Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

مسند الحميدي
أَحَادِيثُ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
سیدنا أبی بن کعب رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
حدیث نمبر 378
حدیث نمبر: 378
378 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ قَالَ: ثنا عَبْدَةُ بْنُ أَبِي لُبَابَةَ، وَعَاصِمُ ابْنُ بَهْدَلَةَ أَنَّهُمَا سَمِعَا زِرَّ بْنَ حُبَيْشٍ يَقُولُ: سَأَلْتُ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ عَنِ الْمُعَوِّذَتَيْنِ فَقُلْتُ: يَا أَبَا الْمُنْذِرِ إِنَّ أَخَاكَ ابْنَ مَسْعُودٍ يَحْكِيهِمَا مِنَ الْمُصْحَفِ قَالَ إِنِّي سَأَلَتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ قِيلَ لِي «قُلْ» فَقُلْتُ: فَنَحْنُ نَقُولُ كَمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
378- زربن حبیش کہتے ہیں: میں نے سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے معؤذتین کے بارے میں دریافت کیا: میں نے کہا: اے ابالمنذر! آپ کے بھائی سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ان دونوں سورتوں کو قرآن سے نکال دیا ہے تو سیدنا بی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال کیا: تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مجھے یہ کہا گیا ہے، تم پڑھو تو میں نے پڑھ لیا۔ سیدنا ابی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہم ویسا ہی کہیں گے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه البخاري برقم: 4976،4977، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 797،4429، والنسائي فى «الكبرى» برقم: 11653، والبيهقي فى «سننه الكبير» ، برقم: 4114، وأحمد في «مسنده» ، برقم: 21571، وعبد الله بن أحمد بن حنبل فى زوائده على «مسند أحمد» ، برقم: 21579، والطيالسي فى «مسنده» ، برقم: 543، وعبد الرزاق في «مصنفه» برقم: 6040، وابن أبى شيبة فى مصنفه، برقم: 30828، والطحاوي فى «شرح مشكل الآثار» ، برقم: 118، والطبراني في «الأوسط» ، برقم: 1121»

مسند الحمیدی کی حدیث نمبر 378 کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:378  
فائدہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ معوذتین قرآن مجید کا حصہ ہیں، اختلاف کی صورت میں قرآن و حدیث کی طرف رجوع کرنا فرض ہے، اور پھر قرآن و حدیث کی بات کو راجح قرار دینے میں ہی نجات ہے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 378   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 4977  
´سورۃ الناس کی تفسیر`
«. . . عَنْ زِرٍّ، قال: سَأَلْتُ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ، قُلْتُ: يَا أَبَا المُنْذِرِ إِنَّ أَخَاكَ ابْنَ مَسْعُودٍ، يَقُولُ: كَذَا وَكَذَا، فقال أبي: سألت رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لِي:" قِيلَ لِي"، فَقَلْتُ: قَالَ: فَنَحْنُ نَقُولُ كَمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ . . .»
