مسند الحميدي
حَدِيثُ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
حدیث نمبر 373
حدیث نمبر: 373
373 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ قَالَ: ثنا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ قَالَ سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يَقُولُ: أَخْبَرَنِي مَنْ شَهِدَ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ حِينَ حَضَرَتْهُ الْوَفَاةُ، يَقُولُ: اكْشِفُوا عَنِّي سَجْفَ الْقُبَّةِ حَتَّي أُحَدِّثَكُمْ حَدِيثًا سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَمْنَعْنِي أَنْ أُحَدِّثَكُمْ إِلَّا أَنْ تَتَّكِلُوا عَنِ الْعَمَلِ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَنْ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُخْلِصًا مِنْ قَلْبِهِ أَوْ يَقِينًا مْنِ قَلْبِهِ دَخَلَ الْجَنَّةَ، وَلَمْ تَمَسَّهُ النَّارَ»
373- سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: مجھے ان صاحب نے یہ بات بتائی ہے، جو سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کے انتقال کے وقت ان کے پاس موجود تھے۔ سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم لوگ خیمے کا پردہ ایک طرف کرو تاکہ میں تمہیں ایک حدیث سناؤں جو میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی سنی تھی۔ یہ حدیث میں نے تمہیں پہلے اس لئے نہیں بیان کی تھی کہ کہیں تم عمل کے حوالے سے لاپرواہ نہ ہوجاؤ، میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے: ”جو شخص دل کے اخلاص کے ساتھ (راوی کو شک ہے شاید یہ الفاظ ہیں) دل کے یقین کے ساتھ «لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ» پڑھے وہ جنت میں داخل ہوگا۔ اسے آگ نہیں چھوئے گی۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، جهالة من أخبر جابرة ليست بضارة لأنه رواه عن صحابي، وقد رواه جابر بدون واسطة كما أخرجه ابن حبان، وانظر الحديث العالي. وأخرجه الطبراني 41/20 برقم 13، وابن مندة فى الإيمان، برقم 111، من طريق الحميدي هذه. وقد استوفينا تخريجه فى موارد الظمآن برقم 4، وفي صحيح ابن حبان برقم 200،. وانظر «كنز العمال» برقم 190، 191، و مجمع الزوائد برقم 9، بتحقيقنا، وشعب الإيمان، برقم 126،127، 128»
مسند الحمیدی کی حدیث نمبر 373 کے فوائد و مسائل
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:373
فائدہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ عالم دین کو دانا اور عقلمند ہونا چاہیے، موقع محل دیکھ کر خطاب کرے، ایسی بات سے گریز کرے جس سے فتنے میں پڑنے کا خطرہ ہو۔ نیز یادر ہے کہ اکیلا کلمہ پڑھنا مراد نہیں ہے، بلکہ ”مخلصا“ بھی شرط ہے، اور اس شرط کا تقاضا اعمال صالح ہے، ایمان کے ارکان میں سے ”عمل بالجوارح“ بھی ہے، یعنی جسم کے اعضاء کے ساتھ عمل کرنے سے ایمان مکمل ہوتا ہے۔ اکیلا اقرار کافی نہیں ہے، کیونکہ جو سچے دل سے اقرار کرتا ہے، ہوسکتا ہے کہ وہ اعمال صالحہ سے پیچھے رہے۔
کلمہ چابی ہے اور اعمال صالحہ اس کے دندے ہیں، چابی تب ہی کام کرتی ہے جب اس کے دندے بھی ہوں گے۔ اس سے مراد دل اور زبان کی بات ہے اور دل اور اعضاء کا عمل ہے۔ دیکھئے (مجموع الفتاوی: 171/7)
