مسند الحميدي
أَحَادِيثُ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
سیدنا أبی بن کعب رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
حدیث نمبر 375
حدیث نمبر: 375
375 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ قَالَ: ثنا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ قَالَ: قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ إِنَّ نَوْفًا الْبَكَالِيَّ يَزْعُمُ أَنَّ مُوسَي صَاحِبَ الْخَضِرِ لَيْسَ مُوسَي بَنِي إِسْرَائِيلَ إِنَّمَا هُوَ مُوسَي آخَرُ فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ كَذَبَ عَدُوُّ اللَّهِ؛ حَدَّثَنَا أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" قَامَ مُوسَي خَطِيبًا فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ فَسُئِلَ أَيُّ النَّاسِ أَعْلَمُ؟ فَقَالَ: أَنَا أَعْلَمُ، فَعَتَبَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَيْهِ إِذْ لَمْ يَرُدَّ الْعِلْمَ إِلَيْهِ فَقَالَ: «إِنَّ لِي عَبْدًا بِمَجْمَعِ الْبَحْرَيْنِ هُوَ أَعْلَمُ مِنْكَ» قَالَ مُوسَي أَيْ رَبِّ فَكَيْفَ لِي بِهِ؟ قَالَ: «تَأْخُذُ حُوتًا فَتَجْعَلَهُ فِي مِكْتَلٍ ثُمَّ تَنْطَلِقُ، فَحَيْثُمَا فَقَدْتَ الْحُوتَ فَهُوثَمَّ» فَأَخَذَ حُوتًا فَجَعَلَهُ فِي مِكْتَلٍ ثُمَّ انْطَلَقَ وَانْطَلَقَ مَعَهُ فَتَاهُ يُوشَعُ بْنُ نُونٍ حَتَّي إِذَا انْتَهَي إِلَي الصَّخْرَةِ وَضَعَا رُءُوسَهُمَا فَنَامَا وَاضْطَرَبَ الْحُوتُ فِي الْمِكْتَلِ فَخَرَجَ مِنْهُ فَسَقَطَ فِي الْبَحْرِ ﴿ فَاتَّخَذَ سَبِيلَهُ فِي الْبَحْرِ سَرَبًا﴾ وَأَمْسَكَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَنِ الْحُوتِ جَرْيَةَ الْمَاءِ فَصَارَ عَلَيْهِ مِثْلَ الطَّاقِ، فَلَمَّا اسْتَيْقَظَ مُوسَي نَسِيَ صَاحِبُهُ أَنْ يُخْبِرَهُ بِالْحُوتِ فَانْطَلَقَا بَقِيَّةَ يَوْمِهِمَا وَلَيِلَتِهِمَا حَتَّي إِذَا كَانَ مِنَ الْغَدِ قَالَ مُوسَي لِفَتَاهُ ﴿ آتِنَا غَدَاءَنَا لَقَدْ لَقِينَا مِنْ سَفَرِنَا هَذَا نَصَبًا﴾
375- سعید بن جبیر بیان کرتے ہیں: میں نے سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا: نوف بکالی یہ کہتا ہے کہ جن سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی سیدنا خضر علیہ السلام کے ساتھ ملاقات ہوئی تھی۔ وہ بنی اسرائیل سے تعلق رکھنے والے سیدنا موسیٰ علیہ السلام نہیں ہیں بلکہ یہ کوئی دوسرے سیدنا موسیٰ علیہ السلام ہیں تو سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: الله کے دشمن نے جھوٹ کہا ہے۔ سیدنا ابی بن کعب نے مجھے یہ حدیث سنائی ہے کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے۔ ایک مرتبہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل میں کھڑے خطبہ دے رہے تھے ان سے سوال کیا گیا لوگوں میں سے سب سے زیادہ علم کس کے پاس ہے؟ انہوں نے جواب دیا: میں سب سے زیادہ علم رکھتا ہوں تو اس بات پر اللہ تعالی نے ان پر ناراضگی کا اظہار کیا کہ انہوں نے اس علم کی نسبت للہ تعالی کی طرف کیوں نہیں کی (یعنی اللہ بہتر جانتا ہے کہ کون زیادہ علم رکھتا ہے)
اللہ تعالی نے فرمایا: ”دو سمندروں کی جگہ پر میرا ایک بندہ ہے جوتم سے زیادہ علم رکھتا ہے۔“ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے عرض کی: اے میرے پروردگار! میں اس تک کیسے پہنچ سکتا ہوں؟
الله تعالی نے فرمایا: ”تم ایک مچھلی لواسے ایک برتن میں رکھو اور پھر چل پڑو جہاں تم پچھلی کو کھو دو گے وہی جگہ ہوگی۔“
