Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

مسند الحميدي
بَابٌ جَامِعٌ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول متفرق روایات
حدیث نمبر 1147
حدیث نمبر: 1147
1147 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ، قَالَ: ثنا ابْنُ عَجْلَانَ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ آلِ أَبِي رَبِيعَةَ، عَنِ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الْمُؤْمِنُ الْقَوِيُّ خَيْرٌ وَأَحَبُّ إِلَي اللَّهِ تَعَالَي مِنَ الْمُؤْمِنِ الضَّعِيفِ، وَفِي كُلٍّ خَيْرٌ، احْرِصْ عَلَي مَا يَنْفَعُكَ، وَلَا تَعْجَزْ، فَإِنْ غَلَبَكَ أَمْرٌ فَقُلْ: قَدَّرَ اللَّهُ وَمَا شَاءَ، وَإِيَّاكَ وَاللَّوْ؛ فَإِنَّهُ يَفْتَحُ عَمَلَ الشَّيْطَانِ"
1147- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: طاقتور مومن کمزور مومن کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک زیادہ بہتر اور پسندیدہ ہوتا ہے ویسے دونوں میں بہتری موجود ہے۔ تم اس چیز کی خواہش کرو جو تمہیں نفع دے اور تم عاجز نہ ہوجانا اور اگر کوئی معاملہ تم پر غالب آجائے، توتم یہ کہو: اللہ تعالیٰ نے تقدیر میں یہی لکھا تھا جواس نے چاہا ویسا ہوگیا اور اگر کہنے سے بچنا کیونکہ یہ شیطان کے کام کا دروازہ کھولتا ہے۔


تخریج الحدیث: «إسناده حسن، وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 2664، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5721، 5722، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 10382، 10383، 10384، 10385، 10386، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 79، 4168، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 20230، وأحمد فى «مسنده» برقم: 8913، 8951، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 6251، 6346»

