1069 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ، قَالَ: ثنا أَبُو الزِّنَادِ، عَنِ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَوْلَا أَنْ أَشُقَّ عَلَي الْمُؤْمِنِينَ مَا بَعَثْتُ سَرِيَّةً أَتَخَلَّفُ عَنْهَا لَيْسَ عِنْدِي مَا أَحْمِلُهُمْ عَلَيْهِ، وَيْشَقُّ عَلَيَّ أَنْ يَتَخَلَّفُوا بَعْدِي»
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 36
´جہاد بھی جزو ایمان ہے`
«. . . عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" انْتَدَبَ اللَّهُ لِمَنْ خَرَجَ فِي سَبِيلِهِ . . .»
”. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص اللہ کی راہ میں (جہاد کے لیے) نکلا، اللہ اس کا ضامن ہو گیا . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 36]
� تشریح:
حضرت امام رحمۃ اللہ علیہ نے پچھلے ابواب میں نفاق کی نشانیوں کا ذکر فرمایا تھا، اب ایمان کی نشانیوں کو شروع فرما رہے ہیں۔ چنانچہ لیلۃ القدر کا قیام جو خالصاً اللہ کی رضا کے لیے ہو۔ بتلایا گیا کہ وہ بھی ایمان کا ایک حصہ ہے۔ اس سے حضرت امام کا مقصد ثابت ہوا کہ اعمال صالحہ ایمان میں داخل ہیں اور ان کی کمی و بیشی پر ایمان کی کمی و بیشی منحصر ہے۔ پس مرجیہ و کرامیہ جو عقائد رکھتے ہیں وہ سراسر باطل ہیں۔ لیلۃ القدر تقدیر سے ہے یعنی اس سال میں جو حوادث پیش آنے والے ہیں ان کی تقدیرات کا علم فرشتوں کو دیا جاتا ہے، «قدر» کے معنی حرمت کے بھی ہیں اور اس رات کی عزت قرآن مجید ہی سے ظاہر ہے، شب قدر رمضان شریف کی طاق راتوں میں سے ایک رات ہے جو ہر سال ادلتی بدلتی رہتی ہے۔
قیام رمضان اور قیام لیلۃ القدر من الدین کے درمیان حضرت امام نے ”جہاد“ کا ذکر فرمایا کہ یہ بھی ایمان کا ایک جز و اعظم ہے۔ حضرت امام نے اپنی گہری نظر کی بنا پر جہاں اشارہ فرمایا ہے کہ جہاد مع النفس ہو (یعنی نفس کے ساتھ جہاد ہو) جیسا کہ رمضان شریف کے روزے اور قیام لیلۃ القدر وغیرہ ہیں۔ یہ بھی ایمان میں داخل ہیں۔ اور جہاد بالکفار ہو تو یہ بھی ایمان کا حصہ ہے۔ نیز اس طرف بھی اشارہ کرنا ہے کہ جہاد اگر رمضان شریف میں واقع ہو تو اور زیادہ ثواب ہے۔ پھر اگر شہادت فی سبیل اللہ بھی نصیب ہو جائے تو نور علی نو رہے۔
حدیث سے جہاد کا مفہوم ظاہر ہے کہ مجاہد فی سبیل اللہ صرف وہی ہے جس کا خروج خالص اللہ کی رضا کے لیے ہو۔ تصدیق رسل سے مراد ان جملہ بشارتوں پر ایمان لانا اور ان کی تصدیق کرنا ہے جو اللہ کے رسولوں نے جہاد فی سبیل اللہ سے متعلق بیان فرمائی ہیں۔ مجاہد فی سبیل اللہ کے لیے اللہ پاک نے دو ذمہ داریاں لی ہیں۔ اگر اسے درجہ شہادت مل گیا تو وہ سیدھا جنت میں داخل ہوا، حوروں کی گود میں پہنچا اور حساب و کتاب سب سے مستثنیٰ ہو گیا۔ وہ جنت کے میوے کھاتا ہے اور معلق قندیلوں میں بسیرا کرتا ہے اور اگر وہ سلامتی کے ساتھ گھر واپس آ گیا تو وہ پورے پورے ثواب کے ساتھ اور ممکن ہے کہ مال غنیمت کے ساتھ بھی واپس ہوا ہو۔
اس حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود شہادت کی تمنا فرمائی۔ جس سے آپ امت کو مرتبہ شہادت بتلانا چاہتے ہیں۔ قرآن مجید میں اللہ نے مومنوں سے ان کی جانوں اور مالوں کے بدلے میں جنت کا سودا کر لیا ہے جو بہترین سودا ہے۔
حدیث شریف میں جہاد کو قیامت تک جاری رہنے کی خبر دی گئی ہے۔ ہاں طریقہ کار حالات کے تحت بدلتا رہے گا۔ آج کل قلبی جہاد بھی بڑی اہمیت رکھتا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 36