تو سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے مچھلی لی اسے ایک برتن میں رکھا اور روانہ ہو گئے۔ ان کے ساتھ ان کے نوجوان ساتھی سیدنا یوشع بن نون علیہ السلام بھی تھے۔ یہاں تک کہ جب وہ چٹان کے پاس پہنچے تو ان دونوں حضرات نے اپنا سر رکھا اور سو گئے وہ مچھلی بھی اس برتن میں مضطرب ہوئی اور اس سے نکلی اور سمندر میں گرگئی۔
جس کا تذکرہ قرآن نے ان الفاظ میں کیا ہے: ”تو اس نے سمندر میں اپنا راستہ بنالیا۔“ اللہ تعالی نے اس مچھلی کے لیے پانی کے بہاؤ کو روک دیا اور وہ سمندر اس کے لیے طاق کی ماند ہوگیا۔ جب سیدنا موسیٰ علیہ السلام بیدار ہوئے تو ان کے ساتھی انہیں مچھلی کے بارے میں بتانا بھول گئے کہ دونوں حضرات اس دن کا بقیہ حصہ اور آگے آنے والی رات بھر تک چلتے رہے۔ یہاں تک کہ جب اگلا دن آیا تو سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے اپنے ساتھی سے کہا: (جس کا ذکر قرآن میں ان الفاظ میں ہے) ”تم ہمارا کھانا لے کر آؤ ہمیں اپنے اس سفرسے بڑی مشقت کا سامنا کرنا پڑا ہے (یا تھکا وٹ لاحق ہوگئی ہے)“
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: حالانکہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے تھکاوٹ اس وقت تک محسوس نہیں کی جب تک وہ اس مقام سے آگے نہیں گزر گئے جس کے بارے میں الله تعالی نے انہیں حکم دیا تھا۔ توان کے ساتھی نے ان سے گزارش کی (جس کا ذکر قرآن میں ان الفاظ میں ہے) ”آپ نے ملاحظ فرمایا جب ہم چٹان کے پاس آئے تھے تو وہاں میں مچھلی بھول گیا تھا اور یہ بات شیطان نے مجھے بھلائی تھی کہ میں اس کا تذکرہ کرتا۔ اس نے حیران کن طریقے سے سمندر میں راستہ بنالیا تھا۔“
نبی اکرم ا فر ماتے ہیں ”مچھلی کیلئے یہ راستہ تھا اور سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے لیے اور ان کے ساتھی کیلئے یہ حیران کن بات تھی۔“
سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے کہا: (جس کا ذکر قرآن میں ہے) ”ہم وہی تو چاہتے تھے، تو یہ دونوں الٹے قدموں وہاں سے واپس آئے۔“
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ”یہ دونوں حضرات اپنے قدموں کے نشانات دیکھتے ہوئے واپس لوٹے اور اس چٹان تک آگئے تو وہاں ایک شخص موجودتھا جس نے اپنے اوپر چادر تانی ہوئی تھی۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے اسے سلام کیا تو سیدنا خضر علیہ السلام بولے: تمہاری اس جگہ یہ سلام کہاں سے آگیا؟“ سیدنا موسیٰ علیہ السلام بولے: ”میں موسیٰ (علیہ السلام) ہوں“۔ انہوں نے دریافت کیا بنی اسرائیل سے تعلق رکھنے والے سیدنا موسیٰ علیہ السلام؟ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے جواب دیا: ”ہاں۔ میں آپ کے پاس اس لیے آیا ہوں تا کہ آپ مجھے اس چیزکی تعلیم دیں جس بھلائی کی آپ کوتعلیم دی گئی ہے“
تو سیدنا خضر علیہ السلام بولے: (جس کا ذکر قرآن میں ہے) ”آپ میرے ساتھ رہ کر صبر نہیں کر سکیں گے۔“
اے موسیٰ (علیہ السلام)! مجھے اللہ تعالی کی طرف سے ایک ایساعلم عطا کیا گیا ہے جو اللہ تعالی نے مجھے عطا کیا ہے۔ آپ اس سے واقف نہیں ہیں اور آپ کو اللہ تعالی کی طرف سے ایک ایساعلم عطا کیا گیا ہے جو اللہ تعالی نے آپ کو عطا کیا ہے میں اس سے واقف نہیں ہوں، تو سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے ان سے کہا: (جس کا ذکر قرآن میں ہے) ”اگر اللہ نے چاہاتو آپ مجھے صبر کرنے والا پائیں گے اور میں کسی معاملے میں آپ کی نافرمانی نہیں کروں گا۔“