مسند الحمیدی کی حدیث نمبر 1147 کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1147  
فائدہ:
اس حدیث میں وارد چند اہم امور مندرجہ ذیل ہیں:
① طاقت ور انسان کی فضیلت ثابت ہوتی ہے، اس سے معلوم ہوا کہ انسان کو اپنی خوراک اور صحت پر توجہ دینی چاہیے، توجہ دے گا تو ان شاء اللہ طاقت ور بن جائے گا۔ اور یہ حقیقت ہے کہ کام کرنے والا (انسان خواہ کوئی بھی کام کرے) طاقتور اور مضبوط اعصاب والا ہوگا، تب ہی کوئی کام کر سکے گا، اور یہ بات مشہور ہے کہ تندرست جسم میں تندرست دماغ ہوتا ہے۔ الـلـهـم اجـعـلـنا منهم۔
② اس میں یہ بھی ذکر ہے کہ ان کاموں میں حریص ہونا چاہیے، جو انسان کے لیے نفع مند ہوں، اگر کسی کام میں نفع نہیں ہے تو اس کو چھوڑ کر دوسرا کر لیا جائے، اور اپنے آپ کو کمزور نہیں سمجھنا چاہیے، کوشش کرنے اور اخلاص کی وجہ سے انسان منزل مقصود تک پہنچ ہی جا تا ہے۔
③ اس حدیث میں یہ بات بھی موجود ہے کہ اگر زندگی میں کسی کام میں کامیابی نہ مل سکے یا نقصان ہو جائے تو اس وقت شرکیہ اور کفریہ جملوں سے پر ہیز کرنا چاہیے، اور کہنا چاہیے: «قدر الله وما شاء فعل» ۔
(4) جب انسان کو کسی نقصان سے بچا لیا جاتا ہے تو فوراً کہتا ہے اگر میں یہ نہ کرتا تو نقصان ہو جاتا، اسی طرح اگر اچانک ایکسیڈنٹ ہو جائے تو وہ کہنا شروع کر دیتا ہے کہ اگر میں گھر سے نہ آ تا تو میرا ایکسیڈنٹ نہ ہوتا۔ اگر ان دونوں مثالوں پر غور کیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ کلمہ اگر فضول کلمہ ہے، شیطانی کلمہ ہے، ایمان کو کمزور کرتا ہے، جب نفع ہو تو ہر وقت اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کی جائے اور اگر نقصان ہو تو «انا لله وانا اليه راجعون» کہا جائے، کیونکہ نفع و نقصان کسی بھی انسان کے اختیار میں نہیں ہے۔
بس ہمیں حکم ہے کہ قرآن و حدیث کی پابندی میں زندگی گزاریں، باقی تمام معاملات اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیں، وہ جو کرے گا بہتر کرے گا، خواہ وہ کام ہماری نظروں میں نا پسند ہی ہو۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1145   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
   الشيخ عبدالسلام بن محمد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1321  
جدوجہد کی ترغیب اور نقصان پہنچنے پر تقدیر پر قناعت کی تلقین
«وعن ابي هريرة رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم:‏‏‏‏المؤمن القوي خير واحب إلى الله من المؤمن الضعيف وفي كل خير احرص على ما ينفعك واستعن بالله ولا تعجز وإن اصابك شيء فلا تقل لو اني فعلت (كذا) كان كذا وكذا ولكن قل قدر الله وما شاء فعل فإن لو تفتح عمل الشيطان اخرجه مسلم.»
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: طاقتور مومن، کمزور مومن سے بہتر اور اللّٰہ تعالیٰ کو زیادہ محبوب ہے اور ہر ایک میں بھلائی موجود ہے جو چیز تجھے نفع دے اس کی حرص کر اور اللّٰہ سے مدد مانگ اور عاجز نہ ہو اور اگر تجھے کوئی (نقصان دہ) چیز پہنچے تو یہ مت کہہ کہ اگر میں اس طرح کرتا تو اس طرح اور اس طرح ہو جاتا بلکہ یہ کہہ کہ اللہ نے قسمت میں (اسی طرح) لکھا اور جو اس نے چاہا کر دیا کیونکہ «لَو» (اگر) کا لفظ شیطان کے کام کھول دیتا ہے۔ اسے مسلم نے روایت کیا۔ [بلوغ المرام/كتاب الجامع: 1321]
تخریج:
[مسلم القدر/34]،
[تحفته الاشراف 159/01]، [219/01]، [214/10]
مفردات:
«احْرِصَ - حَرَصَ يَحْرِصُ» (ضرب یضرب) سے امر ہے۔ بعض اوقات باب «سمع يسمع» سے بھی آتا ہے۔
«وَلاَ تَعْجَزْ» جیم کے فتحہ اور کسرہ کے ساتھ۔