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7457
7457. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ اس شخص کا ضامن ہے جو اللہ کی راہ میں جہاد کرے جبکہ اس کو اللہ کی راہ میں جہاد اور اس کے کلمات کی تصدیق نے نکالا ہو۔ (اللہ ضامن ہے کہ) وہ اسے جنت میں داخل کرے گا یا ثواب اور مال غنیمت کے ساتھ اسی گھر میں واپس لوٹائے گا جہاں سے وہ نکلا تھا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7457]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کی مناسبت ترجمہ باب سے یہ ہے کہ اس میں اللہ کے کلام کا ذکر ہے جو قرآن کے علاوہ ہے۔
حضرت امام بخاری کو یہی ثابت کرنا ہے کہ اللہ تعالیٰ قرآن کےعلاوہ بھی کلام کرتا ہے یہ جہمیہ معتزلہ منکرین حدیث کی تردید ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7457
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3123
3123. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص اللہ کے رستے میں جہاد کے لیے گھر سے نکلے اور اس کامقصد صرف جہاد اور اس کے کلمات کی تصدیق کرنا ہو، اللہ تعالیٰ اس شخص کے لیے اس امر کا ضامن ہے کہ اسے شہادت سے سرفراز فرما کر اسے جنت میں داخل کرے یا اس اجر و غنیمت دے کر واپس گھر لوٹائے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3123]
حدیث حاشیہ:
حضرت امام بخاری ؒ کا اشارہ اس حدیث کے لانے سے بھی یہی ہے کہ مال غنیمت جہاد میں شریک ہونے والوں کے لئے ہے اور یہ کہ حقیقی مجاہد کون ہے۔
اس پر بھی اس حدیث میں کافی روشنی ڈالی گئی ہے۔
ایسے مجاہدین بھی ہوتے ہیں جو محض حصول دنیا و نام و نمود کے لئے جہاد کرتے ہیں۔
جن کے لئے کوئی اجر و ثواب نہیں ہے۔
بلکہ قیامت کے دن ان کو دوزخ میں دھکیل دیا جائے گا کہ تمہارے جہاد کرنے کا مقصدصرف اتنا ہی تھا کہ تم کو دنیا میں بہادر کہہ کر پکارا جائے۔
تمہارا یہ مقصد دنیا میں تم کو حاصل ہو گیا۔
اب آخرت میں دوزخ کے سوا تمہارے لئے اور کچھ نہیں ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3123
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7463
7463. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ اس شخص کا ضامن ہے جو اللہ کی راہ میں جہاد کرتا ہے۔ وہ شخص اپنے گھر میں سے اس لیے نکلتا ہے کہ خالص اللہ کے راستے میں جہاد کرے اور اس کے کلمہ توحید کی تصدیق کرے۔ ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ جنت میں داخل کرے گا یا ثواب و غنیمت کے ستاھ اس کو گھر واپس کرے گا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7463]
حدیث حاشیہ:
کلمہ سے کلمہ طیبہ مراد ہے جس کی تصدیق کرنا ایمان کی اولین بنیاد ہے۔
جس کی دل سےتصدیق کرنا ’زبان سے اس کا اقرار کرنا اورعمل سےاس کا ثبوت دینا ضروری ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7463
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 553
´مجاہد کی فضیلت`
«. . . 346- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”تكفل الله لمن جاهد فى سبيله، لا يخرجه من بيته إلا الجهاد فى سبيله وتصديق كلمته، بأن يدخله الجنة أو يرده إلى مسكنه الذى خرج منه مع ما نال من أجر أو غنيمة.“ . . .»
”. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اللہ کے راستے میں جہاد کے لئے اپنے گھر سے نکلتا ہے (اور اس کا مطمح نظر) جہاد فی سبیل اللہ، (اعلائے) کلمتہ اللہ (اور اس) کی تصدیق کے سوا کچھ نہیں تو اللہ اسے جنت کی ضمانت دیتا ہے کہ وہ اسے اس میں داخل کرے گا یا اجر یا غنیمت عطا کرنے کے بعد اسے گھر واپس بھیج دے گا۔“ . . .“ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/0/0: 553]
تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 7463، من حديث مالك به ورواه مسلم 104/1876، من حديث ابي الزناد به]
تفقه:
➊ ہر عمل کے لئے نیت کا خالص ہونا ضروری ہے ورنہ سارے اعمال باطل اور رائیگاں ہو جائیں گے۔
➋ جہاد کے لئے عقیدے کا صحیح ہونا ضروری ہے جیسا کہ ”اس کے کلمے کی تصدیق کے لئے نکلتا ہے“ سے ثابت ہوتا ہے۔ معلوم ہوا کہ صحیح حدیث کا انکار کرنے والے لوگ ہر قسم کے جہاد سے محروم و بدنصیب ہیں۔
➌ جہاد اسلام کا عظیم الشان رکن بلکہ اسلام کی چوٹی ہے۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 346
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3124
´اللہ اپنے راستے میں جہاد کرنے والے کے لیے کس بات کی ضمانت لیتا ہے۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ اپنی راہ کے مجاہد کا کفیل و ضامن ہے جو خالص جہاد ہی کی نیت سے گھر سے نکلتا ہے، اور اس ایمان و یقین کے ساتھ نکلتا ہے کہ یا تو اللہ تعالیٰ اسے (شہید کا درجہ دے کر) جنت میں داخل فرمائے گا یا پھر اسے ثواب اور مال غنیمت کے ساتھ اس کے اس ٹھکانے پر واپس لائے گا، جہاں سے نکل کر وہ جہاد میں شریک ہوا تھا۔“ [سنن نسائي/كتاب الجهاد/حدیث: 3124]
اردو حاشہ:
”اجر اور غنیمت“ یعنی دونوں میں سے ایک چیز تو ضرور حاصل ہوگی۔ دونوں بھی ہوسکتی ہیں کیونکہ اجر تو ہر حال میں حاصل ہوگا، غنیمت مل جائے تو بہتر ورنہ اخروی تو ہر صورت میں ملے گا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3124
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5033
´جہاد کے شرائع ایمان ہونے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے ضمانت لی ہے اس شخص کی جو اس کے راستے میں نکلا ہو اور اس کا یہ نکلنا جہاد کے مقصد سے، اللہ پر ایمان اور اس کے رسولوں کی تصدیق کی وجہ سے ہو تو وہ ضامن ہے اس کا کہ اسے جنت میں داخل کرے یا اسے اس کے وطن لوٹا دے جہاں سے وہ نکلا تھا اس اجر یا مال غنیمت کے ساتھ جو اسے ملا ہو جو بھی ملا ہو۔“ [سنن نسائي/كتاب الإيمان وشرائعه/حدیث: 5033]
اردو حاشہ:
”مجھ پر ایمان“ یہ اللہ تعالیٰ کے الفاظ کی حکایت ونقل ہے کیونکہ ”میرے رسولوں کی تصدیق“ والے الفاظ اللہ تعالی ٰ ہی کے ہوسکتے ہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5033
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2753
´اللہ کی راہ میں جہاد کی فضیلت۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے اس شخص کے لیے جو اس کی راہ میں نکلے، اور اسے اس کی راہ میں صرف جہاد اور اللہ تعالیٰ پر ایمان اور اس کے رسولوں کی تصدیق ہی نے نکالا ہو، (تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے) میں اس کے لیے ضمانت لیتا ہوں کہ اسے جنت میں داخل کروں، یا اجر و ثواب اور مال غنیمت کے ساتھ اس منزل تک لوٹا دوں جہاں سے وہ گیا تھا“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر مجھے مسلمانوں کے مشقت میں پڑ جانے کا ڈر نہ ہوتا تو میں کسی بھی سریہ (لشکر) کا ج۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الجهاد/حدیث: 2753]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
