693 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ، قَالَ: ثنا ابْنُ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ: صَحِبْتُ ابْنَ عُمَرَ إِلَي الثَّنِيَّةِ فَمَا سَمِعْتُهُ يُحَدِّثُ عَنْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا حَدِيثًا وَاحِدًا، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأُتِيَ بِجُمَّارٍ، فَقَالَ: «إِنِّي لَأَعْلَمُ شَجَرَةً مَثَلُهَا كَمَثَلِ الرَّجُلِ الْمُسْلِمِ» ، فَوَقَعَ فِي نَفْسِي أَنَّهَا النَّخْلَةُ، فَأَرَدْتُ أَنْ أَتَكَلَّمَ، ثُمَّ نَظَرْتُ فَإِذَا أَنَا أَصْغَرُ الْقَوْمِ فَسَكَتُّ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «هِيَ النَّخْلَةُ»
693- مجاہد بیان کرتے ہیں: میں ثنیہ تک سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ گیا، تو میں نے انہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے کوئی حدیث بیان کرتے ہوئے نہیں سنا انہوں نے صرف ایک حدیث بیان کی وہ بیان کرتے ہیں: ایک مرتبہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیا خدمت جمار (کھجور کے درخت کا گوند) لایا گیا، تونبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”مجھے ایک ایسے درخت کے بارے میں پتہ ہے، جس کی مثال مسلمان بندے کی مانند ہے۔“ (سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں:) میرے ذہن میں آئی کہ وہ کھجور کا درخت ہوگا پہلے میں بات کرنے لگا، لیکن میں نے جائزہ لیا تو میں حاضرین میں سب سے کم سن تھا۔اس لیے میں خاموش رہا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ کھجور کا درخت ہے“۔
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 61
´لفظ «حدثنا أو، أخبرنا وأنبأنا» استعمال کرنا صحیح ہے`
«. . . قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ مِنَ الشَّجَرِ شَجَرَةً لَا يَسْقُطُ وَرَقُهَا وَإِنَّهَا مَثَلُ الْمُسْلِمِ، فَحَدِّثُونِي مَا هِيَ؟ . . .»
”. . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا درختوں میں ایک درخت ایسا ہے کہ اس کے پتے نہیں جھڑتے اور مسلمان کی مثال اسی درخت کی سی ہے۔ بتاؤ وہ کون سا درخت ہے؟ . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 61]
� تشریح:
اس روایت کو حضرت امام قدس سرہ اس باب میں اس لیے لائے ہیں کہ اس میں لفظ «حدثنا وحدثوني» خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی زبانوں سے بولے گئے ہیں۔ پس ثابت ہو گیا کہ یہ اصطلاحات عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروج ہیں۔ بلکہ خود قرآن مجید ہی سے ان سب کا ثبوت ہے۔ جیسا کہ سورۃ تحریم میں ہے «قَالَتْ مَنْ أَنْبَأَكَ هَـذَا قَالَ نَبَّأَنِيَ الْعَلِيمُ الْخَبِيرُ» [66-التحريم:3] (اس عورت نے کہا کہ آپ کو اس بارے میں کس نے خبر دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھ کو اس نے خبر دی جو جاننے والا خبر رکھنے والا پروردگار عالم ہے۔) پس منکرین حدیث کی یہ ہفوات کہ علم حدیث عہد نبوی کے بعد کی ایجاد ہے بالکل غلط اور قرآن مجید کے بالکل خلاف اور واقعات کے بھی خلاف ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 61
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 62
´طالب علموں کا امتحان لینا`
«. . . عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِنَّ مِنَ الشَّجَرِ شَجَرَةً لَا يَسْقُطُ وَرَقُهَا وَإِنَّهَا مَثَلُ الْمُسْلِمِ، حَدِّثُونِي مَا هِيَ؟ . . .»
”. . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ (ایک مرتبہ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا درختوں میں سے ایک درخت ایسا ہے کہ اس کے پتے نہیں جھڑتے اور مسلمان کی بھی یہی مثال ہے بتلاؤ وہ کون سا درخت ہے؟ . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 62]
� تشریح:
اس حدیث اور واقعہ نبوی سے طالب علموں کا امتحان لینا ثابت ہوا۔ جب کہ کھجور کے درخت سے مسلمان کی تشبیہ اس طرح ہوئی کہ مسلمان «متوكل على الله» ہو کر ہر حال میں ہمیشہ خوش و خرم رہتا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 62
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 72
´علم میں سمجھداری سے کام لینے کے بیان میں`
«. . . قَالَ لِي ابْنُ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ: صَحِبْتُ ابْنَ عُمَرَ إِلَى الْمَدِينَةِ، فَلَمْ أَسْمَعْهُ يُحَدِّثُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا حَدِيثًا وَاحِدًا، قَالَ: " كُنَّا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأُتِيَ بِجُمَّارٍ، فَقَالَ: إِنَّ مِنَ الشَّجَرِ شَجَرَةً مَثَلُهَا كَمَثَلِ الْمُسْلِمِ، فَأَرَدْتُ أَنْ أَقُولَ: هِيَ النَّخْلَةُ، فَإِذَا أَنَا أَصْغَرُ الْقَوْمِ فَسَكَتُّ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هِيَ النَّخْلَةُ " . . . .»
”. . . ابن ابی نجیح نے مجاہد کے واسطے سے نقل کیا، وہ کہتے ہیں کہ میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ مدینے تک رہا، میں نے (اس) ایک حدیث کے سوا ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی اور حدیث نہیں سنی، وہ کہتے تھے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھجور کا ایک گابھا لایا گیا۔ (اسے دیکھ کر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ درختوں میں ایک درخت ایسا ہے اس کی مثال مسلمان کی طرح ہے۔ (ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ یہ سن کر) میں نے ارادہ کیا کہ عرض کروں کہ وہ (درخت) کھجور کا ہے مگر چونکہ میں سب میں چھوٹا تھا اس لیے خاموش رہا۔ (پھر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہی فرمایا کہ وہ کھجور ہے۔ . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ/بَابُ الْفَهْمِ فِي الْعِلْمِ:: 72]
تشریح:
حدیث 71 کے آخر میں جو فرمایا، اس کا مطلب دوسری حدیث کی وضاحت کے مطابق یہ ہے کہ امت کس قدر بھی گمراہ ہو جائے مگر اس میں ایک جماعت حق پر قائم رہے گی، اس کی لوگ کتنی بھی مخالفت کریں مگر اس جماعت حقہ کو اس مخالفت کی کچھ پروا نہ ہو گی، اس جماعت سے جماعت اہل حدیث مراد ہے۔ جس نے تقلید جامد سے ہٹ کر صرف کتاب و سنت کو اپنا مدار عمل قرار دیا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 72
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 131
´حصول علم میں شرمانا مناسب نہیں ہے`
«. . . عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِنَّ مِنَ الشَّجَرِ شَجَرَةً لَا يَسْقُطُ وَرَقُهَا وَهِيَ مَثَلُ الْمُسْلِمِ، حَدِّثُونِي مَا هِيَ؟ فَوَقَعَ النَّاسُ فِي شَجَرِ الْبَادِيَةِ، وَوَقَعَ فِي نَفْسِي أَنَّهَا النَّخْلَةُ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: فَاسْتَحْيَيْتُ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَخْبِرْنَا بِهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هِيَ النَّخْلَةُ "، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: فَحَدَّثْتُ أَبِي بِمَا وَقَعَ فِي نَفْسِي، فَقَالَ: لَأَنْ تَكُونَ قُلْتَهَا أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ يَكُونَ لِي كَذَا وَكَذَا . . .»
