانور اپنی اولاد پر رحم کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے ننانوے رحمتیں محفوظ کر رکھی ہیں، ان کے ذریعے وہ قیامت کے دن اپنے بندوں پر رحم کرے گا۔“ [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4293]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
مخلوق میں ایک دوسرے پر شفقت اور رحم کرنے کاجذبہ اللہ کا پیدا کیا ہوا ہے۔
لہٰذا یہ بھی مخلوق ہے۔
اللہ کی رحمت اللہ کی صفت ہے جو غیر مخلوق ہے۔
(2)
اللہ کی بے شمار قسم کی مخلوق ہے اور ہر قسم کے افراد کی تعداد کا اندازہ لگانا انسان کے لئے ناممکن ہے۔
ان تمام انواع واقسام کی جتنی مخلوقات اب تک پیدا ہوچکی ہیں۔
اور جس قدر قیامت تک پیدا ہونے والی ہیں۔
ان سب کی مجموعی شفقت ورحمت کوجمع کیا جائے۔
تو اللہ کی رحمت کے مقابلے میں اس تمام کی کوئی حیثیت نہیں۔
(3)
رحمت کے سو حصے ذکر کرنے کامقصد اللہ کی رحمت کے بے انتہا وسیع ہونے کا تصور دینا ہے۔
جس ذات نے اپنی ہر مخلوق میں رحم کا جذبہ رکھا ہے حتیٰ کہ حیوان اور پرندے بھی اپنے بچوں پراتنی شفقت کرتے ہیں کہ ان کو بچانے کے لئے اپنی جان خطرے میں ڈال دیتے ہیں تو اس خالق کی رحمت کس قدر بے پایاں ہوگی؟ اس کا تو اندازہ بھی نہیں کیا جا سکتا۔
(4)
قیامت کے دن جس طرح اللہ کی صفت غضب اور صفت عدل کا اظہار ہوگا اسی طرح اس کی صفت رحمت کا بھی بے حد وحساب ظہور ہوگا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4293
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3541
´اللہ تعالیٰ نے سو رحمتیں پیدا کیں۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے سو رحمتیں پیدا کیں اور ایک رحمت اپنی مخلوق کے درمیان دنیا میں رکھی، جس کی بدولت وہ دنیا میں ایک دوسرے کے ساتھ رحمت و شفقت سے پیش آتے ہیں، جب کہ اللہ کے پاس ننانوے (۹۹) رحمتیں ہیں“ ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الدعوات/حدیث: 3541]
اردو حاشہ:
1؎:
اس (99) رحمت کا مظاہرہ اللہ تعالیٰ بندوں کے ساتھ قیامت کے دن کرے گا،
اس سے بندوں کے ساتھ اللہ کی رحمت کا اندازہ لگا سکتے ہیں،
لیکن یہ رحمت بھی مشروط ہے شرک نہ ہونے اور توبہ استغفارکے ساتھ،
ویسے بغیر توبہ کے بھی اللہ اپنی رحمت کا مظاہرہ کر سکتا ہے،
﴿وَیَغْفِرُمَادُوْنَ ذٰلِكَ لِمَن یَّشَاءُ﴾ مگرمشرک کے ساتھ بغیر توبہ کے رحمت کا کوئی معاملہ نہیں ﴿إِنَّ اللهَ لَایَغْفِرُ أَن یُّشْرِكَ بِه﴾ ۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3541
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6972
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:"اللہ تعالیٰ نے رحمت کے سو حصے ٹھہرائے، چنانچہ ننانوے، اپنے پاس روک لیے اور زمین میں صرف ایک حصہ اتارا، اس ایک جزء کی بنا پر تمام مخلوق ایک دوسرے پر مہربانی کرتی ہے حتی کہ چوپایہ اپنے بچے سے اپنا پاؤں اٹھالیتا ہے۔اس ڈر سے کہ اس کو تکلیف نہ پہنچے۔" [صحيح مسلم، حديث نمبر:6972]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث میں اللہ کی رحمت کی وسعت اور کثرت کو سمجھانے کے لیے،
رحمت کے سوااجزاء بنائے گئے،
جن میں سے ننانوے اللہ کے پاس ہیں اور تمام مخلوقات جس کا کوئی حدوشمار نہیں ہے کہ پاس صرف ایک حصہ ہے،
وگرنہ حقیقت کے اعتبارسے اللہ کی رحمت لامحدود ہے اور تمام مخلوقات کی رحمت محدود ہے اور محدود کی لامحدود سے کوئی نسبت قائم ہی نہیں ہو سکتی اور مخلوق کی رحمت،
رقت قلبی کا نام ہے اور غضب،
