وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَزِيع ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ يَعْنِي ابْنَ زُرَيْعٍ ، حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ الطَّوِيلُ ، حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْمُزَنِيُّ ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: " تَخَلَّفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَتَخَلَّفْتُ مَعَهُ، فَلَمَّا قَضَى حَاجَتَهُ، قَالَ: أَمَعَكَ مَاءٌ؟ فَأَتَيْتُهُ بِمِطْهَرَةٍ، فَغَسَلَ كَفَّيْهِ، وَوَجْهَهُ، ثُمَّ ذَهَبَ يَحْسِرُ عَنْ ذِرَاعَيْهِ، فَضَاقَ كُمُّ الْجُبَّةِ، فَأَخْرَجَ يَدَهُ مِنْ تَحْتِ الْجُبَّةِ، وَأَلْقَى الْجُبَّةَ عَلَى مَنْكِبَيْهِ، وَغَسَلَ ذِرَاعَيْهِ، وَمَسَحَ بِنَاصِيَتِهِ، وَعَلَى الْعِمَامَةِ، وَعَلَى خُفَّيْهِ، ثُمَّ رَكِبَ، وَرَكِبْتُ، فَانْتَهَيْنَا إِلَى الْقَوْمِ، وَقَدْ قَامُوا فِي الصَّلَاةِ يُصَلِّي بِهِمْ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ، وَقَدْ رَكَعَ بِهِمْ رَكْعَةً، فَلَمَّا أَحَسَّ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ذَهَبَ يَتَأَخَّرُ، فَأَوْمَأَ إِلَيْهِ، فَصَلَّى بِهِمْ، فَلَمَّا سَلَّمَ، قَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقُمْتُ، فَرَكَعْنَا الرَّكْعَةَ الَّتِي سَبَقَتْنَا ".
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 43
´پیشانی پر مسح کرنا کافی نہیں`
«. . . ان النبى صلى الله عليه وآله وسلم توضا فمسح بناصيته وعلى العمامة والخفين . . .»
”. . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا تو اپنی پیشانی کے بالوں، پگڑی اور موزوں پر مسح کیا . . .“ [بلوغ المرام/: 43]
� لغوی تشریح:
«بِنَاصِيَتِهِ» سر کا اگلا حصہ جہاں سے بال شروع ہوتے ہیں، یعنی پیشانی سے متصل وہ جگہ جہاں بال اگتے ہیں۔
«اَلْعِمَامَةِ» اس کپڑے کو کہتے ہیں جو سر پر باندھا جاتا ہے اور سر پر باندھنے کے لیے اسے کئی بل دینے پڑتے ہیں۔
«اَلْخُفَّيْنِ» «خُفٌّ» کا تثنیہ ہے۔ پاؤں میں ٹخنوں تک جو چیز پہنی جائے اسے «خف»، یعنی موزہ کہتے ہیں جو چمڑے سے تیار ہوتا ہے۔
فوائد و مسائل:
➊ یہ حدیث اس پر دلالت کرتی ہے کہ محض پیشانی پر مسح کرنا کافی نہیں۔
➋ پگڑی پر مسح کے جمہور قائل نہیں۔
➌ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے زاد المعاد میں بیان کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی صرف ننگے سر پر مسح فرما لیتے اور کبھی پگڑی پر اور کبھی پگڑی اور پیشانی سمیت دونوں پر، البتہ صرف پیشانی پر مسح کرنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے۔
➍ یہ حدیث اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ موزوں پر مسح کرنا جائز ہے، اسی طرح یہ حدیث اس کا بھی ثبوت ہے کہ پگڑی پر مسح جائز اور درست ہے۔ اس کی دو صورتیں ممکن ہیں، پہلی صورت یہ کہ کچھ مسح سر پر کیا جائے اور کچھ پگڑی پر، اس میں اختلاف نہیں ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ صرف پگڑی پر مسح کیا جائے۔ ترمذی میں منقول ایک صحیح حدیث سے یہ بھی ثابت ہے۔ [جامع الترمذي، الطهارة، باب ما جاء فى المسح على العمامة، حديث: 100، 101]
نیز سیدنا ابوبکر، عمر، انس اور کبار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے علاوہ عمر بن عبد العزیز، حسن بصری، مکحول، ابوثور، امام أحمد، اوزاعی، اسحاق بن راہویہ اور وکیع رحمه الله علیہم وغیرہ اس کے قائل ہیں۔ امام ابوحنیفہ رحمه الله کے علاوہ باقی ائمہ ثلاثہ محض پگڑی پر مسح کو ناکافی سمجھتے ہیں۔
راوی حدیث:
SR سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ ER ان کی کنیت ابوعبد اللہ یا عیسیٰ ہے۔ سلسلہ نسب یوں ہے مغیرہ بن شعبہ بن مسعود ثقفی۔ مشہور و معروف صحابی ہیں۔ غزوہ خندق کے ایام میں مسلمان ہوئے اور ہجرت کر کے مدینہ آئے۔ صلح حدیبیہ میں شامل ہوئے، یہ ان کا پہلا معرکہ تھا جس میں وہ شریک ہوئے۔ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے کوفے کو گورنر مقرر ہوئے اور 50 ہجری میں کوفہ ہی میں وفات پائی۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 43
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 54
´موزوں پر مسح اوپر اور نیچے دونوں جانب`
«. . . ان النبي صلى الله عليه وآله وسلم مسح اعلى الخف واسفله . . .»
”. . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے موزوں کے اوپر اور نیچے دونوں جانب مسح کیا . . .“ [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 54]
� فائدہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ موزوں پر مسح اوپر اور نیچے دونوں جانب ہونا چاہیے مگر یہ روایت ضعیف ہے اور صحیح و حسن روایات کے مخالف ہے جیسا کہ آئندہ احادیث میں آ رہا ہے۔ امام ابوداود رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ثور کا رجاء سے سماع ثابت نہیں، اس لیے یہ روایت ضعیف ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 54
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 80
´قضائے حاجت کرنے والے کو پردے کا انتظام کرنا`
«. . . وعن المغيرة بن شعبة رضى الله عنه قال: قال لي النبى صلى الله عليه وآله وسلم: خذ الإداوة، فانطلق حتى توارى عني فقضى حاجته . . .»
”. . . سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا ”پانی کا برتن (ساتھ) لے چلو۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رفع حاجت کے لئے (اتنی دور) تشریف لے گئے کہ میری نظر سے اوجھل ہو گئے۔ وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم قضائے حاجت سے فارغ ہوئے . . .“ [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 80]
� لغوی تشریح:
«تَوَارٰي» چھپ گیا۔ آنکھوں سے اوجھل ہو گیا۔
فائدہ:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل اس پر دلالت کرتا ہے کہ قضائے حاجت کرنے والے کو پردے کا انتظام کرنا چاہیے یا ایسی جگہ ہو جہاں اسے کوئی دیکھ نہ سکے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 80
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 150
´پگڑی اور عمامہ پر مسح`
«. . . عَنْ ابْنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، عَنْ الْمُغِيرَةِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَمْسَحُ عَلَى الْخُفَّيْنِ وَعَلَى نَاصِيَتِهِ وَعَلَى عِمَامَتِهِ . . .»
”. . . مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دونوں موزوں پر اور اپنی پیشانی اور اپنے عمامہ (پگڑی) پر مسح کرتے تھے . . .“ [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 150]
فوائد و مسائل:
پگڑی اور عمامہ پر مسح کی صحیح روایات بکثرت مروی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف سر پر یا صرف پگڑی پر یا سر اور پگڑی دونوں پر مسح کیا کرتے تھے۔ [عون المعبود]
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 150
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 151
´موزوں پر مسح کے لیے شرط`
«. . . فَقَالَ لِي: دَعِ الْخُفَّيْنِ، فَإِنِّي أَدْخَلْتُ الْقَدَمَيْنِ الْخُفَّيْنِ وَهُمَا طَاهِرَتَانِ، فَمَسَحَ عَلَيْهِمَا . . .»
”. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: موزوں کو رہنے دو، میں نے یہ پاکی کی حالت میں پہنے ہیں . . .“ [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 151]
فوائد و مسائل:
➊ غیر ملکی لباس پہننا جائز ہے بشرطیکہ وہ اسلامی شعائر اور ثقافت کے خلاف نہ ہو اور غیر مسلموں کی نقالی کا مظہر بھی نہ ہو۔
➋ موزوں پر مسح کے لیے شرط ہے کہ پہلے انہیں وضو کر کے پہنا ہو۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 151
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 152
´جس شخص کی جماعت سے کوئی رکعت یا رکعات رہ گئی ہوں`
«. . . فَلَمَّا رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَرَادَ أَنْ يَتَأَخَّرَ، فَأَوْمَأَ إِلَيْهِ أَنْ يَمْضِيَ، قَالَ: فَصَلَّيْتُ أَنَا وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَلْفَهُ رَكْعَةً . . .»
”. . . مغیرہ کہتے ہیں: جب ہم لوگوں کے پاس آئے تو عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ انہیں صبح کی نماز پڑھا رہے تھے، جب انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، تو پیچھے ہٹنا چاہا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نماز جاری رکھنے کا اشارہ کیا . . .“ [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 152]
فوائد و مسائل:
جس شخص کی جماعت سے کوئی رکعت یا رکعات رہ گئی ہوں وہ صرف فوت شدہ رکعات ہی دہرائے، اس پر کوئی سجدہ سہو وغیرہ نہیں ہے۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے صحابہ رضی اللہ عنہم کی طرف منسوب اس قول کو ضعیف کہا ہے کہ جو جماعت کے ساتھ صرف ایک رکعت پائے، تو وہ بقیہ رکعتیں پوری کرنے کے بعد سجدہ سہو بھی کرے، ایسے حضرات کے نزدیک اس کی وجہ یہ ہے کہ مسبوق شخص امام کے ساتھ تشہد بیٹھتا ہے جب کہ ابھی اس کی صرف ایک رکعت ہی ہوئی ہوتی ہے۔ یعنی ابھی وہ تشہد بیٹھنے کی حالت کو نہیں پہنچا ہوتا، لیکن اسے امام کے ساتھ تشہد بیٹھنا پڑ جاتا ہے۔ لیکن یہ مسلک صحیح نہیں ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے نہیں کیا۔ علاوہ ازیں اسے تشہد میں امام کی متابعت کی وجہ سے بیٹھنا پڑتا ہے نہ کہ سہو کی وجہ ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 152
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 156
´موزوں پر مسح`
«. . . عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ،" أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَسَحَ عَلَى الْخُفَّيْنِ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنَسِيتَ؟ قَالَ: بَلْ أَنْتَ نَسِيتَ، بِهَذَا أَمَرَنِي رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ . . .»
”. . . مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے موزوں پر مسح کیا تو میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کیا آپ بھول گئے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بلکہ تم بھول گئے ہو، میرے رب نے مجھے اسی کا حکم دیا ہے . . .“ [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 156]
فائدہ:
یہ روایت تو ضعیف ہے، تاہم دوسری صحیح روایت سے یہ مسئلہ یعنی موزوں پر مسح کرنا ثابت ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 156
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 159
´دونوں جرابوں اور جوتوں پر مسح`
«. . . عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ،" أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَوَضَّأَ وَمَسَحَ عَلَى الْجَوْرَبَيْنِ وَالنَّعْلَيْنِ . . .»
”. . . مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور دونوں جرابوں اور جوتوں پر مسح کیا . . .“ [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 159]
فوائد و مسائل:
➊ پاؤں میں پہنا جانے والا لفافہ اگر سوتی یا اونی ہو تو اسے «جَورَب»، اس کے نیچے چمڑا لگا ہو تو «مُنَعّل» اوپر نیچے دونوں طرف چمڑا ہو تو «مُجَلّد» اور اگر سارا ہی چمڑا ہو تو اسے «خُف» کہتے ہیں۔
➋ بقول شیخ البانی رحمہ اللہ کے یہ روایت سنداًًَ صحیح ہے۔ نیز دیگر صحیح روایات سے بھی جرابوں اور نعلین (موزوں اور جوتوں) پر مسح کرنا ثابت ہے۔ دیکھیے: [المسح على الجوربين عربي ازعلامه الشام جمال الدين قاسمي اور مسنون نماز، از حافظ صلاح الدين يوسف حفظه الله]
➌ علامہ احمد محمد شاکر رحمہ اللہ سنن ترمذی کی شرح میں فرماتے ہیں کہ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے وضو اور مسح اور بعض نے جرابوں پر مسح کرنا نقل کیا ہے۔ اور ان میں کوئی تضاد و خلاف نہیں ہے، کیونکہ یہ متعدد احادیث ہیں اور مختلف مواقع کے بیانات ہیں۔ اور ان کی معیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پانچ سال تک رہی ہے اور عین معقول ہے کہ آپ نے وضو کے بارے میں مختلف مواقع کے مشاہدات پیش فرمائے ہوں تو بعض راویوں نے کچھ سنا اور دوسروں نے کچھ اور۔
➍ امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے نام شمار کر دیے ہیں جو جرابوں پر مسح کیا کرتے تھے اور ان میں جرابوں کا کوئی وصف یعنی چمڑا لگا ہونا یا موٹا ہونا مذکور نہیں ہے۔ ”اور اصل یہی ہے کہ جراب پر مسح صحیح ہے۔“ علامہ دولابی رحمہ اللہ نے کتاب الاسماء والکنی [1؍181] میں جناب ازرق بن قیس رحمہ اللہ (تابعی) سے نقل کیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ ان کا وضو ٹوٹ گیا تو انہوں نے (تجدید وضو میں) اپنا چہرہ دھویا، ہاتھ دھوئے اور اپنی ”اون کی جرابوں“، مسح کیا۔ میں نے کہا: آپ ان پر بھی مسح کرتے ہیں؟ انہوں نے فرمایا: ” یہ «خُفّان» ہیں یعنی موزے ہی ہیں اگرچہ اون کے ہیں۔“ اور اس کی سند جید ہے۔ امام ترمذی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے صالح بن محمد ترمذی سے سنا، و ہ کہتے تھے کہ میں نے ابومقاتل سمرقندی سے سنا، وہ کہتے ہیں کہ میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے ہاں حاضر ہوا وہ مرض وفات میں تھے، انہوں نے پانی منگوایا اور وضو کیا، جرابیں پہن رکھی تھیں، تو اپنی جرابوں پر مسح کیا اور کہا: میں نے آج ایسا کام کیا ہے جو پہلے نہ کرتا تھا۔ میں نے غیر منقل جرابوں پر مسح کیا ہے، (یعنی ان پر چمڑا نہیں لگا ہوا تھا۔) تفصیل کے لیے دیکھیے: [تعليق جامع تر مذي ازعلامه احمدمحمد شاكر، باب ماجاء فى المسح على الجوربين والنعلين، 1؍ 167۔ 169]
➎ ایسی جرابیں اور موزے جو پرانے ہو جائیں یا پھٹ جائیں اور ان میں سور اخ ہو جائیں، جنہیں پہننے میں انسان عرفاً و عادتاً عیب محسوس نہیں کرتا ان پر مسح کرنا جائز ہے۔ امام سفیان ثوری رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ مہاجرین اور انصار کے موزے پھٹنے سے محفوظ نہ رہتے تھے، اگر اس میں کوئی رکاوٹ ہوتی تو اس کا ذکر ہوتا اور ممانعت آ جاتی۔ [فقه السنه، سيد سابق]
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 159
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 165
´موزوں کے نیچے بھی مسح`
«. . . عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، قَالَ:" وَضَّأْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ، فَمَسَحَ أَعْلَى الْخُفَّيْنِ وَأَسْفَلَهُمَا . . .»
”. . . مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو غزوہ تبوک میں وضو کرایا، تو آپ نے دونوں موزوں کے اوپر اور ان کے نیچے مسح کیا . . .“ [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 165]
فوائد و مسائل:
موزوں پر مسح میں مشروع یہ ہے کہ ان کے اوپر کی جانب گیلا ہاتھ پھیرا جائے۔ صحیح احادیث کی دلالت یہی ہے اور جن میں یہ آیا ہےکہ موزوں کے نیچے بھی مسح کیا تو ان کی اسانید میں کلام ہے۔ اس لیے ان میں تعارض ہے نہ تطبیق کی ضرورت جیسا کہ بعض حضرات نے جمع و تطبیق سے کام لیا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 165
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 149
´افضل مفضول کے پیچھے نماز پڑھ سکتا ہے`
«. . . الْمُغِيرَةَ يَقُولُ:" عَدَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا مَعَهُ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ قَبْلَ الْفَجْرِ، فَعَدَلْتُ مَعَهُ، فَأَنَاخَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَبَرَّزَ . . .»
”. . . مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ تبوک میں فجر سے پہلے مڑے، میں آپ کے ساتھ تھا، میں بھی مڑا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹ بٹھایا اور قضائے حاجت کی، پھر آئے تو میں نے چھوٹے برتن (لوٹے) سے آپ کے ہاتھ پر پانی ڈالا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں پہونچے دھوئے، پھر اپنا چہرہ دھویا . . .“ [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 149]
فوائد و مسائل:
➊ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قربت، خدمت اور حفاظت کو اپنا لازمی فریضہ جانتے تھے۔ تاہم سنن نسائی کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ کو ازخود رکنے کا حکم دیا تھا۔ [سنن النسائي، حديث: 125]
➋ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام اعمال اور ان کی جزئیات تک کو شریعت کی نظر سے دیکھتے تھے، جیسے کہ اس باب کی روایت میں موزوں پر مسح مذکور ہوا ہے۔
➌ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اول وقت میں نماز پڑھنے کے عادی تھے۔
➍ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت میں تواضع تھی کہ عام مسلمانوں کے ساتھ صف میں مل کر نماز پڑھی اور یہی حکم شریعت ہے۔
➎ معلوم ہوا کہ افضل مفضول کے پیچھے نماز پڑھ سکتا ہے۔
➏ حضرت عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ کا فضل و شرف ہے کہ صحابہ نے انہیں امامت کے لیے منتخب کیا اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ان کے پیچھے نماز پڑھی۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 149
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 17
´قضائے حاجت کے لیے دور جانے کا بیان۔`
مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب پاخانے کے لیے جاتے تو دور جاتے، مغیرہ بن شعبہ کہتے ہیں کہ آپ اپنے ایک سفر میں قضائے حاجت کے لیے تشریف لے گئے (تو واپس آ کر) آپ نے فرمایا: ”میرے لیے وضو کا پانی لاؤ“، میں آپ کے پاس پانی لے کر آیا، تو آپ نے وضو کیا اور دونوں موزوں پر مسح کیا۔ امام نسائی کہتے ہیں اسمائیل سے مراد: ابن جعفر بن ابی کثیر القاری ہیں۔ [سنن نسائي/ذكر الفطرة/حدیث: 17]
17۔ اردو حاشیہ:
➊ یہ مقولہ شیخ ابن سنی کے کسی شاگرد کا ہے۔ شیخ ابن سنی، امام نسائی رحمہ اللہ کے شاگرد ہیں جنھوں نے امام صاحب سے سنن نسائی کا یہ نسخہ نقل کیا اور آگے بیان فرمایا۔
➋ قضائے حاجت کے لیے آبادی سے باہر جانا یا بند کمرہ (لیٹرین) استعمال کرنا ضروری ہے تاکہ لوگوں کی نگاہوں سے دور ہو، انہیں بدبو محسوس نہ ہو اور بیماریاں نہ پھیلیں۔ قضائے حاجت کی آواز کا سنائی دینا بھی معیوب ہے۔ آج کل لیٹرینیں اگرچہ گھروں کے اندر ہوتی ہیں، مگر وہ ان تمام مقاصد کو بطریق احسن پورا کرتی ہیں جو دور جانے سے مقصود ہیں، لہٰذا ان کا استعمال بطریق اولیٰ درست ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 17
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 79
´وضو کے لیے خادم کے پانی ڈالنے کا بیان۔`
مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے غزوہ تبوک میں جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا، آپ پر پانی ڈالا، پھر آپ نے اپنے دونوں موزوں پر مسح کیا ۱؎۔ [سنن نسائي/ذكر الفطرة/حدیث: 79]
79۔ اردو حاشیہ:
➊ اس روایت کو امام مالک، یونس اور عمرو بن حارث تین اشخاص نے امام زہری سے بیان کیا ہے۔ آخری دو تو عباد بن زید کے بعد عروہ بن مغیرہ کا ذکر کرتے ہیں، مگر امام مالک رحمہ اللہ نے ان کا ذکر نہیں کیا۔ ظاہر ہے کہ ترجیح دو راویوں کی بات کو ہو گی۔
➋ وضو کے دوران میں اس قسم کی خدمت لی جا سکتی ہے۔ اس سے وضو کے ثواب میں کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ وضو نام ہے اعضاء کو دھونے کا اور یہ کام تو وضو کرنے والا خود ہی کر رہا ہے، البتہ تعاون کرنے والا اپنی نیت کے مطابق اجر کا مستحق ہو گا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 79
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 82
´دونوں ہتھیلی دھونے کا بیان۔`
مغیرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے کہ آپ نے میری پیٹھ پر ایک چھڑی لگائی ۱؎ اور آپ مڑے تو میں بھی آپ کے ساتھ مڑ گیا، یہاں تک کہ آپ ایک ایسی جگہ پر آئے جو ایسی ایسی تھی، اور اونٹ کو بٹھایا پھر آپ چلے، مغیرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: تو آپ چلتے رہے یہاں تک کہ میری نگاہوں سے اوجھل ہو گئے، پھر آپ (واپس) آئے، اور پوچھا: ”کیا تمہارے پاس پانی ہے؟“ میرے پاس میری ایک چھاگل تھی، اسے لے کر میں آپ کے پاس آیا، اور آپ پر انڈیلا، تو آپ نے اپنے دونوں ہتھیلیوں کو دھویا، چہرہ دھویا، اور دونوں بازو دھونے چلے، تو آپ ایک تنگ آستین کا شامی جبہ پہنے ہوئے ہوئے تھے (آستین چڑھ نہ سکی) تو اپنا ہاتھ جبہ کے نیچے سے نکالا، اور اپنا چہرہ اور اپنے دونوں بازو دھوئے - مغیرہ رضی اللہ عنہ نے آپ کی پیشانی کے کچھ حصے اور عمامہ کے کچھ حصے کا ذکر کیا، ابن عون کہتے ہیں: میں جس طرح چاہتا تھا اس طرح مجھے یاد نہیں ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں موزوں پر مسح کیا، پھر فرمایا: ”اب تو اپنی ضرورت پوری کر لے“، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے حاجت نہیں، تو ہم آئے دیکھا کہ عبدالرحمٰن بن عوف لوگوں کی امامت کر رہے تھے، اور وہ نماز فجر کی ایک رکعت پڑھا چکے تھے، تو میں بڑھا کہ انہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی خبر دے دوں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے منع فرما دیا، چنانچہ ہم نے جو نماز پائی اسے پڑھ لیا، اور جو حصہ فوت ہو گیا تھا اسے (بعد میں) پورا کیا۔ [سنن نسائي/صفة الوضوء/حدیث: 82]
82۔ اردو حاشیہ: (!) وضو کی ابتدا ہتھیلیاں دھونے سے ہوتی ہے۔
➋ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ افضل انسان مفضول کے پیچھے نماز پڑھ سکتا ہے۔ مزید اس واقعے سے حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کی فضیلت بھی ثابت ہوتی ہے کہ انہیں نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت کا شرف حاصل ہوا۔ یہ عشرہ مبشرہ میں سے ہیں اور قدیم الاسلام صحابی ہیں۔ ذلک فضل اللہ یوتیہ من یشآء۔
➌ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کفار کی تیار شدہ اشیاء استعمال کرنا جائز ہے جبکہ ان میں حرام چیزیں نہ ہوں کیونکہ آپ نے شامی جبہ پہنا ہوا تھا اور شام اس وقت دارالکفر تھا۔
➍ اس حدیث میں ان لوگوں کا بھی رد ہے جو سورۂ مائدہ کی آیت وضو سے موزوں پر مسح کرنے کو مسنوخ قرار دیتے ہیں، اس لیے کہ وہ آیت غزوۂ مریسیع (شعبان 5 یا 6 ہجری) کے موقع پر نازل ہوئی اور یہ غزوۂ تبوک (رجب 9 ہجری) کا واقعہ ہے۔ واللہ أعلم بالصواب۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 82