تو سیدنا خضر علیہ السلام بولے: (جس کا ذکر قرآن میں ہے) ”اگر آپ نے میرے ساتھ رہنا ہے تو پھر آپ نے کسی چیز کے بارے میں مجھ سے سوال نہیں کرتا جب تک میں خود اس کے بارے میں آپ کو بیان نہیں کر دیتا۔“
دونوں حضرات سمندر کے کنارے چلے ہوئے روانہ ہوئے۔ ان کے پاس سے ایک کشتی گزری ان حضرات نے کشتی والوں سے بات چیت کی کہ وہ انہیں بھی سوار کرلیں تو وہ سیدنا خضر علیہ السلام کو پہچان گئے اور کسی معاوضے کے بغیر انہوں نے ان حضرات کو سوار کر لیا۔ جب یہ دونوں حضرات سوار ہوئے تو اس کے تھوڑی دیر بعد سیدنا خضر علیہ السلام نے ایک کلہاڑی کے ذریے کشتی کی ایک تختی کو توڑ دیا تو سیدنا موسیٰ علیہ السلام بولے: ان لوگوں نے کسی معاوضے کےبغیر ہمیں سوار کیا ہے اور آپ نے ان کی کشتی کو توڑ دیا ہے؟ (آگے کے الفاظ قرآن کے ہیں)۔ ”تاکہ آپ ان کشتی والوں کوڈبودیں۔ آپ نے ایک غلط حرکت کی ہے۔“
سیدنا خضر علیہ السلام بولے: (جس کا ذکر قرآن میں ہے) ”کیا میں نے نہیں کہا: تھا کہ آپ میرے ساتھ رہ کر صبر سے کام نہیں لے سکیں گے؟“ تو سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے کہا: (جس کا ذکر قرآن میں ہے) ”میں جو بات بھول گیا تھا آپ اس پر میرا مواخذہ نہ کریں اور میرے معا ملے کو تنگی کا شکار نہ کریں۔“
راوی بیان کرتے ہیں:نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: یہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی طرف سے پہلی بھول تھی۔ نبی اکرم صلى الله عليه وسلم نے ارشادفرمایا: اسی دوران ایک چڑیا آئی اور کشتی کے کنارے پر آ کر بیٹھ گئی اس نے سمندر میں سے ایک چونچ میں پانی لیاتو سیدنا خضر علیہ السلام نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے کہا: میرا علم اور آپ کا علم اللہ تعالی کے علم میں وہ کمی بھی نہیں کرتا جو اس چڑیا نے اس سمندر میں کی ہے۔
یہ دونوں حضرات کشتی سے نکلے اور یہ دونوں حضرات ساحل پر چلتے ہوئے جارہے تھے تو اس دوران سیدنا خضر علیہ السلام نے ایک لڑکے کو دیکھا جو دوسرے لڑکوں کے ساتھ کھیل رہا تھا۔ سیدنا خضر علیہ السلام نے اس کا سر پکڑا اور اپنے ہاتھوں کے ذریعے اس کا سرمروڑ کے اسے قتل کردیا۔
سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے ان سے کہا: (جس کا ذکرقرآن میں ان الفاظ میں ہے) ”کیا آپ نے ایک بے گناه وجودکو کسی جان کے بدلے کے بغیر قتل کر دیا ہے آپ نے ایک قابل انکار حرکت کی ہے۔“
تو سیدنا خضر علیہ السلام بولے: کیا میں نے آپ سے نہیں کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ رہ کرصبر نہیں کر سکیں گے؟
نبی اکرم صلى الله عليه وسلم فرماتے ہیں ”یہ تنبیہ پہلی کے مقابلے میں زیادہ شدید تھی“، تو سیدناسیدنا موسیٰ علیہ السلام بولے: (جس کا ذکر قرآن میں ہے) ”اگر میں نے اس کے بعد آپ سے کسی چیز کے بارے میں دریافت کیا تو آپ میرے ساتھ نہ رہئے گا۔ میری طرف سے آپ کو عذر پہنچ گیا ہے۔“
ارشاد باری تعالی ہے: ”تو یہ دونوں چلتے ہوئے ایک بستی تک آئے اور انہوں نے ان سے کھانے کے لیے کچھ مانگا تو انہوں نے انہیں مہمان بنانے سے انکار کردیا ان دونوں نے اس میں ایک دیوار پائی جو گرنے کے قریب تھی“
راوی کہتے ہیں: اس سے مراد یہ ہے کہ(وہ گرنے والی تھی) تو خضر علیہ السلام نے اپنے ہاتھ کے ساتھ اس طرح کیا اور اسے کھڑا کردیا توسیدنا موسیٰ علیہ السلام بولے: یہ ایسے لوگ ہیں کہ ہم ان کے پاس آئے لیکن انہوں نے ہمیں کھانا نہیں کھلایا اور ہمیں مہمان نہیں بنایا۔ (اگلے الفاظ قرآن کے ہیں) ”اگر آپ چاہیں تو اس پران سے معاوضہ وصول کر سکتے ہیں۔“
