مسند الحميدي
بَابٌ جَامِعٌ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول متفرق روایات
حدیث نمبر 1125
حدیث نمبر: 1125
1125 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ، قَالَ: ثنا الزُّهْرِيُّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا هَلَكَ كِسْرَي فَلَا كِسْرَي بَعْدَهُ، وَإِذَا هَلَكَ قَيْصَرٌ فَلَا قَيْصَرَ بَعْدَهُ، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَتُنْفِقُنَّ كُنُوزَهَمَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ»
1125- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”جب کسریٰ ہلاکت کا شکار ہوجائے گا، تو اس کے بعد کوئی کسریٰ نہیں آئے گا۔ جب قیصر مرجائے گا، تو اس کے بعد کوئی قیصر نہیں آئے گا۔ اس ذات کی قسم! جس کے دست قدرت میں میری جان ہے، تم لوگ ان دونوں کے خزانے اللہ کی راہ میں ضرور خرچ کرو گے“۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 3027، 3029، 3120، 3618، 6630، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1740، 2918، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 6689، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2216، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 18521، 18674، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7305، 7388، 7596، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 5881»
مسند الحمیدی کی حدیث نمبر 1125 کے فوائد و مسائل
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1125
فائدہ:
اس حدیث میں اسلام کی حقانیت کی بہت بڑی دلیل ہے کہ جس طرح امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بالکل اسی طرح پورا ہوا اور قیصر و کسریٰ تباہ ہوئے، اور ان کے بعد کوئی قیصر و کسریٰ نہیں آیا اور نہ قیامت تک آئے گا۔
قاضی عیاض رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ کسریٰ عراق میں اور قیصر شام میں نہیں ہوگا، جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کی بادشاہت کے ختم ہونے کی پیشینگوئی کی، تو ہوا بھی اسی طرح۔ اور کسریٰ کا معاملہ تو بالکل ختم ہو گیا اور اس کی بادشاہت ٹکڑے ٹکڑے ہوگئی، اور قیصر شام کو چھوڑ کر اپنے شہر قسطنطنیہ داخل ہو گیا، اس کے شہر بھی فتح ہوئے اور اس کے تمام خزانے مسلمانوں کے قبضے میں آئے، جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی تھی۔ (اكـمـال الـعـلـم 230/8)
قیصر کے متعلق تفصیل ابن کثیر رحمہ اللہ نے البدایۃ والنھایۃ (71 / 4-73) میں ذکر کی ہے۔ نیز دیکھیں (تاریخ الاسلام سندھی: 511 / 2۔ 512)
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1123
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ عبدالله شميم حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيفه همام بن منبه 30
´قیصر و کسریٰ کی ہلاکت کی پشین گوئی اور لڑائی مکر و فریب کا نام ہے`
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کسریٰ، یعنی شاہ ایران، ہلاک ہو جائے گا۔ پھر اس کے بعد کوئی (دوسرا) کسریٰ نہ ہو گا۔ (اسی طرح) قیصر، یعنی شاہ روم بھی ہلاک ہو جائے گا۔ پھر اس کے بعد کوئی دوسرا قیصر (پیدا) نہ ہو گا۔ اور تم ضرور بہ ضرور ان دونوں کے خزانے اللہ کی راہ میں خرچ کرو گے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ کو دھوکہ سے موسوم کیا۔“ [صحيفه همام بن منبه/متفرق/حدیث: 30]