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 107
´پیشانی کے ساتھ پگڑی پر مسح کرنے کا بیان۔`
مغیرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پیشانی، پگڑی اور چمڑے کے موزوں پر مسح کیا۔ [سنن نسائي/صفة الوضوء/حدیث: 107]
107۔ اردو حاشیہ: اس حدیث کی سند میں راوی بکر بن عبداللہ مزنی نے اپنے استاذ حضرت حسن بصری بیان کیے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ روایت انہوں نے خود ابن مغیرہ سے نہیں سنی، اس لیے وضاحت کر دی کہ میں نے پہلے یہ روایت حضرت حسن بصری کے واسطے سے سنی تھی، پھر براہ راست ابن مغیرہ سے بھی سنی، اس لیے دونوں طرح بیان کر دی۔ قربان جائیں محدثین کی اس دیانت اور امانت پر۔ رحمھم اللہ رحمة واسعة۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 107
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 108
´پیشانی کے ساتھ پگڑی پر مسح کرنے کا بیان۔`
مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (کسی سفر میں) لشکر سے پیچھے ہو گئے، تو میں بھی آپ کے ساتھ پیچھے ہو گیا، تو جب آپ قضائے حاجت سے فارغ ہوئے تو پوچھا: ”کیا تمہارے پاس پانی ہے؟“ تو میں لوٹے میں پانی لے کر آپ کے پاس آیا، تو آپ نے اپنی دونوں ہتھیلیاں دھوئیں اور اپنا چہرہ دھویا، پھر آپ اپنے دونوں بازؤوں کو کھولنے لگے تو جبہ کی آستین تنگ ہو گئی، تو آپ نے (ہاتھ کو اندر سے نکالنے کے بعد) اسے (آستین کو) اپنے دونوں کندھوں پر ڈال لیا، پھر اپنے دونوں بازو دھوئے، اور اپنی پیشانی، پگڑی اور موزوں پر مسح کیا۔ [سنن نسائي/صفة الوضوء/حدیث: 108]
108۔ اردو حاشیہ: ”آپ نے جبے کو کندھوں پر ڈال لیا۔“ جبہ تو آپ نے پہلے سے پہنا ہوا تھا۔ اس جملے کا مطلب یہ ہے کہ آستینیں تنگ ہونے کی وجہ سے آپ نے بازو نیچے سے نکال لیے۔ اب جبہ صرف کندھوں پر رہ گیا اور آستینیں بازوؤں سے خالی ہو گئیں۔ امام صاحب نے یہاں مختصر حدیث بیان کی ہے، مکمل حدیث مع فوائد پیچھے گزر چکی ہے۔ دیکھیے: حدیث 82۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 108
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 109
´پگڑی (عمامہ) پر مسح کے طریقے کا بیان۔`
مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: دو باتیں ایسی ہیں کہ میں ان کے متعلق کسی سے نہیں پوچھتا، اس کے بعد کہ میں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو انہیں کرتے ہوئے دیکھ لیا ہے، (پہلی چیز یہ ہے کہ) ایک سفر میں ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، تو آپ قضائے حاجت کے لیے جنگل کی طرف نکلے، پھر واپس آئے تو آپ نے وضو کیا، اور اپنی پیشانی اور پگڑی کے دونوں جانب کا مسح کیا، اور اپنے دونوں موزوں پر مسح کیا، (دوسری چیز) حاکم کا اپنی رعایا میں سے کسی آدمی کے پیچھے نماز پڑھنا ہے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، آپ ایک سفر میں تھے کہ نماز کا وقت ہو گیا، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رکے رہ گئے، چنانچہ لوگوں نے نماز کھڑی کر دی اور ابن عوف رضی اللہ عنہ کو آگے بڑھا دیا، انہوں نے نماز پڑھائی، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، اور ابن عوف رضی اللہ عنہ کے پیچھے جو نماز باقی رہ گئی تھی پڑھی، جب ابن عوف رضی اللہ عنہ نے سلام پھیرا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے، اور جس قدر نماز فوت ہو گئی تھی اسے پوری کی۔ [سنن نسائي/صفة الوضوء/حدیث: 109]
109۔ اردو حاشیہ:
➊ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سر کے مسح کے متعلق تین قسم کی احادیث ثابت ہیں۔ ان میں سے ایک یہ حدیث ہے جس میں پیشانی کے ساتھ پگڑی پر مسح کرنے کی بھی وضاحت ہے، جس سے پتا چلا کہ یہ کیفیت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اور یہی امام نسائی رحمہ اللہ کی غرض معلوم ہوتی ہے۔ صرف پیشانی اور اس کے بقدر سر کا مسح کرنا مشروع نہیں ہے اگرچہ اس روایت سے احناف نے دلیل لی ہے کہ صرف پیشانی پر یا پیشانی کے بقدر (سر کا چوتھائی حصہ) مسح فرض ہے، حالانکہ اگر ایسا ہوتا تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پگڑی پر مسح کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ صرف پگڑی پر مسح کر لیا جائے، اور یہ جائز ہے جیسا کہ ابن قیم رحمہ اللہ نے زادالمعاد: (194/1]
میں ذکر کیا ہے۔ اور گزشتہ حدیث (نمبر 104]
کے فوائد میں وضاحت کی گئی ہے۔ اور تیسرا پورے سرے کا مسح کرنا جبکہ سر پر پگڑی نہ ہو۔ یہ تینوں طریقے نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں۔
➋ اس سے یہ بھی پتا چلا کہ مقتدی امام کو جس حال میں پائے، امام کے ساتھ مل جائے اور جو نماز گزر چکی ہو، وہ امام کے سلام پھیرنے کے بعد ادا کرے۔
➌ جب امام راتب کسی بنا پر اول وقت سے دیر کر دے تو کوئی دوسرا آدمی اس کی جگہ نماز پڑھا سکتا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 109
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 125
´سفر میں موزوں پر مسح کرنے کا بیان۔`
مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھا تو آپ نے فرمایا: ”مغیرہ! تم پیچھے ہو جاؤ اور لوگو! تم چلو“، چنانچہ میں پیچھے ہو گیا، میرے پاس پانی کا ایک برتن تھا، لوگ آگے نکل گئے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قضائے حاجت کے لیے تشریف لے گئے، جب واپس آئے تو میں آپ پر پانی ڈالنے لگا، آپ تنگ آستین کا ایک رومی جبہ پہنے ہوئے تھے، آپ نے اس سے اپنا ہاتھ نکالنا چاہا مگر جبہ تنگ ہو گیا، تو آپ نے جبہ کے نیچے سے اپنا ہاتھ نکال لیا، پھر اپنا چہرہ اور اپنے دونوں ہاتھ دھوئے، اور اپنے سر کا مسح کیا، اور اپنے دونوں موزوں پر مسح کیا۔ [سنن نسائي/صفة الوضوء/حدیث: 125]
125۔ اردو حاشیہ:
➊ ہر وقت باوضو رہنا مستحب ہے۔
➋ غیر ملکی لباس پہننا جائز ہے، بشرطیکہ وہ اسلامی شعائر اور ثقافت کے خلاف نہ ہو اور غیرمسلموں کی نقالی کا مظہر بھی نہ ہو۔
➌ موزوں پر مسح کے لیے شرط ہے کہ پہلے انہیں وضو کر کے پہنا ہوا ہو جیسا کہ دوسری روایات میں اس کی صراحت ملتی ہے، دیکھیے: [صحیح البخاري، الوضوء، حدیث: 206، و صحیح مسلم، الطھارۃ، حدیث: 274]
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 125
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث389
´وضو میں کسی سے مدد لینے کا بیان جو اس پر پانی ڈالے۔`
مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی کسی حاجت کے لیے تشریف لے گئے، جب آپ واپس ہوئے تو میں لوٹے میں پانی لے کر آپ سے ملا، میں نے پانی ڈالا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ دھوئے، پھر اپنا چہرہ دھویا، پھر اپنے دونوں بازو دھونے لگے تو جبہ کی آستین تنگ پڑ گئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ جبہ کے نیچے سے نکال لیے، انہیں دھویا، اور اپنے موزوں پر مسح کیا، پھر ہمیں نماز پڑھائی۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 389]