تو سیدنا خضر علیہ السلام بولے: (جس کا ذکر قرآن میں ہے) ”میرے اور آپ کے درمیان فرق ہے جن کاموں پر آپ صبر نہیں کر سکے میں ان کی حقیقت آپ کو بتاتا ہوں۔“
راوی بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلى الله عليه وسلم نے ارشادفرمایا: ”ہماری خواہش یہ تھی کہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام صبر سے کام لیتے تاکہ ان دونوں واقعات کی مزید تفصیلات سامنے آجاتیں۔“
سعید بن جبیر کہتے ہیں سیدنا عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہما یہ تلاوت کیا کرتے تھے۔ ”اس سے پرے ایک بادشاہ تھا جوٹھیک کشتی کوغصب کر لیا کرتا تھا۔“ انہوں نے یہ بھی پڑھا۔ ”جہاں تک لڑکے کا معاملہ ہے وہ کافر تھا اور اس کے ماں باپ مومن تھے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه:أخرجه البخاري فى «العلم» برقم: 74، 78،122، 2267،2728،3278، 3400، 3401، 4725،4726، 4727، 6672،7478، ومسلم فى «فضائل الخضر عليه السلام» برقم: 2380، 2661، وابن حبان في «صحيحه» برقم: 102، 988،6220، 6221، والحاكم في «مستدركه» ، برقم: 3414، والنسائي فى «الكبرى» ، برقم: 5813، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3984، 4705،4706، 4707، والترمذي فى «جامعه» برقم: 3149، وأحمد فى «مسنده» ، برقم: 21497، وعبد الله بن أحمد بن حنبل فى زوائده على «مسند أحمد» ، برقم: 21502»
مسند الحمیدی کی حدیث نمبر 375 کے فوائد و مسائل
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:375
فائدہ:
راقم نے اس حدیث پر قدرے تفصیل سے اپنی شرح صحیح بخاری اور شرح مسلم میں بات کی ہے، اس موقع پر اس حدیث پر صرف ایک فائدہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خضر علیہ السلام کو ”عبـدا مـن عبادنا“ (ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ ہے، (الکہف: 65) کہا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان کا نام خضر اس لیے پڑا کہ وہ سفید زمین کے ایک قطع پر بیٹھے ہوئے تھے تو وہ ان کے پیچھے سرسبز ہوکر لہلہانے لگا۔ (صحیح البخاری: 3402) یہ اللہ تعالیٰ کے نبی تھے، اس کی دلیل یہ ہے کہ انہوں نے آخر میں فرمایا: میں نے یہ اپنی مرضی سے نہیں کیا۔ (الکہف: 82) بلکہ یہ سب اللہ تعالیٰ کے حکم سے تھا، جو وحی کی صورت میں انبیاء پر صادر ہوتا ہے۔
اسی طرح ایک مفصل حدیث میں ان کا یہ کہنا کہ میرے پاس ایک علم ہے جو اللہ تعالیٰ نے مجھے سکھایا ہے، تم اسے نہیں جانتے۔ ولی کتنا بھی مقرب ہو، اس کا الہام حجت نہیں ہے، نہ وہ الہام سے کسی کو قتل کر سکتا ہے، ورنہ ہر مومن اللہ کا ولی ہے۔ (البقرہ: 257) وہ اللہ کے امر کا بہانہ بنا کر جسے چاہے گا قتل کر دے گا، جبکہ اس کا کوئی بھی قائل نہیں ہے۔
محقق علماء جن میں امام بخاری رحمہ اللہ، ابن تیمیہ اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے جیسے عظیم ائمہ شامل ہیں، فرماتے ہیں کہ خضر ع علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں، کیونکہ اگر وہ زندہ ہوتے تو سورہ آل عمران کی آیت (81) کے مطابق ان پر لازم تھا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر آپ پر ایمان لاتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل کر جہاد کرتے، جبکہ ان کے آنے کا کہیں ذکر نہیں ہے، نہ کسی صحابی سے ان کے ملنے کا ذکر ہے، صحيح البخاری کی وہ حدیث بھی اس کی دلیل ہے کہ جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آج رات سے ایک سو سال پورے ہونے تک زمین کی پشت پر جو بھی ہے، کوئی بھی ان میں سے زندہ نہیں رہے گا۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ وہ زمین پر نہیں ہیں، بلکہ دریاؤں اور سمندروں میں رہتے ہیں، ان کا رد سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث سے ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات سے ایک ماہ قبل فرمایا: کوئی بھی جان جو آج پیدا ہو چکی ہے، اس پر سو سال نہیں آئیں گے کہ وہ اس وقت زندہ ہو۔ (صحیح مسلم: 2538)
