Note: Copy Text and Paste to word file

صحيح مسلم
كِتَاب الطَّهَارَةِ
طہارت کے احکام و مسائل
24. باب التَّوْقِيتِ فِي الْمَسْحِ عَلَى الْخُفَّيْنِ:
باب: موزوں پر مسح کرنے کی مدت۔
حدیث نمبر: 639
وحَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا الثَّوْرِيُّ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ قَيْسٍ الْمُلَائِيِّ ، عَنِ الْحَكَمِ بْنِ عُتَيْبَةَ ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُخَيْمِرَةَ ، عَنْ شُرَيْحِ بْنِ هَانِئٍ ، قَالَ: أَتَيْتُ عَائِشَةَ، أَسْأَلُهَا عَنِ الْمَسْحِ عَلَى الْخُفَّيْنِ؟ فَقَالَتْ: عَلَيْكَ بِابْنِ أَبِي طَالِبٍ ، فَسَلْهُ، فَإِنَّهُ كَانَ يُسَافِرُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلْنَاهُ، فَقَالَ: جَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ وَلَيَالِيَهُنَّ لِلْمُسَافِرِ، وَيَوْمًا وَلَيْلَةً لِلْمُقِيمِ "، قَالَ: وَكَانَ سُفْيَانُ إِذَا ذَكَرَ عَمْرًا أَثْنَى عَلَيْهِ.
عبد الرزاق نے کہا: ہمیں سفیان ثوری نے عمرو بن قیس ملائی سے حدیث سنای، انہوں نےحکم بن عتیبہ سے، انہوں نے قاسم بن مخیمرہ سے، انہوں نے شریح بن ہانی سےروایت کی، انہوں نے کہا: میں حضرت عائشہ ؓ کے پاس موزوں پر مسح کے بارے میں پوچھنے کی غرض سے حاضر ہوا تو انہوں نے کہا: ابن ابی طالب کے پاس جاؤ اور ان سے پوچھو کیونکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر کیا کرتے تھے۔ ہم نے ان سے پوچھا تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسافر کے لیے تین دن اور تین راتیں اور مقیم کے لیے ایک دن اور ایک رات (کا وقت) مقرر فرمایا۔ (عبدالر زاق نے) کہا: سفیان (ثوری) جب بھی عمرو (بن قیس ملائی) کا تذکرہ کرتے تو ان کی تعریف کرتے۔
شریح بن ہانی  بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت عائشہ ؓ کے پاس موزوں پر مسح کے بارے میں پوچھنے کی خاطر حاضر ہوا، تو انہوں نے کہا: علی بن ابی طالب ؓ کے پاس جاؤ! اور ان سے پوچھو، کیونکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر کیا کرتے تھے۔ ہم نے ان سے پوچھا، تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسافر کے لیے تین دن رات اور مقیم کے لیے ایک دن رات مقرر فرمایا۔ عبدالرزاق کہتے ہی: سفیان (ثوری) جب عمرو کا تذکرہ کرتے تو ان کی تعریف کرتے۔
صحیح مسلم کی حدیث نمبر 639 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 639  
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حضرت عائشہ ؓ حضرت علی ؓ کا نام لینے یا ان کا ذکر خیر کرنے میں کوئی انقباض محسوس نہیں کرتی تھیں،
اس لیے نبی اکرم ﷺ کی مرض الموت میں جو دو آدمی آپ کو مسجد میں سہارا د ے کر لے گئے،
ان میں سے ایک کا نام لینا اوردوسرے کا نام نہ لینا اس بناء پر نہیں تھا کہ آپ اس کا نام لینا پسند نہیں کرتی تھیں۔
آگے صراحتاً حضرت علی ؓ کا نام آرہا ہے۔
(2)
اس حدیث سے ثابت ہوا مدت مسح (موزوں پر)
مسافر کے لیے تین دن اور تین رات ہے،
اور مقیم کے لیے ایک دن اور ایک رات ہے،
ہاں غسل کی صورت میں موزے اتارنے ہوں گے۔
اس لیے امام مالک  کی طرف منسوب قول:
کہ مسح کے لیے کوئی مدت مقررنہیں درست نہیں ہے۔
(3)
جب کسی عالم سے کوئی مسئلہ پوچھاجائے اور اس سے بہتر بتانے والا موجود ہو تو اسے سائل کو اس سے پوچھنےکے لیے کہنا چاہیے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 639   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 129  
´مقیم کے لیے موزوں پر مسح کے بارے میں وقت کی تحدید کا بیان۔`
شریح بن ہانی کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے موزوں پر مسح کے متعلق دریافت کیا، تو انہوں نے کہا: علی رضی اللہ عنہ سے جا کر پوچھو، وہ اس بارے میں مجھ سے زیادہ جانتے ہیں، چنانچہ میں علی رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور ان سے مسح کے متعلق دریافت کیا؟ تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں حکم دیتے تھے کہ مقیم ایک دن ایک رات، اور مسافر تین دن اور تین راتیں مسح کرے ۱؎۔ [سنن نسائي/صفة الوضوء/حدیث: 129]
129۔ اردو حاشیہ:
➊ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے خود جواب دینے کی بجائے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف رہنمائی فرمائی کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمومی مسح گھر سے باہر ہی تھا، اس لیے حضرت عائشہ کو مسح کے مسائل سے متعلق پوری معلومات شاید نہ ہوں۔
➋ مقیم سے مراد وہ شخص ہے جو اپنے گھر میں ٹھہرا ہوا ہو یا سفر کے دوران میں کسی جگہ اقامت کی نیت سے رہائش اختیار کر لے۔
➌ جس مسئلے کا علم نہ ہو، اس کے متعلق اہل علم سے پوچھ لینا چاہیے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 129   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث552  
´مقیم اور مسافر کے لیے مسح کی مدت کا بیان۔`
شریح بن ہانی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے موزوں پر مسح کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا: علی رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤ، اور ان سے پوچھو، اس لیے کہ وہ اس مسئلہ کو مجھ سے زیادہ بہتر جانتے ہیں، چنانچہ میں علی رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور ان سے مسح کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم کو حکم دیتے تھے کہ مقیم ایک دن اور ایک رات، اور مسافر تین دن تک مسح کرے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 552]
اردو حاشہ:
(1)
  اس سے معلوم ہوا کہ موزوں پر مسح کی مدت مقرر ہے اور یہ مدت مسافر کے لیے مقیم سے زیادہ ہے۔

