مسند الحميدي
أَحَادِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
حدیث نمبر 1018
حدیث نمبر: 1018
1018 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ، قَالَ: ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلَانَ، عَنِ الْقَعْقَاعِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «إِنَّمَا أَنَا لَكُمْ مِثْلُ الْوَالِدِ أُعَلِّمُكُمْ، فَإِذَا ذَهَبَ أَحَدُكُمُ الْغَائِطَ، فَلَا يَسْتَقْبِلِ الْقِبْلَةَ، وَلَا يَسْتَدْبِرْهَا بِغَائِطٍ، وَلَا بَوْلٍ، وَأَمَرَ أَنْ نَسْتَنْجِيَ بِثلَاثَةِ أَحْجَارٍ، وَنَهَي عَنِ الرَّوَثِ وَالرِّمَّةِ، وَأَنْ يَسْتَنْجِيَ الرَّجُلُ بِيَمِينِهِ»
1018- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں: ”میں تمہارے لیے باپ کی طرح ہوں۔ میں تمہاری تعلیم وتربیت کرو ں گا، جب کوئی شخص قضائے حاجت کے لیے جائے، تو وہ پا خانہ کرتے ہوئے اور پیشاب کرتے ہوئے۔ قبلہ کی طرف رخ نہ کرے اور اس کی طرف پیٹھ نہ کرے“۔
راوی کہتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ہدایت کی کہ ہم تین پتھروں کے ذریعے استنجاء کریں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں مینگنی اور ہڈی سے استنجاء کرنے سے منع کیا۔ اور اس بات سے بھی منع کیا کہ آدمی اپنے دائیں ہاتھ سے استنجاء کرے۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن من أجل محمد بن عجلان، وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 265، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 80، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1431، 1435، 1440، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 40، وأبو داود فى «سننه» برقم: 8، والدارمي فى «مسنده» برقم: 701، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 312، 313، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 434، 435، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7485، 7527»
مسند الحمیدی کی حدیث نمبر 1018 کے فوائد و مسائل
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1018
فائدہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن وحدیث اپنی امت کو سکھانے میں بہت زیادہ محنت کی ہے، سبحان اللہ۔ اس قد رمحنت کی کہ اگر امت مسلمہ کے تمام اہل علم کی محنت کو جمع کر لیا جائے، تب بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محنت کے برابر نہیں ہو سکتی۔ اہل علم کو بھی بہت زیادہ محنت سے دینی کام کرنے چاہئیں۔
نیز اس حدیث میں قضائے حاجت کے آداب کا ذکر ہے صحراء میں بیت اللہ کی طرف چہرہ یا پیٹھ کرنا منع ہے لیکن باتھ روم یا چار دیواری کے اندر اس کی گنجائش ملتی ہے۔ [صحيح البخاري: 145 صحيح مسلم: 266]
استنجاء کم از کم تین ڈھیلوں سے کرنا چاہیے، گوبر (خواہ ماکول اللحم جانور کا ہو یا غیر ماکول اللحم کا) سے استنجاء نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ یہ جنوں کی خوراک ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1017
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 8
´قضائے حاجت کے وقت قبلہ کی طرف منہ کرنا مکروہ ہے`
«. . . قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّمَا أَنَا لَكُمْ بِمَنْزِلَةِ الْوَالِدِ، أُعَلِّمُكُمْ، فَإِذَا أَتَى أَحَدُكُمُ الْغَائِطَ، فَلا يَسْتَقْبِلِ الْقِبْلَةَ وَلا يَسْتَدْبِرْهَا وَلَا يَسْتَطِبْ بِيَمِينِهِ، وَكَانَ يَأْمُرُ بِثَلَاثَةِ أَحْجَارٍ وَيَنْهَى عَنِ الرَّوْثِ وَالرِّمَّةِ . . .»
”. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (لوگو!) میں تمہارے لیے والد کے درجے میں ہوں، تم کو (ہر چیز) سکھاتا ہوں، تو جب تم میں سے کوئی شخص قضائے حاجت (پیشاب و پاخانہ) کے لیے جائے تو قبلہ کی طرف منہ اور پیٹھ کر کے نہ بیٹھے، اور نہ (ہی) داہنے ہاتھ سے استنجاء کرے آپ صلی اللہ علیہ وسلم (استنجاء کے لیے) تین پتھر لینے کا حکم فرماتے، اور گوبر اور ہڈی کے استعمال سے روکتے تھے۔“ [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 8]
فوائد و مسائل
➊ بول و براز کے وقت عمداً قبلے کی طرف منہ یا پشت کرنا بالکل ناجائز ہے۔ چھوٹے بچے اگرچہ غیر مکلف ہوتے ہیں مگر والدین یا سرپرستوں کی ذمہ داری ہے کہ اس مسئلے کا خیال رکھا کریں۔
➋ استنجاء میں اگر تین ڈھیلے، اسی طرح، ٹشو پیپر استعمال کر لیے ہوں اور طہارت حاصل ہو گئی ہو تو ان کے بعد پانی استعمال نہ بھی کیا جائے تو طہارت ہر طرح سے کامل ہوتی ہے۔
➌ استنجاء کے لیے دائیں ہاتھ کا استعمال بھی جائز نہیں۔
➍ گوبر اور پلید چیزوں سے طہارت حاصل نہیں ہوتی۔
➎ ہڈی چونکہ جنوں کا طعام ہے اس لیے جائز نہیں۔ دیگر کھانے پینے کی چیزوں سے طہارت حاصل نہیں ہوتی۔
➏ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم امت کے لیے روحانی باپ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات روحانی ماؤں کا مرتبہ رکھتی ہیں۔ ديكهيے . [سورة الاحزاب، آيت:6 اور 40]
➐ باپ کے فرائض میں سے ہے کہ اپنی اولاد کو ان کی زندگی میں پیش آنے والے تمام مسائل بالخصوص دینی امور کی تعلیم دے حتیٰ کہ مخصوص مسائل بھی سمجھائے اور نوجوان اولاد کو آزاد منش لوگوں کا شکار نہ ہونے دے۔ اسی طرح ماؤں کے ذمے بھی ہے کہ اپنی بچیوں کو ان کی زندگی کے مخصوص لازمی مسائل سے بالضرور آگاہ کیا کریں۔
➑ احکام شریعت کو چھوٹے (صغیرہ) اور بڑے (کبیرہ) میں تقسیم کرنے یا ان کو ہلکا جاننے سے ہمیشہ گریز کرنا چاہیے۔ اللہ عزوجل کے تمام احکام اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام تعلیمات انتہائی عظیم اور ذی شرف ہیں۔ مسلمان کو ان کے اختیار کرنے یا ان کی دعوت دینے میں معذرت خواہانہ انداز سے بچ کر فخر و شرف اور شکر سے ان پر عمل کرنا چاہیے، ان کا اظہار کرنا چاہئیے اور ان کی طرف دعوت دینی چاہئیے جیسا کہ سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ نے کیا اور کہا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 8
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 155
´ہڈی اور گوبر سے استنجاءکرنا جائز نہیں`
«. . . عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: اتَّبَعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَخَرَجَ لِحَاجَتِهِ، فَكَانَ لَا يَلْتَفِتُ، فَدَنَوْتُ مِنْهُ، فَقَالَ: ابْغِنِي أَحْجَارًا أَسْتَنْفِضْ بِهَا أَوْ نَحْوَهُ، وَلَا تَأْتِنِي بِعَظْمٍ وَلَا رَوْثٍ، فَأَتَيْتُهُ بِأَحْجَارٍ بِطَرَفِ ثِيَابِي فَوَضَعْتُهَا إِلَى جَنْبِهِ وَأَعْرَضْتُ عَنْهُ، فَلَمَّا قَضَى أَتْبَعَهُ بِهِنَّ . . .»
”. . . وہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (ایک مرتبہ) رفع حاجت کے لیے تشریف لے گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم (چلتے وقت) ادھر ادھر نہیں دیکھا کرتے تھے۔ تو میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے پیچھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب پہنچ گیا۔ (مجھے دیکھ کر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے پتھر ڈھونڈ دو، تاکہ میں ان سے پاکی حاصل کروں، یا اسی جیسا (کوئی لفظ) فرمایا اور فرمایا کہ ہڈی اور گوبر نہ لانا۔ چنانچہ میں اپنے دامن میں پتھر (بھر کر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں رکھ دئیے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے ہٹ گیا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم (قضاء حاجت سے) فارغ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پتھروں سے استنجاء کیا۔ . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/بَابُ الاِسْتِنْجَاءِ بِالْحِجَارَةِ:: 155]
