مسند الحميدي
حَدِيثُ قَيْسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
سیدنا قیس رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
حدیث نمبر 892
حدیث نمبر: 892
892 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ، قَالَ: ثنا سَعْدُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ قَيْسٍ الْأَنْصَارِيُّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْحَارِثِ التَّيْمِيُّ، عَنْ قَيْسٍ جَدِّ سَعْدٍ، قَالَ: أَبْصَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا أُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ بَعْدَ الصُّبْحِ، فَقَالَ: «مَا هَاتَانِ الرَّكْعَتَانِ يَا قَيْسُ؟» ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي لَمْ أَكُنْ صَلَّيْتُ رَكْعَتَيِ الْفَجْرِ فَهُمَا هَاتَانِ الرَّكْعَتَانِ، «فَسَكَتْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ» قَالَ سُفْيَانُ: وَكَانَ عَطَاءُ بْنُ أَبِي رَبَاحٍ، يَرْوِي هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ سَعْدِ بْنِ سَعِيدٍ
892- سیدنا قیس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھا میں صبح کی نماز کے بعد دورکعات ادا کر رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا: ”اے قیس! یہ کو ن سی دو رکعات ہیں؟“ میں نے عرض کی: یارسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم )! میں فجر کی دورکعات (سنت ادا نہیں کرسکا تھا) تو یہ وہی دورکعات ہیں، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے۔
سفیان کہتے ہیں: عطاء بن ابی رباح اس حدیث کو سعد بن سعید کے حوالے سے روایت کرتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن وأخرجه ابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 1116، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1563، 2471، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 1022، 1023، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1267، والترمذي فى «جامعه» برقم: 422، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1154، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 4462، 4463، وأحمد فى «مسنده» برقم: 24257، 24258»
مسند الحمیدی کی حدیث نمبر 892 کے فوائد و مسائل
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:892
فائدہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ نماز فجر کے بعد دو رکعتیں (جو پہلے پڑھنی تھیں) پڑھی جا سکتی ہیں، وہ رکعات جو کسی بھی نماز سے پہلے کی ہوں، اگر کسی وجہ سے پہلے نہ پڑھی جا سکیں تو ان کو فرض نماز کے بعد پڑھا جا سکتا ہے، مثلا اگر نماز ظہر کی پہلی چار رکعات رہ جائیں تو وہ فرض نماز کے بعد پڑھنا درست ہے۔ بعض لوگوں کا نماز فجر کے بعد سنتیں پڑھنے سے منع کرنا درست نہیں ہے، دین اسلام جس چیز کی اجازت دے، اس کی ہمیں بھی اجازت دینی چاہیے، ورنہ سراسر گمراہی ہے، حدیث تقریری شریعت کا حصہ ہے، اور حجت ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 891
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1267
´جس کی فجر کی سنتیں چھوٹ گئی ہوں تو ان کو کب پڑھے؟`
قیس بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو نماز فجر ختم ہو جانے کے بعد دو رکعتیں پڑھتے دیکھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”فجر دو ہی رکعت ہے“، اس شخص نے جواب دیا: میں نے پہلے کی دونوں رکعتیں نہیں پڑھی تھیں، وہ اب پڑھی ہیں، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے۔ [سنن ابي داود/كتاب التطوع /حدیث: 1267]
1267۔ اردو حاشیہ:
➊ سنتیں رہ جائیں تو بعد میں پڑھنا افضل ہے بالخصوص فجر کی سنتیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم انہیں سفر میں بھی نہیں چھوڑتے تھے۔
➋ فجر کی سنتیں فرضوں کے بعد ادا کر نا جائز ہے اور وہ حدیث جس میں ہے کہ ”نماز فجر کے بعد نماز نہیں۔“ اس سے مراد عام نوافل ہیں نہ کہ اس قسم کی نماز جو کسی سبب سے پڑھی جا رہی ہو۔
➌ اگر یقین ہو کہ طلوع شمس کے انتظار میں یہ فوت نہیں ہو جائیں گی تو مؤخر کر لے۔ اسی طرح اس حدیث پر عمل ہو جائے گا کہ ”نماز فجر کے بعد نماز نہیں۔“
➍ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کسی کام کو دیکھ یا سن کر خاموش رہنا اس کی توثیق کی دلیل سمجھا جاتا ہے، اس لیے اس حدیث سے یہ استدلال بالکل صحیح ہے کہ جو شخص فجر کی دو سنتیں فجر کی نماز سے پہلے نہیں پڑھ سکا وہ فرضوں کے بعد پڑھ سکتا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1267
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1154
´فجر سے پہلے کی دو رکعت سنت نہ پڑھی ہو تو اس سے کب پڑھے؟`
قیس بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو دیکھا جو نماز فجر کے بعد دو رکعت پڑھ رہا تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا نماز فجر دو بار پڑھ رہے ہو؟“، اس شخص نے کہا: میں نماز فجر سے پہلے کی دو رکعت سنت نہ پڑھ سکا تھا، تو میں نے اب ان کو پڑھ لیا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1154]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
نماز پڑھنے والے یہ صحابی خود حضرت قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔
اپنا نام لیے بغیر واقعہ بیان فرمایا ہے۔
جامع ترمذی کی روایت میں انھوں نے بیان کیا ہے کہ یہ خود ان کا واقعہ ہے۔ (جامع الترمذي، الصلاۃ، باب ماجاء فیمن تفوته الرکعتان قبل الفجر یصلیھا بعد صلاۃ الصبح، حدیث: 422)
(2)
جو کام بظاہرغلط ہو۔
اس پر ناراضی کا اظہار کرنے سے پہلے وضاحت طلب کرلینا مناسب ہے۔
تاکہ اگر وضاحت قابل قبول ہوتو فہمائش کی ضرورت پیش نہ آئے۔
(3)
رسول اللہﷺ کا خاموش ہوجانا اس کام کے صحیح ہونے کی دلیل ہے۔
ایسے امور جو رسول اللہ ﷺ کے علم میں آئے۔
اور آپ نے ان سے منع نہیں فرمایا۔
سب جائز ہیں۔
انھیں ''تقریری سنت''کہا جاتاہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1154
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 422
´فجر سے پہلے کی دونوں سنتیں چھوٹ جائیں تو انہیں نماز فجر کے بعد پڑھنے کا بیان۔`
قیس (قیس بن عمرو بن سہل) رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے اور جماعت کے لیے اقامت کہہ دی گئی، تو میں نے آپ کے ساتھ فجر پڑھی، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پلٹے تو مجھے دیکھا کہ میں نماز پڑھنے جا رہا ہوں، تو آپ نے فرمایا: ”قیس ذرا ٹھہرو، کیا دو نمازیں ایک ساتھ ۱؎ (پڑھنے جا رہے ہو؟)“ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے فجر کی دونوں سنتیں نہیں پڑھی تھیں۔ آپ نے فرمایا: ”تب کوئی حرج نہیں“ ۲؎۔ [سنن ترمذي/أبواب السهو/حدیث: 422]
اردو حاشہ:
1؎:
مطلب یہ ہے کہ:
فجر کی فرض کے بعد کوئی سنت نفل تو ہے نہیں،
تو یہی سمجھا جائیگا کہ تم فجر کے فرض کے بعد کوئی فرض ہی پڑھنے جا رہے ہو۔
2؎:
یہ روایت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ نمازِ فجر کے بعد سورج نکلنے سے پہلے فجر کی دونوں سنتیں پڑھنا جائز ہے،
اور امام ترمذی نے جو اس روایت کو مرسل اور منقطع کہا ہے وہ صحیح نہیں،
کیونکہ یحییٰ بن سعید کے طریق سے یہ روایت متصلاً بھی مروی ہے،
جس کی تخریج ابن خزیمہ نے کی ہے اور ابن خزیمہ کے واسطے سے ابن حبان نے بھی کی ہے،
نیز انہوں نے اس کے علاوہ طریق سے بھی کی ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 422