”. . . عبداللہ بن عمر سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایک مرتبہ) فرمایا کہ درختوں میں سے ایک درخت (ایسا) ہے۔ جس کے پتے (کبھی) نہیں جھڑتے اور اس کی مثال مسلمان جیسی ہے۔ مجھے بتلاؤ وہ کیا (درخت) ہے؟ تو لوگ جنگلی درختوں (کی سوچ) میں پڑ گئے اور میرے دل میں آیا (کہ میں بتلا دوں) کہ وہ کھجور (کا پیڑ) ہے، عبداللہ کہتے ہیں کہ پھر مجھے شرم آ گئی (اور میں چپ ہی رہا) تب لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ ہی (خود) اس کے بارہ میں بتلائیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، وہ کھجور ہے۔ عبداللہ کہتے ہیں کہ میرے جی میں جو بات تھی وہ میں نے اپنے والد (عمر رضی اللہ عنہ) کو بتلائی، وہ کہنے لگے کہ اگر تو (اس وقت) کہہ دیتا تو میرے لیے ایسے ایسے قیمتی سرمایہ سے زیادہ محبوب ہوتا . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ/بَابُ الْحَيَاءِ فِي الْعِلْمِ:: 131]
� تشریح:
اس سے قبل بھی دوسرے باب کے تحت یہ حدیث آ چکی ہے۔ یہاں اس لیے بیان کی ہے کہ اس میں شرم کا ذکر ہے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اگر شرم نہ کرتے تو جواب دینے کی فضیلت انہیں حاصل ہو جاتی، جس کی طرف حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اشارہ فرمایا کہ اگر تم بتلا دیتے تو میرے لیے بہت بڑی خوشی ہوتی۔ اس حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ ایسے موقع پر شرم سے کام نہ لینا چاہئیے۔ اس سے اولاد کی نیکیوں اور علمی صلاحیتوں پر والدین کا خوش ہونا بھی ثابت ہوا جو ایک فطری امر ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 131
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2209
2209. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ میں ایک دفعہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر تھا جبکہ آپ کھجور کاگودا کھارہے تھے، آپ نے فرمایا: ”درختوں میں سے ایک درخت ہے جو بندہ مومن کی طرح ہے (بتاؤ وہ کون سا درخت ہے؟)“ میں نے یہ کہنے کا ارادہ کیا کہ وہ کھجور کادرخت ہے۔ لیکن جتنے لوگ وہاں موجود تھے میں ان سب میں کمسن تھا لہذا چپ رہا، آپ نے خود ہی فرمایا: ”وہ کھجور کادرخت ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2209]
حدیث حاشیہ:
یہ حدیث پہلے پارے میں کتاب العلم میں بھی گزر چکی ہے اور جب کھانا درست ہوا تو اس کا بیچنا بھی درست ہوگا۔
پس ترجمہ باب نکل آیا۔
بعض نے کہا کہ کھجور کے درخت پر گوند نکل آتا تھا جو چربی کی طرح سفید ہوتا تھا وہ کھایا جاتا تھا، مگر اس گوند کے نکلنے کے بعد وہ درخت پھل نہیں دیتا تھا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2209
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4698
4698. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہم ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں تھے کہ آپ نے صحابہ سے پوچھا: ”مجھے اس درخت کے متعلق بتاؤ جو بندہ مسلم سے مشابہ ہے یا مرد مسلم کی مانند ہے جس کے پتے نہیں گرتے اور نہ یہ ہوتا ہے، نہ یہ ہوتا ہے اور نہ یہ ہوتا ہے۔ وہ اپنا پھل ہر موسم میں دیتا ہے۔“ حضرت ابن عمر کہتے ہیں: میرے دل میں خیال آیا وہ کھجور کا درخت ہے لیکن میں نے دیکھا کہ حضرت ابوبکر و عمر ؓ جیسے بزرگ خاموش بیٹھے ہیں تو میں نے بھی جواب دینا مناسب نہ خیال کیا۔ جب انہوں نے کوئی جواب نہ دیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”وہ کھجور کا درخت ہے۔“ جب ہم اس مجلس سے اٹھ آئے تو میں نے حضرت عمر ؓ سے کہا: ابا جان، اللہ کی قسم! میرے دل میں یہ بات آئی تھی کہ وہ کھجور کا درخت ہے۔ انہوں نے فرمایا: تمہیں جواب دینے سے کس چیز نے روکا تھا؟ ابن عمر ؓ نے کہا:۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4698]
حدیث حاشیہ:
آنحضرت ﷺ نے اس درخت کی تین صفتیں اشاروں میں بیان فرمائیں جو یہ تھیں کہ اس کا میوہ کبھی ختم نہیں ہوتا، اس کا سایہ کبھی نہیں مٹتا، اس کا فائدہ کسی بھی حالت میں معدوم نہیں ہوتا۔
اس حدیث کے اس باب میں لانے سے حضرت امام بخاریؒ کی یہ غرض ہے کہ اس آیت میں شجرہ طیبہ سے کھجور کا درخت مراد ہے۔
ناپاک درخت سے اندر ائن کا درخت مراد ہے ناپاک کا مطلب یہ ہے کہ وہ کڑوا کسیلا ہے۔
ناپاک کے معنی یہاں گندہ نجس نہیں ہے۔
ویسے اندرائن کا پھل بہت سے امراض کے لئے اکسیر ہے۔
﴿هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُمْ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا﴾ (البقرة: 29)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4698
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5444
5444. سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: ایک مرتبہ ہم نبی ﷺ کی خدمت میں موجود تھے کہ آپ کے پاس کھجور کا گودا لایا گیا۔ نبی ﷺ فرمایا: ”درختوں میں سے ایک درخت ایسا ہے جس کی برکت، مسلمان کی برکت جیسی ہے۔“ میں نے خیال کیا کہ آپ کا اشارہ کھجور کے درخت کی طرف ہے۔ میں نے سوچا کہ کہہ دوں۔ اللہ کے رسول! یہ کھجور کا درخت ہے لیکن جب میں نے ادھر ادھر دیکھا تو مجلس میں میرے علاوہ نو آدمی اور تھے اور میں ان سب سے چھوٹا تھا، اس لیے میں خاموش رہا۔ پھر نبی ﷺ نے فرمایا: ”وہ درخت کھجور کا ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5444]
حدیث حاشیہ:
کھجور کا درخت آدمی سے بہت مشابہت رکھتا ہے۔
اس کے گابھہ میں ایسی بو ہوتی ہے جیسی آدمی کے نطفہ میں اور اس کا سر کاٹ ڈالو تو وہ آدمی کی طرح مر جاتا ہے۔
اور درخت نہیں مرتے بلکہ پھر ہرے بھرے ہو جاتے ہیں مگر کھجور کا سر آدمی کے سر کی مثال ہے۔
اسی لیے حکماء نے کھجور کو ایسی آخری نباتات سے قرار دیا ہے کہ وہاں سے حیوانات اور نباتات میں اتصال بہت قریب ہوتا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5444
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5448
5448. سیدنا ابن عمر ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا: ”درختوں میں سے ایک درخت مسلمان جیسا ہے اور وہ کھجور کا در خت ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5448]
