552 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ قَالَ: حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ أَنَّهُ سَمِعَ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ يَقُولُ: أَشْرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَي أُطَمٍ مِنْ آطَامِ الْمَدِينَةِ فَقَالَ: «هَلْ تَرَوْنَ مَا أَرَي؟ إِنِّي لَأَرَي الْفِتَنَ تَقَعُ خِلَالَ بُيُوتِكُمْ كَمَوَاقِعِ الْقَطْرِ»
الشيخ غلام مصطفٰے ظهير امن پوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 7060
´فتنے بارش کے قطروں کی طرح`
«. . . أَشْرَفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى أُطُمٍ مِنْ آطَامِ الْمَدِينَةِ، فَقَالَ: هَلْ تَرَوْنَ مَا أَرَى؟، قَالُوا: لَا، قَالَ: فَإِنِّي لَأَرَى الْفِتَنَ تَقَعُ خِلَالَ بُيُوتِكُمْ كَوَقْعِ الْقَطْرِ . . .»
”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کے ٹیلوں میں سے ایک ٹیلے پر چڑھے پھر فرمایا کہ میں جو کچھ دیکھتا ہوں تم بھی دیکھتے ہو؟ لوگوں نے کہا کہ نہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں فتنوں کو دیکھتا ہوں کہ وہ بارش کے قطروں کی طرح تمہارے گھروں میں داخل ہو رہے ہیں۔“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْفِتَنِ: 7060]
فوائد و مسائل
اس حدیث نبوی اور مشرق کی طرف سے اٹھنے والے فتنہ کی احادیث کے درمیان جمع وتطبیق کرتے ہوئے:
◈ شارح بخاری، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (773-852 ھ) فرما تے ہیں:
«وإنما اختصت المدينة بذلك، لأن قتل عثمان رضى الله عنه كان بها، ثم انتشرت الفتن فى البلاد بعد ذلك، فالقتال بالجمل وبصفين كان بسبب قتل عثمان، والقتال بالنهروان كان بسبب التحكيم بصفين، وكل قتال وقع فى ذلك العصر إنما تولد عن شيء من ذلك، أو عن شيء تولد عنه، ثم إن قتل عثمان كان أشد أسبابه الطعن على أمرائه، ثم عليه بتوليته لهم، وأول ما نشأ ذلك من العراق، وهى من جهة المشرق، فلا منافاة بين حديث الباب وبين الحديث الآتي أن الفتنة من قبل المشرق.»
”اس بارے میں مدینہ منورہ کا خاص ذکر اس لئے کیا گیا ہے کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت یہیں ہوئی تھی۔ اس کے بعد تمام علاقوں میں فتنے پھیل گئے۔ جنگ جمل اور صفین سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت ہی کا نتیجہ تھی، جبکہ (خوارج کے خلاف) جنگ نہروان کا سبب جنگ صفین میں تحکیم والا معاملہ بنا۔ اس دور میں جو بھی لڑائی ہوئی بلاواسطہ یا بالواسطہ اس کا تعلق شہادت عثمان سے تھا۔ پھر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کا سب سے بڑا سبب آپ رضی اللہ عنہ کے گورنروں پر طعن اور خود آپ رضی اللہ عنہ پر ان گورنروں کی تقرری کے حوالے سے کی جانے والی تشنیع تھی۔ اس معاملے کا آغاز عراق ہی سے ہوا تھا۔ عراق (مدینہ منورہ کے) مشرق کی سمت میں واقع ہے۔ یوں اس حدیث اور آنے والی حدیث میں کوئی تعارض نہیں کہ فتنے کی سرزمین مشرق (عراق) ہی ہے۔“ [فتح الباري: 13/13]
ماہنامہ السنہ جہلم ، شمارہ نمبر 46-48، حدیث/صفحہ نمبر: 18
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1878
1878. حضرت اسامہ بن زید ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ مدینہ طیبہ کے قلعوں میں سے کسی قلعے پر چڑھے تو فرمایا: ” کیا تم وہ دیکھتے ہوجو میں دیکھ رہا ہوں؟بے شک میں تمھارے گھروں میں فتنوں کے مقامات اس طرح دیکھ رہا ہوں جیسے بارش کا قطرہ گرنے کی جگہ نظر آتی ہے۔ “ معمر اور سلیمان بن کثیر نے زہری سے روایت کرنے میں سفیان کی متابعت کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1878]