یہ اہل السنۃ کا مسلمہ عقیدہ ہے جس پر اہل السنہ کا اتفاق ہے کہ ایمان قول و عمل ہے جو نیکی کے کاموں سے بڑھتا ہے اور گناہ کرنے سے کم ہوتا ہے۔ اس پر قرآن و حدیث سے بہت زیادہ دلائل موجود ہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے: «وَإِذَا مَا أُنزِلَتْ سُورَةٌ فَمِنْهُم مَّن يَقُولُ أَيُّكُمْ زَادَتْهُ هَٰذِهِ إِيمَانًا فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا فَزَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَهُمْ يَسْتَبْشِرُونَ» (التوبة: 124) ”اور جب کوئی سورت نازل کی جاتی ہے تو بعض منافقین کہتے ہیں کہ اس سورت نے تم میں سے کس کے ایمان کو زیادہ کیا ہے سو جو لوگ ایماندار ہیں اس سورت نے ان کے ایمان کو زیادہ کیا ہے اور خوش ہو رہے ہیں“۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «هُوَ الَّذِي أَنزَلَ السَّكِينَةَ فِي قُلُوبِ الْمُؤْمِنِينَ لِيَزْدَادُوا إِيمَانًا مَّعَ إِيمَانِهِمْ» ”وہی ہے جس نے مسلمانوں کے دلوں میں سکون ڈال دیا اور اپنے ایمان کے ساتھ ہی ساتھ اور بھی ایمان میں بڑھ جائیں۔“ (الفتح: 4) نیز دیکھیں (آل عمران: 173، الانفال: 24، الكهف: 107) اور احادیث میں بھی کثرت سے دلائل ملتے ہیں مثلاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایمان کی ستر سے کچھ زائد شاخیں ہیں۔ سب سے اعلی شاخ «لا اله الا الله» کی شہادت دینا ہے اور سب سے ادنیٰ راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانا ہے۔ (صحیح مسلم: 35، صحيح البخاری مختصر: 19) اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جہنم سے ہر ایسا شخص نکل جائے گا جس نے دنیا میں «لا اله الا الله» کا اقرار کیا اور اس کے دل میں گندم کے دانے کے برابر یا رائی کے دانے کے برابر یا ذرہ کے برابر بھی ایمان ہوگا۔ (صحیح البخاری: 44، صحیح مسلم: 193) اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں اضافہ ہے کہ حیاء بھی ایمان کا شعبہ ہے۔ (صحیح مسلم: 58) اور اہل السنۃ والجماعت کے نزدیک ایمان دل کی تصدیق، زبان کے اقرار اور اعضاء و جوارح کے عمل سے بنتا ہے اور یہ تینوں امور ایمان میں داخل ہیں۔
لوگوں کے ایمان میں پائے جانے والے تفاوت ان کے اعمال کے تفاوت کی وجہ سے ہے اور اسی طرح اقوال بھی کیونکہ قول زبان کا عمل ہے۔۔ اس سلسلے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے امام نووی رحمہ اللہ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ انتہائی ظاہر اور محتاط قول کے مطابق تصدیق، جو دل کا کام ہے، میں کثرت نظر کی وجہ سے کمی بیشی واقع ہو جاتی ہے، اسی لیے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا ایمان دوسروں کے ایمان سے زیادہ قوی تھا۔ لیکن ان کے ایمان میں کسی شبہ کا کوئی شائبہ یا امکان نہیں تھا، ہماری اس بات کی تائید اس بات سے ہوتی ہے کہ ہر شخص بذات خود یہ بات جانتا ہے کہ اس کے دل کی کیفیت میں تبدیلی، تفاضل یا کمی بیشی آتی رہتی ہے حتی کہ بعض اوقات دل زیادہ دولت یقین و اخلاص و توکل سے معمور ہوتا ہے اور بعض حالات میں یہ کیفیت برقرار نہیں رہتی اسی طرح تصدیق و معرفت میں بھی دلائل کی قوت و کثرت کی بناء پر کمی بیشی واقع ہوتی رہتی ہے۔ (فتح الباری: 46/1) اور جیسا کہ امام حمیدی نے کہا: ایمان قول وچعمل ہے۔ اور ایمان کی تعریف سے عمل کو خارج کرنے والے دو گروہ ہیں ① مرجند الغلا ة ② مرجئہ الفقھاء۔
➊ مرجئہ الغلاۃ کا کہنا ہے کہ ہر وہ شخص جو ایمان قبول کر لے، کامل الایمان سے ہوتا ہے یعنی ایمان کی موجودگی میں کوئی گناہ نقصان نہیں دیتا۔ یہ قول باطل وکفر ہے۔
➋ مرجئہ الفقہاء اکثر اہل کوفہ ہیں اور یہ بھی عمل کو ایمان میں شامل نہیں کرتے۔ ان اور مرجئہ الغلاۃ میں یہ فرق ہے کہ مرجئہ الفقہا ءایمان کی موجودگی میں گناہ نقصان نہیں دیتا کے مخالف ہیں۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 373