1010 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ، قَالَ: ثنا ابْنُ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «عُوذُوا بِاللَّهِ مِنْ عَذَابِ اللَّهِ، عُوذُوا بِاللَّهِ مِنْ فِتْنَةِ الْمَحْيَا وَالْمَمَاتِ، عُوذُوا بِاللَّهِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، عُوذُوا بِاللَّهِ مِنْ فِتْنَةِ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ» .
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1310
´ایک اور طرح کے تعوذ کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں دعا مانگتے: «اللہم إني أعوذ بك من عذاب القبر وأعوذ بك من فتنة المسيح الدجال وأعوذ بك من فتنة المحيا والممات اللہم إني أعوذ بك من المأثم والمغرم» ”اے اللہ! میں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں قبر کے عذاب سے، اور پناہ مانگتا ہوں مسیح دجال کے فتنہ سے، اور میں تیری پناہ چاہتا ہوں زندگی اور موت کے فتنہ سے، اے اللہ! میں تجھ سے گناہ اور قرض سے پناہ چاہتا ہوں“ تو کہنے والے نے آپ سے کہا: آپ قرض سے اتنا زیادہ کیوں پناہ مانگتے ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آدمی جب مقروض ہوتا ہے تو بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے، اور وعدہ کرتا ہے تو اس کے خلاف کرتا ہے۔“ [سنن نسائي/كتاب السهو/حدیث: 1310]
1310۔ اردو حاشیہ:
➊ ”مسیح دجال“ احادیث صحیحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت سے قبل ایک شخص دنیا پر غلبہ حال کر لے گا۔ وہ دنیوی طور پر ترقی یافتہ ہو گا اور لوگوں کو اپنے سائنسی و دیگر کمالات سے مرعوب کرے گا۔ دینی طور پر وہ رب ہونے کا دعویٰ کرے گا اور سب لوگوں کو اپنا کلمہ پڑھوانے کی کوشش کرے گا۔ سخت دغا باز اور دھوکے باز ہو گا۔ یہ دجال کے معنیٰ ہیں۔ مسیح اسے اس لیے کہا گیا ہے کہ وہ ممسوح العین (کانا) ہو گا۔ یہودی اسے اپنا نجات دہندہ قرار دیں گے۔ وہ اسی کے انتظار میں ہیں، ورنہ حقیقی مسیح تو کب کا آچکا جسے انہوں نے نہ مانا۔ اس جعلی مسیح کو مانیں گے جو ان میں سے ہو گا۔ دونوں آنکھوں سے عیب ناک ہو گا۔ یہودیوں نے حقیقی مسیح عیسیٰ علیہ السلام کو سولی دینے کی ناپاک جسارت کی تواللہ تعالیٰ نے انہیں یہودیوں کے شر سے بچانے کے لیے زندہ آسمان پر اٹھا لیا اور قیامت کے نزدیک اللہ تعالیٰ انہیں پھر زمین پر اتارے گا، وہ اس جعلی دھوکے باز مسیح کو قتل کر کے اس کی مسیحیت کا بھانڈا پھوڑ دیں گے اور دنیا کو اس کے ظلم و ستم سے نجات دلائیں گے۔ اس کے قتل سے یہودیت کا خاتمہ ہو جائے گا اور عیسائیت کو عیسیٰ علیہ السلام اپنی زبانی اور اپنے ہاتھوں سے ختم کر دیں گے۔ عیسائیت کے نشان صلیب اور خنزیر کا نام و نشان مٹائیں گے۔ خالص اسلام کا بول بالا ہو گا۔ ان شاء اللہ۔
➋ ”زندگی کا فتنہ“ یہ ہے کہ انسان زندگی میں رب تعالیٰ کا نافرمان رہے۔ دین حق سے برگشتہ رہے۔ زندگی کی خوش نمائیوں میں کھو کر حق تعالیٰ سے غافل رہے۔ اور ”موت کا فتنہ“ یہ ہے کہ مرتے وقت شیطان گمراہ کر دے۔ کلمۂ توحید نصیب نہ ہو۔ بری حالت پر موت آئے۔ العیاذ باللہ۔ ممکن ہے اس عذاب قبر، یعنی سوال و جواب میں ناکامی مراد ہو۔ يا مُقَلِّبَ القلوبِ ثَبِّتْ قلوبَنا على دينِكَ۔
➌ اپنے وسائل سے بڑھ کر قرض اٹھانا کہ بعد میں اس ادا نہ کیا جا سکے، درست نہیں ہے۔
➍ وعدہ خلافی کرنا اور جھوٹ بولنا حرام ہے۔
➎ مذکورہ اشیاء سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے رہنا چاہیے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1310