حدیث حاشیہ:
یہ دیکھنا بطریق کشف تھا اس میں تاویل کی ضرورت نہیں اورآپ ﷺ کا یہ فرمانا پورا ہوا کہ مدینہ ہی میں حضرت عثمان ؓ شہید ہوئے پھر یزید کی طرف سے واقعہ حرہ میں اہل مدینہ پر کیا کیا آفتیں آئیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1878
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2467
2467. حضرت اسامہ بن زید ؓ سے روایت ہے۔ انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ مدینہ طیبہ کے محلات میں سے ایک اونچے محل پر چڑھے اس پر اس سےجھانکا تو فرمایا: ” کیا جو کچھ میں دیکھ رہا ہوں وہ تم دیکھتے ہو؟تمھارے گھروں پر فتنے برس رہے ہیں جس طرح بارش برستی ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2467]
حدیث حاشیہ:
نبی کریم ﷺ مدینہ کے ایک بلند مکان پر چڑھے اسی سے ترجمہ باب نکلا بشرطیکہ محلے والوں کی بے پردگی نہ ہو۔
اس حدیث میں یہ اشارہ ہے کہ مدینہ میں بڑے بڑے فتنے اور فساد ہونے والے ہیں۔
جو بعد کے آنے والے زمانوں میں خصوصا عہد یزید میں رونما ہوئے کہ مدینہ خراب اور برباد ہوا۔
مدینہ کے بہت لوگ مارے گئے، کئی دنوں تک حرم نبوی میں نماز بند رہی۔
پھر اللہ کا فضل ہوا کہ وہ دور ختم ہوا۔
خاص طو رپر آج کل عہد سعودی میں مدینہ منورہ امن و امان کا گہوارہ بنا ہوا ہے۔
ہر ہر قسم کی سہولتیں میسر ہیں۔
مدینہ تجارت اور روزگاروں کی منڈی بنتا جارہا ہے۔
اللہ پاک اس حکومت کو قائم دائم رکھے، آمین۔
اور مدینہ منورہ کو مزید در مزید ترقی اور رونق عطا کرے۔
راقم الحروف نے اپنی عمر عزیز کے آخر حصہ1390ھ میں مدینہ شریف کو جس ترقی اور رونق پرپایا ہے وہ ہمیشہ یاد رکھنے کے قابل ہے۔
اللہ پاک اپنے حبیب ﷺ کا یہ شہر ایک دفعہ اور دکھلائے آمین۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2467
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3597
3597. حضرت اسامہ بن زید ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے مدینہ طیبہ کے محلات میں سے ایک اونچے محل پر چڑھ کر فرمایا: ”کیا تم وہ دیکھ رہے ہو جو میں دیکھ رہا ہوں؟میں تمہارے گھروں میں فتنوں کو ایسے کرتے دیکھ رہا ہوں جیسے بارش کی بوندیں گراکرتی ہیں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3597]
حدیث حاشیہ:
حضرت عثمان ؓ کی شہادت کے بعد جو فتنے برپاہوئے ان کی طرف یہ اشارہ ہے۔
ان فتنوں نے ایسا سر اٹھایا کہ آج تک ان کے تباہ کن اثرات باقی ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3597
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7060
7060. حضرت اسامہ بن زید ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ مدینہ کے ٹیلوں میں سے ایک ٹیلے پر چڑھے تو فرمایا: ”میں جو کچھ دیکھتا ہوں کیا تم بھی دیکھتے ہو؟ صحابہ نے کہا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: میں فتنے دیکھ رہا ہوں کہ وہ بارش کے قطروں کی طرح تمہارے گھروں میں داخل ہو رہے ہیں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7060]
حدیث حاشیہ:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی حرف بہ حرف صحیح ثابت ہوئی اور آپ کی جدائی کے بعد فتنوں کے دروازے کھل گئے۔
حضرت اسامہ بن زید بن حارثہ قضاعی‘ ام ایمن کے بیٹے ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے والد ماجد جناب عبداللہ کی لونڈی تھیں جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو گود میں پالا تھا۔