شرح الحديث:
کسریٰ، شاہ ایران کا لقب تھا، سلطنت ایران پر جو بھی حاکم ہوتا اسے 'کسریٰ' کہہ کر پکارا جاتا۔ اور بعینہ قیصر، روم کے سلطان کا لقب تھا۔ جیسا کہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں جو اقتدار حکومت سنبھالتا، اسے "فرعون" کہتے تھے۔ اسی طرح شاہ حبشہ کا لقب "نجاشی" ہوا کرتا تھا۔ اس حدیث میں کسریٰ کے پارہ پارہ ہونے کے ساتھ ساتھ قیصر کی ہلاکت کا بھی ذکر ہے۔ لیکن امام بغوی رحمة الله علیہ نے اپنی کتاب "شرح السنة" میں ایک حدیث ذکر کی ہے، جس میں مروی ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: "شاہ ایران کو دعوت اسلامی کے حوالہ سے ایک مکتوب لکھا تو شاہ ایران نے اس مکتوب کو پھاڑ دیا۔ " اسی طرح آپ صلی الله علیہ وسلم نے شاہ روم کو ایک خط لکھا۔ اس نے اس مکتوب کو نگاہ احترام سے دیکھا اور کستوری میں رکھ دیا۔ تو نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: "اس نے اپنی سلطنت کی حفاظت کر لی۔ " یعنی ثابت رکھ لیا۔ [شرح السنة: 310/13]
اس حدیث سے واضح طور پر شاہ روم کے ملک کی تثبیت ثابت ہوتی ہے، جبکہ صحیفہ کی مذکورہ بالا حدیث سے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق قیصر کی ہلاکت معلوم ہوتی ہے۔ اس اعتبار سے دونوں مذکورہ حدیثوں میں بظاہر تعارض آگیا۔
امام بغوی رحمة الله علیہ انقطاع تعارض کے متعلق فرماتے ہیں: دونوں حدیثوں کی تطیق اس طرح ممکن ہے کہ کسریٰ کی مجموعی مملکت معدوم ہو گئی، اس سر زمین پر ممکن کنٹرول مسلمانوں کا ہوگیا اور اس ملک کے خزانے راہ الٰہی میں خرچ کر دیے گئے, جبکہ قیصر (شاہ روم) کی ملکیت برقرار رہنے کے ساتھ ساتھ معدوم ہو گئی اور اس سلطنت کے خزانے راہ الہی میں صرف کر دیئے گئے۔
اب اس صورت میں «لَا يَكُوْنُ قَيْصَرُ بَعْدَهُ» کا معنی یہ ہوگا کہ سر زمین شام پر کوئی قیصر (پیدا) نہ ہوگا۔ اور "شرح السنة" میں مروی حدیث کے الفاظ "ثَبَتَ مُلْکَهُ" کا معنی یہ ہوگا "اس نے سرزمین روم پر اپنی بادشاہت کو برقرار رکھا۔ " [شرح السنة: 310/13]
اسی طرح امام نووی رحمة الله علیہ نے "شرح مسلم" میں لکھا ہے: "رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی بد دعا سے کسریٰ تباہ و برباد ہوگیا اور کرّہ ارض پر اس کی تمام بادشاہت و مملکت پارہ پارہ ہو کر فنا ہوگئی، جب کہ قیصر کی بادشاہت و مملکت ارض شام سے معدوم ہوگئی۔ اس سے مسلمانوں کو یہ فائدہ پہنچا کہ وہ قیصر و کسریٰ کے شہروں میں داخل ہوگئے اور انہیں فتح کر دیا اور ان حکومتوں کے بیت المال راہ الہی میں خرچ کر دیئے، جیسا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اس کی پیشن گوئی فرمائی تھی۔ اسے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے ظاہری معجزات میں سے ایک معجزہ سمجھا جاتا ہے۔ " [شرح صحيح مسلم، للنووي: 766/5]
جنگ "خُدْعَة" "دھوکے کا ذریعہ، وسیلۂ فریب" ہے:
لفظ «خُدْعَة» کے پڑھنے میں پانچ قرأتیں ہیں۔
➊ «خَدْعَةٌ» ➋ «خُدْعَةٌ» ➌ «خُدَعَةٌ» ➍ «خَدَعَةٌ» ➎ «خِدْعَةٌ»
اس لفظ کے آخر میں جو گول (ة) ہے اس کے متعلق کہا گیا ہے کہ یہ وحدت پر دلالت کر رہی ہے، اس لیے دوران جنگ مسلمان کافروں کو ایک مرتبہ دھوکہ (ضرور) دیں، تاکہ مسلمان ابھر سکیں اور ساتھ ساتھ مسلمانوں کو متنبہ کرنا ہے کہ کافر قوم کم سے کم ایک مرتبہ ضرور دھوکہ کھائے گی۔ «والله اعلم بالصواب»
خدعة: ........