حدیث حاشیہ:
جس کا پھل بے حد مقوی اور بہترین لذت والا شیریں ہوتا ہے۔
مسلمان کو بھی ایسا ہی بن کر رہنا چاہیئے اور اپنی ذات سے خلق اللہ کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچانا چاہیئے۔
کسی کو ناحق ایذا رسانی مسلمان کا کام نہیں ہے۔
کھجور مدینہ منورہ کی خاص پیدا وار ہے۔
یہ اس لیے بھی مسلمانوں کو زیادہ محبوب ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5448
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6122
6122. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: مومن کی مثال اس سر سبز درخت کی طرح ہے جس کے پتے نہ گرتے ہیں نہ جھڑتے ہیں۔ صحابہ کرام نے کہا: یہ فلاں درخت ہے یہ فلاں درخت ہے۔ میں نے کھجور کا درخت بتانے کا ارادہ کیا میں چونکہ کمسن نوخیز تھا اس لیے میں نے بتانے سے شرم محسوس کی تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”وہ درخت کھجور کا ہے۔“ ایک روایت میں یہ اضافہ ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ نے کہا کہ میں نے اس بات کا تذکرہ حضرت عمر ؓ سے کیا تو انہوں نے فرمایا: اگر تم جواب دے دیتے تو مجھے اتنا اتنا مال ملنے سے بھی زیادہ خوشی ہوتی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6122]
حدیث حاشیہ:
حضرت امام بخاری نے اسی روایت سے باب کا مطلب نکالا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے عبداللہ کی اس شرم کوپسند نہ کیا جو دین کی بات بتلانے میں انہوں نے کیا۔
بے محل شرم کرنا غلط ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6122
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6144
6144. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”مجھے اس درخت کا نام بتاؤ جس کی مثال مسلمان جیسی ہے۔ وہ ہمیشہ اپنے رب کے حکم سے پھل دیتا ہے اور اس کے پتے نہیں گرتے۔“ میرے دل میں خیال آیا کہ وہ کھجور کا درخت ہے لیکن میں نے اس کا جواب دینا مناسب خیال نہ کیا کیونکہ مجلس میں حضرت ابوبکر صدیق ؓ اور حضرت عمر بن خطاب ؓ (جیسے اکابر صحابہ) موجود تھے۔ پھر جب ان دونوں بزرگوں نے کچھ نہ کہا تو نبی ﷺ نے فرمایا: ”وہ کھجور کا درخت ہے۔“ چنانچہ جب میں اپنے والد کے ہمراہ وہاں سے باہر نکلا تو میں نے کہا: اے ابو جان! میرے دل میں آیا تھا کہ وہ کھجور کا درخت ہے انہوں نے فرمایا: پھر تمہیں جواب دینے سے کس چیز نے منع کیا تھا؟ اگر تم کہہ دیتے تو مجھے اتنا مال ملنے سے بھی زیادہ خوشی ہوتی۔ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: مجھے صرف اس امر نے منع کیا کہ آپ اور حضرت ابوبکر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6144]
حدیث حاشیہ:
کھجور کے درخت میں یہ خاصیت ہے کہ قحط کے زمانے میں بھی جبکہ اور درخت سوکھ جاتے ہیں یہ خوب میوہ دیتا ہے اور یہ بہر حال مفید رہتا ہے۔
عربوں کا بہت بڑا سرمایہ یہی درخت ہے، جس کا پھل غذائیت سے پھر پور اور بے حد مقوی اور نفع بخش ہوتا ہے۔
مدینہ منورہ میں بہت سی قسم کی کھجوریں پیدا ہوتی ہیں جن میں عجوہ نامی کھجور بہت ہی تریاق ہے۔
حدیث سے بڑوں کو مقد م رکھنا ثابت ہوا، مگرکوئی موقع مناسب ہو اورچھوٹے لوگ بڑوں کی خاموشی دیکھ کر سچ بات کہہ دیں تو یہ معیوب نہیں ہوگا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6144
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 131
131. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”درختوں میں ایک درخت ایسا ہے جس کے پتے نہیں جھڑتے۔ اس کی شان مسلمان کی طرح ہے۔ بتاؤ وہ کون سا درخت ہے؟“ یہ سن کر لوگوں کے خیالات جنگل کے درختوں کی طرف گئے، لیکن میرے ذہن میں یہ آیا کہ وہ کھجور کا درخت ہے۔ حضرت ابن عمر فرماتے ہیں: (لیکن) مجھے شرم دامن گیر ہو گئی۔ لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ ہی بتائیں وہ کون سا درخت ہے؟ آپ نے فرمایا:”وہ کھجور کا درخت ہے۔“ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں: میں نے اپنے والد گرامی (حضرت عمر ؓ) سے وہ بات بیان کی جو میرے دل میں آئی تھی تو انہوں نے کہا: کاش! تم نے یہ بات کہہ دی ہوتی تو یہ میرے لیے بڑی دولت ہوتی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:131]
حدیث حاشیہ:
اس سے قبل بھی دوسرے باب کے تحت یہ حدیث آچکی ہے۔
یہاں اس لیے بیان کی ہے کہ ا س میں شرم کا ذکر ہے۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اگرشرم نہ کرتے تو جواب دینے کی فضیلت انھیں حاصل ہوجاتی، جس کی طرف حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اشارہ فرمایا کہ اگر تم بتلا دیتے تو میرے لیے بہت بڑی خوشی ہوتی۔
اس حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ ایسے موقع پر شرم سے کام نہ لینا چاہئیے۔
اس سے اولاد کی نیکیوں اور علمی صلاحیتوں پر والدین کا خوش ہونا بھی ثابت ہوا جو ایک فطری امرہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 131
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 61
61. حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”درختوں میں ایک ایسا درخت بھی ہے جو کبھی پت جھڑ نہیں ہوتا اور مسلمان کو اس سے تشبیہ دی جا سکتی ہے، بتاؤ وہ کون سا درخت ہے؟“ یہ سن کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے خیالات جنگل کے درختوں کی طرف گئے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: میرے دل میں خیال آیا کہ وہ کھجور کا درخت ہے، مگر میں (کہتے ہوئے) شرما گیا۔ پھر صحابہ کرام نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ فرمائیں وہ کون سا درخت ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”وہ کھجور کا درخت ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:61]
حدیث حاشیہ:
اس روایت کو حضرت امام قدس سرہ اس باب میں اس لیے لائے ہیں کہ اس میں لفظ حدثنا وحدثوني خود آنحضرت ﷺ اور آپ ﷺ کے صحابہ کرام رضی اللہ علیہم اجمعین کی زبانوں سے بولے گئے ہیں۔