اسامہ حضرت کے محبوب حضرت زید کے بیٹے تھے اور زید بھی آپ کے بہت محبوب غلام تھے۔
وفات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت ان کی عمر 20 سال تھی اور بعد میں یہ وادی القریٰ میں رہنے لگے تھے بعد شہادت حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ وہیں وفات پائی رضي اللہ عنه و أرضاہ۔
حضرت زینب بنت جحش امہات المؤمنین سے ہیں ان کی والدہ کا نام امیہ ہے جو عبد المطلب کی بیٹی ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی ہیں۔
حضرت حضرت زینب حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام کی بیوی ہیں۔
پھر حضرت زید رضی اللہ عنہ نے ان کو طلاق دے دی۔
اور سنہ 5ھ میں یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حرم محترم میں داخل ہو گئی تھیں۔
کوئی عورت دینداری میں ان سے بہتر نہ تھی۔
سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والی‘ سب سے زیادہ سچ بولنے والی‘ سب سے زیادہ سخاوت کرنے والی تھیں۔
وفات نبوی کے بعد آپ کی بیویوں میں سب سے پہلے سنہ 20 یا 21 میں بعمر 53سال مدینے میں انتقال فرمایا رضي اللہ عنه و أرضاھا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7060
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1878
1878. حضرت اسامہ بن زید ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ مدینہ طیبہ کے قلعوں میں سے کسی قلعے پر چڑھے تو فرمایا: ” کیا تم وہ دیکھتے ہوجو میں دیکھ رہا ہوں؟بے شک میں تمھارے گھروں میں فتنوں کے مقامات اس طرح دیکھ رہا ہوں جیسے بارش کا قطرہ گرنے کی جگہ نظر آتی ہے۔ “ معمر اور سلیمان بن کثیر نے زہری سے روایت کرنے میں سفیان کی متابعت کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1878]
حدیث حاشیہ:
(1)
وہ فتنے کثرت میں بارش کے قطروں کی طرح ہوں گے۔
رسول اللہ ﷺ کا فرمان حرف بہ حرف پورا ہوا جب فتنوں کی آڑ میں سیدنا عمر ؓ شہید کیے گئے۔
اس وقت سے گھمبیر فتنوں کا آغاز ہوا، چنانچہ حضرت عثمان ؓ کی شہادت بھی انہی فتنوں کا نتیجہ ثابت ہوئی۔
(2)
امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے یہ ثابت کیا ہے کہ مدینہ طیبہ میں رسول اللہ ﷺ کی آمد سے پہلے بھی حفاظتی اقدامات کے طور پر قلعے تعمیر کیے ہوئے تھے۔
مشہور مؤرخ زبیر بن بکار نے اپنی تالیف اخبار مدینہ میں ان قلعوں کی تفصیل بیان کی ہے جو اوس اور خزرج کی مدینہ آمد سے پہلے اور بعد میں تعمیر ہوئے۔
ان سے مراد وہ قلعے ہیں جو پتھروں سے عام عمارتوں سے اونچے بنائے گئے ہوں تاکہ ان پر چڑھ کر دشمن کی نقل و حرکت کو دیکھا جا سکے۔
(فتح الباري: 122/4) (3)
امام معمر کی متابعت کو امام بخاری رحمہ اللہ نے خود ہی اپنی متصل سند سے بیان کیا ہے، (صحیح البخاري، الفتن، حدیث: 7060)
نیز سلیمان بن کثیر کی متابعت بھی انہوں نے اپنی تالیف بر الوالدين میں بیان کی ہے۔
(فتح الباري: 123/4)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1878
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2467
2467. حضرت اسامہ بن زید ؓ سے روایت ہے۔ انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ مدینہ طیبہ کے محلات میں سے ایک اونچے محل پر چڑھے اس پر اس سےجھانکا تو فرمایا: ” کیا جو کچھ میں دیکھ رہا ہوں وہ تم دیکھتے ہو؟تمھارے گھروں پر فتنے برس رہے ہیں جس طرح بارش برستی ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2467]
حدیث حاشیہ:
اس عنوان سے مقصود بالا خانے بنانے کا جواز ثابت کرنا ہے۔