. . . ان سے زر نے بیان کیا کہ میں نے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ یا اباالمنذر! آپ کے بھائی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ تو یہ کہتے ہیں کہ سورۃ معوذتین قرآن میں داخل نہیں ہیں۔ ابی بن کعب نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات کو پوچھا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ (جبرائیل علیہ السلام کی زبانی) مجھ سے یوں کہا گیا کہ ایسا کہئیے اور میں نے کہا، ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم بھی وہی کہتے ہیں جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ: 4977]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 7563 کا باب: «سورة {قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ}
باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب میں سورۃ الناس کا ذکر فرمایا ہے، اور تحت الباب میں جس حدیث کا ذکر فرمایا ہے، اس میں سورۃ الناس کا بظاہر کوئی ذکر موجود نہیں ہے۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری میں لکھتے ہیں کہ:
«قوله: يقول كذا وكذا هكذا وقع هذا اللفظ مبهما .» [فتح الباري لابن حجر: 643/8]
یعنی سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی بات «كذا و كذا» یہ الفاظ ابہام کے ساتھ ذکر کئے گئے ہیں۔
یعنی حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے مطابق یہ الفاظ مبہم استعمال ہوئے ہیں، دراصل امام بخاری رحمہ اللہ اسی مسئلے کی دوسری روایات کی طرف اشارہ فرما رہے جن روایات میں واضح طور پر سورۃ الفلق اور سورۃ الناس کا ذکر ہے۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ العسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«واخرج احمد عن ابي بكر بن عياش عن عاصم بلفظ ان عبد الله يقول فى معوذتين .» [فتح الباري لابن حجر: 643/8]
یعنی امام احمد رحمہ اللہ نے اس روایت کو نکالا بطریق «ابوبكر بن عياش عن عاصم» سے ان الفاظ کے ساتھ یقیناً عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سورۃ الفلق اور سورۃ الناس کے بارے میں فرماتے تھے۔
امام احمد رحمہ اللہ کی اس پیش کردہ روایت سے صحیح بخاری کی روایت کی تشریح ہو جاتی ہے کہ صحیح بخاری کے الفاظ «كذا و كذا» سے معوذتین کے بارے میں کچھ کہنا ہے، لہٰذا یہاں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت کا پہلو واضح ہوتا ہے۔

ایک اشکال اور اس کا جواب:
مذکورہ روایت پر ایک بہت بڑا اشکال وارد ہوتا ہے کہ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ معوذتین کو قرآن ماننے سے کیوں انکار کرتے تھے؟ حالانکہ الفلق اور الناس کے قرآن ہونے میں امت اجماع ہے۔
اس اشکال کا جواب دیتے ہوئے الحافظ ابی الفداءامام ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«وهذا مشهور عند كثر من القراء و الفقهاء ان ابن مسعود كان لايكتب المعوذتين فى مصحفه فلعله لم سمعها من النبى صلى الله عليه وسلم ولم يتواتر عنده، ثم قد رجع عن قوله ذلك الي قول الجماعة، فان الصحابه رضى الله عنه اثبتوهما فى المصاحف و نفذوها الي سائر الافاق كذلك . . . . .» [تفسير ابن كثير: 515/8]
یہ بات بہت سے قراء اور فقہاء کے مابین مشہور ہے کہ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ معوذتین کو اپنے مصحف میں نہیں لکھتے تھے، (لہٰذا اس کا جواب یہ ہے کہ) شاید انہوں نے اس کے قرآن ہونے پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ نہ سنا ہو اور نہ یہ آپ کے نزدیک تواتر سے ثابت ہوں، پھر ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے رجوع کر لیا (اپنے موقف سے) صحابہ کی جماعت کے کہنے پر، یقیناً صحابہ معوذتین کو مصحف میں شامل کرتے تھے۔