اردو حاشہ:
(1)
مقام ومرتبہ یا عمرکے لحاظ سے بڑوں کی خدمت کرنا اور ان کی ضرورت کی چیزوں کو بروقت تیار رکھنا مستحسن ہے۔
(2)
چھوٹوں سے خدمت لینا جائز ہےاگرچہ وہ خدمت ایسے کام میں ہو جو عبادت سے تعلق رکھتا ہو۔
(3)
اس حدیث میں وضو کی پوری تفصیل نہیں بعض اہم امور کا ذکرکردیاگیا ہے۔
مطلب یہ ہے کہ نبیﷺ نے معروف طریقے سے پورا وضو کیا۔
(4)
اس سے موزوں پر مسح کا جواز ثابت ہوتا ہے۔
(5)
بہرحال وضو کرنا ضروری ہے چاہے اس میں مشقت ہی ہو جیسے رسول اللہ ﷺ نے مکمل وضو کرنے کے لیے بازو دھوئے حالانکہ جبہ اتارنے میں دشواری تھی۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 389
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث545
´موزوں پر مسح کا بیان۔`
مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قضائے حاجت کے لیے نکلے، وہ ایک لوٹے میں پانی لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ہو لیے، جب آپ اپنی ضرورت سے فارغ ہو گئے، تو وضو کیا، اور موزوں پر مسح کیا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 545]
اردو حاشہ:
(1)
یہ غزوہ تبوک کا واقعہ ہے جیسا کہ موطا:
(1؍11، حديث: 75)
میں اس کی وضاحت ہے۔
(2)
رسول اللہﷺقضائےحاجت کے لیے اتنی دور جاتے تھے کہ کوئی نہ دیکھے:
(سنن ابن ماجہ: 232، 231)
جب کوئی صحابی پانی لےکر ساتھ جاتا تھا تو وہ بھی ایک مقام پر رک جاتا تھا اس کے بعد آپﷺ اکیلے لے کر کسی کی آڑ میں یا ساتھی سے کافی دور تشریف لے جاتے تھے۔
حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی ایسے ہی ہوا جیسے کہ سنن ابن ماجہ حدیث: 389 سے معلوم ہوتا ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 545
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث550
´موزوں کے اوپر اور نیچے مسح کرنے کا بیان۔`
مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے موزے کے اوپر اور نیچے مسح کیا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 550]
اردو حاشہ:
یہ روایت ضعیف ہے اس لیے اس سے مسئلۃ الباب کا اثبات نہیں ہوتا بلکہ مسئلہ یہی ہے کہ مسح صرف موزوں کے اوپر والے حصے پر ہوگا،
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 550
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث559
´جراب (پائے تابہ) اور جوتے پر مسح کا بیان۔`
مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا، اور پاتا ہوں اور جوتوں پر مسح کیا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 559]
اردو حاشہ:
(1)
امام ابو داؤد ؒ اور بعض دیگر علماء نے اس حدیث کو معلول قراردیا ہے لیکن امام ترمذی ؒ اور بعض دیگر علماء نے اسے صحیح قراردیا ہے۔
تنقید کرنےوالے علماء نے فرمایا ہے کہ حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ سے موزوں پر مسح کرنے کی روایت صحیح ہے۔
مصر کے مشہور عالم الشیخ احمد محمد شاکر ؒ نے فرمایا ہے کہ یہ تنقید درست نہیں کیونکہ حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ سے ان کے شاگردوں نے ان کی مختلف احادیث روایت کی ہیں۔
کسی نے موزوں پر مسح کی حدیث روایت کی کسی نے عمامہ پر مسح کی اور کسی نے جرابوں پر مسح کی۔
یہ سب احادیث صحیح ہیں۔
انھیں ایک دوسرے کے خلاف قرار دے کر بعض کو راوی کی غلطی قرار ینا درست نہیں۔ (جامع الترمذی، الطھارۃ، باب ماجاء فی المسح علی الجوربین والنعلین، حدیث: 99 حاشہ از احمد محمد شاکر)
(2)
امام ابوداؤد ؒ کہتے ہیں:
حضرات علی بن ابو طالب ؓ، عبداللہ بن مسعود ؓ، براء بن عازب ؓ، انس بن مالک ؓ، ابو امامہ ؓ، سہل بن سعد ؓ، عمرو بن حریث رضی اللہ عنہ جرابوں پر مسح کرتے تھے۔
حضرت عمر بن خطاب اور حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی اسی طرح مروی ہے۔ (سنن ابو داود، الطھارۃ، باب المسح علي الجوربين، حديث: 195)
(3)
امام دولابی نے (الکنٰی والأسماء: 1؍88)
میں سند کے ساتھ حضرت ازرق بن قیس ؒسےروایت کیا ہےکہ انھوں نے فرمایا:
میں نے حضرت انس بن مالک ؓ کو دیکھا کہ انھیں وضو کی ضرورت پیش آئی تو انہوں نے چہرہ اور بازو دھوئےاور اون کی جرابوں پر مسح کیا۔
میں نے کہا:
کیا آپ ان پر مسح کرتے ہیں؟ انھوں نے فرمایا:
یہ بھی موزے ہیں لیکن اون کے بنے ہوئے ہیں۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے واضح کیا کہ جرابوں پر خف (موزے)
کے لفظ کا اطلاق ہوتا ہے یعنی ان کے فرمان کے مطابق عربی زبان میں ”خف“ سے مراد وہ لباس ہوتا ہے جس سے پاؤں چھپ جائیں خواہ وہ چمڑے ے موزے ہوں یا اونی سوتی جرابیں۔ (مزید تفصیل کے لیے جامع الترمذی کے مذکورہ بالا باب پر علامہ احمد شاکر کا حاشہ ملاحظہ کیجیے)
(4)
اہل عرب کے جوتے کھلے ہوتے تھے۔
جوتے کے تلے پر صرف چمڑے کے ایک یا دو باریک ٹکڑے ہوتے تھے لہٰذا جرابوں پر مسح کرنے کے لیے جوتے اتارنے کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔
ہوائی چپل وغیرہ کی صورت میں اس حدیث پر عمل کیا جاسکتا ہے۔
(5)
روایت کا مطلب جرابوں اور جوتوں پر الگ الگ مسح کرنا بھی ہے یعنی آپ ﷺ نے صرف جرابوں پر مسح کیا اور بعض دفعہ صرف بند جوتوں پر مسح کیا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 559
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 97
´موزے کے اوپر اور نیچے دونوں طرف مسح کرنے کا بیان۔`
مغیرہ بن شعبہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے موزے کے اوپر اور نیچے دونوں جانب مسح کیا ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الطهارة/حدیث: 97]
اردو حاشہ:
1؎:
یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے موزوں کے اوپر اور نیچے دونوں جانب مسح کیا لیکن یہ روایت ضعیف ہے جیسا کہ امام ترمذی نے خود اس کی صراحت کردی ہے۔
2؎:
مولف نے یہاں حدیث علت کی واضح فرمائی ہے ان سب کا ماحصل یہ ہے کہ یہ حدیث مغیرہ کی سند میں سے نہیں بلکہ کاتب مغیرہ (تابعی) سے مرسلاً مروی ہے،
ولید بن مسلم کو اس سلسلے میں وہم ہوا ہے کہ انہوں نے اسے مغیرہ کی مسند میں سے روایت کردیا ہے،
ترمذی نے ”لَمْ يُسْنِدْهُ عَنْ ثَوْرِ بْنِ يَزِيدَ غَيْرُ الْوَلِيدِ بْنِ مُسْلِمٍ“ کہہ کر اسی کی وضاحت کی ہے۔
مغیرہ رضی اللہ عنہ سے مسنداً روایت اس کے برخلاف ہے جو آگے آ رہی ہے اور وہ صحیح ہے ملاحظہ: (سند میں انقطاع ہے،
راوی ثور بن یزید کا رجاء بن حیوہ سے سماع نہیں ہے،
اسی طرح ابو زرعہ اور بخاری کہتے ہیں کہ حیوہ کا بھی کاتب مغیرہ بن شعبہ کا وراد سے سماع نہیں ہے،
نیز یہ کاتب ِ مغیرہ کی مرسل روایت ثابت ہے۔
) نوٹ:
ابن ماجہ (550) ابوداود (165) میں غلطی سے موطأ،
مسند احمد اور دارمی کا حوالہ آگیا ہے،
جب کہ ان کتابوں میں مسح سے متعلق مغیرہ بن شعبہ کی متفق علیہ حدیث آئی ہے جس میں اوپر نیچے کی صراحت نہیں ہے،