جس طرح ہر نیک عمل کی قبولیت کے لیے خلوص نیت شرط ہے۔
اسی طرح جہاد فی سبیل اللہ کی قبولیت کے لیے بھی خلوص نیت شرط ہے۔
(2)
جہاد تمام رسولوں پر ایمان کا ثبوت ہے۔
کیونکہ اس کا حکم تمام شریعتوں میں موجود رہا ہے البتہ بعض انبیاء ؑ نے اس کی شرط پوری نہ ہونے کی وجہ سےجہاد بالسیف نہیں کیا۔
(3)
خلوص کے ساتھ جہاد فی سبیل اللہ کا ثواب ہر صورت میں ملتا ہے خواہ مجاہد غنیمت حاصل کر کے خیریت سے گھر پہنچ جائے یا کافروں سے لڑتا ہوا شہید ہوکر جنت میں پہنچ جائے۔
(4)
بعض حالات میں جہاد فرض کفایہ ہوتا ہے۔
اس صورت میں پیچھے رہنے والے گناہ گار نہیں ہوتے۔
اگر کوئی حکمت پیش نظر ہو تو افضل کام چھوڑ کر دوسرا جائز کام کیا جاسکتا ہے۔
(5)
کسی جماعت کے سربراہ یا قوم کے قائد کو متبعین کے جذبات کا خیال رکھنا چاہیے بشرطیکہ ناجائز کام کا ارتکاب نہ ہو۔
(6)
بات میں تاکید پیدا کرنے کے لیے اللہ کی قسم کھانا جائز ہے۔
(7)
قسم میں اللہ کے نام کے بجائےاس کی کسی صفت کا ذکر کرنا بھی جائز ہے
(8)
ناممکن کام کی تمنا جائز ہےجب کہ وہ نیکی سے تعلق رکھتا ہو۔
(9)
شہادت کا مقام اتنا عظیم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شہیدوں سے افضل ہونے کے باوجود یہ تمنا رکھتے تھےکہ انھیں شہادت کا مقام بھی حاصل ہو۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2753
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1619
´جہاد کی فضیلت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ کہا گیا: اللہ کے رسول! کون سا عمل (اجر و ثواب میں) جہاد کے برابر ہے؟ آپ نے فرمایا: ”تم لوگ اس کی طاقت نہیں رکھتے“، صحابہ نے دو یا تین مرتبہ آپ کے سامنے یہی سوال دہرایا، آپ ہر مرتبہ کہتے: ”تم لوگ اس کی طاقت نہیں رکھتے“، تیسری مرتبہ آپ نے فرمایا: ”اللہ کے راستہ میں جہاد کرنے والے کی مثال اس نمازی اور روزہ دار کی ہے جو نماز اور روزے سے نہیں رکتا (یہ دونوں عمل مسلسل کرتا ہی چلا جاتا) ہے یہاں تک کہ اللہ کی راہ کا مجاہد واپس آ جائے“ ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب فضائل الجهاد/حدیث: 1619]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی جس طرح اللہ کی عبادت میں ہرآن اور ہر گھڑی مشغول رہنے والے روزے دار اور نمازی کا ثواب برابر جاری رہتا ہے،
اسی طرح اللہ کی راہ کے مجاہد کا کوئی وقت ثواب سے خالی نہیں جاتا۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1619
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1118
1118- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”اللہ تعالیٰ اس شخص کا ذمے دار بن جاتا ہے، جو اپنے گھر سے اللہ کی راہ میں جہاد میں حصہ لینے کے لیے نکلتا ہے۔ وہ مجھ پر ایمان رکھتے ہوئے میرے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی تصدیق کرتے ہوئے صرف جہاد کے لئے نکلتا ہے۔ (تو اللہ تعالیٰ یہ ذمہ لیتا ہے) کہ اگر میں نے اسے وفات دے دی، تو میں اسے جنت میں داخل کروں گا، اور اگر میں نے اسے واپس لوٹایا، تو جس گھر سے وہ نکلاتھا اس کے اس گھر کی طرف میں اس کو اجر اور مال غنیمت کے ہمراہ لوٹاؤں گا۔“ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1118]
فائدہ:
اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے گھر سے جہاد کی نیت سے نکلنے والے کی فضیلت کا بیان ہے کہ اگر وہ شہید ہو جائے تو سیدھا جنت میں جائے گا، اور اگر وہ غازی بن کر واپس گھر چلا جائے تو تب بھی وہ اجر و ثواب ساتھ لے کر لوٹے گا، یہاں سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ضروری نہیں کہ ہر غازی مال غنیمت لے کر ہی واپس لوٹے، بسا اوقات مال غنیمت بھی نہیں ملتا، اللہ تعالیٰ ہمیں میدان قتال میں شہادت نصیب فرمائے، آمین۔
