Note: Copy Text and to word file

مسند الحميدي
حَدِيثُ بُرَيْدَةَ الْأَسْلَمِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
سیدنا بریدہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
حدیث نمبر 931
حدیث نمبر: 931
931 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ، قَالَ: ثنا مُعْتِبٌ التَّمِيمِيُّ وَكَانَ ثِقَةً خِيَارًا، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" حُرْمَةُ نِسَاءِ الْمُجَاهِدِينَ عَلَي الْقَاعِدِينَ فِي الْحُرْمَةِ كَأُمَّهَاتِهِمْ، وَمَا مِنْ رَجُلٍ مِنَ الْقَاعِدِينَ يَخْلُفُ رَجُلًا مِنَ الْمُهَاجِرِينَ الْمُجَاهِدِينَ فِي أَهْلِهِ، فَيْخَبِّبُ فِي أَهْلِهِ إِلَّا نُصِبَ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَيُقَالُ لَهُ: يَا فُلَانُ هَذَا فُلَانُ بْنُ فُلَانٍ خَانَكَ، فَخُذْ مِنْ حَسَنَاتِهِ مَا شِئْتَ"، ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: «فَمَا ظَنُّكُمْ؟»
931-سلیمان بن بریدہ اپنے والد کے حوالے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں: مجاہدین کی بیویاں پیچھے رہ جانے والوں کے لیے اپنی ماؤں کی طرح قابل احترام ہیں اور پیچھے رہ جانے والوں میں سے جو شخص کسی مجاہد کی بیوی کے حوالے سے خیانت کامرتکب ہوگا، تو قیامت کے دن اسے اس مجاہد کے سامنے کھڑا کردیا جائے گا اور اس مجاہد سے کہا جائے گا: اے فلاں! اس فلاں بن فلاں نے تمہارے ساتھ خیانت کی تھی، تو تم اس کی نیکیوں میں سے جس قدر چاہو حاصل کرلو۔ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہماری طرف متوجہ ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تمہارا کیا گمان ہے؟


تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 1897، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4634، 4635، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3189، 3190، 4385، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2496، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 18652، 18653، وأحمد فى «مسنده» برقم: 23443»
مسند الحمیدی کی حدیث نمبر 931 کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:931  
فائدہ:
اس حدیث میں مجاہدین کی فضیلت بیان کی گئی ہے، گھروں میں رہنے والی ان کی عورتوں کو ماں حیسا درجہ دیا گیا ہے، جب مجاہد جہاد کے لیے جاتا ہے یا دین کے کسی بھی شعبے میں دین کی خدمت کی غرض سے جا تا ہے تو اس کے اہل خانہ خواتین کا بہت زیادہ احترام کرنا چاہیے، نہ کہ ان کو تنہا پا کر ان کی عزتوں کے درپے ہونا چاہیے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 930   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3193  
´غازی کی بیوی کے ساتھ خیانت کرنے والے کا بیان۔`
بریدہ رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجاہدین کی بیویوں کی حرمت گھر پر بیٹھ رہنے والوں پر ویسی ہی ہے جیسی ان کی ماؤں کی حرمت ان پر ہے، اگر گھر پر بیٹھ رہنے والے کسی شخص کو کسی مجاہد نے اپنی غیر موجودگی میں اپنی بیوی بچوں کی دیکھ بھال سونپ دی، (اور اس نے اس کے ساتھ خیانت کی) تو قیامت کے دن اسے کھڑا کیا جائے گا اور پکار کر کہا جائے گا: اے فلاں! یہ فلاں ہے (تمہارا مجرم آؤ اور) اس کی نیکیوں میں سے جت۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الجهاد/حدیث: 3193]
اردو حاشہ:
1) خیانت کا مفہوم بہت وسیع ہے۔ ان سے بدسلوکی کرنا یا انہیں دھوکا دینا اس کی بیوی کی ورغلا کر اپنے پیچھے لگالینا وغیرہ۔ یہ سب کچھ اس میں داخل ہے۔ (2) چھوڑدے گا جب ہر شخص کو نیکی کی اشد ضرورت ہوگی اور ایک ایک نیکی قیمتی ہوگی تو ناممکن ہے کہ کوئی شخص نیکی لینے میںسستی کرے خصوصاً جب کہ اسے کھلی چھٹی ہو۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3193   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2496  
´جہاد میں حصہ نہ لینے والے لوگوں پر مجاہدین کی بیویوں کی حرمت کا بیان۔`
بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجاہدین کی بیویوں کی حرمت جہاد سے بیٹھے رہنے والے لوگوں پر ایسی ہے جیسے ان کی ماؤں کی حرمت ہے، اور جو خانہ نشین مرد مجاہدین کے گھربار کی خدمت میں رہے، پھر ان کے اہل میں خیانت کرے تو قیامت کے دن ایسا شخص کھڑا کیا جائے گا اور مجاہد سے کہا جائے گا: اس شخص نے تیرے اہل و عیال میں تیری خیانت کی اب تو اس کی جتنی نیکیاں چاہے لے لے، اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: پھر تم کیا سمجھتے ہو ۱؎؟ ابوداؤد کہتے ہیں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2496]
فوائد ومسائل:
مجاہدین جو جہاد وقتال میں مشغول ومصروف ہوں۔
ان کے اہل وعیال کی جان مال اور آبرو کی حفاظت اور ان کی خدمت کرنا انتہائی اجر وثواب کا کام ہے۔
اور ان میں خیانت وخباثت کا مظاہرہ ایسے ہے، جیسے کوئی اپنی ماں کے ساتھ یہ معاملہ کرے۔
اور اسی پر ان لوگوں کو قیاس کیا گیا ہے۔
جو دین اسلام کی دیگر فکری حدود مثلا تعلیم وتعلم کے سلسلے میں اپنے گھروں سے غائب ہوں۔
تو ان کے اقرباء اور دیگر افراد معاشرہ پر لازم ہے۔
کہ ان کے اہل وعیال کے تحفظ وحرمت کا پوری طرح خیال ر کھیں، جیسے کہ اپنی مائوں کا تحفظ کرتے ہیں۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2496