پس ثابت ہوگیا کہ یہ اصطلاحات عہد نبوی ﷺ سے مروج ہیں۔
بلکہ خود قرآن مجید ہی سے ان سب کا ثبوت ہے۔
جیسا کہ سورۃ تحریم میں ہے:
﴿قَالَتْ مَنْ أَنبَأَكَ هَـٰذَا ۖقَالَ نَبَّأَنِيَ الْعَلِيمُ الْخَبِيرُ﴾ (التحريم: 3) (اس عورت نے کہا کہ آپﷺ کو اس بارے میں کس نے خبر دی۔
آپﷺ نے فرمایاکہ مجھ کو اس نے خبر دی جو جاننے والا خبر رکھنے والا پروردگار عالم ہے)
پس منکرین حدیث کی یہ ہفوات کہ علم حدیث عہد نبوی کے بعد کی ایجاد ہے بالکل غلط اور قرآن مجید کے بالکل خلاف اور واقعات کے بھی بالکل خلاف ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 61
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7098
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"بلا شبہ درختوں میں ایک درخت ایسا ہے، جس کے پتے گرتے نہیں ہیں۔اور وہ مسلمان کی طرح (فیض رساں) ہے تو مجھے بتاؤ وہ کون سا درخت ہے؟"لوگ جنگلات کے درختوں کے بارے میں سوچنے لگے حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں۔ میرے دل میں خیال آیا۔وہ کھجور کا درخت ہے، لیکن میں نے (چھوٹا ہونے کے سبب بتانے سے) شرم محسوس کی، پھر صحابہ نے پوچھا، اے اللہ کےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم!ہمیں... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:7098]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے،
طلبہ کی معلومات اور ذہانت کا جائزہ لینا درست ہے،
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کھجور کا گابھا کھا رہے تھے تو آپ نے سوال کیا کہ وہ درخت کون سا ہے جس کے پتے نہیں جھڑتے اور وہ مسلمان کی طرح ہر اعتبار سے نفع بخش اور فیض رساں ہے،
جس طرح مسلمان مجسمۂ فیض اور پیکر خیر ہے،
اس کے کسی عضو سے سے لوگوں کو تکلیف نہیں پہنچتی،
اس طرح اس کا کوئی حصہ اور چیز بیکار نہیں جاتا،
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ جمار کے قرینہ سے سمجھ گئے کہ یہ کھجور کا درخت ہے،
لیکن کبار صحابہ کاذہن اس قرینہ کی طرف نہ گیا،
لیکن حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے بڑوں کے احترام میں سوال کا جواب دینے سے شرم وحیا محسوس کی،
جو ایک پسندیدہ نعمت ہے،
لیکن بڑوں کی خاموشی کی صورت میں،
جبکہ جواب دینے میں پہل نہیں تھی،
جواب دینا ادب و احترام کے منافی نہ تھا،
اس لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا،
اگر تم یہ جواب دے دیتے تو مجھے سرخ اونٹوں سے بھی زیادہ محبوب ہوتا،
کیونکہ یہ چیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شاباش اور دعا کا باعث بنتی۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 7098
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7102
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے تو آپ نے فرمایا:"مجھے اس درخت کا پتہ دو، جو مسلمان آدمی کے مشابہہ یا اس کی طرح ہے، اس کے پتے نہیں کرتے۔"امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد ابراہیم رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں،شاید امام مسلم نے آگے کہا اور وہ اپنا پھل دیتا ہے دوسروں کے ہاں بھی میں نے ایسے ہی پایا کہ وہ ہر وقت اپنا پھل نہیں دیتا۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں میرے دل میں خیال آیا، یہ کھجور کا... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:7102]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
امام مسلم کے شاگرد ابراہیم بن سفیان اور دوسرے تلامذہ کی روایت میں لا تؤتی أكلها ہے کہ وہ ہر وقت پھل نہیں دیتا اور یہ بات واقعہ کے خلاف ہے،
اس لیے امام ابراہیم کہتے ہیں،
شاید ہم سے سننے یا بیان کرنے میں غلطی ہوگئی ہے،
امام مسلم رحمہُ اللہُ نے تؤتی أكلها ہی کہا ہو،
علمائے حدیث قاضی عیاض وغیرہ نے اس کا جواب یہ دیا ہےلااپنی جگہ درست ہے،
لیکن اس کا تعلق تؤتیسے نہیں ہے،
بلکہ اصل یوں ہے،
لا يتحات ورقها ولا،
ولا نہ اس کے پتے گرتے ہیں،
نہ فلاں چیز ہے اور نہ فلاں آگے ہے،
توتی اُكُلَها كل حِين وہ ہر موسم میں اپنا پھل دیتا ہے،
لیکن راوی نے معطوف چیزوں کو بیان نہیں کیا،
اس طرحلا کا تعلق تؤتی سے محسوس ہونے لگا اور غلط مفہوم پیدا ہوگیا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 7102
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7102
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے تو آپ نے فرمایا:"مجھے اس درخت کا پتہ دو، جو مسلمان آدمی کے مشابہہ یا اس کی طرح ہے، اس کے پتے نہیں کرتے۔"امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد ابراہیم رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں،شاید امام مسلم نے آگے کہا اور وہ اپنا پھل دیتا ہے دوسروں کے ہاں بھی میں نے ایسے ہی پایا کہ وہ ہر وقت اپنا پھل نہیں دیتا۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں میرے دل میں خیال آیا، یہ کھجور کا... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:7102]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
امام مسلم کے شاگرد ابراہیم بن سفیان اور دوسرے تلامذہ کی روایت میں لا تؤتی أكلها ہے کہ وہ ہر وقت پھل نہیں دیتا اور یہ بات واقعہ کے خلاف ہے،
اس لیے امام ابراہیم کہتے ہیں،
شاید ہم سے سننے یا بیان کرنے میں غلطی ہوگئی ہے،
امام مسلم رحمہُ اللہُ نے تؤتی أكلها ہی کہا ہو،
علمائے حدیث قاضی عیاض وغیرہ نے اس کا جواب یہ دیا ہےلااپنی جگہ درست ہے،
لیکن اس کا تعلق تؤتیسے نہیں ہے،
بلکہ اصل یوں ہے،
لا يتحات ورقها ولا،
ولا نہ اس کے پتے گرتے ہیں،
نہ فلاں چیز ہے اور نہ فلاں آگے ہے،
توتی اُكُلَها كل حِين وہ ہر موسم میں اپنا پھل دیتا ہے،
لیکن راوی نے معطوف چیزوں کو بیان نہیں کیا،
اس طرحلا کا تعلق تؤتی سے محسوس ہونے لگا اور غلط مفہوم پیدا ہوگیا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 7102
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:61
61. حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”درختوں میں ایک ایسا درخت بھی ہے جو کبھی پت جھڑ نہیں ہوتا اور مسلمان کو اس سے تشبیہ دی جا سکتی ہے، بتاؤ وہ کون سا درخت ہے؟“ یہ سن کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے خیالات جنگل کے درختوں کی طرف گئے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: میرے دل میں خیال آیا کہ وہ کھجور کا درخت ہے، مگر میں (کہتے ہوئے) شرما گیا۔ پھر صحابہ کرام نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ فرمائیں وہ کون سا درخت ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”وہ کھجور کا درخت ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:61]
حدیث حاشیہ:
1۔
اس روایت میں (حَدِّثُونِيْ)
اور(حَدَّثَنَا)
کے الفاظ موجود ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ محدثین کی اصطلاحات ایجاد شدہ نہیں بلکہ یہ عہد نبوی میں رائج تھیں بلکہ (أنبأ)
اور(نَّبَأَ)
کا ثبوت تو قرآن مجید میں ہے:
﴿قَالَتْ مَنْ أَنبَأَكَ هَٰذَا ۖ قَالَ نَبَّأَنِيَ الْعَلِيمُ الْخَبِيرُ﴾ (التحريم: 66/3)
”اس عورت نے کہا کہ آپ کو اس کے متعلق کس نے بتایا؟ آپ نے فرمایا کہ مجھے علیم و خبیر نے خبر دی ہے۔
“ اس سے معلوم ہوا کہ منکرین حدیث کی یہ ہفوات ہیں کہ علم حدیث عہد نبوی کے بعد کی ایجاد ہےاورعجمی سازش کا شاخسانہ ہے۔
﴿قَاتَلَهُمُ اللَّهُ ۖ أَنَّىٰ يُؤْفَكُونَ﴾ 2۔
اس روایت کے مختلف طرق کو جمع کرنے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ تحدیث، اخبار اور انباء کا استعمال قوت وضعف میں برابر ہے کیونکہ اس روایت میں (حدثوني)
کا لفظ ہے، کتاب التفسیر میں (اخبروني)
ہے، علامہ اسماعیلی نے (أنبئوني)
کے الفاظ نقل کیے ہیں، پھرصحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی طرف سے صیغۂ اخبار استعمال کیا گیا ہے۔
ان تمام طرق کو جمع کرنے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان تینوں الفاظ کا مرتبہ ایک ہی ہے کیونکہ تحدیث کی جگہ پر (اِخبَار)
اور اخبار کی جگہ پر تحدیث اسی طرح انباء کااستعمال کیا جارہا ہے۔
اگر ان میں کوئی خاص فرق ہوتا تو اہل زبان صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تواس قسم کا ردوبدل نہ کرتے۔
(فتح الباري: 191/1)
3۔
اس حدیث کے فوائد ہم آئندہ ذکر کریں گے البتہ چند ایک یہاں بیان کردیتے ہیں۔
(الف)
حیا ایک پسندیدہ خصلت ہے بشرطیکہ کسی مصلحت کے فوت ہونے کا اندیشہ نہ ہو۔
(ب)
کھجور اور اس کا پھل بابرکت چیز ہے۔
(ج)
علم اللہ کا عطیہ ہے بعض دفعہ اکابرعلماء سے ایسی چیزیں مخفی رہ جاتی ہیں جو اصاغر اہل علم کو معلوم ہوتی ہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 61
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:62
62. حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”درختوں میں ایک درخت ایسا ہے جس کے پتے نہیں جھڑتے اور وہ مسلمان کے مشابہ ہے۔ مجھے بتلاؤ وہ کون سا درخت ہے؟“ اس پر لوگوں نے صحرائی درختوں کا خیال کیا۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: میرے دل میں آیا کہ وہ کھجور کا درخت ہے (لیکن بزرگوں کی موجودگی میں بتانے سے مجھے شرم آئی۔) آخر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا: اللہ کے رسول! آپ ہی بتا دیجیے وہ کون سا درخت ہے؟ آپ نے فرمایا:”وہ کھجور کا درخت ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:62]
حدیث حاشیہ:
1۔
اس سے معلوم ہوا کہ استاد طلباء کو بیدار رکھنے اور ان کی توجہ سبق میں رکھنے کے لیے ان سے وقتاً فوقتاً سوالات کرتا رہے۔
اس کے دو فائدے ہوتے ہیں:
ایک تو یہ کہ طلباء ہروقت ہوشیار اور بیدار رہتے ہیں۔
دوسرا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ استاد کو طالب علم کے مرتبہ علم کا اندازہ ہوجاتا ہے تاکہ اس کے مرتبے کے مطابق اس سے گفتگو کی جائے، اگرانفرادی توجہ کی ضرورت ہے تو اس سے بھی بخل نہ کیاجائے۔
2۔
اس سے طریقہ امتحان کا بھی پتہ چلتا ہے کہ طالب علم کے سامنے کوئی ایسی چیز پیش کی جائے جس میں کچھ پیچیدگی ہو، نہ تو اتنی آسان ہو کہ اس میں غوروفکر کی ضرورت ہی نہ پڑے اور نہ اس درجہ مشکل ہی ہو کہ قوت ونظر وفکر کے صرف کرنے کے بعد بھی وہ حل نہ ہوسکے، نیز امتحان ایسی چیزوں سے لیا جائے جو مسئول کی سمجھ سے بالاتر نہ ہوں اور جس چیز کے متعلق سوال کیا جائے اس کا کچھ اتا پتا دیاجائے تاکہ ان ارشادات کی مدد سے طالب علم ا س کا حل تلاش کرسکے۔
3۔
اس حدیث میں کھجور کو مسلمان سے تشبیہ دی گئی ہے۔
وجہ تشبیہ یہ ہے کہ اس کی برکت مسلمان کی برکت جیسی ہے۔
ایک روایت میں اس کی وضاحت بھی ہے۔
(صحیح البخاري، الأطعمة، حدیث: 5444)
مسلمان کی شان یہ ہے کہ وہ زندگی اور موت دونوں حالتوں میں دوسروں کے لیے سرچشمہ خیر ہوتا ہے اسی طرح کسی بھی حالت میں بے کار نہیں۔
کھجور کے پھل کچے پکے ہر طرح کارآمد ہیں، اس کے پتے بھی کام آتے ہیں۔
اس کا تنا بھی نفع بخش ہوتا ہے، اس کے چھاگل سے رسیاں بنائی جاتی ہیں اور اسے تکیوں میں بھرا جاتا ہے، اس کی گٹھلیاں انسانوں اور حیوانوں کے کام آتی ہیں۔
کھجور کے بےشمار طبی فوائد ہیں جو ہمارے موضوع سے خارج ہیں، البتہ دومجرب فوائد ذکر کیے جاتے ہیں۔
(الف)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود انھیں بکثرت استعمال کرتے تھے، نیز آپ نے جادوسے بچاؤ کے لیے عجوہ کھجوروں کے استعمال کی تلقین فرمائی ہے۔
اس کے علاوہ تجربہ کار کہنہ مشق اطباء مردانگی کے زیور کی حفاظت یا بحالی کے لیے چھوہاروں اور معجون آردخرما تجویز کرتے ہیں۔
(ب)
بچے کی ولادت کے وقت بیشتر خواتین موت وحیات کی کشمکش میں مبتلا ہوجاتی ہیں، ایسے موقع پر تازہ کھجوروں کا استعمال جادواثر رکھتا ہے اس کا اشارہ سورۂ مریم آیت: 25 میں واضح طور پر ملتا ہے۔
4۔
اس سے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی زیرکی اور دانائی کا بھی پتہ چلتا ہے اگرچہ اس وقت دو واضح اشارے موجود تھے شاید ان اشاروں کی مدد سے آپ کی جواب تک رسائی ہوئی ہو۔
(الف)
آپ کے پاس جمار(کھجور کا گودا)
