Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

مسند الحميدي
أَحَادِيثُ أَبِي قَتَادَةَ الْأَنْصَارِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
سیدنا ابوقتادہ انصاری رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
حدیث نمبر 422
حدیث نمبر: 422
422 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ قَالَ: ثنا الزُّهْرِيُّ قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ قَالَ: كُنْتُ أَرَي الرُّؤْيَا أُعْرَي مِنْهَا غَيْرَ أَنِّي لَا أُزَمَّلُ وَأَتَيْتُ أَبَا قَتَادَةَ فَشَكَوْتُ ذَلِكَ إِلَيْهِ فَحَدَّثَنِي أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «الرُّؤْيَا مِنَ اللَّهِ، وَالْحُلْمُ مِنَ الشَّيْطَانِ فَإِذَا حَلُمَ أَحَدُكُمْ حُلْمًا يَكْرَهُهُ فَلْيَتْفُلْ عَنْ يَسَارِهِ ثَلَاثًا، وَيَسْتَعِذْ بِاللَّهِ مِنْ شَرِّ مَا رَأَي فَإِنَّهُ لَنْ يَضُرَّهُ»
422- ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن بیان کرتے ہیں: میں ایسے خواب دیکھا کرتا تھا، جن سے میں ڈر جاتا تھا، البتہ میں ڈھانپ نہیں لیا جاتا تھا (یعنی اتنا زیادہ نہیں ڈرتا تھا کہ مجھے بخار ہوجائے) میں سیدنا ابوقتادہ انصاری رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے اس بات کی شکایت کی، تو انہوں نے مجھے یہ بات بتائی کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے: خواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے اور پریشان خواب شیطان کی طرف سے ہوتا ہے، تو جب کوئی شخص کوئی ایسا خواب دیکھے، جو اسے پسند نہ آئے، تو وہ اپنے بائیں طرف تین مرتبہ تھوک دے، اور جو خواب اس نے دیھا ہے اس کے شر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانے تو وہ خواب اسے کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «بدء الخلق» برقم: 3292،5747،6984،6986،6995،7005،7044، ومسلم فى «الرؤيا» برقم: 2261، ومالك فى «الموطأ» ، برقم: 768، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 6058،6059، وأبو داود فى «سننه» برقم: 5021، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2277، وابن ماجه في «‏‏‏‏سننه» برقم: 3909، وأحمد فى «مسنده» ، برقم: 22961، والطيالسي فى «مسنده» ، برقم: 634»

مسند الحمیدی کی حدیث نمبر 422 کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:422  
فائدہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ خوابوں کی مختلف قسمیں ہیں، اگر برا خواب نظر آئے تو حدیث میں موجود احکام پر ضرور عمل کرنا چاہیے، بعض لوگ برے خوابوں کی وجہ سے لوگوں کو ڈراتے ہیں، پھر ان سے روپے بٹورتے ہیں، الامان والحفيظ۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 422   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 6986  
´اچھا خواب نبوت کے چھیالیس حصوں میں سے ایک حصہ ہے`
«. . . عَنْ أَبِي قَتَادَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ مِنَ اللَّهِ، وَالْحُلْمُ مِنَ الشَّيْطَانِ، فَإِذَا حَلَمَ فَلْيَتَعَوَّذْ مِنْهُ، وَلْيَبْصُقْ عَنْ شِمَالِهِ، فَإِنَّهَا لَا تَضُرُّهُ . . .»
. . . ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اچھا خواب اللہ کی طرف سے ہوتا ہے اور برا خواب شیطان کی طرف سے پس اگر کوئی برا خواب دیکھے تو اسے اس سے اللہ کی پناہ مانگنی چاہئیے اور بائیں طرف تھوکنا چاہئیے یہ خواب اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا [صحيح البخاري/كِتَاب التَّعْبِيرِ: 6986]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 6986 کا باب: «بَابُ الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ جُزْءٌ مِنْ سِتَّةٍ وَأَرْبَعِينَ جُزْءًا مِنَ النُّبُوَّةِ:»
باب اورحدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب نیک خواب کا نبوت کے چھیالیس حصوں میں ایک حصہ ہے، اس پر مقرر فرمایا ہے، جبکہ تحت الباب جو حدیث سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی درج فرمائی ہے اس میں نبوت کے چھیالیس حصوں کا کوئی ذکر نہیں ہے، اسی وجہ سے علامہ اسماعیلی اور امام زرکشی نے باب پر اعتراض وارد کیا ہے، چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
«و قد اعترضه الاسماعيلى فقال: ليس هذا الحديث من هذا الباب فى شيئي.»