محمد ذکریا کاندھلوی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
«لم ينكر ابن مسعود رضى الله عنه كونهما من القرآن وانكر اثباتهما من المصحف، فانه كان يرى انه لا يكتب فى المصحف شيئا الا ان كان النبى صلى الله عليه وسلم اذن كتابه فيه، و كانه لم يبلغه الاذن فى ذلك» [الابواب و التراجم لصحیح البخاری: 423/5]
سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ معوذتین کو قرآن ہونے سے انکار نہیں کرتے تھے، بلکہ صرف مصحف میں اسے نہ لکھتے، کیوں کہ وہ مصحف میں اسی چیز کو لکھتے جس کے لکھنے کا انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اجازت دیتے، لہٰذا معوذتین کو مصحف میں لکنے کی اجازت ان تک نہیں پہنچی (لیکن دیگر صحابہ تک پہنچ گئی تھی)۔

ان گفتگو کا حاصل یہ ہے کہ سیدنا عبد اللہ رضی اللہ عنہ مطلق طور پر سورۃ الفلق اور سورۃ الناس کے انکاری نہ تھے بلکہ وہ اسے اپنے مصحف میں لکھنے سے انکار فرماتے تھے کیوں کہ ان تک سورۃ الفلق اور سورۃ الناس کو مصحف میں لکھنے کی کوئی دلیل نہیں پہنچی، اس بات کو بھی مدنظر رکھا جائے کہ جس روایت سے عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے سورۃ الفلق اور سورۃ الناس کے قرآن نہ ہونے کی دلیل اخذ کی جاتی ہےوہ روایت شاذ ہونے کی بناء پر ضعیف ہو گی، کیوں کی متواترہ قرات جو کہ امام عاصمِ ابو عبدالرحمن السلمی، زر بن حبیش اور ابو عمرو الشیبانی سے منقول ہے اس میں سورۃ الفلق اور سورۃ الناس موجود ہیں، دیکھئے تفصیل کے لئے (النشر فی القراٰت العشر لابن الجوزی: 1/156)

اصول حدیث کے ایک قاعدہ کو اس موقع پر لازما یاد رکھنا چاہیئے کہ ایک ثقہ راوی جب روایت بیان کرنے میں اپنے سے زیادہ ثقہ کی مخالفت کرے گا تو یہ روایت مخالفت ثقہ کی وجہ سے شاذ ہو گی، کیوں کہ اہل علم اس قاعدہ کو بخوبی جانتے ہیں کہ روایت حدیث میں کسی قسم کا شاذ ہونا اس کی خرابی اور ضعف کی علامت ہے، چنانچہ امام ابن الصلاح رحمہ اللہ اپنے مقدمہ میں رقم طراز ہیں کہ:
«فالحديث المعلل: هو الحديث الذى اطلع فيه على علة تقدح فى صحته مع ان ظاهره السلامة منها، و يتطرق ذلك الي الاسناد الذى رجاله ثقات، الجامع شروط الصحة من حيث الظاهر. و يستعان على ادراكها بتفرد الراوي وبمخالفة غيره له ......» [النكت على مقدمة ابن الصلاح للذركشي: ص 217]
پس حدیث معلل وہ حدیث ہے، جس میں کوئی علت معلوم ہوتی ہو، جو اس حدیث کی صحت کو صحیح کرتی ہو، باوجود یہ کہ ظاہر نظر میں وہ صحیح سالم معلوم ہوتی ہے اور یہ علت اس سند میں بھی واقع ہو جاتی ہے، جس کے راوی ثقہ ہوتے ہیں اور جس میں بظاہر صحت کی تمام شرائط پائی جاتی ہیں اور اس علت کا ادراک علم حدیث میں بصیرت رکھنے والوں کو مختلف طریقوں سے ہوتا ہے، کبھی راوی کو منفرد دیکھ کر اور کبھی یہ دیکھ کر کہ وہ راوی کسی دوسرے راوی کی مخالفت کر رہا ہے اور اس کے ساتھ کبھی کبھار دوسرے قرائن بھی مل جاتے ہیں۔
امام ابن الصلاح رحمہ اللہ کی اس عبارت سے یہ واضح ہوتا ہے بظاہر ایک حدیث صحیح ہو اور اگر اس میں ایسی کوئی علت پائی جائے جس کا ذکر ابن الصلاح نے فرمایا ہے تو اس قسم کی روایات قبول نہ کی جائیں گی، جیسے شاذ، معلل روایات وغیرہ۔
اب اگر اس قاعدہ کو سامنے رکھتے ہوئے اس حدیث کا ذکر کریں جس میں سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا معوذتین سے انکار ثابت ہوتا ہے تو وہ روایت ان اصولوں کی بناء پر معلول ہوں گی یا پھر شاذ۔
➊ یہ روایات معلول میں شامل ہوں گی، کیوں کہ اس میں واضح علت یہ ہے کہ سیدنا عبد اللہ رضی اللہ عنہ کی ان قرأتوں کے خلاف ہیں، جو ان سے بطریق متواتر ثابت ہیں، جن میں معوذتین کا ذکر موجود ہے۔
➋ مسند احمد میں جہاں عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول منقول ہے، «انهما ليستا من كتاب الله.»