لایا گیا اور آپ اسے تناول فرمانے لگے۔
اسی اثناء میں آپ نے یہ سوال کیا۔
(ب)
آپ نے دوران سوال میں اس کا فائدہ بایں الفاظ بتایا کہ اپنے پروردگار کے حکم سے ہر وقت پھل لاتا ہے قرآن کریم میں یہ وصف شجرہ طیبہ کا بیان ہوا ہے۔
اور اس سے مراد کھجور کا درخت ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 62
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:72
72. حضرت مجاہد کہتے ہیں: میں حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کے ساتھ مدینے تک رہا لیکن میں نے انہیں ایک حدیث کے سوا اور کوئی چیز رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتے ہوئے نہیں سنا۔ انہوں نے کہا: ہم نبی ﷺ کے پاس بیٹھے تھے کہ آپ کی خدمت میں کھجور کا گودا لایا گیا۔ آپ نے فرمایا: ”درختوں میں ایک ایسا درخت ہے جس کی مثال مسلمان کی طرح ہے۔“ میں نے ارادہ کیا کہ بتاؤں وہ کھجور ہے لیکن میں لوگوں میں سب سے چھوٹا تھا، اس لیے خاموش رہا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ”وہ کھجور کا درخت ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:72]
حدیث حاشیہ:
1۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے پہلے تفقہ فی الدین کی فضیلت بیان کی تھی اور اس باب میں فہم مطلق کی فضیلت بیان کرنا مقصود ہے۔
اگرچہ اس حدیث میں کسی فضیلت کا ذکر نہیں ہے لیکن حدیث نمبر131 جو مفصل ہے، اس میں ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنے والد گرامی سے عرض کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقصد کو میں سمجھ گیا تھا لیکن بڑوں کو خاموش دیکھ کرمیں بھی خاموش رہا۔
مبادا آپ کو ناگوار گزرے۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:
اگر تم اس وقت اس کا ظہار کر دیتے تو مجھے اس قدر خوشی ہوتی کہ سرخ اونٹ بھی اس خوشی کے مقابلے میں کم تر ہوتے۔
اس سے معلوم ہوا کہ علم میں فہم بھی ایک فضیلت کی چیز ہے۔
2۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کی ذہانت و فطانت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں خوشئہ کھجور سے نکلنے والا مغزلایا گیا اور آپ نے اسے تناول فرمانا شروع کیا۔
اس کے بعد آپ نے حاضرین کے سامنے سوال کیا۔
اس مجموعی صورت حال سے انھوں نے اندازہ لگایا کہ هو نہ ہو یہ کھجور کا درخت ہے لیکن حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسے جلیل القدر اصحاب کی موجودگی میں لب کشائی کو نامناسب خیال کرتے ہوئے آپ خاموش رہے۔
(رضی اللہ عنہ)
3۔
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ طالب علم کو مطالعہ کرنے کی عادت پیدا کرنی چاہیے اور قوت مطالعہ بڑھانے کی کوشش کرنی چاہیے۔
اس کا طریقہ بھی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مناسبات کو مدنظر رکھا جائے اور بوقت مطالعہ اوپرنیچے سب طرف نظر رکھی جائے اور غورو فکرکیا جائے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب نخلہ (کھجور کے درخت)
کے متعلق سوال کیا تو اس وقت آپ اس کا گودا کھا رہے تھے۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما مناسبات کو مدنظر رکھتے ہوئے سوال کی تہہ تک پہنچ گئے کہ وہ تو کھجور کا درخت ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 72
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:131
131. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”درختوں میں ایک درخت ایسا ہے جس کے پتے نہیں جھڑتے۔ اس کی شان مسلمان کی طرح ہے۔ بتاؤ وہ کون سا درخت ہے؟“ یہ سن کر لوگوں کے خیالات جنگل کے درختوں کی طرف گئے، لیکن میرے ذہن میں یہ آیا کہ وہ کھجور کا درخت ہے۔ حضرت ابن عمر فرماتے ہیں: (لیکن) مجھے شرم دامن گیر ہو گئی۔ لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ ہی بتائیں وہ کون سا درخت ہے؟ آپ نے فرمایا:”وہ کھجور کا درخت ہے۔“ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں: میں نے اپنے والد گرامی (حضرت عمر ؓ) سے وہ بات بیان کی جو میرے دل میں آئی تھی تو انہوں نے کہا: کاش! تم نے یہ بات کہہ دی ہوتی تو یہ میرے لیے بڑی دولت ہوتی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:131]
حدیث حاشیہ:
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حیا کے متعلق جو عنوان قائم کیا ہے وہ مجمل ہے۔
اس سلسلے میں کوئی صریح حکم بیان نہیں کیا قرآئن سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے دو پہلو ہیں۔
اس کا مثبت یہ ہے کہ سائل کو علمی مسائل دریافت کرنے کے لیے حیا داری کو قائم رکھنا چاہیے۔
اس سلسلے میں جرات و دلیری اور بے باکی مستحسن اقدام نہیں ہے۔
حضرات انصار کی خواتین، حضرت اُم سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت اُم سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے مکمل شرم و حیا کے ساتھ سوالات کر کے تفقہ فی الدین حاصل کیا۔
دوسرا منفی پہلو یہ ہے کہ صفت حیا جو سراسر محمود ہے اسے غلط استعمال کر کے علم سے محرومی کا سامان نہیں کرنا چاہیے حضرت مجاہد کے ارشاد کا یہی مطلب ہے لیکن حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ طلب علم کے سلسلے میں حیا کو مستحسن قرار نہیں دیتے اور مذکورہ حدیث سے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اظہار افسوس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما اگر اکابر کی موجودگی کو اپنے بیان کے لیے رکاوٹ خیال کرتے تھے تو وہ کسی دوسرے کو بتا دیتے تاکہ وہ ان کی طرف سے ترجمانی کر دیتا۔
آئندہ باب قائم کر کے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اسی بات کی طرف اشارہ کیا ہے۔
(فتح الباري: 303/1)
۔
لیکن حافظ ابن حجر کی وضاحت پر دل مطمئن نہیں ہے کیونکہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حیا کو مستحسن قراردیتے ہیں۔
انھوں نے حصول علم کے لیے سوال کرنے میں حیا کا استعمال نہیں کیا بلکہ جواب دینے میں حیا داری سے کام لیا ہے، اس لیے کہ بزرگوں کا احترام بھی ہمارے اسلامی آداب کا ایک اہم حصہ ہے۔