فوائد:
قوی مومن ضعیف مومن سے بہتر ہے:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ طاقتور مومن کمزور مومن سے بہتر ہے اور اللّٰہ تعالیٰ کے ہاں زیادہ محبوب ہے اگرچہ کمزور مومن بھی خیر سے خالی نہیں کیونکہ وہ صاحب ایمان ہے اور ایمان بہت بڑی خیر ہے اس کے علاوہ اس میں امانت، علم، تقویٰ اور دوسرے وصف ہو سکتے ہیں۔ البتہ قوی مومن زیادہ قوت کے ساتھ دین پر عمل کر سکتا ہے۔
امربالمعروف، نہی عن المنکر، جہاد فی سبیل اللہ، صلوۃ، صیام، حج اور اللّٰہ تعالیٰ اور بندوں کے دوسرے حقوق جس طرح قوی مومن ادا کر سکتا ہے کمزور ادا نہیں کر سکتا۔ کیونکہ کمزور کی کارکردگی بھی کمزور ہو گی اللّٰہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کی میزبان لڑکی کا قول نقل فرمایا:
«إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ» [28-القصص:26 ]
بہترین شخص جسے تم مزدور رکھو قوی اور امانت والا ہے۔
اللّٰہ تعالیٰ کا مطالبہ بھی یہ ہے کہ اس کی دی ہوئی شریعت پر پوری طاقت سے عمل کیا جائے بنی اسرائیل کو حکم دیا:
«خُذُوا مَا آتَيْنَاكُم بِقُوَّةٍ» [2-البقرة:63 ]
ہم نے تمہیں جو کچھ دیا ہے اسے قوت کے ساتھ پکڑو۔
اور یحییٰ علیہ السلام سے فرمایا:
«يَا يَحْيَى خُذِ الْكِتَابَ بِقُوَّةٍ» [19-مريم:12 ]
اے یحییٰ! کتاب کو قوت سے پکڑ۔
قوت سے کیا مراد ہے؟
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ قوت ہر کام کے لحاظ سے مختلف ہوتی ہے مثلاً جنگ میں قوت کا دارومدار دل کی شجاعت اور جنگی تجربہ پر ہے۔ لوگوں کے درمیان فیصلہ کرتے وقت قوت سے مراد یہ ہے کہ اسے کتاب و سنت کا مضبوط علم حاصل ہو، قوت فیصلہ مضبوط ہو اور اپنے احکام نافذ کرنے کی قدرت ہو۔
قوت کے ساتھ امانت کا ہونا بھی ضروری ہے، مگر یہ دونوں وصف ایک جگہ بہت کم پائے جاتے ہیں۔ ذمہ داری سونپتے وقت کسی شخص میں دونوں وصف مل جائیں تو کیا ہی کہنا ورنہ ذمہ داری کی نوعیت کے مطابق قوت یا امانت میں سے کسی ایک کو ترجیح دی جائے گی۔ مثلاً جنگ کی امارت کے لیے قوت کو خاص طور پر مدنظر رکھا جائے گا اور مالی ذمہ داریوں کے لیے امانت کو۔ البتہ جب لوگوں سے زکوٰۃ اور دوسرے اموال وصول کرنے کا معاملہ ہو تو قوت و امانت دونوں ضروری ہیں۔
وقتی طور پر قوت و امانت میں سے کسی ایک کو ترجیح دینا ایک مجبوری ہے۔ اس کے باوجود لوگوں کے احوال کی اصلاح کی کوشش جاری رہنی چاہیئے تاکہ صاحبِ قوت لوگ امانت کے وصف سے متصف ہو جائیں اور صاحب امانت لوگوں کا ضعف دور ہو جائے اور وہ قوی بن جائیں۔ [السياسة الشرعيه لابن تيميه]
   شرح بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام کتاب الجامع، حدیث/صفحہ نمبر: 248   