یہ روایت اصولوں کی روشنی میں شاذ قرار دی جائے گی اور شاذ روایت حجت نہیں ہوتی۔
لہذا خلاصہ کلام یہ ہے کہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ معوذتین کو قرآن کا حصہ جانتے تھے، نہ ماننے کی دلیل اصولوں کی روشنی میں شاذ قرار دی جائے گی۔ «و الله اعلم»
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 69   

  حافظ نديم ظهير حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 4977  
´معوذتین کا ذکر `
«. . . سَأَلْتُ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ، قُلْتُ: يَا أَبَا المُنْذِرِ إِنَّ أَخَاكَ ابْنَ مَسْعُودٍ، يَقُولُ: كَذَا وَكَذَا . . .»
. . . میں نے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ یا اباالمنذر! آپ کے بھائی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ تو یہ کہتے ہیں کہ سورۃ معوذتین قرآن میں داخل نہیں ہیں . . . [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ: 4977]
فقہ الحدیث
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ان دو سورتوں کے منکر قطعاً نہیں تھے کیونکہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا یہ ایمان تھا کہ یہ دونوں سورتیں اللہ رب العزت نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمائی ہیں لیکن انہیں اپنے مصحف میں برقرار رکھنے سے کیا چیز مانع تھی وہ درج ذیل ہے:
◈ آپ یہ سمجھتے تھے کہ محض دم کے لیے یہ سورتیں نازل ہوئی ہیں۔
◈ آپ نے نماز میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان سورتوں کی تلاوت کرتے نہیں سنا تھا۔ [مسند احمد 130/5 ح 21189] اور یہ محض عدمِ علم ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف خود ان سورتوں کو نماز میں پڑھا [مسند احمد 4/ 149 ح 17483 و سنده حسن] بلکہ انہیں پڑھنے کا حکم بھی دیا۔ دیکھیے [مسند احمد 5 /25 ح 20284 و سندہ حسن] اور سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کے اس اجتہاد کی وجہ سے قرآن کی حقانیت پر کوئی حرف نہیں آتا۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ معوذتین کو اللہ کی طرف سے نازل کردہ سورتیں ہی سمجھتے تھے یہی وجہ ہے کہ انہوں نے پہلے ان دونوں کو اپنے مصاحف میں لکھا تھا۔
   ماہنامہ الحدیث حضرو ، شمارہ 133، حدیث/صفحہ نمبر: 44   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4977  
4977. حضرت زر بن حبیش سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے ابی بن کعب ؓ سے پوچھا: اے ابومنذر! آپ کے بھائی ابن مسعود ؓ تو معوذتین کے متعلق یوں یوں کہتے ہیں۔ حضرت ابی ؓ نے جواب دیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کے متعلق پوچھا تھا تو آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: مجھے کہا گیا: ایسا کہہ تو میں نے کہہ دیا۔ حضرت ابی بن کعب ؓ نے کہا: ہم بھی وہی کہتے ہیں جو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4977]
حدیث حاشیہ:
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی کمال دانائی اور دیانتداری تھی کہ اختلاف سے بچنے کے لئے آپ نے سوال مذکور کے جواب میں وہی الفاظ نقل کر دئیے جو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنے تھے اس سے اشارتا یہ بھی ظاہر ہوا کہ وہ ان سورتوں کو اگر قرآن سے جدا جانتے تو فورا کہہ دیتے، ان کی اس بارے میں خاموشی اس امر پر دال ہے کہ وہ ان کو قرآن پاک ہی سمجھتے تھے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4977   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4976  