یعنی اسماعیلی نے باب پر اعتراض وارد کیا ہے کہ جو حدیث تحت الباب امام بخاری رحمہ اللہ نے نقل فرمائی ہے، اس کا کچھ بھی باب سے تعلق نہیں ہے۔
علامہ زرکشی کہتے ہیں:
«إدخاله فى هذا الباب لا وجه له بل هو ملحق بالذي قبله.» [فتح الباري لابن حجر: 320/13]
اس باب کے تحت جو حدیث پیش فرمائی ہے اس کا تعلق اس باب سے نہیں بلکہ اس سے قبل باب کے ساتھ ہے۔
حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ ان دونوں بزرگوں کے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے رقمطراز ہیں:
«قلت و قد وقع ذالك فى رواية النسفي كما أشرت إليه، و يجاب عن صنيع الأكثر بأن وجه دخوله فى هذه الترجمة الإشارة إلى أن الرؤيا الصالحة إنما كانت جزءًا من أجزاء النبوة لكونها من الله تعالي بخلاف التى من الشيطان فإنها ليست من أجزاء النبوة، و أشار البخاري مع ذالك إلى ما وقع فى بعض الطرق . . . . . عن أبى قتادة فى هذا الحديث من الزيادة و رؤيا المؤمن جزء من ستة و أربعين جزءًا من النبوة.» [فتح الباري لابن حجر: 320/13]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں کہتا ہوں: نسفی کے نسخے میں ایسا ہی ہے، اکثر کو اس صنع کے متعلق جواب دیا گیا ہے کہ اس باب میں اس حدیث کو ذکر کرنے کا یہ اشارہ ہے کہ رویائے صالحہ اس لیے نبوت کے اجزاء میں سے ایک جزء ہے کیوں کہ یہ اللہ تعالی کی طرف سے (الہام) ہیں، بخلاف ان خوابوں کے جو شیطان کی طرف سے ہوتے ہیں اور وہ نبوت کے جزء میں سے نہیں ہوتے، اور امام بخاری رحمہ اللہ نے اس روایت کی طرف بھی اشارہ فرمایا ہے جو بعض طرق سے بطریق (حدیث عبداللہ بن یحیی بن ابی کثیر . . . . . عن ابی قتادۃ) سے مروی ہے جس میں یہ زیادتی ہے کہ مومن کا خواب نبوت کے چھیالیس حصوں میں کا ایک حصہ ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی ان گزارشات سے باب اور حدیث میں مناسبت کی بہترین توجیہ سامنے آئی، آپ کا مقصد یہ ہے کہ جو مومن کا نیک خواب ہو گا وہی نبوت کے چھیالیس حصوں میں سے ایک حصہ ہو گا، اور جو شیطان کی طرف سے ہو گا وہ نبوت کے چھالیس حصوں میں سے کوئی حصہ نہ ہو گا، پس یہ بتلانا مقصود ہے امام بخاری رحمہ اللہ کا۔
محمد زکریا کاندھلوی رحمہ اللہ باب اور حدیث میں مناسبت دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
«وجه دخول هذا الحديث فى هذا الباب الإشارة إلى أن الرؤيا إنما كانت جزءا من أجزاء النبوة لكونها من الله تعالي بخلاف التى من الشيطان فإنها ليست من أجزاء النبوة.» [الابواب والتراجم: 651/6]
یعنی اس حدیث کا تعلق اس باب سے یوں ہے کہ اس میں اشارہ ہے کہ جو خواب اللہ تعالی کی طرف سے ہو گا وہ نبوت کے چھیالیس حصوں میں سے ایک حصہ ہو گا، اور جو شیطان کی طرف سے ہو گا تو وہ اس کے خلاف ہو گا۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 275   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5903  
حضرت ابوسلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،میں خواب دیکھتا تھا جو مجھے بیمارکردیتا تو میں حضرت ابوقتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سےملا، انہوں نےکہا، میں خواب دیکھتا ہوں، جو مجھے بیمار کر دیتا، حتیٰ کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا، اچھا خواب اللہ کی طرف سے ہے اور جب تم میں سے کوئی پسندیدہ خواب دیکھے تو صرف اس کوبتائے جو اس سے محبت کرتا ہے اور اگرناپسندیدہ خواب دیکھے تو اپنے بائیں طرف تین دفعہ تھوکے اور شیطان کے شر اور خواب کے شر سے اللہ کی پناہ مانگے اور... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:5903]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
