Note: Copy Text and Paste to word file

مسند الحميدي
حَدِيثُ سَعْدَةَ بْنِ مُحَيِّصَةَ بْنِ مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
یدنا سعد بن محیصہ رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
حدیث نمبر 902
حدیث نمبر: 902
902 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ، قَالَ: ثنا الزُّهْرِيُّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي حَرَامُ بْنُ سَعْدٍ، قَالَ سُفْيَانُ: هَذَا الَّذِي لَا شَكَّ فِيهِ، وَأَرَاهُ قَدْ ذَكَرَ عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ مُحَيِّصَةَ، سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ كَسْبِ حَجَّامٍ لَهُ، «فَنَهَاهُ عَنْهُ» ، فَلَمْ يَزَلْ يُكَلِّمُهُ حَتَّي قَالَ لَهُ: «اعْلِفْهُ نَاضِحَكَ، أَوْ أَطْعِمْهُ رَقِيقَكَ»
902- سیدنا سعد بن محیصہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: سیدنا محیصہ رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے غلام کی آمد ن کے بارے میں دریافت کیا جو پچھنے لگانے کاکام کرتا تھا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس سے منع کر دیا وہ اس بارے میں مسلسل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کرتے رہے یہاں تک کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ تم اس (معاوضے کے ذریعے) اپنے اونٹ کو چار ہ کھلاؤ یا اپنے غلام کو کھانا کھلاؤ (خوداستعمال نہ کرنا)۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه ابن حبان فى ”صحيحه“: 5154 وأبو داود فى «سننه» برقم: 3422، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1277، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2166، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 19564، 19565، 19566، وأحمد فى «مسنده» برقم: 24179، 24180»
مسند الحمیدی کی حدیث نمبر 902 کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:902  
فائدہ:

① سینگی لگانا ایک طریق علاج جس میں خاص طریقے سے جسم سے خون نکالا جاتا ہے۔ اسے پچھنے لگانا بھی کہتے ہیں۔
② سینگی لگانے کی اجرت حرام نہیں ورنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا ابوطیبہ ﷜کو سینگی لگانے کی اجرت نہ دیتے۔
البتہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منع فرمانے کی وجہ سے اسے ضرورت کے بغیر لینا جائز نہیں، تاہم ضرورت کی بنا پر اس کی اجرت دی اور لی جا سکتی ہے۔ اونٹوں کو کھلانے کا حکم دینے سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ اجرت حرام نہیں بلکہ ضرورت کے بغیر لینا مکروہ ہے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 901   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2166  
´حجام (پچھنا لگانے والے) کی کمائی کا بیان۔`
محیصہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے حجام (پچھنا لگانے والے) کی کمائی کے متعلق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اس سے منع فرمایا، انہوں نے اس کی ضرورت بیان کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے پانی لانے والے اونٹوں کو اسے کھلا دو ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2166]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  سینگی لگانا ایک طریقہ علاج ہے جس میں خاص طریقے سے جسم سے خون نکالا جاتا ہے۔
اسے پچھنے لگانا بھی کہتے ہیں۔

(2)
  سینگی لگانے کی اجرت حرام نہیں ورنہ رسول اللہﷺ حضرت ابو طیبہ ؓ کو سینگی لگانے کی اجرت نہ دیتے البتہ نبیﷺ کے منع فرمانے کی وجہ سے اسے ضرورت کے بغیر لینا جائز نہیں، تاہم ضرورت کی بنا پر اس کی اجرت دی اور لی جاسکتی ہے۔
اونٹوں کو کھلانے کا حکم دینے سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ اجرت حرام نہیں بلکہ ضرورت کے بغیر لینا مکروہ ہے۔

(3)
  حضرت حرام بن محیصہ ؓ کا پورا نام حرام بن سعد بن محیصہ بن مسعود انصاری ہے۔
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ ان کی بابت بیان کرتے ہیں کہ بعض اوقات انہیں اپنے دادا کی طرف منسوب کر دیا جتا ہے، یعنی حرام بن سعد بن محیصہ کے بجائے حرام بن محیصہ کہہ دیا جتا ہے جبکہ ان کے والد محیصہ نہیں بلکہ سعد ہیں۔ دیکھیے: (تقريب التهذيب، ترجمة حرام بن سعد: 1173)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2166   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1277  
´پچھنا لگانے والے کی کمائی کا بیان۔`
محیصہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پچھنا لگانے والے کی اجرت کی اجازت طلب کی، تو آپ نے انہیں اس سے منع فرمایا ۱؎ لیکن وہ باربار آپ سے پوچھتے اور اجازت طلب کرتے رہے یہاں تک کہ آپ نے فرمایا: اسے اپنے اونٹ کے چارہ پر خرچ کرو یا اپنے غلام کو کھلا دو۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب البيوع/حدیث: 1277]
اردو حاشہ: 1؎:
یہ ممانعت اس وجہ سے تھی کہ یہ ایک گھٹیااورغیرشریفانہ عمل ہے،
جہاں تک اس کے جوازکا معاملہ ہے تو آپﷺ نے خود ابوطیبہ کو پچھنا لگانے کی اجرت دی ہے جیساکہ کہ اگلی روایت سے واضح ہے،
جمہوراسی کے قائل ہیں اورممانعت والی روایت کو نہیں تنزیہی پر محمول کرتے ہیں یا کہتے ہیں کہ وہ منسوخ ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1277