4976. حضرت زر بن حبیش سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے ابی بن کعب ؓ سے معوذتین کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بیان کیا کہ میں نے نبی ﷺ سے پوچھا تھا تو آپ ﷺ نے فرمایا: مجھے کہا گیا تو میں نے اس طرح کہہ دیا۔ چنانچہ ہم بھی اسی طرح کہتے ہیں جس طرح رسول اللہ ﷺ نے کہا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4976]
حدیث حاشیہ:
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ان دونوں سورتوں کو قرآن میں داخل نہیں سمجھتے تھے بلکہ کوئی مصحف میں لکھتا تو چھیل ڈالتے۔
وہ کہتے یہ دونوں سورتیں صرف اس لئے اتری ہیں کہ لوگ بطورتعویذ کے پڑھا کریں اور جن لوگوں نے کہا کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے یہ روایت صحیح نہیں ہے انہوں نے غلطی کی لیکن جمہور صحابہ اور تابعین سب کا قول ہے کہ معوذ تین قرآن میں داخل ہیں اور اس پر اجماع ہو گیا اور ممکن ہے کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا یہ مطلب ہو کہ گویا دونوں سورتیں کلام الٰہی ہیں مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو مصحف میں نہیں لکھوایا اس لئے مصحف میں لکھنا ضروری نہیں۔
نووی نے شرح مسلم میں کہا کہ مسلمانوں نے اس پر اجماع کیا کہ معوذ تین اور سورۃ فاتحہ قرآن میں داخل ہیں اور جو کوئی قرآن سے کسی جزء کا انکار کرے وہ کافر ہے اور حافظ نے اس پر اعتراض کیا (وحیدی)
بہر حال مصحف عثمانی کی بنا پر یہ ہر دو سورتیں قرآن شریف ہی کا جزء ہیں۔
چودہ سو برس سے ان کی قرآنی تلاوت ہوتی آ رہی ہے، اس لحاظ سے امت کا ان کے اجزائے قرآن ہونے پر اجماع ہو چکا ہے۔
لہٰذا ب شک و تردد کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
بہت سے علماء نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی طرف اس قول کی نسبت ہی کو شروع سے غلط ٹھہرایا ہے اور بعضوں نے کہا ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اپنے اس قول سے رجوع کرلیا ہے۔
حضرت ابی بن کعب سے معوذ تین کے بارے میں یہ پوچھا گیا کہ کیا یہ دونوں سورتیں قرآن میں داخل ہیں یا نہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4976   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4976  
4976. حضرت زر بن حبیش سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے ابی بن کعب ؓ سے معوذتین کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بیان کیا کہ میں نے نبی ﷺ سے پوچھا تھا تو آپ ﷺ نے فرمایا: مجھے کہا گیا تو میں نے اس طرح کہہ دیا۔ چنانچہ ہم بھی اسی طرح کہتے ہیں جس طرح رسول اللہ ﷺ نے کہا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4976]
حدیث حاشیہ:

سورۃ الفلق اور سورۃ الناس کو معوذتین کہتے ہیں۔
ان کے کلام اللہ ہونے میں کوئی شک نہیں۔
اسی طرح معوذتین کے قرآن ہونے پر بھی تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کا اجماع ہے اور ان کے عہد سے لے کر آج تک تواتر سے ثابت ہے کہ یہ دونوں سورتیں قرآن کریم کا حصہ ہیں، البتہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق مختلف آراء ہیں کہ وہ انھیں قرآن کا جز اور حصہ مانتے تھے یا نہیں جس کی تفصیل حسب ذیل ہے:
۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ انھیں قرآن میں شامل نہیں سمجھتے تھے۔
