مسند الحميدي
أَحَادِيثُ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
حدیث نمبر 555
حدیث نمبر: 555
555 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ قَالَ: ثني عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي يَزِيدَ قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ يَقُولُ: أَخْبَرَنِي أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «الرِّبَا فِي النَّسِيئَةِ» قَالَ أَبُو بَكْرٍ:" كَانَ سُفْيَانُ رُبَّمَا لَمْ يَرْفَعْهُ؟ فَقِيلَ لَهُ فِي ذَلِكَ؟ فَقَالَ: أَتَّقِيهِ أَحْيَانًا لِكَرَاهِيَةِ الصَّرْفِ؟ فَأَمَّا مَرْفُوعٌ فَهُوَ مَرْفُوعٌ"
555- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں، سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما نے مجھے یہ بات بتائی ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے: ”سودا ادھار میں ہوتا ہے۔“
ابوبکر حمیدی رحمہ اللہ کہتے ہیں، سفیاں بعض اوقات اس حدیث کو ”مرفوع“ حدیث کے طور پر نقل نہیں کرتے۔ ان سے اس بارے میں بات کی گئی تو وہ بولے: بعض اوقات میں بیع صرف کو ناپسند کرنے کی وجہ سے اس روایت کو بیان کرنے سے بچتا ہوں، باقی جہاں تک ”مرفوع“ روایت کا تعلق ہے، تو یہ ”مرفوع“ ہی ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2178، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1596، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5023، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4594، 4595، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 6128، 6129، 6130، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2622، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2257، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 10606، 10607، وأحمد فى «مسنده» ، برقم: 22157»
مسند الحمیدی کی حدیث نمبر 555 کے فوائد و مسائل
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:555
فائدہ:
اس حدیث میں سود کی ایک قسم کا بیان ہے، اور وہ ادھار میں سود ہے، اس کی ایک شکل یہ بنتی ہے کہ نقد قیمت اور ہو اور ادھار اور ہو، یہ واضح سود ہے۔ موجودہ دور میں سود کے نئے نئے نام سامنے آ رہے ہیں، وہ حقیقت میں سود ہی ہیں، لیکن ان کے نام تبدیل کر دیے گئے ہیں، یہ ایک لعنت ہے، اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو اس سے محفوظ فرماۓ، آمین۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 555
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2257
´سود صرف ادھار میں ہے کے قائلین کی دلیل۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا کہ درہم کو درہم سے، اور دینار کو دینار سے برابر برابر بیچنا چاہیئے، تو میں نے ان سے کہا کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کو کچھ اور کہتے سنا ہے، ابوسعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: تو میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے جا کر ملا، اور میں نے ان سے کہا: آپ بیع صرف کے متعلق جو کہتے ہیں مجھے بتائیے، کیا آپ نے کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے؟ کتاب اللہ (قرآن) میں اس سلسلہ میں آپ کو کوئی چیز ملی ہے؟ اس پر وہ بولے: نہ تو میں نے اس کو کتاب اللہ (قرآن) میں پایا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2257]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
سونے کا چاندی سے یا چاندی کا سونے سے تبادلہ دست بدست ہونا چاہیے۔
(2)
مختلف ممالک کی کرنسی کا تبادلہ بھی موجود شرح کے مطابق ہاتھوں ہاتھ ہونا چاہیے۔
اگر کوئی کہے کہ میرے پاس امریکی ڈالر ہیں اور میں ان کے بدلے سعودی ریال لینا چاہتا ہوں، ‘ دوسرا شخص کہے کہ مجھے ڈالر دے دو، میں ان کے بدلے میں اتنے ریال تمہیں کل دے دوں گا، یہ درست نہیں۔
(3)
صحابہ کرام ؓ حدیث کو حجت سمجھتے تھے، اور جو حدیث رسول اللہ ﷺ سے براہ راست نہ سنی ہو بلکہ کسی دوسرے شخص کے واسطے سے پہنچے اس پر عمل کرنا بھی ضروری سمجھتے تھے۔
(4)
سود صرف ادھار میں ہوتا ہے‘ یہ اس صورت میں ہے جب تبادلہ کی جانے والی اشیاء مختلف اجناس سے تعلق رکھتے ہوں‘ مثلاً:
سونا اور چاندی، یا گندم اور کھجور۔
ان کا باہمی تبادلہ کمی بیشی کے ساتھ درست ہے۔
ایک گرام سونے کے بدلے میں دس پندرہ گرام چاندی کا تبادلہ یا ایک من گندم کے بدلے میں دو من جو کا تبادلہ جائز ہے بشرطیکہ دونوں طرف سے نقد ادائیگی ہو ایک ہی چیز کا تبادلہ کمی بیشی کے ساتھ نقد بھی درست نہیں۔
ایک من اچھی گندم کے بدلے میں دو من ہلکی قسم کی گندم لینا دینا جائز نہیں اگرچہ دونوں طرف سے گندم فوراً ادا کر دی جائے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2257
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:761
761- سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کایہ فرمان نقل کرتے ہیں: ”درہم کے عوض میں درہم اور دینار کے عوض میں دینار کا برابر، برابر لین دین کیاجائے گا۔ اور اس میں کوئی اضافی ادائیگی نہیں ہوگی۔“ راوی کہتے ہیں: میں نے سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے گزارش کی سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما تو اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے ہیں۔ پھر سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بولے: میری سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما سے ملاقات ہوئی تھی۔ میں نے ان سے کہا: آپ مجھے اس کے بارے میں بتائیے جو آپ کہتے ہیں: کیا آپ نے اس بارے میں اللہ کی کتاب میں کوئی حکم پایا ہے؟یا پھر ن۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:761]
فائدہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ جب ایک جنس کا باہمی تبادلہ ہو تو وزن میں برابر اور نقد بنقد ہونا چاہیے لیکن سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا مؤقف اس کے الٹ تھا۔ وہ فرمایا کرتے تھے کہ دست بدست ایک دینار کو دو دینار کے عوض فروخت کیا جا سکتا ہے ان کے نزدیک سود صرف اس وقت ہوتا ہے جب ایک طرف سے ادھار ہو۔
سیدنا ابوسعید خدری نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کو سمجھایا تو ابن عباس رضی اللہ عنہا نے اپنے مؤقف سے رجوع کر لیا۔ رجوع کے بعد سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بھی سختی سے منع کرتے تھے۔ [مستدرك حاكم: 43/2]
اختلاف کی صورت میں احترام کو لازم پکڑنا چاہیے اور دلیل کی بناء پر فیصلہ کرنا چاہیے عمر یا اکثریت کی بناء پر نہیں۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 762