جو لوگ سیدنا خضر علیہ السلام کے زندہ ہونے کے قائل ہیں، ان کے پاس کوئی صحیح دلیل نہیں ہے۔ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: وہ تمام روایات جن میں خضر علیہ السلام کے اب تک زندہ ہونے کا ذکر ہے، سب جھوٹی ہیں، اس واقعہ پر جامع تبصرہ دیکھنے کے لیے حافظ عبدالسلام بن محمد رحمہ اللہ کی کتاب“”تفسير القرآن الكريم“ (2/ 551,560) کا مطالعہ کریں۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 375
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:74
74. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ ان کا اور حضرت حر بن قیس بن حصن الفزاری ؓ کا حضرت موسیٰ ؑ کے ساتھی کے متعلق اختلاف ہو گیا۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: وہ ساتھی حضرت خضر ہیں۔ اسی اثنا میں حضرت ابی بن کعب ؓ کا ان کے پاس سے گزر ہوا تو حضرت ابن عباس ؓ نے انہیں بلایا اور کہا کہ میرا اور میرے اس ساتھی کا حضرت موسیٰ ؑ کے اس ہم نشین کے متعلق باہمی اختلاف ہو گیا جس کی ملاقات کے لیے موسیٰ ؑ نے راستہ دریافت کیا تھا۔ کیا آپ نے نبی ﷺ سے اس کے متعلق کچھ سنا ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں، میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: ”ایک دن موسیٰ ؑ بنی اسرائیل کی ایک جماعت میں تشریف فرما تھے، اتنے میں ایک آدمی آیا اور آپ سے دریافت کیا کہ آپ کسی شخص کو اپنے سے زیادہ عالم جانتے ہیں؟ حضرت موسیٰ نے فرمایا: نہیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ پر وحی نازل فرمائی: کیوں نہیں! ہمارا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:74]
حدیث حاشیہ:
1-
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد قصہ بیان کرنا نہیں بلکہ کتاب العلم میں اس واقعے کو اس لیے بیان کیا ہے کہ اگر کسی شخص کو اپنے وطن میں رہتے ہوئے شرف علم کے حصول میں کامیابی نہ ہو تو اس کے لیے ہر قسم کی مشکلات اور صعوبتوں کو برداشت کیا جا سکتا ہے حتی کہ اگر اسے بحری سفر بھی کرنا پڑے تو بھی اس سے گریز نہیں کرنا چاہیے چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے باوجود اس کے کہ آپ جلیل القدر اور صاحب کتاب پیغمبر ہیں بحری سفر کیا جس کا مقصد ایک زائد از ضرورت علم کا حصول تھا کیونکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس ضروری علوم تو پورے موجود تھے۔
2۔
حضرت حربن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بڑے جلیل القدر صحابی ہیں۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کے علم و فضل کی وجہ سے انھیں اپنی مجلس مشاورت میں شامل کیا تھا۔
اس مقام پر ان کا حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ اختلاف ہوا کہ موسیٰ علیہ السلام کے ساتھی حضرت خضر علیہ السلام ہیں یا کوئی اور۔