روایات میں ہے کہ وہ ان دونوں سورتوں کو قرآن سے کھرچ ڈالتے تھے اور کہتے تھے:
یہ دونوں کتاب اللہ سے نہیں ہیں۔
۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ انھیں قرآن میں شامل ہونے کا انکار نہیں کرتے تھے البتہ مصحف میں لکھنے کے منکر تھے۔
ان کی رائے یہ تھی کہ مصحف میں قرآن مجید کا کوئی حصہ اس وقت لکھا جائے گا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لکھنے کی اجازت دیں۔
۔
کچھ اہل علم نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف اس قول کی نسبت کو ہی غلط قرار دیا ہے کیونکہ عاصم، حمزہ اور کسائی کی روایت قراءت کا سلسلہ سند حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک پہنچا ہے، اس روایت میں معوذتین موجود ہیں۔

ہمارا ذاتی رجحان یہ ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اگرچہ پہلے یہ ذہن رکھتے تھے اور انھیں قرآن کا حصہ نہیں سمجھتے تھے لیکن بعد میں انھوں نے رجوع کرکے جمہور اہل علم کے مؤقف کو تسلیم کرلیا تھا جیسا کہ امام عاصم، حمزہ اور کسائی کی روایات سے معلوم ہوتا ہے۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4976   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4977  
4977. حضرت زر بن حبیش سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے ابی بن کعب ؓ سے پوچھا: اے ابومنذر! آپ کے بھائی ابن مسعود ؓ تو معوذتین کے متعلق یوں یوں کہتے ہیں۔ حضرت ابی ؓ نے جواب دیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کے متعلق پوچھا تھا تو آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: مجھے کہا گیا: ایسا کہہ تو میں نے کہہ دیا۔ حضرت ابی بن کعب ؓ نے کہا: ہم بھی وہی کہتے ہیں جو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4977]
حدیث حاشیہ:
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کمال دانائی اور دیانت داری تھی کہ اختلاف سے بچنے کے لیے آپ نے سوال مذکورہ کے جواب میں وہی الفاظ نقل کر دیے جو انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنے تھے۔
اس انداز سے یہ تو معلوم ہوتا ہے کہ اگر وہ ان سورتوں کو قرآن کریم سے جدا مانتے تو فوراً کہہ دیتے کہ یہ قرآن کا حصہ نہیں ہے۔
ان کے طرز گفتگو سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ان سورتوں کو قرآن کا حصہ مانتے تھے۔
ضروری تنبیہ:
پناہ مانگنے کے فعل میں چار چیزیں لازمی طور پر ہوتی ہیں:
ایک بجائے خود پناہ مانگنا، دوسرے پناہ مانگنا والا، تیسرے جس کی پناہ مانگی جائے اور چوتھی وہ جس سے پناہ مانگی جائے، مثلاً ہم اللہ سے شیطان کی پناہ مانگتے ہیں، تو ہم خود پناہ مانگنے والے ہیں، اور اللہ کی پناہ مانگتے ہیں، اور شیطان کے شر سے پناہ چاہتے ہیں، ہمارا اللہ سے التجا کرنا پناہ مانگنے کا عمل ہے۔
پہلی سورت فلق میں اللہ کی ایک صفت کے حوالے سے چار چیزوں سے پناہ طلب کی گئی ہے:
مخلوق کے شر،رات کے شر، گرہ میں پھونکنے والیوں کے شر اور حاسد کے شر سے پناہ مانگی گئی ہے جبکہ دوسری سورت (الناس)
میں اللہ تعالیٰ کی تین صفات کاحوالہ دے کرصرف ایک چیز سے پناہ مانگی گئی ہے اور وہ وسواس، خناس کے شر سے پناہ طلب کرنا، اس کا مطلب یہ ہے کہ وسواس، خناس سے پناہ بہت عظیم ہے جس کے لیے اللہ تعالیٰ کی تین صفات، یعنی رب الناس، ملك الناس اور إلٰه الناس جیسی صفات کا واسطہ دیا گیا ہے۔
بہرحال اس سورت میں شیطان سے پناہ طلب کی جارہی ہے۔