جہاں تک علمی بات معلوم کرنے کا تعلق ہے تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما یقینی طور پر جانتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود اس پہیلی کا جواب دیں گے۔
باقی رہا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اظہار افسوس، تو اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ انھوں نے ان کی خاموشی کو برا محسوس کیا ہو۔
بہر حال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کی خاموشی غیر مستحسن نہیں ہے۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 131
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2209
2209. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ میں ایک دفعہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر تھا جبکہ آپ کھجور کاگودا کھارہے تھے، آپ نے فرمایا: ”درختوں میں سے ایک درخت ہے جو بندہ مومن کی طرح ہے (بتاؤ وہ کون سا درخت ہے؟)“ میں نے یہ کہنے کا ارادہ کیا کہ وہ کھجور کادرخت ہے۔ لیکن جتنے لوگ وہاں موجود تھے میں ان سب میں کمسن تھا لہذا چپ رہا، آپ نے خود ہی فرمایا: ”وہ کھجور کادرخت ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2209]
حدیث حاشیہ:
(1)
جمار کھجور کے سفید رنگ کے کچے گودے کو کہتے ہیں جو تنے کی بالائی ٍجانب ہوتا ہے اور اسے کھانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو وہ کہیں سے تحفے میں آیا تو آپ اسے کھانے لگے۔
(2)
روایت میں کھانے کا ذکر ہے اس کی خریدو فروخت کا ذکر نہیں ہے، حالانکہ عنوان میں دونوں مذکور ہیں۔
ابن بطال نے کہا ہے:
جمار کا کھانا اور فروخت کرنا دونوں مباح ہیں، اس امر میں کوئی اختلاف نہیں کیونکہ جسے کھایا جائے اس کی بیع بھی جائز ہے، یعنی امام بخاری ؒ نے عنوان کے دوسرے جز کو نص سے ثابت کیا ہے جبکہ پہلے جز کو قیاس سے ثابت کیا ہے۔
(3)
ممکن ہے کہ امام بخاری ؒ نے اس حدیث کی طرف اشارہ کیا ہو جس میں اس کی خریدوفروخت کا ذکر ہے لیکن وہ ان کی شرط کے مطابق نہیں تھی۔
(4)
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جس مجلس میں بڑے موجود ہوں چھوٹوں کو ان کے آداب کا لحاظ رکھنا چاہیے۔
(فتح الباري: 512/4)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2209
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4698
4698. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہم ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں تھے کہ آپ نے صحابہ سے پوچھا: ”مجھے اس درخت کے متعلق بتاؤ جو بندہ مسلم سے مشابہ ہے یا مرد مسلم کی مانند ہے جس کے پتے نہیں گرتے اور نہ یہ ہوتا ہے، نہ یہ ہوتا ہے اور نہ یہ ہوتا ہے۔ وہ اپنا پھل ہر موسم میں دیتا ہے۔“ حضرت ابن عمر کہتے ہیں: میرے دل میں خیال آیا وہ کھجور کا درخت ہے لیکن میں نے دیکھا کہ حضرت ابوبکر و عمر ؓ جیسے بزرگ خاموش بیٹھے ہیں تو میں نے بھی جواب دینا مناسب نہ خیال کیا۔ جب انہوں نے کوئی جواب نہ دیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”وہ کھجور کا درخت ہے۔“ جب ہم اس مجلس سے اٹھ آئے تو میں نے حضرت عمر ؓ سے کہا: ابا جان، اللہ کی قسم! میرے دل میں یہ بات آئی تھی کہ وہ کھجور کا درخت ہے۔ انہوں نے فرمایا: تمہیں جواب دینے سے کس چیز نے روکا تھا؟ ابن عمر ؓ نے کہا:۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4698]
حدیث حاشیہ: 1۔
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جب سوال کیا تو آپ جمار کھارہے تھے۔
(صحیح البخاري، البیوع، حدیث: 2209) حضرت ابن عمر ؓ کہتے ہیں کہ آپ کے جمار کھانے کی وجہ سے میرے دل میں خیال آیا کہ وہ کھجور کا درخت ہے۔
(فتح الباري: 193/1) 2۔
رسول اللہ ﷺ نے اس کی تین صفات بیان کیں۔
راوی نے انھیں تین دفعہ لا۔
ولا۔
ولا کہہ کربیان کردیا یعنی نہ تواس کا پھل ختم ہوتا ہے اور نہ اس کا سایہ ختم ہوتا ہے اور نہ اس کا نفع ختم ہوتا ہے کھجور کا کوئی جزبےکار نہیں جاتااس کا پھل نہایت شریں لذیز اور مفید ہے۔
اس کا پھل کچا اور پختہ ہر طرح کھایا جاتا ہے پھر پختہ ہونے کے بعد اسے خشک کر کے سارا سال استعمال کیا جاتا ہے اس کی گٹھلیاں چوپایوں کی خوراک ہے، انھیں پیس کر اطباء حضرات مختلف ادویات میں استعمال کرتے ہیں۔
یہ درخت ہمیشہ ہرا بھرا رہتا ہے موسم خزاں میں بھی اس کے پتے نہیں کرتے اس کے تنے مکانوں میں ستونوں اور شہتیر کے طور پر استعمال ہوتے ہیں اس کے پتوں سے چٹائیاں ٹوکرے اور پنکھے بنائے جاتے ہیں اس کی چھال تکیوں اور گدوں میں بھری جاتی ہے۔
3۔
اسے بندہ مسلم سے تشبیہ دی ہے کہ مسلم کامل کا ہر کام نفع مند اور ثمرآزر ہوتا ہے جیسا کہ ایک روایت میں ہے درختوں یں سے ایک د رخت ہے جس کی برکات بندہ مسلم کی برکات کی طرح ہیں۔
(صحیح البخاري، الأطعمة، حدیث: 4454) اللہ نے بھی آیت کریمہ میں شجرہ طیبہ کی چار صفات بیان کی ہیں۔
وہ طیب اور پاکیزہ ہے۔
اس کی یہ عمدگی خواہ شکل و صورت کے اعتبار سے ہو یا پھل پھول کے اعتبار سے یا پھل کے خوش ذائقہ میٹھے اور خوشبودار ہونے کے اعتبار سے ہو۔
اس کی جڑیں زمین میں خوب مستحکم اور گہرائی تک پیوست ہو چکی ہیں اور اس قدر مضبوط ہیں جو اپنے طویل القامت درخت کا بوجھ برداشت کر سکتی ہیں۔
اس کی شاخیں آسمانوں میں یعنی بہت بلندی تک چلی گئی ہیں لہٰذا اس سے جو پھل حاصل ہو گا ہوا کی آلودگی اور گندگی وغیرہ کے جراثیم سے پاک ہو گا۔
یہ عام درختوں کی طرح نہیں بلکہ ہر موسم میں پورا پھل دیتا ہے یہ باتیں کھجور کے درخت اور پھل میں پائی جاتی ہیں۔
واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4698
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5444