یاد رہے کہ ہر وہ کام جو اعلائے کلمۃ اللہ کی غرض سے ہو، وہ جہاد ہوتا ہے، ہاں قتال جہاد کی ایک قسم ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1118
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1123
فائدہ:
اس حدیث سے شہید کی زبردست فضیلت ثابت ہوتی ہے کہ روز قیامت اس کا خون تازہ بہہ رہا ہوگا، اور اس سے کستوری جیسی خوشبو آ رہی ہو گی، سبحان اللہ۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1121
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4859
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے اپنی راہ میں نکلنے والے کو ضمانت دی، جبکہ صرف اللہ کے راستہ میں جہاد کے لیے نکلتا ہے، اس پر یقین رکھتے ہوئے اور اس کے رسولوں کی تصدیق کرتے ہوئے، وہ میری ضمانت میں ہے کہ میں اس کو جنت میں داخل کروں گا، یا اپنے جس گھر میں نکلا، اس میں اجر یا غنیمت کے ساتھ واپس لاؤں گا، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے، جو زخم بھی اللہ کی راہ میں لگے گا، قیامت... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:4859]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
1۔
تَضَمَّنَ الله اور تَكَفَّلَ الله کا معنی ہے کہ اللہ اس کا ضامن اور کفیل ہے۔
(2)
فَهُوَ عَلي ضَامِن:
وہ میری ذمہ داری اور ضمان میں ہے۔
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے،
اگر انسان جہاد میں صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیے اللہ پر ایمان رکھتے ہوئے،
رسول نے جو جہاد کے فضائل بتائے ہیں،
ان کو دل کی گہرائی سے تسلیم کرتے ہوئے نکلتا ہے،
تو شہادت کی صورت میں وہ جنتی ٹھہرتا ہے اور واپسی کی صورت میں محض اجر یا غنیمت دونوں سے حصہ پاتا ہے اور اگر اسے زخم لگتا ہے،
تو وہ قیامت کے دن زخمی حالت میں اٹھے گا،
اس کے زخم سے خوب بہہ رہا ہو گا،
جس کی خوشبو کستوری کی طرح ہو گی اور شہادت اس قدر بلند مرتبہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بار بار حاصل ہونے کی تمنا اور آرزو کی،
حالانکہ دنیوی مشکلات اور مصائب سے گھبرا کر موت کی خواہش کرنا جائز نہیں ہے،
مقصد یہ ہے کہ شہادت کی آرزو کی صورت میں انسان اپنی جان کا نذرانہ پیش کر کے دین کی سربلندی اور دشمن سے مسلمانوں کے دفاع اور تحفظ کا باعث بنتا ہے،
دشمن کی کامیابی کا خواہاں نہیں ہوتا ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4859
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:36
36. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ اس شخص کے لیے ذمے داری لیتا ہے جو اس کی راہ میں (جہاد کے لیے) نکلے۔ اسے گھر سے صرف اس بات نے نکالا کہ وہ مجھ (اللہ) پر ایمان رکھتا ہے اور میرے رسولوں کی تصدیق کرتا ہے، تو میں اسے اس ثواب یا مال غنیمت کے ساتھ واپس کروں گا جو اس نے جہاد میں پایا، یا اسے (شہید بنا کر) جنت میں داخل کروں گا۔ اور (رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:) اگر میں اپنی امت کے لیے اسے دشوار نہ سمجھتا تو کبھی چھوٹے سے چھوٹے لشکر سے بھی پیچھے نہ بیٹھ رہتا۔ اور میری یہ آرزو ہے کہ اللہ کی راہ میں مارا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں، پھر مارا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں، پھر مارا جاؤں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:36]
حدیث حاشیہ:
1۔
اس سے پہلے شب قدر کا بیان تھا اور آئندہ باب قیام رمضان سے متعلق ہے دونوں ابواب میں گہری مناسبت تھی۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے درمیان میں جہاد کا باب قائم کر دیا یہ اس لیے کہ جہاد دو قسم کا ہوتا ہے:
ایک جہاد مع النفس اور دوسرا جہاد مع الکفار، پھر جہاد مع الکفار، جہاد مع النفس پر موقوف ہے۔
پہلے اپنے نفس سے جہاد کر کے اسے احکام شریعت کے تابع بنا لیا جائے۔
اس کے بعد جہاد مع الکفار ہوگا۔
قیام لیلۃ القدر میں جہاد مع النفس تھا، اس مناسبت سے جہاد مع الکفار کا ذکر کیا ہے۔
2۔
مجاہد فی سبیل اللہ کے لیے اللہ تعالیٰ نے دو چیزوں کی ذمے داری لی ہے۔
اگر شہادت مل گئی تو سیدھا جنت میں جائے گا۔
اگر شہادت کا منصب نہ مل سکا تو اس کی دو صورتیں ہیں۔
(1)
غنیمت ملنے کی صورت میں دنیا کا متاع اور آخرت کا اجر ملے گا۔
(2)
اگر غنیمت نہ مل سکی تو اجر تام کے ساتھ واپس ہو گا۔
اجر اور غنیمت دونوں جمع ہو سکتے ہیں مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ مجاہد فی سبیل اللہ دونوں سے محروم رہے ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ کی روایت میں ہے کہ اگر مجاہد فی سبیل اللہ کو غنیمت ملی تو اسے دو ثلث اجر مل گیا۔
باقی ایک ثلث قیامت کے دن کے لیے محفوظ ہے۔
اگر غنیمت نہیں ملی تو پورا اجر محفوظ رہے گا۔
(سنن أبي داود، الجهاد، حدیث: 2497)
3۔
رمضان کے ابواب کے درمیان باب جہاد کو بیان کرنا اس طرف اشارہ ہے کہ جہاد اگر رمضان میں ہو تو ثواب میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہےاگر شہادت مل جائے تو ﴿نُورٌ عَلَى نُورٍ﴾ 4۔
اس سے معلوم ہوا کہ اعمال کو ایمان سے تعبیر کیا جا سکتا ہے اور اس میں کمی بیشی بھی ممکن ہے کیونکہ اللہ پر ایمان ہی جہاد کے لیے نکلنے کا باعث ہے، اس لیے یہ نکلنا دراصل ایمان باللہ ہی ہے کیونکہ سبب کا نام دینا عرب کے ہاں معروف ومتداول ہے۔
(شرح الکرماني: 158/1)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 36
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3123
3123. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص اللہ کے رستے میں جہاد کے لیے گھر سے نکلے اور اس کامقصد صرف جہاد اور اس کے کلمات کی تصدیق کرنا ہو، اللہ تعالیٰ اس شخص کے لیے اس امر کا ضامن ہے کہ اسے شہادت سے سرفراز فرما کر اسے جنت میں داخل کرے یا اس اجر و غنیمت دے کر واپس گھر لوٹائے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3123]
حدیث حاشیہ:
امام بخاری ؒنے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ مال غنیمت صرف جہاد کرنے والوں کے لیے ہے، نیز حقیقی مجاہد کی بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ جو صرف اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے گھر نکل کر میدان کار زار میں شریک ہو۔
اس کے برعکس کچھ ایسے مجاہدین بھی ہوتے ہیں جو حصول دنیا اور نمود ونمائش کے لے جہاد کرتے ہیں۔
ایسے مجاہدین کے لیے کوئی اجروثواب نہیں ہے بلکہ قیامت کے دن انھیں برسرعام ذلیل ورسوا کیا جائے گا پھر انھیں دوزخ میں دھکیل دیاجائے گا۔
ان سے کہا جائے گا:
تمہارا مقصد صرف اتنا تھا کہ تمھیں دنیا میں بہاد کہہ کرپکاراجائے۔
تمہارا یہ مقصد دنیا میں پورا ہوگیا اب آخرت میں تمہارے لیے دوزخ کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3123
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7457
7457. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ اس شخص کا ضامن ہے جو اللہ کی راہ میں جہاد کرے جبکہ اس کو اللہ کی راہ میں جہاد اور اس کے کلمات کی تصدیق نے نکالا ہو۔ (اللہ ضامن ہے کہ) وہ اسے جنت میں داخل کرے گا یا ثواب اور مال غنیمت کے ساتھ اسی گھر میں واپس لوٹائے گا جہاں سے وہ نکلا تھا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7457]
