مسند الحميدي
أَحَادِيثُ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
حدیث نمبر 852
حدیث نمبر: 852
852 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ، قَالَ: ثنا أَرْبَعَةٌ أَوْ خَمْسَةٌ مِنْهُمْ عَلِيُّ بْنُ زَيْدِ بْنِ جُدْعَانَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، أَنَّ رَجُلًا أَعْتَقَ سِتَّةَ مَمْلُوكِينَ لَهُ عِنْدَ مَوْتِهِ لَيْسَ لَهُ مَالٌ غَيْرَهُمْ، فَأَقْرَعَ النَّبِيُّ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَهُمْ فَأَعْتَقَ اثْنَيْنِ وَأَرَقَّ أَرْبَعَةً، وَقَالَ: «لَوْ أَدْرَكْتُهُ مَا صَلَّيْتُ عَلَيْهِ»
852- سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ایک شخص نے مرنے کے قریب اپنے چھ غلاموں کو آزاد کر دیا۔ اس شخص کے پاس ان غلاموں کے علاوہ اور کوئی مال نہیں تھا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان غلاموں کے درمیان قرعہ اندازی کی اور دو کو آزاد قرار دیا اور چار کو غلام رہنے دیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اگر میں اس تک پہنچ گیا تو میں اس کی نماز جنازہ ادا نہیں کروں گا۔“
تخریج الحدیث: «في إسناده علتان: الأولى: ضعف على بن زيد بن جدعان، والعلة الثانية القطاعه فالحسن البصري لم يثبت له سماع من عمران والله أعلم. غير أن الحديث صحيح فقد أخرجه مسلم فى الأيمان 1668، وقد استوفينا تخرجه فى صحيح ابن حبان برقم 4320 4542 5075، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 1957، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 2096، 4955، 4956، 4957، 4958، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3958، 3961، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1364، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2345، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 12673، 12674، 12675، وأحمد فى «مسنده» ، برقم: 20140 برقم: 20160»
مسند الحمیدی کی حدیث نمبر 852 کے فوائد و مسائل
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:852
فائدہ:
اس سے معلوم ہوا کہ وصیت زیادہ سے زیادہ تیسرا حصہ کرنا درست ہے اس طرح اپنے مال کا تیسرا حصہ خرچ کرنا درست ہے۔ اگر کوئی غلط بات کر دے تو اس پر عمل نہیں کیا جائے گا۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 852
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3958
´کوئی شخص اپنے غلاموں کو آزاد کرے جو تہائی مال سے زائد ہوں تو کیا حکم ہے؟`
عمران بن حصین رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نے اپنی موت کے وقت اپنے چھ غلاموں کو آزاد کر دیا ان کے علاوہ اس کے پاس کوئی اور مال نہ تھا، یہ خبر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپ نے اس اسے سخت سست کہا پھر انہیں بلایا اور ان کے تین حصے کئے: پھر ان میں قرعہ اندازی کی پھر ان میں سے دو کو (جن کے نام قرعہ میں نکلے) آزاد کر دیا اور چار کو غلام ہی رہنے دیا۔ [سنن ابي داود/كتاب العتق /حدیث: 3958]
فوائد ومسائل:
1) کتاب الوصایا میں یہ گزرا ہے کہ کسی شخص کو اپنے تہائی مال سے زیادہ میں وصیت کرنے کی اجازت نہیں ہے، اسی بنیاد پر مذکورہ بالا واقعہ میں اس شخص کی غلط وصیت کو منسوخ کر کے شریعت کے مطابق عمل کیاگیا۔
2) امیر المومنین اور مسلمان عمال کا فریضہ ہے کہ مسلمان عوام الناس کے جملہ امور پر نگاہ رکھیں کہ کہیں بھی شریعت کی مخالفت نہ ہو نے پائے۔
3) غلط وصیت کومنسوخ کرکےشریعت کےمطابق عمل کرنا کرانا چاہئے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3958