5444. سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: ایک مرتبہ ہم نبی ﷺ کی خدمت میں موجود تھے کہ آپ کے پاس کھجور کا گودا لایا گیا۔ نبی ﷺ فرمایا: ”درختوں میں سے ایک درخت ایسا ہے جس کی برکت، مسلمان کی برکت جیسی ہے۔“ میں نے خیال کیا کہ آپ کا اشارہ کھجور کے درخت کی طرف ہے۔ میں نے سوچا کہ کہہ دوں۔ اللہ کے رسول! یہ کھجور کا درخت ہے لیکن جب میں نے ادھر ادھر دیکھا تو مجلس میں میرے علاوہ نو آدمی اور تھے اور میں ان سب سے چھوٹا تھا، اس لیے میں خاموش رہا۔ پھر نبی ﷺ نے فرمایا: ”وہ درخت کھجور کا ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5444]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث میں جمار کے کھانے کا ذکر نہیں ہے، امام بخاری رحمہ اللہ نے عنوان کے ذریعے سے اس روایت کی طرف اشارہ کیا ہے جس میں کھانے کی صراحت ہے، چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھا جبکہ آپ جمار کھا رہے تھے اور آپ نے فرمایا:
”درختوں میں ایک درخت مومن آدمی کی طرح ہے۔
“ (صحیح البخاري، البیوع، حدیث: 2209) (2)
واقعی کھجور کے درخت کا ہر ہر جز اسی طرح نفع بخش ہے جس طرح مومن آدمی کی ذات، صفات، افعال اور اقوال سب نفع مند ہیں۔
یہ درخت ظاہری طور پر مسلمان سے مشابہت رکھتا ہے، چنانچہ کھجور کا سر کاٹ دیا جائے تو وہ آدمی کی طرح ختم ہو جاتی ہے جبکہ باقی درخت ختم نہیں ہوتے بلکہ ازسرنو ہرے بھرے ہو جاتے ہیں۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5444
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5448
5448. سیدنا ابن عمر ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا: ”درختوں میں سے ایک درخت مسلمان جیسا ہے اور وہ کھجور کا در خت ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5448]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کو انتہائی اختصار کے ساتھ بیان کیا ہے۔
اس کی تفصیل پہلے کئی ایک مقام پر گزر چکی ہے۔
(2)
واقعی کھجور کے درخت میں بڑی برکت ہے۔
اس کا کوئی جز بھی فائدے سے خالی نہیں ہے۔
اس کے پتے، پھل، تنا اور جڑیں ہر چیز کار آمد ہے جس طرح مومن آدمی کی ذات و صفات سے برکت وابستہ ہے، اس کے اقوال و افعال سب نفع بخش ہیں۔
(3)
کھجور کی گٹھلیوں سے ایک معجون تیار کیا جاتا ہے جو انتہائی مقوی باہ ہوتا ہے، الغرض اللہ تعالیٰ کی طرف سے کھجور کے درخت میں بہت خیر و برکت ہے۔
واللہ المستعان
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5448
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6122
6122. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: مومن کی مثال اس سر سبز درخت کی طرح ہے جس کے پتے نہ گرتے ہیں نہ جھڑتے ہیں۔ صحابہ کرام نے کہا: یہ فلاں درخت ہے یہ فلاں درخت ہے۔ میں نے کھجور کا درخت بتانے کا ارادہ کیا میں چونکہ کمسن نوخیز تھا اس لیے میں نے بتانے سے شرم محسوس کی تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”وہ درخت کھجور کا ہے۔“ ایک روایت میں یہ اضافہ ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ نے کہا کہ میں نے اس بات کا تذکرہ حضرت عمر ؓ سے کیا تو انہوں نے فرمایا: اگر تم جواب دے دیتے تو مجھے اتنا اتنا مال ملنے سے بھی زیادہ خوشی ہوتی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6122]
حدیث حاشیہ:
(1)
کھجور کے درخت کی مسلمان سے مشابہت کی وجہ یہ ہے کہ یہ درخت مسلمان کی طرح بہت نفع آور ہے اس کی کوئی چیز رائیگاں نہیں جاتی۔
(2)
اس حدیث میں وضاحت ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ شرم کے مارے خاموش رہے اور صحیح جواب ذہن میں آ جانے کے باوجود بتانے سے حیا مانع رہی جس کا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بے حد افسوس ہوا اور اپنے لخت جگر حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کی شرم کو انہوں نے پسند نہ فرمایا کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوال کا جواب دینے میں بے محل حیا سے کام لیا، اگر بتا دیتے تو ہونہار بیٹے کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تحسین فرماتے۔
بہرحال اس قسم کی حیا اچھی نہیں جو کسی کی نیک نامی کے لیے رکاوٹ بن جائے۔
واللہ المستعان
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6122
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6144
6144. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”مجھے اس درخت کا نام بتاؤ جس کی مثال مسلمان جیسی ہے۔ وہ ہمیشہ اپنے رب کے حکم سے پھل دیتا ہے اور اس کے پتے نہیں گرتے۔“ میرے دل میں خیال آیا کہ وہ کھجور کا درخت ہے لیکن میں نے اس کا جواب دینا مناسب خیال نہ کیا کیونکہ مجلس میں حضرت ابوبکر صدیق ؓ اور حضرت عمر بن خطاب ؓ (جیسے اکابر صحابہ) موجود تھے۔ پھر جب ان دونوں بزرگوں نے کچھ نہ کہا تو نبی ﷺ نے فرمایا: ”وہ کھجور کا درخت ہے۔“ چنانچہ جب میں اپنے والد کے ہمراہ وہاں سے باہر نکلا تو میں نے کہا: اے ابو جان! میرے دل میں آیا تھا کہ وہ کھجور کا درخت ہے انہوں نے فرمایا: پھر تمہیں جواب دینے سے کس چیز نے منع کیا تھا؟ اگر تم کہہ دیتے تو مجھے اتنا مال ملنے سے بھی زیادہ خوشی ہوتی۔ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: مجھے صرف اس امر نے منع کیا کہ آپ اور حضرت ابوبکر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6144]
حدیث حاشیہ:
شارحین کہتے ہیں کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے بڑوں کے احترام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوال کا جواب نہ دیا کہ اکابر اور بزرگوں کی موجودگی میں چھوٹوں کو گفتگو کرنا زیب نہیں دیتا، لیکن حافظ ابن حجر نے گہرائی میں اتر کر امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد بیان کیا ہے، آپ فرماتے ہیں:
بڑوں کو اس وقت مقدم کیا جائے جب علم و فضل میں سب برابر ہوں لیکن جب چھوٹے کے پاس ایسی معلومات ہوں جو بڑے نہیں جانتے تو چھوٹا آدمی بڑوں کی موجودگی میں کلام کر سکتا ہے کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے کی خاموشی پر اظہار افسوس کیا، حالانکہ ان کے بیٹے نے اکابر کی موجودگی کی بنا پر معذرت کی تھی۔
(فتح الباري: 659/10)
امام بخاری رحمہ اللہ کی فقاہت کے پیش نظر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا موقف زیادہ وزنی معلوم ہوتا ہے۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6144