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1311
´ایک اور طرح کے تعوذ کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی تشہد پڑھے، تو وہ چار چیزوں سے اللہ کی پناہ چاہے: جہنم کے عذاب سے، قبر کے عذاب سے، زندگی اور موت کے فتنے سے، اور مسیح دجال کے شر سے، پھر وہ اپنے لیے جو جی چاہے دعا کرے۔“ [سنن نسائي/كتاب السهو/حدیث: 1311]
1311۔ اردو حاشیہ: بعض حضرات نے ظاہر الفاظ سے استدلال کرتے ہوئے اس تعوذ کو واجب قرار دیا ہے، ابن حزم اور امام طاوس رحمہما اللہ کا یہی موقف ہے۔ شیخ البانی رحمہ اللہ بھی اس کے قائل ہیں۔ دیکھیے: [اصل صفة الصلاة: 998/3، 999] جبکہ جمہور اہل علم کی دلیل وہ احادیث ہیں جن میں ہے کہ آپ نے اس کے بغیر نماز پڑھی یا سکھلائی ہے یا اسے کامل قرار دیا ہے۔ اس ایک روایت کے ایسے معنیٰ مراد نہیں لیے جا سکتے جو باقی تمام احادیث کے خلاف ہوں، لہٰذا جمہور اہل علم کے نزدیک اس دعا کا پڑھنا مستحب ہے۔ اس قسم کے (امر و حکم کے) الفاظ استحباب و تاکید کے لیے بھی آجایا کرتے ہیں۔ باقی احادیث کے پیش نظر یہاں یہی معنیٰ مراد ہیں۔ واللہ أعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1311
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2062
´عذاب قبر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دعا کرتے تھے: «اللہم إني أعوذ بك من عذاب القبر وأعوذ بك من عذاب النار وأعوذ بك من فتنة المحيا والممات وأعوذ بك من فتنة المسيح الدجال» ”اے اللہ! میں عذاب قبر سے تیری پناہ مانگتا ہوں، جہنم کے عذاب سے تیری پناہ مانگتا ہوں، زندگی اور موت کی آزمائش سے تیری پناہ مانگتا ہوں، اور مسیح دجال کی آزمائش سے (بھی) تیری پناہ مانگتا ہوں۔“ [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 2062]
اردو حاشہ:
(1) ”موت کے فتنے“ سے مراد ممکن ہے موت کے وقت شیطان کے بہکاوے میں آنا ہو یا قبر میں سوال و جواب کے وقت صحیح جواب نہ سوجھنا ہو۔
(2) اس روایت میں عذاب قبر سے مراد دوسرے معنیٰ ہیں۔ (دیکھیے، حدیث: 2058)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2062
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5513
´زندگی کے فتنے سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پانچ چیزوں سے اللہ کی پناہ طلب کرو، جہنم کے عذاب سے، قبر کے عذاب سے، موت اور زندگی کے فتنے سے اور مسیح دجال (کانا دجال) کے فتنے سے۔“ [سنن نسائي/كتاب الاستعاذة/حدیث: 5513]
اردو حاشہ:
زندگی اورموت کافتنہ گنتی میں دوہیں۔ تبھی پانچ چیزیں بنیں گی یعنی زندگی کافتنہ اورموت کافتنہ۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5513
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5517
´قبر کے فتنے سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دعا میں کہتے ہوئے سنا: «اللہم إني أعوذ بك من فتنة القبر وفتنة الدجال وفتنة المحيا والممات» ”اے اللہ! میں قبر کے فتنے سے، دجال کے فتنے سے اور موت اور زندگی کے فتنے سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔“ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: حدیث میں (سلیمان بن یسار کے نام میں) غلطی ہے، صحیح ”سلیمان بن سنان ہے۔“ [سنن نسائي/كتاب الاستعاذة/حدیث: 5517]
اردو حاشہ:
عذاب قبر اورقبر کی آزمائش الگ الگ ہوں توقبر کی آزمائش سے مراد فرشتوں کےسوالات ہوں گے اورعذاب قبرسے مراد وہ سزا ہے جوکافر منافق اورنافرمان کوسوالات کے بعد قبر میں دی جاتی ہے۔ أعاذنا اللہ منه۔ فرشتوں کے سوالات سے پںاہ کا مطلب ہے کہ میں ان کے صحیح جواب دے سکوں اوراس آزمائش میں کامیاب ہو جاؤں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5517
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5519
´جہنم کے عذاب سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جہنم کے عذاب سے، قبر کے عذاب سے اور مسیح دجال (کانا دجال) سے پناہ مانگتے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب الاستعاذة/حدیث: 5519]
اردو حاشہ:
مسیح دجال کے شر سے مراد اس کی پیروی سے انکار پرملنے والی سزا ہے یا اس کی پیروی کرنے پرملنے والی سزا۔ پہلی سزا دجال کی طرف سے ہوگی دوسری اللہ تعالی کی طرف سے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5519
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5520
´(جہنم کی) آگ کے عذاب سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(جہنم کی) آگ کے عذاب، قبر کے عذاب، موت اور زندگی کے فتنے اور مسیح دجال (کانا دجال) کے شر سے اللہ کی پناہ مانگو۔“ [سنن نسائي/كتاب الاستعاذة/حدیث: 5520]
اردو حاشہ:
اصل تویہی ہے کہ آگ کےعذاب سے مراد جہنم کاعذاب ہے کیونکہ جہنم میں سب بڑا ذریعہ عذاب آگ ہے لیکن ظاہر الفاظ کے لحاظ سے دنیا میں آگ سے جل مرنے کوبھی آگ کا عذاب کہا جا سکتا ہے۔ واللہ أعلم۔ آئندہ باب اورحدیث میں بھی یہ احتمال ہوسکتا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5520
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5523
´جہنم کی آگ کی گرمی سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنے کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا: ”جس نے تین بار اللہ تعالیٰ سے جنت مانگی تو جنت کہے گی: اے اللہ! اسے جنت میں داخل کر دے اور جس نے تین بار جہنم سے پناہ مانگی تو جہنم کہے گی: اے اللہ! اسے جہنم سے بچا لے۔“ [سنن نسائي/كتاب الاستعاذة/حدیث: 5523]
اردو حاشہ:
جنت جہنم اورآگ وغیرہ اللہ تعالی کی مخلوق ہیں۔ وہ اللہ تعالی سے باتیں کرتی ہیں۔ اللہ تعالی ان سے باتیں فرماتا ہے۔ اس پر کسی کوکوئی اعتراض نہیں ہونا چاہییے اورنہ کوئی تکلیف۔ ارشاد باری تعالی ہے: ﴿وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ﴾ (بني إسرائیل: 44:17) یہاں حال و قال کی بحث کی ضرورت نہیں۔ یہ خالق ومخلوق کامعاملہ ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5523
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 250
´نماز کی صفت کا بیان`
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” جب تم میں سے کوئی تشہد پڑھ چکے تو چار چیزوں سے اللہ کی پناہ طلب کرے۔“ «اللهم إني أعوذ بك من عذاب جهنم ومن عذاب القبر ومن فتنة المحيا والممات ومن فتنة المسيح الدجال» ” اے اللہ! میں تجھ سے عذاب جہنم سے پناہ مانگتا ہوں اور عذاب قبر سے پناہ طلب کرتا ہوں اور موت و حیات کے فتنہ سے تیری پناہ کا طلبگار ہوں اور مسیح دجال کے فتنہ کے شر سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔“ (بخاری و مسلم) اور مسلم میں ایک روایت کے یہ الفاظ بھی ہیں۔ ” جب تم سے کوئی آخری تشہد سے فارغ ہو۔ تو اس وقت ان چار چیزوں سے اللہ کی پناہ طلب کرے۔“ «بلوغ المرام/حدیث: 250»
تخریج: «أخرجه البخاري، الجنائز، باب التعوذ من عذاب القبر، حديث:1377، ومسلم، المساجد، باب ما يستعاذ منه في الصلاة، حديث:588.»