لا يخبر الا من يحب اگر انسان اپنے سے محبت کرنے والے کو خواب بتائے گا تو وہ پورے حزم و احتیاط کے ساتھ،
محبت کے تقاضوں کے مطابق،
اچھی تعبیر لگائے گا،
جو انسان کے لیے خوشی اور مسرت کا باعث بنے گی،
لیکن اگر کسی ایسے شخص کو خواب سنائے گا،
جو اس کو پسند نہیں کرتا تو وہ بلا تامل یا حسد اور بغض کی بنا پر غلط تعبیر لگائے گا،
جو انسان کے لیے غم و حزن یا پریشانی کا باعث بنے گی اور اگر ناگوار خواب کی صورت میں بائیں طرف تین دفعہ تھوکے گا اور اعوذ بالله من شر الشيطان وشرها اللہ پر اعتماد اور بھروسہ کرتے ہوئے پڑھے گا تو وہ خواب اس کے لیے تکلیف کا باعث نہیں بنے گا اور اگر کسی کو بتائے گا اور وہ اس کی ناگوار تعبیر لگا دے گا تو یہ تعبیر اس کے لیے غم و اندوہ کا باعث بنے گی،
نیز بعض دفعہ تعبیر،
پہلے تعبیر لگانے والے کی تعبیر کے مطابق ہوتی ہے،
اس لیے اس کو تعبیر،
کسی نیک اور محبت کرنے والے مُعبر سے لگوانی چاہیے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5903   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5747  
5747. حضرت ابو قتادہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: اچھا خواب اللہ کی طرف سے ہوتا ہے جبکہ پریشان کن خواب شیطان کی طرف سے ہے، اس لیے تم میں سے کوئی ایسا خواب دیکھے جو اسے ناگوار ہوتو بیدار ہوتے ہی تین مرتبہ تھو، تھو کرے اور اس خواب کی برائی سے اللہ کی پناہ مانگے۔ ایسا کرنے سے خواب کا اسے کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ ابو سلمہ کہتے ہیں میں ایسے خواب دیکھتا تھا جو مجھ پر پہاڑ سے بھی زیادہ گراں ہوتے تھے۔ جب سے میں نے یہ حدیث سنی ہے میں ان کی کوئی پروا نہیں کرتا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5747]
حدیث حاشیہ:
حدیث کی مطابقت ترجمہ باب سے اس طرح ہے کہ اللہ کی پناہ چاہنا یہی منتر ہے منتر میں پھونکنا تھو تھو کرنا بھی ثابت ہوا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5747   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6984  
6984. حضرت ابو قتادہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: سچے خواب اللہ کی طرف سے ہوتے ہیں اور برے خواب شیطان کی طرف سے دکھائے جاتے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6984]
حدیث حاشیہ:
شیطان انسان کا بہر حال دشمن ہے وہ خواب میں بھی ڈراتا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6984   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6986  