  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1321  
´مکارم اخلاق (اچھے عمدہ اخلاق) کی ترغیب کا بیان`
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قوی مومن اللہ کے ہاں زیادہ محبوب ہے ضعیف و کمزور مومن کی نسبت سے۔ ہر مومن میں بھلائی اور اچھائی ہے۔ جو چیز تیرے لئے منافع بخش ہے اس کی حرص و لالچ کر۔ مدد صرف اللہ سے طلب کر، عاجز و درماندہ بن کر نہ بیٹھ اور اگر تجھے چیز حاصل ہو تو اس طرح مت کہو کہ اگر فلاں کام میں نے اس طرح سر انجام دیا ہوتا تو اس سے مجھے یہ اور یہ فوائد حاصل ہوتے۔ بلکہ اس طرح کہا کرو کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی تقدیر میں جو چاہا۔ کیونکہ لفظ «لو» (یعنی اگر) شیطان کے عمل کا دروازہ کھولتا ہے۔ (مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 1321»
تخریج:
«أخرجه مسلم، القدر، باب في الأمر بالقوة وترك العجز...، حديث:2664.»
تشریح:
1. اس حدیث میں لفظ لو (جس کے معنی اگر کے ہوتے ہیں) کے استعمال سے منع کیا گیا ہے جبکہ بعض احادیث سے اس کے استعمال کی گنجائش نظر آتی ہے‘ لہٰذا یہ ممانعت تنزیہی ہے‘ تحریمی نہیں۔
قاضی عیاض رحمہ اللہ وغیرہ کی یہی رائے ہے۔
مگر بعض علماء نے کہا ہے کہ اگر لو کے بارے میں یہ عقیدہ رکھا جائے کہ اگر میں فلاں کام اس طرح انجام دیتا تو یقینا اس کا نتیجہ اس طرح برآمد ہوتا تو اس طور پر لفظ لَو کااستعمال حرام ہے۔
اور اگر یہ عقیدہ ہو کہ وہی ہو کر رہنا تھا جو ہو چکا ہے اور ہوگا بھی وہی جو تقدیر الٰہی میں ہے تو ایسی صورت میں لفظ لَوْ کا استعمال درست ہوگا‘ ممنوع نہیں ہوگا۔
2. اسی طرح اگر دین اسلام کی اتباع نہ کرنے یا کم اجر والا کام کرنے اور زیادہ اجر والا کام رہ جانے پر تاسف اور اظہار افسوس کی صورت میں لَوْکہتا ہے تو یہ بھی جائز ہے۔
نبی ٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: «‏‏‏‏لَوِ اسْتَقْبَلْتُ مِنْ أَمْرِي مَا اسْتَدْبَرْتُ مَا سُقْتُ الْھَدْيَ» اگر مجھے اس بات کا پہلے پتہ چل جاتا جس کا بعد میں پتہ چلا ہے تو میں قربانی کے جانور ساتھ نہ لاتا۔
(صحیح البخاري، التمني، حدیث: ۷۲۲۹) یعنی عمرہ کر کے حلال ہوجاتا پھر آٹھ ذوالحجہ کو حج کا احرام نئے سرے سے باندھتا، یعنی حج تمتع کرتا۔
3. اسی طرح اس حدیث سے پتہ چلا کہ قوی و مضبوط مومن کو اللہ تعالیٰ‘ ضعیف و کمزور کے مقابلے میں محبوب رکھتا ہے کیونکہ جہاد میں قوت و طاقت کی ضرورت ہے۔
تندرست و صحت مند آدمی ‘بیمار و کمزور آدمی کے مقابلے میں دین کی خدمت زیادہ کر سکتا ہے اور عبادت میں زیادہ محنت کر سکتا ہے‘ نیز غرباء و مساکین ‘ ضرورت مندوں اور حاجت مندوں کی خدمت بھی زیادہ کر سکتا ہے۔
لیکن قوت و ہمت کے باوجود انسان اسی وقت کچھ کر سکتا ہے جب اللہ تعالیٰ کی مدد شامل حال ہو‘ اس لیے اس میں حکم ہے کہ بہرنوع اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرو۔
وہی تمھارا کارساز ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1321   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث79  
´قضا و قدر (تقدیر) کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: طاقتور مومن اللہ تعالیٰ کے نزدیک کمزور مومن سے بہتر اور پیارا ہے ۱؎، دونوں میں سے ہر ایک میں خیر ہے، ہر اس چیز کی حرص کرو جو تمہیں نفع دے، اور اللہ سے مدد طلب کرو، دل ہار کر نہ بیٹھ جاؤ، اگر تمہیں کوئی نقصان پہنچے تو یہ نہ کہو: کاش کہ میں نے ایسا ویسا کیا ہوتا تو ایسا ہوتا، بلکہ یہ کہو: جو اللہ نے مقدر کیا تھا اور جو اس نے چاہا کیا، اس لیے کہ اگر مگر شیطان کے عمل کے لیے راستہ کھول دیتا ہے ۲؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 79]
اردو حاشہ:
(1)
جسمانی، ذہنی اور مالی قوت اللہ کی ایک نعمت ہے، اس نعمت کو نیکی کے کاموں میں استعمال کرنا چاہیے۔

(2)
جو شخص کسی قسم کی قوت میں دوسروں سے کم تر ہے وہ بھی خیر سے محروم نہیں۔
ممکن ہے کہ ایک قوت کے لحاظ سے کمزور شخص، دوسری قوت کے لحاظ سے قوی ہو، لہٰذا اللہ تعالیٰ نے کسی کو جو صلاحیت بھی عنایت فرمائی ہو، اس پر اللہ کا شکر ادا کرنا اور اسے نیکی کے حصول و فروغ اور برائی سے بچنے اور بچانے کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔

(3)
دنیوی فوائد کے حصول کی کوشش کرنا توکل کے منافی نہیں، البتہ اس کے لیے ناجائز ذرائع اختیار کرنا، یا دنیوی فوائد کی حرص کو ذہن پر اس طرح سوار کر لینا کہ زیادہ توجہ ادھر ہی رہے، درست نہیں ہے۔