بعض لوگ اسے مکروہ خیال کرتے ہیں کہ اس سے پڑوسیوں کے احوال و عیوب پر اطلاع ہوتی ہے۔
لیکن اس کا جواز مشروط ہے کہ پڑوسیوں اور گزرنے والوں کو تکلیف نہ ہو۔
رسول اللہ ﷺ مدینہ طیبہ کے ایک بلند مکان پر چڑھے۔
امام بخاری ؒ نے اس سے جواز ثابت کیا ہے بشرطیکہ کسی پردہ دار پر نظر نہ پڑے اور نہ ان کی بے پردگی ہی ہو۔
اگر دوسروں کے مکان میں جھانکنے کی گنجائش ہو یا اڑوس پڑوس والے تکلیف محسوس کریں تو بالاخانہ بنانے سے گریز کرنا چاہیے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2467
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3597
3597. حضرت اسامہ بن زید ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے مدینہ طیبہ کے محلات میں سے ایک اونچے محل پر چڑھ کر فرمایا: ”کیا تم وہ دیکھ رہے ہو جو میں دیکھ رہا ہوں؟میں تمہارے گھروں میں فتنوں کو ایسے کرتے دیکھ رہا ہوں جیسے بارش کی بوندیں گراکرتی ہیں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3597]
حدیث حاشیہ:
1۔
جو قلعہ پتھروں سے بنایا جائے اسےأطم, کہتے ہیں جس کی جمع آطام ہے رسول اللہ ﷺ نے فتنوں کی کثرت کو بارش کی بوندوں سے تشبیہ دی یعنی تمھارے گھروں میں فتنے اس طرح برپا ہوں گے جیسے موسلادھار بارش برستی ہے۔
یہ فتنے سب لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گے اور کوئی بھی ان سے محفوظ نہیں رہے گا۔
چنانچہ حضرت عثمان ؓ کی مظلومانہ شہادت کے بعد فتنے برپا ہوئے۔
مثلاً:
حرہ کا واقعہ یا مدینے کی دوسری جنگیں۔
ان فتنوں نے ایسی تباہی مچائی کہ آج تک ان کے تباہ کن اثرات بد باقی ہیں۔
2۔
اس حدیث سے ان جنگوں کی طرف اشارہ ہے جو صحابہ کرام ؓ کے درمیان برپا ہوئیں۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3597
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7060
7060. حضرت اسامہ بن زید ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ مدینہ کے ٹیلوں میں سے ایک ٹیلے پر چڑھے تو فرمایا: ”میں جو کچھ دیکھتا ہوں کیا تم بھی دیکھتے ہو؟ صحابہ نے کہا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: میں فتنے دیکھ رہا ہوں کہ وہ بارش کے قطروں کی طرح تمہارے گھروں میں داخل ہو رہے ہیں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7060]
حدیث حاشیہ:
1۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی سچ ثابت ہوئی کہ مدینہ طیبہ سے فتنوں کاجوآغاز ہوا وہ آج تک نہیں رک سکا۔
شہادت عثمان مدینہ طیبہ میں ہوئی اور اس کے ساتھ ہی فتنوں کا دروازہ کھل گیا۔
جنگ جمل اور جنگ صفین کا باعث بھی شہادت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھی۔
نہروان کی لڑائی تحکیم کی وجہ سے ہوئی اور یہ بھی جنگ صفین کے موقع پر فیصلہ ہوا۔
2۔
شہادت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سبب ان کے تعینات کردہ عمال وحکام پراعتراضات تھے اور یہ تحریک فتنوں کی سرزمین عراق سے اٹھی جو مدینہ طیبہ سے مشرق کی طرف ہے جس کی نشاندہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے سے فرمادی تھی۔
اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وقوع فتن کی نشاندہی فرمائی ہے تاکہ اہل مدینہ ان سے نمٹنے کے لیے تیاری کریں لیکن ان سے کوئی دلچپسی نہ رکھیں بلکہ اللہ تعالیٰ سے ان فتنوں سے بچنے کی پناہ مانگتے رہیں اور دعا کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ انھیں فتنوں سے محفوظ رکھے۔
(فتح الباري: 18/13)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7060