خون میں حدت اور جوش کے پیدا ہونے کانام ہے لیکن اللہ کی رحمت اور غضب کی کیفیت اور حالت کو جاننا ممکن نہیں ہے،
وہ اس کی اعلیٰ اور ارفع شان کے مطابق ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6972
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6975
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" اللہ کی سو رحمتیں ہیں، ان میں سے ایک رحمت کے سبب مخلوق دوسرے پر رحم کرتی ہیں اور ننانوے قیامت کے لیے ہیں۔" [صحيح مسلم، حديث نمبر:6975]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
دنیا میں صرف ایک رحمت کا ظہور ہے،
جس سے تمام مخلوق فیضیاب ہورہی ہے اور قیامت کے دن رحمت کے حقدار تو صرف مؤمن ہوں گے تو اس کا فیض کتنا وسیع اور عام ہوگا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6975
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6000
6000. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ کہتے ہوئے سنا: ”اللہ تعالٰی نے اپنی رحمت کے سو حصے بنائے ہیں ان میں سے ننانوے حصے اپنے پاس رکھے ہیں صرف ایک حصہ زمین پر اتارا ہے۔ اس ایک حصے کی باعث مخلوق ایک دوسرے پر رحم کرتی ہے یہاں تک کہ گھوڑی بھی اپنے بچے کو پاؤں نہیں لگنے دیتی بلکہ اپنے کھر اوپر اٹھا لیتی ہے، مبادا اسے تکلیف پہنچے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6000]
حدیث حاشیہ:
گھوڑی کا اپنے بچہ پر اس درجہ رحم کرنا بھی قدرت کا ایک کرشمہ ہے مگر کتنے لوگ دنیا میں ایسے ہیں کہ وہ رحم وکرم کرنا مطلق نہیں جانتے بلکہ ہر وقت ظلم پر اڑے رہتے ہیں ان کو یاد رکھنا چاہیے کہ جلدہی وہ اپنے مظالم کی سزا بھگتیں گے قانون قدرت یہی ہے فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِينَ ظَلَمُوا وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ (الأنعام: 45)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6000
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6469
6469. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”اللہ تعالٰی نے رحمت کو جس دن پیدا کیا تو اس کے سو حصے کیے۔ پھر اس نے ننانوے حصے اپنے پاس رکھے صرف ایک حصہ اپنی مخلوق کے لیے دنیا میں بھیجا لہذا اگر کافر کو اللہ کی ساری رحمت کا پتہ چل جائے تو وہ کبھی جنت سے مایوس نہ ہو اور اگر مومن کو اللہ کے ہاں ہر قسم کے عذاب کا علم ہو جائے تو وہ دوذخ سے کبھی بھی بے خوف نہ ہو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6469]
حدیث حاشیہ:
یہی امید اور خوف ہے جس کے درمیان ایمان ہے امید بھی کامل اور خوف بھی پوراپورا۔
اللهم ارزقنا آمین۔
مومن کتنے بھی نیک اعمال کرتا ہو لیکن ہروقت اس کو ڈررہتا ہے شاید میری نیکیاں بارگاہ الٰہی میں قبول نہ ہوئی ہوں اور شاید میرا خاتمہ برا ہو جائے۔
ابوعثمان نے کہا گناہ کرتے جانا اور پھر نجات کی امید رکھنا بد بختی کی نشانی ہے علماء نے کہا ہے کہ حالت صحت میں اپنے دل پر خوف غالب رکھے اور مرتے وقت اس کے رحم وکرم کی امید زیادہ رکھے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6469
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6000
6000. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ کہتے ہوئے سنا: ”اللہ تعالٰی نے اپنی رحمت کے سو حصے بنائے ہیں ان میں سے ننانوے حصے اپنے پاس رکھے ہیں صرف ایک حصہ زمین پر اتارا ہے۔ اس ایک حصے کی باعث مخلوق ایک دوسرے پر رحم کرتی ہے یہاں تک کہ گھوڑی بھی اپنے بچے کو پاؤں نہیں لگنے دیتی بلکہ اپنے کھر اوپر اٹھا لیتی ہے، مبادا اسے تکلیف پہنچے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6000]