(4)
شریعت میں یہ چیز مطلوب نہیں کہ کوئی شخص خود محنت کر کے کمانے اور دوسروں کو فائدہ پہنچانے کے بجائے دوسروں پر بوجھ بن کر بیٹھ جائے۔
اس رویہ کو توکل قرار دینا غلط ہے، البتہ جو شخص کسی واقعی عذر کی وجہ سے روزی نہیں کما سکتا، وہ معذور ہے اور مسلمان معاشرے کا فرض ہے کہ اس کی ضروریات پوری کرے۔

(5)
کوئی کام کرنے سے پہلے غوروفکر کرنا چاہیے اور معاملے کے مختلف پہلوؤں پر غور اور مشورہ کر لینا چاہیے، لیکن اگر بعد میں کسی وجہ سے نتائج توقع کے خلاف نکلیں تو معاملہ اللہ پر چھوڑ دیں اور سمجھ لیں کہ اس میں بھی اللہ کی کوئی حکمت ہو گی، اگر مگر کہنے سے تقدیر الہی کے انکار کا پہلو نکلتا ہے اور یہ شیطانی فعل ہے کہ آدمی کو خلاف توقع نتیجہ نکلنے پر حسرت دلواتا ہے اور تقدیر کا منکر بناتا ہے۔

(6)
کسی کام کا نتیجہ خلاف توقع نکلنے کے بعد جب اس کی تلافی ممکن نہ ہو، تو منفی سوچوں میں گھر جانا، نہ صرف بے فائدہ بلکہ نقصان دہ ہے۔
بعد میں یہ کہنے کا کوئی فائدہ نہیں:
کاش میں نے فلاں کام یوں کر لیا ہوتا، کاش میں فلاں کام اس طرح نہ کرتا۔
البتہ اپنے کام کا تنقیدی جائزہ لینا درست ہے تاکہ جو غلطی ہوئی ہے، دوبارہ اس سے بچا جائے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 79   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4168  
´توکل اور یقین کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: طاقتور مومن اللہ تعالیٰ کے نزدیک کمزور و ناتواں مومن سے زیادہ بہتر اور پسندیدہ ہے، اور ہر ایک میں بھلائی ہے، تم اس چیز کی حرص کرو جو تمہیں فائدہ پہنچائے، اور عاجز نہ بنو، اگر مغلوب ہو جاؤ تو کہو اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہے، جو اس نے چاہا کیا، اور لفظ اگر مگر سے گریز کرو، کیونکہ اگر مگر شیطان کے کام کا دروازہ کھولتا ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4168]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
طاقتور مومن اپنی ذہنی اور جسمانی قوتوں کو نیک کاموں کی انجام دہی نیکیوں کے فروغ اور برائیوں کی راہ روکنے میں خرچ کرتا ہےجب کہ کمزور آدمی بہت سے ایسے کام نہیں کرسکتا جو طاقت ور آدمی انجام دے سکتا ہے۔
اس لحاظ سے طاقت ور مومن کمزور سے بہتر ہے۔

(2)
جسمانی اور ذہنی صلاحیتوں کو ترقی دینے کے لیے جائز طریقے سے کوشش کرنا مستحسن ہے۔

(3)
جسمانی اور ذہنی قوتوں کو ظلم و زیادتی کے لیے استعمال کرنے سے پرہیز ضروری ہے ورنہ ایسا طاقتور اللہ کو کمزور سے پیارا نہیں ہوگا بلکہ اللہ اس سے ناراض ہوگا۔

(4)
مومن دنیوی فوائد کے لیے محنت کرے تو اچھا ہے کیونکہ وہ انھیں نیکی کے کاموں میں استعمال کرے گا۔

(5)
اچھے مقصد کے حصول کے لیے پوری کوشش کرنا ضروری ہے لیکن اللہ پر اعتماد ہونا چاہیے۔
کامیابی ہوتو اللہ کا شکر ادا کیا جائے ورنہ سمجھ لیا جائے کہ ناکامی میں انسان کی کسی کوتاہی کو دخل ہے۔
یا یہ مطلوب چیز ہےانسان کے لیے مفید نہیں اور اس کا نہ ملنا انسان کے لیے بہتر اور اللہ کا احسان ہے۔