تشریح:
1. تشہد میں درود و سلام کے بعد اس استعاذہ کو ابن حزم نے واجب قرار دیا ہے۔
تابعین میں امام طاؤس رحمہ اللہ کا بھی یہی موقف تھا بلکہ حافظ ابن حزم رحمہ اللہ تو دونوں تشہدوں میں استعاذہ واجب سمجھتے ہیں۔
ان کے علاوہ باقی علماء اسے آخری تشہد میں درود کے بعد پڑھنے کو مستحب ہی کہتے ہیں۔
2. اس حدیث سے عذاب قبر کا ثبوت بھی ملتا ہے۔
3. اہل سنت کے نزدیک عذاب قبر برحق ہے اور قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔
اس کا انکار نص قرآن اور حدیث صحیح کا انکار ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 250
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 254
´نماز کی صفت کا بیان`
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر نماز کے آخر میں یہ تعوذ پڑھا کرتے تھے «اللهم إني أعوذ بك من البخل وأعوذ بك من الجبن وأعوذ بك من أن أرد إلى أرذل العمر وأعوذ بك من فتنة الدنيا وأعوذ بك من عذاب القبر» ” اے اللہ! میں تیری پناہ لیتا ہوں بخل سے اور بزدلی سے اور تیری پناہ لیتا ہوں اس سے کہ میں رذیل ترین عمر کی طرف لوٹایا جاؤں اور میں دنیا کے فتنہ اور عذاب قبر سے تیری پناہ لیتا ہوں۔“ (بخاری) «بلوغ المرام/حدیث: 254»
تخریج: «أخرجه البخاري، الجنائز، باب التعوذ من عذاب القبر، حديث:1377.»
تشریح:
1. حدیث کے الفاظ سے مترشح ہوتا ہے کہ یہ تعوذ اختتام نماز‘ یعنی سلام پھیرنے سے پہلے بھی پڑھا جاسکتا ہے اور سلام پھیرنے کے بعد بھی۔
2. نہایت پر مغز دعا ہے۔
اس کا التزام کرنا چاہیے۔
راویٔ حدیث: «حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ» ابواسحٰق ان کی کنیت ہے۔
باپ کا نام مالک ہے۔
قبیلہ ٔ قریش سے تعلق رکھنے کی بنا پر قرشی کہلائے۔
اور ان کی نسبت زہری بھی ہے۔
اسلام قبول کرنے والوں میں پانچواں نمبر ہے یا ساتواں۔
عشرۂ مبشرہ میں سے ہیں۔
(جنھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی ہی میں جنت کی خوشخبری و بشارت دے دی تھی۔
) اللہ کی راہ میں تیر اندازی کرنے والے یہ پہلے شخص ہیں‘ یعنی سب سے پہلے اللہ کی راہ میں انھوں نے تیر چلایا۔
تمام غزوات میں شریک رہے۔
فاتح عراق ہیں۔
مستجاب الدعوات تھے۔
پست قد مگر گٹھا ہوا بدن‘ گندمی رنگ‘گھنے اور لمبے بالوں والے تھے۔
۵۵ ہجری میں مدینہ سے دس میل دور واقع مقام عقیق میں وفات پائی۔
وہاں سے ان کی میت کندھوں پر اٹھا کر مدینہ طیبہ لائی گئی اور جنت البقیع میں دفن کیے گئے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 254