ہاں آگے آنے والی حدیث (98) میں مغیرہ سے صراحت کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کو اوپری حصے پر مسح کرتے دیکھا۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 97
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 98
´موزوں کے اوپری حصے پر مسح کرنے کا بیان۔`
مغیرہ بن شعبہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کو موزوں کے اوپری حصے پر مسح کرتے دیکھا ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الطهارة/حدیث: 98]
اردو حاشہ:
1؎:
اور یہ روایت متصلاً و مسنداً حسن صحیح ہے۔
2؎:
یعنی ((على ظاهرهما)) کے الفاظ ذکر کرنے میں عبدالرحمن بن ابی زناد منفرد ہیں۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 98
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:775
775-حمزہ بن مغیرہ بیان کرتے ہیں: میں نے اپنے والد کویہ بیان کرتے ہوئے سنا ہے: میں ایک سفر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”اے مغیرہ! تم پیچھے رہو۔ اے لوگو! تم لوگ چلتے رہو۔“ راوی بیان کرتے ہیں: لوگ چلتے رہے میں پیچھے رہ گیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قضائے حاجت کے لیے تشریف لے گئے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لائے، تو میں نے برتن میں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پانی انڈیلا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رومی جبہ پہنا ہوا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا بازو اس سے نکالنے کی کوشش کی لیکن وہ تنگ تھا، تو نبی اک۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:775]
فائدہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ غیر مسلم کا بنا ہوا لباس پہننا درست ہے نیز اس میں وضو کے بعض مسائل کا ذکر ہے۔ سر اور موزوں و جرابوں پر مسح کرنا جائز ہے۔ بعض احباب جرابوں پر مسح کے منکر ہیں، حالانکہ صحيح حدیث میں جرابوں پر سے ثابت ہے۔
«عـن الـمغيرة بن شعبة قال: إن النبى صلى الله عليه وسلم توضأ، ومسح على الجوربين والنعلين»
”سیدنا مغیرہ بن شعبہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور جرابوں اور جوتے پر سے کیا۔
[حسن: رواه أبو داود 159، والترمذي 99، وابن ماجه 559، كـلهم من حديث سفيان عن أبـي قيـس الأودى عـن الهزيل بن شرحبيل عن المغيرة بن شعبة فذكر الحديث ورواه الامام أحمد يا 18206، وصححه ابن خزيمة 198، و ابن حبان 1338، قال الترمذي: حسن صحيح]
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 775
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:776
776-عروہ بن مغیرہ اپنے والد کایہ بیان نقل کرتے ہیں: میں نے عر ض کی: یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم)! کوئی شخص موزوں پر مسح کر سکتا ہے؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جی ہاں۔ جب اس نے (اپنے دونوں پاؤں موزوں میں) اس وقت داخل کیے ہوں جب وہ دونوں پاک (یعنی باوضو حالت میں) ہوں۔“ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:776]
فائدہ:
موزوں اور جرابوں پر مسح کے لیے یہ شرط ہے کہ انھیں باوضو حالت میں پہنا ہو۔ اس حدیث میں اس شرط کا بیان ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 776
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 634
ہمیں امیہ بن بسطام اور محمد بن عبدلاعلیٰ دونوں نے معتمر کے واسطہ سے، اس کے باپ کی بکر بن عبداللہ سے حضرت مغیرہ ؓ سے روایت ہے: ”کہ نبی اکرم ﷺ نے موزوں، اپنے سر کے سامنے کے حصہ اور اپنی پگڑی پر مسح کیا۔“ [صحيح مسلم، حديث نمبر:634]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے معلوم ہوا،
سر کے مسح کا آغاز سر کے سامنے والے حصہ سے کیاجائے گا،
اور اگر سر پر پگڑی بھی ہو،
تو سامنے کے حصہ کے ساتھ پگڑی پر مسح کیاجائے گا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 634
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5798
5798. حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ایک مرتبہ نبی ﷺ قضائے حاجت کے لیے باہر تشریف لے گئے۔ جب وآپس آئے تو میں پانی لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ نے وضو کیا جبکہ آپ شامی جبہ پہنے ہوئے تھے۔ آپ نے کلی کی، ناک میں پانی ڈالا اور اپنا چہرہ دھویا۔ پھر آپ نے اپنے ہاتھوں کی اس کی آستینوں سے نکالنا چاہا لیکن وہ تنگ تھیں اس لیے آپ نے اپنے ہاتھ جبے کے ینچے سے نکالے اور پھر بازؤں کو دھویا، سر اور موزوں پر مسح فرمایا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5798]
حدیث حاشیہ:
تنگ آستینوں کا جبہ پہننا بھی ثابت ہوا لباس کے متعلق شریعت میں بہت وسعت ہے اس لیے کہ ہر ملک اورہر قوم کا لباس الگ الگ ہوتا ہے جائز یا ناجائز کے چند حدود بیان کر کے ان کے لباس کو ان کے حالات پر چھوڑ دیا گیا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5798
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:182
182. حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ سے روایت ہے، وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھے۔ آپ قضائے حاجت کے لیے تشریف لے گئے (جب آپ فارغ ہو کر آئے) تو حضرت مغیرہ ؓ نے پانی ڈالنا شروع کیا اور آپ وضو فرماتے رہے، چنانچہ آپ نے چہرہ اقدس اور دونوں ہاتھ دھوئے، سر کا مسح فرمایا۔ اور دونوں موزوں پر بھی مسح کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:182]
حدیث حاشیہ:
1۔
ابن بطال نے لکھا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے لیے کسی دوسرے سے وضو کا پانی منگوانا ناپسند خیال کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ ہم کسی دوسرے کو اپنے وضو میں شریک نہیں کرنا چاہتے۔
لیکن استنادی اعتبار سے یہ روایت صحیح نہیں۔
صحیح روایت میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا وضو کے متعلق دوسروں سے تعاون لینا ثابت ہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان احادیث سے یہ استدلال کیا ہے کہ کوئی شخص کسی دوسرے کو وضو کرا سکتا ہے۔
اس بات پر تمام علماء کا اتفاق ہے کہ مریض کو جب تیمم کرنے کی طاقت نہ ہوتو دوسرا شخص اسے تیمم کرا سکتا ہے۔
مگر جب مریض نماز پڑھنے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو کوئی دوسرا شخص اس کی طرف سے نماز نہیں پڑھ سکتا ہے۔
(شرح ابن بطال: 278/1)
2۔
وضو کے سلسلے میں اعانت کی تین صورتیں ہیں:
(الف)
۔
کسی شخص سے وضو کرنے کے لیے پانی منگوانا، اس میں کوئی کراہت نہیں، یہ بلاشبہ جائز ہے۔
لیکن حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اسے خلاف اولیٰ قراردیا ہے۔
(ب)
۔
وضو خود کرے لیکن اعضائے وضو پرپانی ڈالنے کے لیے کسی دوسرے سے مدد لے، یہ بھی جائز ہے لیکن اسے بہترنہیں قرار دیا جاسکتا۔
(ج)
۔
