مسند الحميدي
أَحَادِيثُ الصَّعْبِ بْنِ جَثَّامَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
سیدنا صعب بن جثامہ رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
حدیث نمبر 800
حدیث نمبر: 800
800 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ، قَالَ: ثنا الزُّهْرِيُّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّهُ سَمِعُ ابْنَ عَبَّاسٍ، يَقُولُ: أَخْبَرَنِي الصَّعْبُ بْنُ جَثَّامَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: «لَا حِمًي إِلَّا لِلَّهِ وَرَسُولِهِ»
800- سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سیدنا صعب بن جثامہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں۔ ”چراگاہ صرف اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے“۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2370، 3012، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 136، 137، 4684، 4787، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 2371، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 5743، 8570، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3083، 3084، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 11923، 11924، 11925، 13501، 18169 وأحمد فى «مسنده» ، برقم: 16684 برقم: 16688»
مسند الحمیدی کی حدیث نمبر 800 کے فوائد و مسائل
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:800
فائدہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حرام کاموں سے دور رہنا مسلمان پر ضروری ہے۔ جو حرام کا ارتکاب کرتا ہے وہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی اللہ تعالیٰ کی منع کردہ حدود کو تجاوز کر گیا ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 800
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3083
´امام یا کوئی اور شخص زمین (چراگاہ اور پانی) اپنے لیے گھیر لے تو کیسا ہے؟`
صعب بن جثامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ اور اس کے رسول کے سوا کسی اور کے لیے چراگاہ نہیں ہے۔“ ابن شہاب زہری کہتے ہیں کہ مجھے یہ حدیث پہنچی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نقیع (ایک جگہ کا نام ہے) کو «حمی» (چراگاہ) بنایا۔ [سنن ابي داود/كتاب الخراج والفيء والإمارة /حدیث: 3083]
فوائد ومسائل:
حاکم اعلیٰ یا کوئی شخص اپنے لئے بطور چراگاہ مخصوص کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہو کہ وہاں کی گھاس پانی اور لکڑی وغیرہ سے دوسروں کو روک دے اوراسے آباد یا کاشت بھی نہ کرے۔
دور جاہلیت میں ایسے ہوتا تھا کہ کوئی زورآور کسی اونچی جگہ پر اپنے کتے کو بھونکواتا اور اطراف میں اپنے آدمی مقرر کردیتا۔
تو جہاں جہاں تک کتے کی آواز پہنچتی وہ رقبہ اپنے اور اپنے جانوروں کےلئے خاص کرلیتا تھا۔
دوسروں کو اس سے استفادے کی اجازت نہ دیتا تھا۔
اسلام میں اس کی اجازت نہیں الا یہ کہ عام مسلمانوں کی مصلحت کےلئے ہو۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3083
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3084
´امام یا کوئی اور شخص زمین (چراگاہ اور پانی) اپنے لیے گھیر لے تو کیسا ہے؟`
صعب بن جثامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نقیع کو چراگاہ بنایا، اور فرمایا: ”اللہ کے سوا کسی اور کے لیے چراگاہ نہیں ہے ۱؎۔“ [سنن ابي داود/كتاب الخراج والفيء والإمارة /حدیث: 3084]
فوائد ومسائل:
اس مقام پر صدقے کے اونٹ رکھے جاتے تھے۔
امام المسلمین کو مصلحت حکومت کے پیش نظر کسی علاقے کو بطور چراگاہ یا کسی اورمقصد کےلئے خاص کرلینا جائز ہے، عوام لناس کےلئے جائز نہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3084
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2370
2370. حضرت صعب بن جثامہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”چراگاہ کو اللہ اور اس کا رسول محفوظ کرسکتا ہے۔“ امام زہری ؒ نے کہا: ہمیں یہ خبر پہنچی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے نقیع کو محفوظ کیا، نیز حضرت عمر ؓ نے مقام شرف اور ربذہ کو سرکاری چراگاہ قرار دیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2370]
حدیث حاشیہ:
مطلب حدیث کا یہ ہے کہ جنگل میں چراگاہ روکنا، گھاس اور شکار بند کرنا یہ کسی کو نہیں پہنچتا، سوائے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے۔
امام اور خلیفہ بھی رسول کا قائم مقام ہے۔
اس کے سوا اور لوگوں کو چراگاہ روکنا اور محفوظ کرنا درست نہیں۔
شافعیہ اور اہل حدیث کا یہی قول ہے۔
نقیع ایک مقام ہے مدینہ سے بیس میل پر، اور سرف اور ربذہ بھی مقاموں کے نام ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2370
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2370
2370. حضرت صعب بن جثامہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”چراگاہ کو اللہ اور اس کا رسول محفوظ کرسکتا ہے۔“ امام زہری ؒ نے کہا: ہمیں یہ خبر پہنچی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے نقیع کو محفوظ کیا، نیز حضرت عمر ؓ نے مقام شرف اور ربذہ کو سرکاری چراگاہ قرار دیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2370]
حدیث حاشیہ:
(1)
"حِمٰی" سے مراد وہ محفوظ علاقہ ہے جو حکومت کی ملکیت ہوتا ہے۔
وہاں حکومت کو ملنے والے صدقے کے جانور وغیرہ چرتے ہیں۔
زمانۂ جاہلیت میں یہ دستور تھا کہ جس علاقے میں گھاس ہوتی یا وادی کا نشیب ہوتا وہاں بڑے سردار یہ اعلان کر دیتے کہ جہاں تک ہمارے کتوں کے بھونکنے کی آواز جاتی ہے وہ ہمارا ممنوعہ علاقہ ہے۔
وہاں کسی دوسرے شخص کو جانے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔
رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ یہ حکومت کی ملکیت ہے، اس کے علاوہ اور کوئی بھی فالتو پڑی زمین کو چراگاہ نہیں بنا سکتا۔
ہاں اپنی مملوکہ زمین میں اگر کوئی چراگاہ بنانا چاہتا ہو تو اس پر کوئی روک ٹوک نہیں۔
(2)
وادیوں، پہاڑوں اور فالتو زمین سے اگرچہ مسلمان فائدہ اٹھا سکتے ہیں لیکن وہ ان کے مالک نہیں بن سکتے، یہ حق صرف حکومت کو ہے کہ وہ کسی فالتو زمین کو چراگاہ قرار دے۔
ایسی چراگاہ میں جہاد کے گھوڑے، اونٹ اور زکاۃ کے جانور وغیرہ چرائے جا سکتے ہیں۔
بہرحال جنگلات، پہاڑوں کی چوٹیاں، گھاٹیاں اور برساتی ندی نالوں کے اردگرد چراگاہیں حکومت وقت کی ملکیت ہوتی ہیں کسی دوسرے کو وہاں قبضہ کرنے کی اجازت نہیں کیونکہ ایسے مقامات رفاہی منصوبوں اور قومی آبادکاری کے لیے ہوتے ہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2370