کسی نفس کو حقیقت حال سے نا آشنا رکھنے کے لیے زبان سے ایسی بات کا اظہار کرنا جو دل میں مخفی بات کے برعکس ہو۔
جب کہ بعض لوگوں نے خدعة کا معنی حکمت کیا ہے۔ اس لیے ان کے نزدیک جنگ حکمت عملی کا نام ہے۔ اس پورے متن حدیث میں قیصر و کسریٰ کے ملکوں پر اہل اسلام کے تسلط کی پیشن گوئی ہے، واضح رہے کہ یہ بات رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے غزوۂ خندق کے موقع پر اپنی زبانِ مبارک سے ارشاد فرمائی تھی۔ علاوہ بریں یہ پیشن گوئی رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے اور مواقع پر بھی ثابت ہے۔
مسند احمد میں سیدنا براء رضی الله عنہ سے مروی ہے: غزوۂ خندق کے موقع پر دوران کھدائی ایک سخت ترین چٹان آن پڑی، جس سے کدال اچٹ جاتی تھی، کوئی چیز اپنی جگہ سے ہل نہیں پاتی تھی، براء رضی الله عنہ کہتے ہیں: ہم نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے اس کا گلہ کیا۔ تو آپ صلی الله علیہ وسلم (فوراً) وہاں حاضر ہوئے (وہی) کدال ہاتھ میں لی اور بسم الله کی نداء لگا کر ایک زور دار ضرب لگائی اور فرمانے لگے "الله اکبر" سلطنت شام کی چابیاں میرے سپرد کر دی گئی ہیں۔ یعنی قیصر کی سلطنت کا ایک حصہ، الله کی قسم! اس وقت میں وہاں کے سرخ محلوں کا نظارہ کر رہا ہوں۔ پھر دوسری مرتبہ ضرب لگائی، تو ایک دوسرا قطعہ جدا ہوگیا اور فرمانے لگے: الله اکبر، مجھے فارس دکھایا گیا ہے۔ الله کی قسم! اس وقت میں مدائن کے سفید محل کا نظارہ کر رہا ہوں۔ پھر بسم الله کہہ کر تیسری ضرب لگائی، تو بقیہ چٹان ریزہ ریزہ ہوگئی اور فرمانے لگے: الله اکبر، یمن کی چابیاں میرے سپرد کر دی گئی ہیں۔ الله کی قسم! اس وقت میں اپنی جگہ سے صنعاء کے پھاٹک دیکھ رہا ہوں۔ اسی طرح رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے غزوہ خندق کے موقع پر جنگ کو "وسیلۂ فریب" سے تعبیر فرمایا تھا۔ وہ اس طرح کہ قبیلۂ غطفان کا ایک شخص جس کا نام نعیم بن مسعود بن عامر اشجعی تھا۔ وہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کیا: اے الله کے رسول! میں اسلام قبول کر چکا ہوں اور میرے قبیلہ والے میرے قبول اسلام کے بارے میں لا علم ہیں۔ لہذا (میرے اس فعل سے کوئی فائدہ اٹھا لیجئے) آپ میرے لیے کوئی حکم صادر فرمایئے، تاکہ میں اسے پایۂ تکمیل تک پہنچا سکوں۔ (اس کے بعد رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ان سے کچھ مخفی باتیں کیں، پھر فرمانے لگے) "اَلْحَرْبُ خُدْعَةٌ" جنگ تو ایک دھوکہ ہے۔ مذکورہ بالا حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی بھی جنگی موقع پر حکمت عملی کے ساتھ اپنے فریق مخالف کو بیوقوف بنایا جا سکتا ہے، لیکن امام نووی رحمة الله علیہ نے اس پر کچھ تفصیلی کلام فرمایا ہے۔ وہ فرماتے ہیں: اصحابِ علم کسی بھی جنگ کے موقع پر اپنے فریق مخالف کو دھوکہ دینے کے معاملہ میں رائے جواز کے قائل ہیں۔ دھوکہ میں عموم ہے، کوئی تعین نہیں۔ البتہ دھوکہ میں خلاف عہد کام کی توقع ہو یا کسی کے امن کو سبوتاژ ہونے کا اندیشہ ہو تو قطعاً دھوکہ جائز نہیں۔ " (جیسا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی الله عنہم کے غزوات اس پر شاہد ہیں۔) حاصل کلام یہ ہے کہ عہد شکنی کے ماسوا اپنے فریق مخالف کے خلاف ہر قسم کا حربہ بروئے کار لایا جا سکتا ہے۔ [فتح الباري: 168/6]
صحیفہ ہمام بن منبہ شرح حافظ عبداللہ شمیم، حدیث/صفحہ نمبر: 30
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3618
3618. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب کسریٰ ہلاک ہو گا تو اس کے بعد کوئی کسریٰ نہ ہوگا اور جب قیصر ہلاک ہوگا تو اس کے بعد کوئی قیصر نہیں ہوگا۔ اور مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ﷺ کی جان ہے!تم ان دونوں کے خزانے اللہ کی راہ میں خرچ کرو گے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3618]
حدیث حاشیہ:
آنحضرت ﷺ نے جو فرمایا تھا حرف بہ حرف صحیح ثابت ہوا جیسا کہ تاریخ شاہد ہے۔