عمل وضو میں مدد لینا، یعنی پانی دوسرا شخص ڈالے اور اعضائے وضو کو بھی دھوئے، اس قسم کی مدد کسی مجبوری کی وجہ سے توجائز ہے لیکن بلاوجہ ایسا کرنا ناپسندیدہ فعل ہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے قائم کردہ عنوان میں تو اعانت کی اقسام کی گنجائش ہے لیکن جو روایات پیش فرمائی ہیں، ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اعانت کی دوسری قسم کا جواز پیش نظر ہے کیونکہ ان روایات میں صراحت ہے کہ حضرت اسامہ اور حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما صرف پانی ڈال رہے تھے لیکن وضو کا عمل خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سرانجام دیتے تھے۔
اس سے معلوم ہوا کہ اس قسم کی خدمات،خدام سے لی جا سکتی ہیں۔
(عمدة القاري: 516/2)
3۔
حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو فرمایا:
”نماز کی جگہ تیرے آگے ہے۔
“ دراصل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عرفات سے مزدلفہ جارہے تھے۔
نویں ذوالحجہ کو (نو اور دس ذوالحجہ کی درمیانی شب)
نماز مغرب اور نمازعشاء مزدلفہ میں ادا کی جاتی ہیں، اس لیے آپ نے فرمایا کہ آج مغرب کی نماز کا مقام مزدلفہ ہے جو آگے آ رہا ہے، وہاں مغرب اور عشاء دونوں نمازیں اکھٹی ادا کی جاتی ہیں۔
اس کے متعلق دیگر مسائل کتاب الحج میں بیان ہوں گے۔
ان شاء اللہ۔
4۔
واضح رہے کہ مذکورہ عنوان مستقل نہیں بلکہ باب در باب کی قسم سے ہے کیونکہ اس سے پہلے عنوان تھا کہ بول وبراز کے راستے سے کسی چیز کاخارج ہونا ناقض وضوہے۔
یہ دونوں احادیث بھی اس عنوان کے ثبوت کے لیے تھیں لیکن ان احادیث سے ایک نیا فائدہ بھی معلوم ہو رہا تھا، اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی آگاہی کے لیے ایک نیا عنوان قائم کردیا کہ وضو کے سلسلے میں کسی دوسرے سے مدد لی جا سکتی ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 182
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:203
203. حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ سے روایت ہے، وہ رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ قضائے حاجت کے لیے باہر تشریف لے گئے تو حضرت مغیرہ ؓ بھی پانی کا برتن لے کر ساتھ ہو گئے۔ جب آپ حاجت سے فارغ ہوئے تو انھوں (مغیرہ ؓ) نے آپ پر پانی ڈالا اور آپ نے وضو کیا۔ پھر آپ نے اپنے موزوں پر مسح کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:203]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے ان حضرات کے موقف کی بھی تردید ہوتی ہے جو نزول سورہ مائدہ کو بنیاد بنا کر موزوں پر مسح کرنے کے نسخ کا دعوی کرتے ہیں کیونکہ سورہ مائدہ کا نزول غزوہ مریسیع کے وقت ہوا اور حضرت مغیرہ ؓ کا یہ واقعہ جنگ تبوک کے موقع پر پیش آیا۔
غزوہ تبوک مریسیع کے بعد پیش آیا۔
اس لیے موزوں پر مسح منسوخ نہیں۔
(فتح الباري: 402/1)
اس کی مزید وضاحت درج ذیل حدیث سے ہوتی ہے:
حضرت جریر ؓ نے پیشاب کیا، اس کے بعد وضو کیا تو موزوں پر مسح فرمایا۔
بعض حضرات نے اس پر اعتراض کیا تو انھوں نے فرمایا:
میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ عمل کرتے دیکھا ہے۔
اعتراض کرنے والوں نے کہا:
رسول اللہ ﷺ کا یہ عمل سورہ مائدہ کے نزول سے پہلے تھا۔
اس کے جواب میں حضرت جریر ؓ نے فرمایا میں تو سورہ مائدہ کے نزول کے بعد مسلمان ہوا ہوں، یعنی میں اس آیت وضو کے بعد اسلام لایا ہوں جس کے متعلق تم یہ سمجھ رہے ہو کہ اس کے بعد موزوں پر مسح کرنے کی اجازت نہیں رہی۔
(سنن أبي داود، الطهارة، حدیث: 156)
ایک روایت میں ہےکہ غزوہ تبوک کے موقع پر جب آپ نے موزوں پر مسح فرمایا تو حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ نے عرض کیا:
اے اللہ کے رسول ﷺ! کیا آپ بھول گئے ہیں؟ آپ نے فرمایا:
”بھول نہیں گیا بلکہ مجھے میرے رب نے ایسا کرنے کا حکم دیا ہے۔
“ (سنن أبي داود، الطهارة، حدیث: 156)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 203
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:363
363. حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: میں ایک دفعہ نبی ﷺ کے ہمراہ کسی سفر میں تھا، آپ نے فرمایا: ”اے مغیرہ! پانی کا برتن پکڑ لو۔“ میں نے تعمیل حکم کرتے ہوئے برتن پکڑ لیا۔ پھر آپ باہر گئے یہاں تک کہ آپ میری نگاہوں سے اوجھل ہو گئے۔ پھر آپ نے قضائے حاجت کی اور اس وقت آپ شامی جبہ پہنے ہوئے تھے۔ آپ نے اس کی آستین سے اپنا ہاتھ باہر نکالنا چاہا، چونکہ وہ تنگ تھی، اس لیے آپ نے اپنا ہاتھ اس کے نیچے سے نکالا۔ پھر میں نے آپ کے اعضائے شریفہ پر پانی ڈالا، آپ نے نماز کے لیے وضو کیا اور اپنے موزوں پر مسح کیا، پھر نماز پڑھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:363]
حدیث حاشیہ:
1۔
ابن بطال ؒ نے لکھا ہے کہ یہ واقعہ 9 ہجری میں غزوہ تبوک کے موقع پر پیش آیا۔
شام میں ان دنوں کفار کی حکومت تھی اور ان کے تیار کردہ جبے تنگ آستینوں والےتھے۔
اس سے معلوم ہواکہ کفار مشرکین کے تیار کردہ کپڑوں میں نماز پڑھنا درست ہے بشر یکہ اس بات کا یقین ہو کہ یہ نجاست آلود نہیں۔
(شرح ابن بطال: 25/2)
2۔
امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے اپنا مدعا بایں طور ثابت کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے دارالکفر کا تیار کردہ جبہ استعمال فرمایا اور یہ دریافت نہیں کیا کہ اسے کس نے بنایا ہے اور اس کی تیاری میں کوئی ناپاک چیز تو استعمال نہیں کی گئی، پھر اس کے دھونے کا بھی کوئی ذکر نہیں۔
ثابت ہوا کہ ان چیزوں کے متعلق کریدنے کی ضرورت نہیں۔
جب تک اس کے نجس ہونے کے متعلق خصوصی دلیل نہ ہو اسے استعمال کیا جاسکتا ہے۔
خصوصی دلیل کے لیے مشاہدہ یا مخبر صادق کی اطلاع کا ہونا ضروری ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ اگر امام بخاری ؒ کا یہی مقصد تھا تو عنوان میں جبہ شامیہ کی قید لگائی؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ امام بخاری عام طورپر الفاظ حدیث کی رعایت کرتے ہوئے عنوان بندی کا اہتمام کرتے ہیں۔
3۔
کفار ومشرکین اور یہود وہنود کے مستعمل کپڑوں کے متعلق شریعت کا کیا حکم ہے؟چونکہ ہمارے ہاں غیر مسلم ممالک سے مستعمل کپڑے درآمد کیے جاتے ہیں، جسے ”لنڈے کا مال“ کہا جاتاہے۔
ان کے متعلق حکم یہ ہے کہ جو کپڑے اوپر کے حصہ جسم پر استعمال ہوتے ہوں، جیسا کہ چادر، قمیص اورجرسی وغیرہ، وہ طاہر سمجھے جائیں گے اور جو کپڑے جسم کے نچلے حصے پر استعمال ہوتے ہیں، جیسے پاجامہ، شلوار، پینٹ اور جانگیہ وغیرہ انھیں دھو کر استعمال کیا جائے، کیونکہ یہ لوگ طہارت ونظافت کا اہتمام نہیں کرتے اور نہ نجاست سے احتراز کرتے ہیں، لہذا بظاہر ایسے کپڑے بول وبراز سے ملوث ہوں گے۔
موفق ابن قدامہ ؒ نےلکھا ہے کہ امام احمد حنبل ؒ کے نزدیک اگر ایسے کپڑوں میں نماز پڑھ لی جائے تو اس نماز کا اعادہ، انھیں زیادہ پسند ہے۔