حدیث حاشیہ:
(1)
گھوڑے کی مثال بیان کرنے میں حکمت یہ ہے کہ دوسرے حیوانات کی نسبت گھوڑا اپنے بچے پر زیادہ شفقت ومہربانی کرتا ہے۔
گھوڑے کا اپنے بچے پر اس قدر رحم کرنا قدرت کا ایک کرشمہ ہے۔
(2)
دنیا میں کتنے لوگ ایسے ہیں جو اپنے پہلو میں دھڑکتا ہوا دل نہیں بلکہ پتھر کا ٹکڑا رکھے ہوئے ہیں۔
وہ دوسروں پر رحم وکرم جانتے ہی نہیں، بلکہ وہ ہر وقت دوسروں پر ظلم وستم ڈھاتے رہتے ہیں۔
انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ وہ دنیا میں جلد ہی اپنے انجام کو دیکھ لیں گے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
”اور جو بھی تم میں سے ظلم کرے گا اسے ہم سخت عذاب کا مزہ چکھائیں گے۔
“ (الفرقان25: 19)
اس حدیث کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں:
”اگر کافر کو پتا چل جائے کہ اللہ کے ہاں کس قدر رحمت ہے تو وہ بھی جنت ملنے سے مایوس نہ ہو۔
“ (صحیح البخاري، الرقاق، حدیث: 6469)
لیکن قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی رحمت صرف اہل ایمان کے لیے مخصوص ہوگی، کافر اس سے کچھ حصہ نہ پائے گا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6000
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6469
6469. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”اللہ تعالٰی نے رحمت کو جس دن پیدا کیا تو اس کے سو حصے کیے۔ پھر اس نے ننانوے حصے اپنے پاس رکھے صرف ایک حصہ اپنی مخلوق کے لیے دنیا میں بھیجا لہذا اگر کافر کو اللہ کی ساری رحمت کا پتہ چل جائے تو وہ کبھی جنت سے مایوس نہ ہو اور اگر مومن کو اللہ کے ہاں ہر قسم کے عذاب کا علم ہو جائے تو وہ دوذخ سے کبھی بھی بے خوف نہ ہو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6469]
حدیث حاشیہ:
(1)
مومن کتنے بھی نیک اعمال کرتا ہو لیکن اسے ہر وقت کھٹکا لگا رہتا ہے۔
شاید میری نیکیاں بارگاہِ الٰہی میں قبول نہ ہوئی ہوں اور شاید میرا خاتمہ ایمان پر نہ ہو۔
یہی امید اور خوف ہے جس کے درمیان ایمان ہے۔
امید بھی کامل اور خوف بھی پورا پورا۔
قرآن کریم میں اللہ کے بندوں کی صفت ان الفاظ میں بیان ہوئی ہے:
”وہ اپنے اللہ کی رحمت کے امیدوار اور اس کے عذاب سے خوف زدہ رہتے ہیں۔
“ (بني إسرائیل: 57/17)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے درج ذیل آیت کے متعلق دریافت فرمایا:
”وہ جو دیتے ہیں جو بھی دیں لیکن ان کے دلوں میں دھڑکا لگا رہتا ہے کہ وہ اپنے پروردگار کے پاس لوٹ جانے والے ہیں۔
“ (المؤمنون: 23/60)
عرض کی:
جو لوگ اللہ کی راہ میں دیتے ہیں انہیں کس بات کا ڈر لگا رہتا ہے؟ کیا وہ شراب پیتے ہیں یا چوری کرتے ہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”صدیق کی بیٹی! یہ بات نہیں بلکہ وہ لوگ روزہ رکھتے، نماز پڑھتے اور صدقہ دیتے ہیں، اس کے باوجود وہ ڈرتے رہتے ہیں کہ شاید ان کا عمل قبول نہ ہو۔
یہی لوگ ہیں جو نیکیوں کی طرف لپکتے اور آگے نکل جانے والے ہیں۔
“ (جامع الترمذي، تفسیر القرآن، حدیث: 3175) (2)
بہرحال مسلسل گناہ کرتے جانا، پھر نجات کی امید رکھنا بدبختی کی علامت ہے۔
ایک مسلمان کو چاہیے کہ وہ حالت صحت میں دل پر خوف غالب رکھے اور مرتے وقت اس کے رحم و کرم کی امید رکھے۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6469