روایت میں حضرت ابن شہاب سے مشہور تابعی حضرت امام زہری مراد ہیں، جو زہرہ بن کلاب کی نسل سے ہیں اور اسی لیے ان کو زہری کہا گیا ہے، ان کی کنیت ابوبکر اور نام محمد ہے۔
عبداللہ بن شہاب کے بیٹے ہیں۔
بعض منکرین حدیث تمنا عمادی جیسوں نے ان کے زہرہ بن کلاب کی نسل سے ہونے کا انکار کیا ہے جو سراسر غلط ہے، یہ فی الواقع زہری ہیں۔
بڑے محدث اور فقیہ، جلیل القدر تابعی ہیں، علوم شریعت کے امام ہیں، ان کے شاگردوں میں بڑے بڑے ائمہ حدیث داخل ہیں۔
حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒنے کہا کہ میں اپنے دور میں ان سے بڑھ کر کوئی عالم نہیں پاتاہوں۔
124ھ بماہ رمضان انتقال فرمایا۔
رحمه اللہ رحمة واسعة آمین۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3618
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3120
3120. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب کسریٰ مرجائے گا تو اس کے بعد کوئی کسریٰ پیدا نہیں ہوگا اور جب قیصر مرجائے گا تو اس کے بعد کوئی قیصر پیدا نہیں ہوگا۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!یقیناً تم ان دونوں (حکومتوں) کے خزانے (اللہ کی راہ میں) ضرور خرچ کروگے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3120]
حدیث حاشیہ:
رسو ل کریم ﷺ کی یہ پیش گوئی حرف بہ حرف صحیح ثابت ہوئی کہ ایرانی قدیم سلطنت ختم ہوگئی اوروہاں ہمیشہ کے لئے اسلام آگیا۔
شام میں بھی یہی ہوا۔
ان کے خزانوں کا مسلمانوں کے ہاتھ آنا اور ان خزانوں کا فی سبیل اللہ تقسیم ہونا مراد ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3120
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6630
6630. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب کسریٰ (شاہ ایران) ہلاک ہو جائے گا تو اس کے بعد کوئی کسریٰ پیدا نہیں ہوگا اور جب قیصر (شاہ روم) ہلاک ہو جائے گا اس کے بعد کوئی قیصر پیدا نہیں ہوگا۔ اور اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ محمد ﷺ کی جان ہے! ان کے خزانوں کو اللہ کی راہ میں ضرور خرچ کیا جائے گا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6630]
حدیث حاشیہ:
آنحضرت ﷺ نےجیسا فرمایا تھا ویسا ہی ہوا۔
ایران اور روم دونوں مسلمانوں نےفتح کر لیے اور ان کےخزانے سب مسلمانوں کے ہاتھ آئے۔
پیش گوئی حرف بہ حرف صحیح ثابت ہوئی۔
اس دن سے آج تک ایران مسلمانوں ہی کے زیر نگیں ہے۔
صدق رسول اللہ۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6630
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3618
3618. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب کسریٰ ہلاک ہو گا تو اس کے بعد کوئی کسریٰ نہ ہوگا اور جب قیصر ہلاک ہوگا تو اس کے بعد کوئی قیصر نہیں ہوگا۔ اور مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ﷺ کی جان ہے!تم ان دونوں کے خزانے اللہ کی راہ میں خرچ کرو گے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3618]
حدیث حاشیہ:
1۔
کسریٰ ایران کے بادشاہ کا لقب تھا جبکہ روم کے بادشاہ کو قیصر کہا جاتا تھا۔
2۔
جب قریش مسلمان ہو گئے تو انھوں نے اس خطرے کا اظہار کیا کہ اسلام لانے کی وجہ سے عراق اور شام میں ان کی تجارت ختم ہو جائے گی تو رسول اللہ ﷺ نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا:
عراق اور شام میں کسریٰ اور قیصر کی حکومت نہیں رہے گی چنانچہ حضرت عمر ؓ کے دور میں کسریٰ کی حکومت صفحہ ہستی سے مٹ گئی کیونکہ اس کے لیے رسول اللہ ﷺ نے بددعا فرمائی تھی کہ اس کی سلطنت ٹکڑے ٹکڑے ہو کر ختم ہو جائے گی۔
(صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4424)
اسی طرح قیصر بھی شام سے شکست کھا کر بھاگ نکلا۔
بہر حال ان دونوں کی حکومت ختم ہو گئی اور ان کے خزانے غزوات میں خرچ ہوئے۔
3۔
یہ بھی ایک غیب کی خبر تھی جو حرف بہ حرف پوری ہوئی۔
ان کا رعب اور دبدبہ خاک میں مل گیا اور اسلام کا بول بالا ہوا۔
یہ رسول اللہ ﷺ کا معجزہ اور آپ کی نبوت کی دلیل ہے۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3618