� تشریح:
ہڈی اور گوبر سے استنجاءکرنا جائز نہیں، گوبر اور ہڈی جنوں کی خوراک ہیں۔ جیسا کہ ابن مسعود کی روایت ہے کہ آپ نے فرمایا گوبر اور ہڈی سے استنجاء نہ کرو، یہ تمہارے بھائی جنوں کا توشہ ہیں۔ [رواه ابوداؤد والترمذي]
معلوم ہوا کہ ڈھیلوں سے بھی پاکی حاصل ہو جاتی ہے۔ مگر پانی سے مزید پاکی حاصل کرنا افضل ہے۔ [ديكهئے حديث: 152]
آپ کی عادت مبارکہ تھی کہ پانی سے استنجاءکرنے کے بعد آپ ہاتھوں کو مٹی سے رگڑ رگڑ کر دھویا کرتے تھے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 155
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 40
´گوبر سے استنجاء کرنے کی ممانعت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تمہارے لیے باپ کے منزلے میں ہوں (باپ کی طرح ہوں)، تمہیں سکھا رہا ہوں کہ جب تم میں سے کوئی پاخانہ جائے تو قبلہ کی طرف نہ منہ کرے، نہ پیٹھ، اور نہ داہنے ہاتھ سے استنجاء کرے“، آپ (استنجاء کے لیے) تین پتھروں کا حکم فرماتے، اور گوبر اور بوسیدہ ہڈی سے (استنجاء کرنے سے) آپ منع فرماتے ۱؎۔ [سنن نسائي/ذكر الفطرة/حدیث: 40]
40۔ اردو حاشیہ: مذکورہ روایت سے لید اور ہڈی سے صفائی کی ممانعت کے ساتھ ساتھ یہ بھی معلوم ہوا کہ اولاد پر والدین کی اطاعت واجب ہے اور والدین کا بھی یہ حق ہے کہ اپنی اولاد کو ادب سکھائیں اور دینی تعلیم سے بہرہ ور فرمائیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 40
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث313
´پتھر سے استنجاء کے جواز اور گوبر اور ہڈی سے ممانعت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تمہارے لیے ایسا ہی ہوں جیسے باپ اپنے بیٹے کے لیے، میں تمہیں تعلیم دیتا ہوں کہ جب تم قضائے حاجت کے لیے بیٹھو تو قبلے کی طرف منہ اور پیٹھ نہ کرو“، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین پتھروں سے استنجاء کرنے کا حکم دیا، اور گوبر اور ہڈی سے، اور دائیں ہاتھ سے استنجاء کرنے سے منع کیا“ ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 313]
اردو حاشہ:
(1)
شریعت کے تمام احکام اہم ہیں اس لیے جس طرح فرائض کا اہتمام کیا جاتا ہےآداب پر بھی عمل پیرا ہونا چاہئے۔
(2)
امام کو چاہیے کہ اپنے مقتدیوں کو ہر قسم کے مسائل سے آگاہ کرے البتہ موقع محل اور مناسب انداز کا خیال رکھنا چاہیے۔
(3)
پیشاب یا پاخانہ کے وقت کعبہ شریف کی طرف منہ کرکے یا پیٹھ کرکے بیٹھنا جائز نہیں۔
علمائے کرام نے اس حکم کو میدان اور کھلی جگہ کے لیے قراردیا ہے کیونکہ بیت الخلاء کے اندر کعبہ کی طرف پیٹھ کرکےبیٹھنا خود رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے۔ دیکھیے: (صحیح البخاری، الوضوء، باب التبرز فی البیوت، حدیث: 148 وصحیح مسلم، الطھارة، باب الاستطابۃ، حدیث: 266)
(4)
تین ڈھیلے استعمال کرنے کا حکم اس لیے دیا گیا ہے کہ صفائی اچھی طرح ہوجائے۔
اگر پانی سے صفائی کی جائے تو ڈھیلے استعمال کرنے کی ضرورت نہیں۔
لید اور ہڈی سے استنجاء منع ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اللہ تعالی نے ان چیزوں کو جنوں کے لیے خوراک بھی بنایا ہے۔
ارشاد نبوی ہے:
لید اور ہڈیوں کے ساتھ استنجاء نہ کروکیونکہ یہ جنوں میں سے تمھارے (مسلمان)
بھائیوں کی خوراک ہے (جامع الترمذي، الطهارة، باب ماجاء في كراهية ما يستنجي به، حديث: 18)
دوسری وجہ یہ ہے کہ لید گوبر خود ناپاک ہے لہذا اس سے طھارت حاصل نہیں ہوسکتی جیسے کہ آئندہ حدیث میں آرہا ہے-
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 313
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:155
155. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ایک دن نبی ﷺ قضائے حاجت کے لیے باہر گئے تو میں بھی آپ کے پیچھے ہو لیا۔ آپ (کی عادت مبارکہ تھی کہ چلتے وقت) دائیں بائیں نہ دیکھتے تھے۔ جب میں آپ کے قریب پہنچا تو آپؐ نے فرمایا: ”مجھے ڈھیلے تلاش کر دو، میں ان سے استنجا کروں گا۔۔ یا اس کی مثل کوئی اور لفظ استعمال فرمایا۔۔ لیکن ہڈی اور گوبر نہ لانا۔“ چنانچہ میں اپنے کپڑے کے کنارے میں کئی ڈھیلے لے کر آیا اور انہیں آپ کے پاس رکھ دیا اور خود ایک طرف ہٹ گیا۔ پھر جب آپ قضائے حاجت سے فارغ ہوئے تو ڈھیلوں سے استنجا فرمایا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:155]
حدیث حاشیہ:
1۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود ان لوگوں کی تردید کرنا ہے جوڈھیلوں سے استنجا کرنے کو ناجائز کہتے ہیں، یا پانی کی موجودگی میں ان کے استعمال کو ناروا خیال کرتے ہیں۔
اس سلسلے میں انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل پیش فرمایا ہے۔
آپ نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ہدایت فرمائی کہ ہڈی اور گوبر مت لانا۔
اس سے معلوم ہوا کہ ہڈی اورگوبر کے علاوہ ہر جذب کرنے والی چیز جو کسی جاندار کی غذا نہ ہو، استنجا میں استعمال کی جا سکتی ہے۔
مٹی کے ڈھیلوں میں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ ان میں رطوبت جذب ہوجاتی ہے۔
(فتح الباري: 335/1)
آج کل ٹشو پیپر صفائی کے لیے تیار کیے جاتے ہیں۔
یہ بھی جاذب ہونے کی وجہ سے اس مقصد کو پورا کرسکتے ہیں۔
2۔
ہڈی اور گوبر سے طہارت نہ کرنے کی دو وجہیں بیان ہوئی ہیں:
(الف)
۔
ان دونوں سے تطہیر نہیں ہوتی بعض روایات میں اس کی وضاحت ہے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ہڈی اور گوبر کی خصوصیت نہیں بلکہ ہر وہ چیز جو تطہیر کے قابل نہ ہو، استنجا کے لیے بے کار ہے۔
لید کی نجاست تو ظاہر ہے۔
اس سے طہارت حاصل نہیں ہوتی بلکہ رطوبت کے ملنے سے اس کی نجاست دوچند ہوجائے گی۔
ہڈی سے بھی تطہیر کا مقصد حاصل نہیں ہوتا کیونکہ اس میں جذب کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی بلکہ چکنی ہونے کی وجہ سے نجاست کا ازالہ نہیں کرسکتی۔
(ب)
۔
بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں جنات کی غذا ہیں۔
حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”میرے پاس جن آئےاور انھوں نے زاد سفر کی درخواست کی تو میں نے انھیں ہڈی اور گوبر کازاد دیا۔
وہ انھیں کھاتے نہیں بلکہ ان پر گوشت اور چارہ پیدا کر دیا جاتا ہے، یعنی ان کے ساتھ جنات کی غذا کا تعلق ہے۔
آپ نے اس لیے منع فرمایا تاکہ انھیں استنجا سے خراب نہ کیاجائے۔
(فتح الباري: 336/1)
بعض روایات میں ہے کہ جنات نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ آپ اپنی اُمت کو فرما دیں کہ وہ ہڈی، گوبر اور کوئلے سے استنجا نہ کیا کریں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان چیزوں میں ہمارے لیے غذا رکھی ہے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ استنجا میں مطعومات کا استعمال درست نہیں ہے اور یہ غذا کے احترام کی وجہ سے ہے لہٰذا ہر وہ چیز جو کسی بھی حیثیت سے قابل احترام ہو، استنجا میں استعمال نہیں ہوگی۔
الغرض ہر وہ غیر محترم پاک چیز جو نجاست کے ازالے کی صلاحیت رکھتی ہو، استنجا کے لیے استعمال ہوسکتی ہے اور جس چیز میں جذب کی صلاحیت نہ ہو خواہ وہ بے ضرر ہو اور قابل احترام بھی ہو، اسے استنجا کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا، جیسے شیشہ وغیرہ کیونکہ اس سے نجاست کا ازالہ نہیں ہوتا۔
(فتح الباري: 336/1)
4۔
خدام کی تین اقسام ہیں:
(الف)
۔
وہ خدام جو اپنے مخدومین کے رمز شناس ہوں اور ان کے کہنے کے بغیر ہی اپنے آقاؤں کی ضروریات کا خیال رکھتے ہوں۔
(ب)
۔
وہ خدام جب انھیں اپنے مخدوم کی خدمت کا کہا جائے تو اس کی بجا آوری کو اپنے لیے سعادت مندی خیال کرتے ہوں۔
(ج)
۔
وہ خدام جو کہنے کے باوجود اس کی بجا آوری میں سست روی کا مظاہرہ کریں۔
عام طور پر مساجد کے خدام اسی طرح کے ہوتے ہیں۔
بقول شخصے، زمین جنبد نہ جنبد گل محمد۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خدام آپ کی خدمت میں پیش پیش رہنے کو اپنی سعادت خیال کرتے تھے اور آپ کے سامان طہارت کو قبل از استعمال تیار رکھتے تھے تاکہ آپ کو کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 155