انسان کسی سے پناہ اس وقت مانگتا ہے جب تنہا اس کا مقابلہ نہ کرسکتا ہو۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ابلیس نے روز اول سے یہ قسم اٹھا رکھی ہے کہ میں اولاد آدم کو گمراہ کر کے چھوڑوں گا اور اس نے قسم اٹھا کر کہا ہے کہ میں اس راستے پر بیٹھ کر گمراہ کروں گا جس پر چل کر انھوں نے اُخروی کامیابی حاصل کرنی ہے، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
یاد رکھو! شیطان تمہارا دشمن ہے تم اسے دشمن جانو، وہ تو اپنے گروہ کو اس لیے دعوت دیتا ہے۔
تا کہ وہ سب جہنم واصل ہو جائیں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ اس لعنتی سے سخت عداوت اوردشمنی رکھی جائے۔
دجل و فریب اور ہتھکنڈوں سے بچنے کے لیے انتہائی محنت کی جائے، جس طرح دشمن سے بچاؤ کے لیے انسان کرتا ہے، وہ تدبیر صرف اللہ تعالیٰ کی پناہ ہے۔
انسان کو اس کی شرارتوں سے بچنے کے لیے اللہ کی پناہ میں آنا چاہیے۔
اس سورت میں اس کا طریقہ واردات بھی بتایا گیا ہے کہ وہ کسی کا بازو پکڑ کر گمراہ نہیں کرتا بلکہ وسوسہ اندازی کرتا ہے اور سبز باغ دکھاتا ہے، نیز اپنے دام ہم رنگ زمین میں پھنسانے کے لیے دنیا کے اعمال کو خوشنما کر کے پیش کرتا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ کہا گیا ہے:
اگرشیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ آئے تو فوراً اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرو یقیناً وہ سب کچھ سننے والا سب کچھ جاننے والا ہے۔
(حٰم السجدة: 41)
بحرحال شیطان نے روز اول سے جس گمان کا اظہار کیا تھا اسے سچا کر دکھایا ہے، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اور شیطان نے ان کے بارے میں اپنا گمان سچا کر دکھایا۔
یہ لوگ سب کے سب اس کے تابع بن گئے ہیں۔
سوائے اہل ایمان کی ایک جماعت کے۔
(سبا: 34/20)
حالانکہ شیطان صرف وسوسہ اندازی کا ہتھیار استعمال کرتا ہے، اس کے علاوہ اس کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے۔
وہ قیامت کے دن اپنے اختیارات کا برملا اظہار کرے گا، جب کام کا فیصلہ کر دیا جائے گا تو شیطان کہے گا:
اللہ نے تمھیں سچا وعدہ دیا تھا اور میں نے جو تم سے وعدے کیے تھے ان کے خلاف کیا۔
میرا تم پر کوئی دباؤ تو تھا ہی نہیں، ہاں میں نے تمھیں پکارا اور تم نے میری پکار پر لبیک کہہ دیا۔
اب تم مجھے ملامت نہ کرو خود اپنے آپ کو ملامت کرو، نہ میں تمہارا فریاد رس اور نہ تم میری فریاد کو پہنچنے والے۔
میں تو سرے سے مانتا ہی نہیں کہ تم مجھے اس سے پہلے اللہ کا شریک مانتے رہے۔
یقیناً ظالموں کے لیے دردناک عذاب ہے۔
(إبراهیم: 22/14)
شیطان سے بچنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آجائیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا ہے:
اے میرے پروردگار!میں شیطانوں کے وسوسوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔
اے میرے رب! میں تیری پناہ چاہتا ہوں کہ وہ میرے پاس آئیں۔
(المومنون: 97۔
98)

اس سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمین یہ دعا سکھائی ہے:
(أَعوذُ باللهِ العَظيـم وَبِوَجْهِـهِ الكَرِيـم وَسُلْطـانِه القَديـم مِنَ الشّيْـطانِ الرَّجـيم)
اگر یہ دعا پڑھ لی جائے توشیطان کہتا ہے:
آج یہ پورے دن کے لیے مجھ سے محفوظ ہوگیا ہے۔
(سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 466)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4977