6986. حضرت ابو قتادہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سےبیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا: اچھا خواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے اور برا خواب شیطان کی دراندازی کا نتیجہ ہوتا ہے، لہذا جب تم میں سے کوئی برا خواب دیکھے تو اس سے (اللہ کی) پناہ مانگے اور اپنی بائیں جانب تھوک دے، پھر یہ خواب اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔ ایک روایت ہے میں عبداللہ بن ابو قتادہ اپنے باپ ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے، وہ نبی ﷺ یہ حدیث اسی طرح بیان کرتے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6986]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کو اس باب میں لانے کی وجہ ظاہر نہیں ہوئی۔
زرکشی نے حضرت امام بخاری پر اعتراض کیا ہے کہ یہ حدیث اس باب سے غیر متعلق ہے۔
میں کہتا ہوں زرکشی حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کی طرح وقت نظر کہاں سے لاتے‘ اسی لیے اعتراض کر بیٹھے۔
امام بخاری رحمہ اللہ شروع میں یہ حدیث اس لیے لائے کہ آگے کی حدیث میں جس خواب کی نسبت یہ بیان ہوا ہے کہ وہ نبوت کے چھیالیس حصوں میں سے ایک حصہ ہے‘ اس سے مراد اچھا خواب ہے جو اللہ کی طر ف سے ہوتا ہے کیونکہ جو خواب شیطان کی طرف سے ہو وہ نبوت کا جزو نہیں ہو سکتا۔
خواب کو مسلم کی روایات میں نبوت کے پینتالیس حصوں میں سے ایک حصہ اور ایک روایت میں ستر حصوں میں سے ایک حصہ اور طبرانی کی روایت چھہتر حصوں میں سے ایک حصہ۔
ابن عبد البر کی روایت چھبیس حصوں میں سے ایک حصہ۔
طبری کی روایت میں چوالیس حصوں میں سے ایک حصہ مذکور ہے۔
یہ اختلاف اس وجہ سے ہے کہ روز روز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے علوم نبوت میں ترقی ہوتی جاتی اور نبوت کے نئے نئے حصے معلوم ہوتے جاتے جتنا جتنا علم بڑھتا جاتا اتنے ہی حصوں میں اضافہ ہو جاتا۔
قسطلانی نے کہا چھیالیس حصوں کی روایت ہی زیادہ مشہور ہے۔
(وحیدی)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6986   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3292  
3292. حضرت ابو قتادہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہاکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اچھا خواب اللہ کی طرف سے ہے جبکہ بُرا خواب شیطان کی طرف سے ہوتا ہے، لہذا اگر تم میں سے کوئی پریشان خواب دیکھے جس سے وہ ڈر محسوس کرتے تو اسے چاہیے کہ اپنی بائیں جانب تھوک دے اور اس کی برائی سے اللہ کی پناہ مانگے، اس طرح وہ اس کو نقصان نہیں دے گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3292]
حدیث حاشیہ:

راوی حدیث ابوسلمہ کہتے ہیں:
مجھے ایسے پریشان کن خواب آتے جن سے میں بیمار ہوجاتا۔
میں نے حضرت ابوقتادہ ؓسے ان کے متعلق دریافت کیا تو انھوں نے فرمایا:
مجھے بھی یہی شکایت تھی۔
میں نے یہ مسئلہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے پیش کیا تو آپ نے مذکورہ حدیث بیان کی۔
(صحیح البخاري، التعبیر، حدیث: 7044)
حضرت ابوسلمہ مزید فرماتے ہیں:
مجھے ایسے خواب آتے جو مجھ پر پہاڑ سے بھی زیادہ گراں بار ہوتے۔
جب سے میں نے یہ حدیث سنی ہے تو میں ان کی کوئی پروا نہیں کرتا۔
(صحیح البخاري، الطب، حدیث: 5747)

دراصل شیطان چاہتا ہے کہ بُرے خواب کے ذریعے سے مسلمان کو پریشان کرکے اپنے رب سے اس کو بدگمان کردیا جائے۔
ایسی حالت میں رسول اللہ ﷺ نے ہمیں تلقین فرمائی ہے کہ اللہ کی پناہ میں آنا چاہیے۔
واللہ المستعان۔

اس حدیث میں شیطانی کارروائیوں کا علاج بتایاگیا ہے۔
