Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

مسند الحميدي
جَامِعُ أَبِي هُرَيْرَةَ
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے منقول مجموعۂ روایات
حدیث نمبر 1114
حدیث نمبر: 1114
1114 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ، قَالَ: ثنا زِيَادُ بْنُ سَعْدٍ، سَمِعَهُ مِنْ هِلَالِ بْنِ أَبِي مَيْمُونَةَ يُحَدِّثُهُ، عَنْ أَبِي مَيْمُونَةَ، قَالَ: أَتَي أَبَا هُرَيْرَةَ رَجُلٌ فَارِسِيٌّ، وَامْرَأَةٌ لَهُ يَخْتَصِمَانِ فِي ابْنٍ لَهُمَا، فَقَالَ الْفَارِسِيُّ: يَا أَبَا هُرَيْرَةَ هَذَا بِيبَرُ، قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: لَأَقْضِيَنَّ بَيْنَكُمَا بِمَا شَهِدْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَضَي بِهِ، يَا غُلَامُ، هَذَا أَبُوكَ وَهَذِهِ أُمُّكَ، فَاخْتَرْ أَيَّهُمَا شِئْتَ، ثُمَّ قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: فَشَهِدْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَتَاهُ رَجُلٌ وَامْرَأَةٌ يَخْتَصِمَانِ فِي ابْنٍ لَهُمَا، فَقَالَ الرَّجُلُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ ابْنِي يَسْقِينِي مِنْ بِئْرِ أَبِي عِنَبَةَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَا غُلَامُ هَذَا أَبُوكَ، وَهَذِهِ أُمُّكَ فَاخْتَرْ أَيَّهُمَا شِئْتَ»
1114-ابومیمونہ بیان کرتے ہیں: ایک ایرانی شخص اور اس کی بیوی سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے وہ دونوں اپنے بیٹے کے بارے میں جھگڑا کررہے تھے۔ ایرانی نے کہا: اے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ یہ ہمارا بیٹا ہے، تو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بولے: میں تم دونوں کے درمیان وہ فیصلہ دوں گا جو میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فیصلہ دیتے ہوئے دیکھا ہے۔ اے لڑکے! یہ تمہارے ابو ہیں اور یہ تمہاری امی ہے تم ان دونوں میں سے جسے چاہو اختیار کرلو۔
پھر سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے یہ بات بیان کی میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھا ایک شخص اور اس کی بیوی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنے بیٹے کے بارے میں ایک مقدمہ لے کر حاضر ہوئے۔ اس شخص نے عرض کی: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ میرا بیٹا ہے، جو ابوعنبہ کے کنوئیں سے مجھے پانی پلاتا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے لڑکے! یہ تمہارے ابوہیں یہ تمہاری امی ہیں تم ان دونوں میں سے جسے چاہواختیار کرلو۔


تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه الحاكم فى «مستدركه» برقم: 7131، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3496، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 5660، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2277، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1357، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2339، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2351، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 2275، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 15858، 15859، 15860، 15861، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7469، 9902، والحميدي فى «مسنده» برقم: 1114، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 6131»