حربن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے موقف کے متعلق معلوم نہیں ہو سکا کہ وہ حضرت خضر علیہ السلام کے علاوہ کس کا نام لیتے تھے؟ واضح رہے کہ اس واقعے کے متعلق ایک اور اختلاف بھی ہوا کہ اس موسیٰ علیہ السلام سے مراد حضرت موسیٰ علیہ السلام بن عمران ہیں جو بنی اسرائیل کے رسول اور صاحب کتاب تھے یا کوئی اور موسیٰ ہیں؟ یہ اختلاف حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ایک واعظ نوف البکالی کے درمیان ہوا۔
نوف البکالی کا موقف تھا کہ یہ کوئی اور موسیٰ ہیں کیونکہ اتنا بڑا نبی حضرت خضر کے پاس علم حاصل کرنے کے لیے جائے۔
یہ ناممکن ہے۔
چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس کی تردید فرمائی۔
(صحیح البخاري، کتاب العلم، حدیث: 122)
اس کی تفصیل کتاب التفسیر میں بیان کی جائے گی۔
3۔
ایک ضعیف حدیث میں ہے کہ سمندری سفر حاجی، عمرہ کرنے والے اور غازی کے علاوہ کسی دوسرے کے لیے جائز نہیں ہے۔
(سنن أبی داؤد، الجہاد، حدیث: 2489)
اس صحیح حدیث سے اس ضعیف حدیث کی تردید بھی ہو جاتی ہے کہ سمندری سفر طالب علم کےلیے صرف جائز ہی نہیں بلکہ مستحب ہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب البیوع میں التجارة فی البحر عنوان قائم کر کے اسے مزید واضح فرمایا ہے۔
4۔
حضرت خضر زندہ ہیں یا فوت ہو چکے ہیں؟ وہ نبی تھے یا ولی؟ نیز ان کے علم کی حقیقت کیا ہے؟ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کس حیثیت سے ان کی شاگردی اختیار فرمائی؟ یہ تمام مباحث التفسیر میں ذکر ہوں گے۔
بإذن اللہ۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 74
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:78
78. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ ان کا اور حضرت حر بن قیس بن حصن فزاری ؓ کا حضرت موسیٰ ؑ کے ہم نشین کے متعلق اختلاف ہو گیا۔ دریں اثنا ان کے پاس سے حضرت ابی بن کعب ؓ گزرے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے انہیں بلا لیا اور فرمایا کہ میرا اور میرے اس ساتھی کا حضرت موسیٰ ؑ کے ہم نشین کے متعلق اختلاف ہو گیا ہے جن سے ملاقات کے لیے حضرت موسیٰ ؑ نے راستہ پوچھا تھا۔ کیا آپ نے رسول اللہ ﷺ سے ان کے حالات کے متعلق کچھ سنا ہے؟ حضرت ابی بن کعب ؓ نے فرمایا: ہاں، میں نے نبی ﷺ کو ان کے حالات بیان کرتے ہوئے سنا ہے۔ آپ فرماتے تھے:”ایک مرتبہ موسیٰؑ بنی اسرائیل کی ایک جماعت میں تھے۔ اچانک ایک آدمی آیا اور کہنے لگا: کیا آپ کسی کو اپنے سے زیادہ عالم جانتے ہیں؟ حضرت موسیٰ ؑ نے فرمایا: نہیں۔ تب اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ پر وحی نازل فرمائی: کیوں نہیں! ہمارا بندہ خضر (آپ سے زیادہ عالم ہے)۔ حضرت موسیٰ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:78]
حدیث حاشیہ:
1۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے طلب علم کے لیے ہر طرح کے سفر کا جواز بلکہ استحباب ثابت کیا ہے، یعنی اگر طلب علم یا تجارت کی ضرورت ہے تو سفر کرنے کی اجازت ہے۔
جب دنیوی ضرورت کے لیے سفر کیا جا سکتا ہے تو دینی ضرورت کے لیے اس کی ممانعت چہ معنی وارد؟2۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے جواب کی بنیاد یہ تھی کہ آپ نبی تھے اور انبیاء کا علم دوسروں سے زیادہ ہوتا ہے لیکن چونکہ انانیت اللہ کو پسند نہیں بلکہ اللہ کے حضور عاجزی اور تواضع محبوب ہے اس لیے عتاب ہوا کہ ہاں ہمارا بندہ خضر تم سے زیادہ جاننے والا ہے اور اس سے مراد خاص جزئیات ہیں یقیناً اہل علم کو علم کی قدر ہوتی ہے اس لیے انھوں نے خضر سے ملنے کی خواہش کی۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 78