آئندہ احادیث میں بھی انھی کارستانیوں کا توڑ بیان کیا جائے گا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3292   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5747  
5747. حضرت ابو قتادہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: اچھا خواب اللہ کی طرف سے ہوتا ہے جبکہ پریشان کن خواب شیطان کی طرف سے ہے، اس لیے تم میں سے کوئی ایسا خواب دیکھے جو اسے ناگوار ہوتو بیدار ہوتے ہی تین مرتبہ تھو، تھو کرے اور اس خواب کی برائی سے اللہ کی پناہ مانگے۔ ایسا کرنے سے خواب کا اسے کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ ابو سلمہ کہتے ہیں میں ایسے خواب دیکھتا تھا جو مجھ پر پہاڑ سے بھی زیادہ گراں ہوتے تھے۔ جب سے میں نے یہ حدیث سنی ہے میں ان کی کوئی پروا نہیں کرتا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5747]
حدیث حاشیہ:
(1)
رؤیا اچھے خواب کو اور حُلم برے خواب کو کہتے ہیں۔
برے خواب دیکھنے سے شیطان کو تھو،تھو کیا جاتا ہے اور اس کے شر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگی جاتی ہے۔
ایسا کرنے سے شیطان کی تذلیل ہوتی ہے۔
(2)
باب سے مطابقت اس طرح ہے کہ تعوذ میں تھو،تھو کرنا اس سے ثابت ہوتا ہے اور تعوذ دم ہی کی ایک قسم ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے ان حضرات کی تردید کی ہے جن کا موقف ہے کہ دم کرتے وقت، تھو،تھو نہیں کرنا چاہیے کیونکہ قرآن میں نفاثات کے شر سے پناہ مانگنے کی تلقین ہے لیکن مذموم نَفَث وہ ہے جو جادو ٹونا کرتے وقت کیا جائے۔
قرآن کریم میں ایسے وقت گرہوں میں تھوتھو کرنے کی مذمت ہے جبکہ دم کرتے وقت ایسا کرنا احادیث سے ثابت ہے۔
(فتح الباری: 10/258)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5747   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6984  
6984. حضرت ابو قتادہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: سچے خواب اللہ کی طرف سے ہوتے ہیں اور برے خواب شیطان کی طرف سے دکھائے جاتے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6984]
حدیث حاشیہ:

انسانی خواب، خواہ وحی الٰہی کا نتیجہ ہوں یا اچھے سیرت وکردار کی وجہ سے ہوں یا ان کے پس منظر میں ذاتی رجحانات اور کاروباری مصروفیات ہوں یا انسانی مزاج کا اتار چڑھاؤ اور اخلاط کی کمی بیشی ان کی وجہ ہو یا توہمات اور لاشعوری احساسات کا نتیجہ ہوں بہرحال اس کی حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ سونے والا کچھ دیکھتا ضرورہے، خواہ وہ خواب سچا ہو یا چھوٹا اچھا ہو یا براء سے پیدا کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے قائم کردہ عنوان میں اسی حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے، البتہ خوابوں کی تکریم اوراحترام کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے خصوصی طور پر انھیں اپنی طرف منسوب کیا ہے۔
چونکہ بُرے خواب شیطان کی دخل اندازی کی وجہ سے ہوتے ہیں۔
وہ ان کے ذریعے سے خوفزدہ اور پریشان کرتا ہے، اس لیے ایسے خوابوں کو حدیث میں شیطان کی طرف منسوب کیا گیا ہے لیکن خلقت کے اعتبار سے تمام خواب اللہ تعالیٰ ہی پیدا کرتا ہے اس میں کسی دوسرے کا کوئی عمل دخل نہیں ہے تاہم اچھے خواب انسان کی راست بازی اور سچائی کی دلیل ہوتے ہیں اور بُرے خواب دیکھنے والا عام طور پر جھوٹا اورمکار انسان ہوتا ہے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6984   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7005  