حدیث حاشیہ: 1۔
اللہ تعالیٰ کی ضمانت یہ ہے کہ شہادت کی صورت میں اسے جنت میں داخل کرے گا اور سلامتی سے واپسی کی صورت میں اجرو غنیمت دے کر واپس کرے گا۔
یہ اللہ تعالیٰ کا محض احسان و کرم ہے کہ مجاہد شہادت یا سلامتی سے خالی نہیں اگر شہید ہو گیا تو جنت کا حق دار اگر سلامتی سے واپس ہوا تو ثواب یا دونوں کا مستحق۔
بہر حال کسی صورت میں اللہ تعالیٰ کے اعزاز و احترام سے محروم نہیں ہو گا بشرطیکہ اس کے گھر سے نکلنے کا مقصد جہاد فی سبیل اللہ اور اللہ تعالیٰ کے کلمات کی تصدیق ہو۔
2۔
واضح رہے کہ جہاد کی تین قسمیں ہیں۔
کفار و مشرکین سے جہاد۔
شیطان سے جہاد۔
اپنے نفس سے جہاد۔
درج ذیل آیت کریمہ جہاد کی تینوں قسموں کو شامل ہے۔
”اور اللہ کی راہ میں)
جہاد کرو جیسا کہ جہاد کرنے کا حق ہے۔
“ (الحج: 22۔
78) اللہ تعالیٰ کے کلمات تصدیق سے مراد شرعی احکام پر ایمان لانا اور ان کے مطابق عمل کرنا ہے نیز تقدیر کے معاملات پر ایمان لانا بھی ضروری ہے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے انھی الفاظ سے اپنا مقصود ثابت کیا ہے کہ کلمات کونیہ قدریہ جن کا وجود کائنات کے وجود سے پہلے ہے اور کلمات قرآن کریم کے علاوہ ہیں اور اللہ تعالیٰ قرآن کے علاوہ بھی کلام کرتا ہے اور ان کلمات کا کائنات سے تعلق حادث ہوتا ہے۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7457
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7463
7463. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ اس شخص کا ضامن ہے جو اللہ کی راہ میں جہاد کرتا ہے۔ وہ شخص اپنے گھر میں سے اس لیے نکلتا ہے کہ خالص اللہ کے راستے میں جہاد کرے اور اس کے کلمہ توحید کی تصدیق کرے۔ ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ جنت میں داخل کرے گا یا ثواب و غنیمت کے ستاھ اس کو گھر واپس کرے گا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7463]
حدیث حاشیہ:
1۔
اس حدیث میں کلمے سے مراد کلمہ طیبہ ہے جس کی تصدیق کرنا ایمان کی اولین بنیاد ہے دل سے تصدیق کرنا زبان سے اقرارکرنا اور عمل سے اس کا ثبوت دینا انتہائی ضروری ہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے اللہ تعالیٰ کے لیے صفت کلام ثابت کی ہے اور بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کلمات غیر محدود اور غیر مخلوق ہیں۔
جس طرح اللہ تعالیٰ کی ذات کا کوئی احاطہ نہیں کر سکتا ایسے ہی اس کے کلمات اور اس کی صفات کا احاطہ کرنا بھی نا ممکن ہے۔
اس کے کلمات خواہ دینیہ شرعیہ ہوں یا کونیہ قدریہ ہوں دونوں قسمیں ہی اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں اور غیر مخلوق ہیں۔
2۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کائنات کی ہر چیز مخلوق ہے لیکن قرآن کریم مخلوق نہیں۔
اللہ کا کلام اس کی مخلوق سے کہیں بڑھ کر عظیم القدر ہے کیونکہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرے تو کلمہ کن کہنے سے چیز وجود میں آجاتی ہے جس چیز سے کوئی چیز وجود میں آئے وہ یقیناً بہت بڑی اور عظیم الشان ہو گی اور قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اس لیے وہ بھی غیر مخلوق ہے۔
(خلق أفعال العباد ص: 34)
بہر حال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مذکورہ آیات اور پیش کردہ احادیث سے ثابت کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کلمات غیر محدود اور لا متناہی ہیں۔
اور کلام الٰہی غیر مخلوق ہے کیونکہ ان کلمات سے مخلوق کو معرض دجود میں لایا جاتا ہے۔
اگر یہ بھی مخلوق ہوں تو مخلوق سے مخلوق کو پیدا کرنا لازم آتا ہے۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7463