(6)
ناکام ہونے والے منصوبے کی خامی سامنے آنے پر افسوس کو خود پر مسلط نہ کیا جائےاور یہ نہ کہا جائے:
کاش یہ کام اس طرح کی بجائے اس طرح کیا جاتا البتہ خامی تلاش کرکے آئندہ اس سے بچنے کی کوشش کرنا ضروری ہے۔

(7)
شیطان کا کام یہ ہے کہ وہ ناکامی کو بہت بڑا کرکے پیش کرتا ہے جس سے اللہ کی رحمت سے مایوسی یا اللہ کی ذات اقدس سے ناراضی اور شکوہ کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔
یہ دونوں چیزیں انسان کی آخرت کو تباہ کرنے والی ہیں۔

(8)
بعض اوقات انسان اپنی ناکامی کا ذمہ دار کسی دوسرے انسان کو قرار دے لیتا ہے اور پھر حسد اور بغض کے جذبات کے تحت اسے نقصان پہنچانے یا بدنام کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
یہ بھی شیطانی عمل ہے۔
مزید دیکھیے حدیث: 79 کے فوائدومسائل۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4168   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6774  
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" قوت والا مومن، کمزور مومن سے بہتر اور اللہ کو زیادہ پسند ہے اور دونوں میں خیر موجود ہے،جو چیز تمھارے لیے سودمند ہے اس لیے کوشش کر اور اللہ سے مدد طلب کر، عجز اور کمزوری کاا ظہار نہ کر،اگر تمھیں کوئی مصیبت پہنچے تو یہ کہو، اگر میں ایسا کرتا تو ایسا ایساہوتا، البتہ یہ کہو، اللہ کی تقدیر ہے، اس نے جو چاہا کیا کیونکہ لوشیطان کے لیے راہ عمل کھولتا ہے۔" [صحيح مسلم، حديث نمبر:6774]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
المومن القوی سے مراد وہ مومن ہے،
جو ارادے کا مضبوط اور پختہ کار ہے،
ہر کام کو پوری ہمت اور حوصلہ سے سر انجام دیتا ہے اور مومن ضعیف سے مراد وہ ہے جو کوتاہ ہمت ہے،
کام کرنے کے لیے حوصلہ نہیں پاتا اور پورے جوش و جذبہ اور سرگرمی سے کام نہیں کرتا،
کیونکہ انسان کے لیے یہ ضروری ہے وہ نفع بخش دنیوی و آخری کام پوری محنت و کوشش اور حوصلہ و ہمت سے کرے،
اس میں سستی و کاہلی،
کوتاہ ہمتی اختیار کر کے ہمت نہ ہارے اور اس کے لیے اللہ تعالیٰ سے نصرت و اعانت اور توفیق طلب کرے،
لیکن مومن ہونے کے سبب ہر صورت خیر دونوں میں موجود ہے اور مصائب و تکالیف کے سلسلہ میں اسباب و وسائل پر بھروسہ کرتے ہوئے یہ نہ کہے،
اگر میں یہ تدبیر اور حیلہ اختیار کر لیتا تو اس مصیبت اور مشکل میں مبتلا نہ ہوتا،
کیونکہ تدبیر سے تقدیر کو نہیں بدلا جا سکتا،
ہاں اگر لو کا تعلق تقدیر کی تبدیلی سے نہ ہو،
بلکہ اپنی کمزوریوں کے ازالہ سے ہو،
یا اپنی لاعلمی کے اظہار کے لیے ہو،
اللہ کی تقدیر پر اور اس کی مشیت کے نفوذ پر مکمل ایمان ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے،
مثلا بلامحنت انسان کہہ سکتا ہے،
اگر میں محنت کرتا تو ناکام نہ ہوتا،
اگر مجھے اس چیز کا پہلے سے علم ہوتا تو میں یہ نہ کرتا،
اگر دشمن نے ہم پر قابو پا لیا تو وہ ہمیں ذلیل و خوار کرے گا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6774