مسند الحمیدی کی حدیث نمبر 1114 کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1114  
فائدہ:
اس سے ثابت ہوا کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بہت بڑے فقیہ، مجہتد، مفتی اور قاضی تھے کہ لوگ آپ کی طرف اپنے مسائل کے حل کے لیے رجوع کرتے تھے۔ نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سنت سے بہت زیادہ محبت کرتے تھے، اور اپنے فیصلے قرآن و حدیث کے مطابق کرتے تھے۔
اس حدیث میں جو شرعی مسئلہ ذکر ہوا ہے وہ یہی ہے کہ جب میاں اور بیوی کا کسی بیٹی یا بیٹے کے متعلق اختلاف ہو جائے، اور دونوں ہی اس کو اپنے پاس رکھنے کا مطالبہ کریں تب بچے کو اختیار دیا جائے جس کی طرف وہ جانا چا ہے، اس کو جانے کا کلی اختیار ہوگا، اور اس کے اختیار کو حتمی قرار دیا جائے گا، اور قاضی اس کے مطابق فیصلہ کرے گا۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1112   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 988  
´پرورش و تربیت کا بیان`
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک عورت آئی اور عرض کیا، اے اللہ کے رسول! میرا شوہر مجھ سے میرا بچہ چھیننا چاہتا ہے اور یہ بچہ میرے کام کاج میں مددگار ہے اور میرے لئے ابوعنبہ کے کنوئیں سے پانی لا کر دیتا ہے۔ اسی اثنا میں اس کا شوہر بھی آ گیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے لڑکے! یہ تیرا باپ ہے اور یہ تیری والدہ ان دونوں میں سے جس کا چاہے ہاتھ پکڑ لے۔ اس بچہ نے ماں کا ہاتھ پکڑ لیا اور وہ اسے لے کر چلتی بنی۔ اسے احمد اور چاروں نے بیان کیا ہے اور ترمذی نے اسے صحیح کہا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 988»
تخریج:
«أخرجه أبوداود، الطلاق، باب من أحق بالولد، حديث:2277، والترمذي، الأحكام، حديث:1357، والنسائي، الطلاق، حديث:3526، وابن ماجه، الأحكام، حديث:2351، وأحمد:2 /246.»
تشریح:
اس حدیث میں بچے کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ جس کے پاس رہنا پسند کرے اس کے پاس رہے اور اس سے پہلی حدیث میں والدہ کو زیادہ حق دیا گیا ہے۔
تو اس کے بارے میں امام ابن قیم رحمہ اللہ کا قول ہے کہ جس امر میں بچے کی مصلحت اور خیر خواہی ہو اسے اختیار کرنا چاہیے۔
اگر ماں‘ باپ کے مقابلے میں زیادہ صحیح تربیت و پرورش اور حفاظت کرنے والی ہو اور نہایت غیرت مند خاتون ہو تو ماں کو باپ پر مقدم کیا جائے گا۔
اس موقع پر قرعہ اندازی یا اختیار میں سے کسی کا لحاظ نہیں کیا جائے گا کیونکہ بچہ تو نادان‘ کم عقل‘ ناعاقبت اندیش ہوتا ہے۔
ماں باپ میں سے جو بچے کا زیادہ خیال رکھنے والا ہو‘ بچہ اس کے سپرد کر دیا جائے گا۔
اگر باپ میں یہ اوصاف ماں کی نسبت زیادہ ہوں تو بچہ باپ کی تحویل میں دے دیا جائے گا۔
وہی اس کی پرورش و تربیت کا ذمہ دار ہوگا۔
امام مالک رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ لڑکا ہو یا لڑکی دونوں ماں کے پاس رہیں گے۔
اور احناف نے کہا کہ لڑکی ماں کے پاس اور لڑکا باپ کے پاس رہے گا۔
قرین انصاف بات امام ابن قیم رحمہ اللہ کی معلوم ہوتی ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 988   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3526  
´میاں بیوی میں سے کوئی ایک اسلام قبول کر لے تو نابالغ بیٹے کو کسی ایک کے ساتھ ہو جانے کا اختیار دیا جائے گا۔`
ابومیمونہ کہتے ہیں کہ ہم ایک دن ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس تھے تو انہوں نے بتایا کہ ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہا: میرے ماں باپ آپ پر قربان! میرا شوہر میرا بیٹا مجھ سے چھین لینا چاہتا ہے جب کہ مجھے اس سے فائدہ (و آرام) ہے، وہ مجھے عنبہ کے کنویں کا پانی (لا کر) پلاتا ہے، (اتنے میں) اس کا شوہر بھی آ گیا اور اس نے کہا: کون میرے بیٹے کے معاملے میں م۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3526]
اردو حاشہ:
(1) اگر خاوند بیوی دونوں مسلمان ہوں مگر ان میں جدائی ہوجائے تو اس صورت میں بچہ چھوٹا ہے تو وہ اپنی ماں کے پاس رہے گا جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک عورت نے کہا: اے اللہ کے رسول! میرے اس بیٹے کے لیے میرا پیٹ برتن تھا‘ میری چھاتی اس کا مشکیزہ تھی اور میری گود اس کی پنا ہ گاہ تھی۔ اس کے باپ نے مجھے طلاق دے دی ہے اور وہ اب اسے مجھ سے چھیننا چاہتا ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تو اس کی زیادہ حق دار ہے جب تک تو آگے نکاح نہیں کرتی۔ (سنن داود‘ الطلاق‘ حدیث:2276) اور اگر بچہ سن تمیز کو پہنچا ہوا ہے تو پھر اسے اختیار دیا جائے گا۔ وہ جسے اختیار کر لے گا اس کے پاس رہے گا جیسا کہ اس حدیث میں ہے۔ احادیث میں تطبیق کی یہ بہترین صورت ہے۔ تمام احادیث پر عمل ہوجاتا ہے۔
(2) بئرأبی عنبہ مدینہ منورہ سے کافی باہر تقریباً 12 میل دور ایک کنواں ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3526   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2277  
´بچے کی پرورش کا زیادہ حقدار کون ہے؟`
ہلال بن اسامہ سے روایت ہے کہ ابومیمونہ سلمی جو اہل مدینہ کے مولی اور ایک سچے آدمی ہیں کا بیان ہے کہ میں ایک بار ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا تھا کہ اسی دوران ان کے پاس ایک فارسی عورت آئی جس کے ساتھ اس کا لڑکا بھی تھا، اس کے شوہر نے اسے طلاق دے دی تھی اور وہ دونوں ہی اس کے دعویدار تھے، عورت کہنے لگی: ابوہریرہ! (پھر اس نے فارسی زبان میں گفتگو کی) میرا شوہر مجھ سے میرے بیٹے کو لے لینا چاہتا ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: تم دونوں اس کے لیے قرعہ اندازی کرو، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بھی فارسی زبان ہی میں اس سے گفتگو کی، اتنے میں اس کا شوہر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2277]
فوائد ومسائل:
بچہ بچی جب خوب سمجھدارہوں تو مذکورہ بالا احوال میں انہیں اختیار دیا جا سکتا ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2277