7005. حضرت ابو قتادہ ؓ سے روایت ہے جو نبی ﷺ کے صحابی اور آپ کے شہسواروں سے ہیں۔ انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ نے فرمایا: اچھے خواب دیکھے جو اسے ناپسند ہوتو اسے چاہیے کہ اپنی بائیں جانب تھوک دے اور اس سے اللہ کی پناہ مانگے اس طرح وہ اسے ہرگز نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7005]
حدیث حاشیہ:

حضرت ابو سلمہ بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ مجھے ایسے ڈراؤنے خواب آتے تھے کہ مجھےا ن کی وجہ سے سخت بخار ہو جاتا تھا۔
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملا اور ان سے اپنا معاملہ بیان کیا تو انھوں نے مذکورہ حدیث بیان کی اس کے بعد مجھے ان کے متعلق کوئی پروانہ ہوئی تھی۔
(صحیح مسلم، الرؤیا، حدیث: 5900) (2261)
ایک روایت میں ہے۔
ایسا خواب دیکھنے کے بعد جب پیدا ہو تو تین مرتبہ اپنی بائیں جانب تھوتھو کرے۔
'' (صحیح مسلم، الرؤیا، حدیث: 5897(2261)

اگرچہ ہر خواب کا پیدا کرنا اور اس کا دکھانا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے لیکن برے خواب کا سبب شیطان ہوتا ہے اور وہ اس کے ذریعے سے لوگوں کو پریشان اور غمگین کرتا ہے۔
اس لیے ایسے خواب کو شیطان کی طرف منسوب کرتے ہیں۔
(فتح الباري: 491/12)
اچھے اور برے خواب کے آداب ہم حدیث نمبر6985کے فوائد میں بیان کر آئے ہیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7005   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7044  
7044. حضرت ابو سلمہ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں ایسے خوفناک خواب دیکھتا تھا جو مجھے بیمار کر دیتے یہاں تک کہ میں نے حضرت ابو قتادہ ؓ کو فرماتے سنا: میں ایسے خواب دیکھتا جو مجھے بیمار کر دیتے حتیٰ کہ میں نے نبی ﷺ کو فرماتے سنا: اچھا خواب اللہ کی طرف سے ہوتا ہے، اس لیے جب تم میں سے کوئی اچھا خواب دیکھے تو وہ صرف اس سے بیان کرے جس سے وہ محبت کرتا ہے اور جب کوئی ناپسند خواب دیکھے تو اس کے شر اور شیطان کے شر سے اللہ کی پناہ مانگے، تین بار تھو تھو کرے اور کسی سے بیان نہ کرے۔ ایسا کرنے سے وہ اسے کوئی نقصان نہیں دے سکے گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7044]
حدیث حاشیہ:

ایک روایت کے مطابق ابو سلمہ کہتے ہیں کہ میں ایسے خواب دیکھتا جو مجھ پر پہاڑ سے بھی زیادہ گراں ہوتے۔
(صحیح مسلم، الرؤیا، حدیث: 5900۔
(2261)
ایک روایت میں ہے کہ جب کوئی اچھا خواب دیکھے تو اسے کسی عالم یا خیرخواہ ہی سے بیان کرے۔
(جامع الترمذي، الرؤیا، حدیث: 2278)

احادیث کی روشنی میں اچھا خواب درج ذیل افراد کو بیان کرنا چاہیے۔
ماہر عالم دین جو اس کی مناسب تعبیر کر سکے۔
پھر اس کی بتائی ہوئی ہدایات پر عمل کیا جائےگا۔
قریبی دوست:
جو اس خواب کے پیش نظر اس کی حوصلہ افزائی کرے اور ہمت بندھائے۔
خیر خواہ:
اپنا خواب اپنے کسی انتہائی خیر خواہ سے بیان کیا جائے تاکہ بدخواہ انسان اسے پریشان نہ کرے۔
اگر کسی ناپسندیدہ شخص سے بیان کرے گا تو وہ بغض یا حسد کی وجہ سے اس کی بڑی تعبیر کرے گا جو خواب دیکھنے والے کی دل آزاری کا باعث ہوگا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7044