(2)
اگر مسافر موزے نہ اتارے تو تین دن رات اور مقیم ایک دن رات تک وضو میں پاؤں دھونے کے بجائے صرف مسح پر اکتفاء کرسکتا ہے۔
موزے اتارنے کی صورت میں پاؤں دھونا ضروری ہیں۔

(3)
مسح کی ابتداء حدث کے بعد پہلے مسح شمار کی جائے گی۔

(4)
سائل کو اپنے بڑے عالم کے پاس جانے کو کہنا علم چھپانے میں شامل نہیں بلکہ حقیقت کا اظہار اور دوسرے کے علم وفضل کا اعتراف ہے جس سے تواضع کا اظہار ہوتا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 552   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:46  
46- شریح بن ہانی بیان کرتے ہیں: میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے موزوں پر مسح کرنے کے بارے میں دریافت کیا، تو انہوں نے فرمایا: تم سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے پاس جاکر ان سے یہ سوال کرو، کیونکہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنگوں میں شریک ہوتے رہے۔ راوی کہتے ہیں: میں نھے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے یہ سوال کیا، تو انہوں نے ارشاد فرمایا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یہ ارشاد فرماتے تھے۔ مقیم کے لئے اس کی مدت ایک دن اور ایک رات، جبکہ مسافر کے لئے تین دن اور تین راتیں ہیں۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:46]
فائدہ:
اس حدیث میں موزوں اور جرابوں پر مسح کی مدت بیان ہوئی ہے کہ مقیم کے لیے ایک دن اور ایک رات اور مسافر کے لیے تین دن اور تین راتیں ہیں، یعنی اتنی مدت مسح کیا جا سکتا ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ سائل کو اپنے سے بڑے عالم کے پاس جانے کو کہنا علم چھپانا نہیں ہے، بلکہ اہل علم کی قدر اور شریعت کے امور میں غلطی سے بچنے کا باعث ہے، اور اس سے تواضع کا اظہار ہوتا ہے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 46