اس سلسلے میں ہمارا موقف بھی یہی ہے کہ لنڈے کے وہ کپڑے جو کفار ومشرکین نے جسم کے نچلے حصے میں استعمال کیے ہوں، انھیں دھوکر کارآمد بنایاجاسکتا ہے۔
انھیں دھوئے بغیر استعمال کرنا صحیح نہیں۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 363
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:388
388. حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: میں نے نبی ﷺ کو وضو کرایا تو آپ نے موزوں پر مسح کیا اور نماز پڑھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:388]
حدیث حاشیہ:
1۔
شیعہ حضرات کے نزدیک موزوں پر مسح کرنا اور انہیں پہن کر نماز پڑھنا درست نہیں۔
امام بخاری ؒ نے ثابت فرمایا کہ موزے پہن کر نماز پڑھنا درست ہے۔
گرمی اور سردی سے پاؤں کی حفاظت کا یہ دوسرا طریقہ ہے کہ زمین اور پاؤں کے درمیان موزوں کو حائل کردیا جائے۔
سورہ مائدہ میں آیت وضو کے نزول کے بعد بعض صحابہ کو شبہ ہو گیا تھا کہ شاید اب مسح کی اجازت منسوخ ہو چکی ہےاور پاؤں ہر حالت میں دھونے پڑیں گے۔
جب حضرت جریر ؓ نے یہ واقعہ بیان کیا تو لوگوں نے ان سے کہا کہ مسح کا حکم تو نزول سورہ مائدہ سے پہلے کا ہے تو انھوں نے جواب دیا کہ میں تو اسلام ہی سورہ مائدہ کے نزول کے بعد لایا ہوں۔
بعض روایات میں ہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر اسلام لائے۔
(فتح الباري: 641/1)
اس سے معلوم ہوا کہ شیعہ حضرات نے جو آیت مائدہ کا مفہوم اس طرح متعین کیا ہے کہ پاؤں پر ہر حالت میں مسح کرنا چاہیے۔
یہ سراسر غلط ہے۔
اسی طرح خوارج کا تشدد بھی درست نہیں. 2۔
محمد بن حوشب کہتے ہیں کہ میں نے جب حضرت جریر ؓ کو موزوں پر مسح کر کے ان میں نماز پڑھتے دیکھا۔
نیز سوال کرنے پر انھوں نے رسول اللہ ﷺ کے متعلق اپنا مشاہدہ بیان کیا تو میں نے ان سے پوچھا کہ یہ مشاہدہ نزول سورہ مائدہ سے پہلے کا ہے یا بعد کا؟ انھوں نے فرمایا:
میں تو مسلمان ہی نزول سورہ مائدہ کے بعد ہوا ہوں۔
(جامع الترمذي، الطهارة، حدیث: 94)
اس حدیث پر امام ترمذی ؒ بایں الفاظ تبصرہ کرتے ہیں:
اس حدیث نے خوب وضاحت کردی ہے، کیونکہ جو لوگ موزوں پر مسح کرنے سے انکار کرتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ موزوں پر مسح کی رخصت نزول سورہ مائدہ سے پہلے تھی، لیکن حضرت جریر ؓ کے عمل سے وضاحت ہو گئی کہ سورہ مائدہ میں وضو کے وقت پاؤں دھونے کا جو ذکر ہے، اس سے موزوں پر مسح کرنے کا عمل منسوخ نہیں ہوا بلکہ یہ حکم آخر وقت تک باقی رہا۔
نوٹ:
حدیث مغیرہ بن شعبہ ؓ سے متعلقہ دیگر فوائد گزشتہ حدیث: 182۔
میں دیکھے جا سکتے ہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 388
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2918
2918. حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ قضائے حاجت کے لیے باہر تشریف لے گئے۔ جب آپ واپس ہوئے تو میں پانی لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ اس وقت شامی جبه زیب تن کیے ہوئے تھے۔ آپ نے وضو کیا اس طرح کہ کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا اور اپنے چہرے کو دھویا۔ اس کے بعد بازودھونے کے لیے آستینیں چڑھانے کی کوشش کی لیکن وہ تنگ تھی، اس لیے آپ نے اپنے ہاتھوں کو نیچے سے نکالا، پھر انھیں دھویا۔ بعد ازاں اپنے سرکا مسح کیا اور دونوں موزوں پر بھی مسح فرمایا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2918]
حدیث حاشیہ:
1۔
دوران سفرمیں عالم دین کی خدمت کرنے کا ثواب ہے جیسا کہ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔
صحیح بخاری کی روایت میں صراحت ہے کہ یہ واقعہ دوران سفر میں پیش آیا۔
(صحیح البخاري، الوضو ء، حدیث: 182)
نیز یہ بھی وضاحت ہے کہ مذکورہ سفر غزوہ تبوک کا تھا۔
(صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4421)
2۔
ان دونوں روایات کو ملا کر یہ ثابت ہوا کہ دوران سفر میں اور دوران جنگ میں جبہ پہنا جا سکتا ہے اور ایسا کرنا قطعی طور پر توکل کے منافی نہیں۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2918
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4421
4421. حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ قضائے حاجت کے لیے تشریف لے گئے تو میں آپ کے لیے وضو کا پانی لے کر حاضر ہوا۔۔ جہاں تک مجھے یقین ہے یہ واقعہ غزوہ تبوک کا ہے۔۔ آپ نے اپنا چہرہ مبارک دھویا پھر آپ نے اپنے ہاتھ کہنیوں تک دھونے کا ارادہ کیا تو جبے کی آستین تنگ نکلی، چنانچہ آپ نے اپنے ہاتھ جبے کے نیچے سے نکال لیے اور انہیں دھویا، پھر موزوں پر مسح فرمایا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4421]
حدیث حاشیہ:
یہ عنوان، سابق عنوان کا تکملہ ہے۔
اس میں وہی احادیث بیان ہوں گی جو غزوہ تبوک سے متعلق ہیں، چنانچہ اس حدیث میں بھی ایک واقعہ بیان ہوا ہے جوغزوہ تبوک کے موقع پر پیش آیا بلکہ صحیح مسلم میں صراحت ہےکہ حضرت مغیرہ ؓ کہتے ہیں:
میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ غزوہ تبوک میں شامل تھا، پھرآپ نے مسح کا واقعہ بیان کیا، اس حدیث میں یہ اضافہ ہے کہ قضائے حاجت میں دیرہوگئی تو لوگوں نے حضرت عبدالرحمان بن عوف ؓ کو فجر کی نماز پڑھانے کے لیے آگے کردیا۔
آپ جب تشریف لائے تو ایک رکعت بھی پڑھی جاچکی تھی۔
سلام کے بعد آپ نے فوت شدہ رکعت ادا کرکے اپنی نماز مکمل کی۔
(صحیح مسلم، الصلاة، حدیث: 952(274)
بہرحال اس حدیث میں غزوہ تبوک کا ذکر تھا، اس لیے امام بخاری ؒ نے اسے بیان کیا ہے۔
واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4421
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5798
5798. حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ایک مرتبہ نبی ﷺ قضائے حاجت کے لیے باہر تشریف لے گئے۔ جب وآپس آئے تو میں پانی لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ نے وضو کیا جبکہ آپ شامی جبہ پہنے ہوئے تھے۔ آپ نے کلی کی، ناک میں پانی ڈالا اور اپنا چہرہ دھویا۔ پھر آپ نے اپنے ہاتھوں کی اس کی آستینوں سے نکالنا چاہا لیکن وہ تنگ تھیں اس لیے آپ نے اپنے ہاتھ جبے کے ینچے سے نکالے اور پھر بازؤں کو دھویا، سر اور موزوں پر مسح فرمایا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5798]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران سفر میں ایک تنگ آستینوں والا جبہ پہنا تھا۔
سفر میں اس طرح کے جبے کی ضرورت ہوتی ہے، البتہ اپنے گھر میں کھلی آستینوں والا جبہ پہنا جاتا ہے۔
(2)
لباس کے متعلق شریعت میں بہت وسعت ہے۔
ہر ملک اور قوم کا لباس جدا جدا ہوتا ہے۔
جائز و ناجائز کی چند حدود بیان کر کے اسے مقامی حالات پر چھوڑ دیا گیا ہے کہ لوگ اپنی صوابدید کے مطابق اپنا لباس اختیار کریں۔
اس کے دو بنیادی فائدے ہیں:
ستر پوشی کا کام دے اور باعث زینت ہو، البتہ اس کی تراش وغیرہ انسان اپنی مرضی سے کر سکتا ہے۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5798