حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَعْمَرِ بْنِ رِبْعِيٍّ الْقَيْسِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبُو هِشَامٍ الْمَخْزُومِيُّ ، عَنْ عَبْدِ الْوَاحِدِ وَهُوَ ابْنُ زِيَادٍ ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ حَكِيمٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُنْكَدِرِ ، عَنْ حُمْرَانَ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ تَوَضَّأَ فَأَحْسَنَ الْوُضُوءَ، خَرَجَتْ خَطَايَاهُ مِنْ جَسَدِهِ، حَتَّى تَخْرُجَ مِنْ تَحْتِ أَظْفَارِهِ ".
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 578
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
(1)
مندرجہ بالا دونوں حدیثوں سے معلوم ہوا کہ جو شخص رسول اللہﷺ کی تعلیم وہدایت کے مطابق باطنی پاکیزگی کے حصول کی خاطر وضو کے آداب وسنن کی رعایت کے ساتھ اچھی طرح وضو کرے گا،
تو اس سے صرف ظاہری میل کچیل یا حدث والی ناپاکی ہی دور نہیں ہوگی،
بلکہ اس کی برکت سے اس کے سارے جسم کے گناہ اور ان کی ناپاکی نکل جائے گی،
اور وہ حدث سے پاک ہونے کے ساتھ گناہوں سے بھی پاک ہوجائے گا۔
(2)
ان حدیثوں سے معلوم ہوا کہ گناہوں کا بھی اپنا ایک وجود ہے،
یہ الگ بات ہے کہ وہ ہمیں نظر نہیں آتے۔
اس لیے ان حدیثوں کی اس تاویل کی ضرورت نہیں ہے،
کہ گناہوں کے نکل جانے سے مقصد یا مراد صرف ان کی معافی اور بخشش ہے،
یا بندہ جب گناہ کرتا ہے،
تو جس عضو سے گناہ کرتا ہے اس کا ظلمانی اثر اور اس کی نحوست،
اس کے عضو پر پھر دل پر پڑتی ہے،
تو آداب وسنن کے مطابق کیے گئے وضو سے ہر عضو سے کیے گئے گناہ کی گندی اور بری تاثیر اور عضو اور دل پر قائم ہونے والی ظلمت وسیاہی دور ہوجاتی ہے۔
اور گناہوں کی معافی اورمغفرت بھی ہوجاتی ہے،
لیکن یہ بات پیچھے گزر چکی ہے،
کہ نیک اعمال کی تاثیر سے صغیرہ گناہ معاف ہوتے ہیں،
اور مختلف عملوں سے مختلف قسم کے گناہ معاف ہوتے ہیں اورجسم ان سے پاک وصاف ہوجاتا ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 578
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 30
´اعضائے وضو میں سے ہاتھ، منہ اور پاؤں کا تین تین مرتبہ دھونا`
«. . . ان عثمان دعا بوضوء فغسل كفيه ثلاث مرات، ثم تمضمض واستنشق واستنثر، ثم غسل وجهه ثلاث مرات ثم غسل يده اليمنى إلى المرفق ثلاث مرات، ثم اليسرى مثل ذلك، ثم مسح براسه، ثم غسل رجله اليمنى إلى الكعبين ثلاث مرات، ثم اليسرى مثل ذلك . . .»
”. . . سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے وضو کا پانی طلب فرمایا پہلے اپنے ہاتھوں کی ہتھیلیاں تین مرتبہ دھوئیں۔ پھر منہ میں پانی ڈال کر کلی کی پھر ناک میں پانی چڑھایا اور اسے جھاڑ کر صاف کیا۔ پھر تین مرتبہ اپنا چہرہ دھویا۔ پھر دایاں ہاتھ کہنی تک تین مرتبہ دھویا۔ پھر اسی طرح بایاں ہاتھ کہنی تک تین مرتبہ دھویا۔ پھر اپنے سر کا مسح کیا۔ پھر اپنا دایاں اور بایاں پاؤں ٹخنوں تک تین، تین مرتبہ دھویا . . .“ [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 30]
� لغوی تشریح:
«بِوَضُوء» ”واؤ“ کے فتحہ کے ساتھ ہے۔ وہ پانی جس سے وضو کیا جائے۔
«تَمَضْمَضَ» «اَلْمَضْمَضَة» سے ماخوذ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ منہ میں پانی داخل کر کے اسے حرکت دے، پھر باہر پھینک دے۔
«اِسْتَنْشَقَ» «اِسْتِنْشَاق» سے ماخوذ ہے۔ پانی کا ناک کے داخلی حصے میں پہنچا کر بذریعہ سانس اوپر چڑھانا۔
«اِسْتَنْشَرَ» ناک سے داخل شدہ پانی کو باہر نکالنا اور اسے جھاڑنا۔
«اَلْمِرْفَقِ» ”میم“ کے کسرہ، ”را“ کے سکون اور ”فا“ کے فتحہ کے ساتھ ہے، یعنی کہنی جو ذراع اور عضد کے درمیان جوڑ والی ہڈی ہے۔
«إِلَى الْكَعْبَيْنِ» ٹخنوں تک۔ پنڈلی اور پاؤں کے ملنے کی جگہ۔ ابھری ہوئی ہڈیاں۔ بلوغ المرام میں اس حدیث کے آخر میں یہ الفاظ بھی ہیں جنہیں مؤلف نے اختصاراً حذف کر دیا ہے: پھر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا: نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس طرح وضو کر کے فرمایا: «من توضا نحو وضوئي هذا ثم صلى ركعتين لا يحدث فيهما نفسه غفرله ما تقدم من ذنبه» ”جس شخص نے میرے اس وضو کی طرح وضو کیا، پھر دو رکعتیں ادا کیں اور اس دوران میں اس نے اپنے دل میں کوئی ایسی بات بھی نہ کی جس کا نماز سے کوئی تعلق نہ ہو تو اس کے گزشتہ تمام گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔“
فائدہ:
اس حدیث سے اعضائے وضو میں سے ہاتھ، منہ اور پاؤں کا تین تین مرتبہ دھونا ثابت ہوتا ہے۔ دوسری روایت میں دو دو مرتبہ اور بعض روایات میں ایک ایک مرتبہ دھونے کا ذکر بھی آیا ہے۔ محدثین فقہاء نے اس روایات میں اس طرح تطبیق دی ہے کہ ہر عضو کا ایک ایک مرتبہ دھونا واجب اور تین تین مرتبہ دھونا مسنون ہے، دو دو مرتبہ دھو لیا جائے تو بھی کافی ہے۔ امام نووی رحمہ اللہ نے اس پر اجماع نقل کیا ہے کہ واجب صرف ایک مرتبہ دھونا ہے۔
راوی حدیث:
SR حمران رحمہ اللہ ER ”حا“ کے ضمہ اور ”میم“ کے سکون کے ساتھ ہے۔ حمران بن ابان۔ ابان ہمزہ کے فتحہ اور ”با“ کی تخفیف کے ساتھ ہے۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے ایک غزوہ میں انہیں قید کیا۔ مسیّب بن نخبہ کے حصے میں آئے۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے مسیّب سے خرید کر آزاد کر دیا۔ طبقہ ثانیہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ ثقہ ہیں اور 75 ہجری میں فوت ہوئے۔ بعض نے سن وفات 76 اور 71 ہجری بھی ذکر کی ہے۔
SR سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ ER عثمان بن عفان تیسرے خلیفہ راشد اور سابقین اولین میں سے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی دو لخت جگر سیدہ رقیہ اور سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہما، یکے بعد دیگرے ان کی زوجیت میں رہیں۔ اسی وجہ سے آپ رضی اللہ عنہ ذوالنورین کے لقب سے مشہور ومعروف ہوئے۔ انہوں نے 18 ذوالحجہ 35 ہجری کو جمعہ کے روز جام شہادت نوش کیا۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 30
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 164
´وضو میں کلی کرنا`
«. . . حَ عَنْ حُمْرَانَ مَوْلَى عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ، أَنَّهُ رَأَى عُثْمَانَ بْنَ عَفَّان دَعَا بِوَضُوءٍ، فَأَفْرَغَ عَلَى يَدَيْهِ مِنْ إِنَائِهِ فَغَسَلَهُمَا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ أَدْخَلَ يَمِينَهُ فِي الْوَضُوءِ، ثُمَّ تَمَضْمَضَ وَاسْتَنْشَقَ وَاسْتَنْثَرَ، ثُمَّ غَسَلَ وَجْهَهُ ثَلَاثًا وَيَدَيْهِ إِلَى الْمِرْفَقَيْنِ ثَلَاثًا، ثُمَّ مَسَحَ بِرَأْسِهِ، ثُمَّ غَسَلَ كُلَّ رِجْلٍ ثَلَاثًا، ثُمَّ قَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَوَضَّأُ نَحْوَ وُضُوئِي هَذَا، وَقَالَ: " مَنْ تَوَضَّأَ نَحْوَ وُضُوئِي هَذَا، ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ لَا يُحَدِّثُ فِيهِمَا نَفْسَهُ، غَفَرَ اللَّهُ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ . . .»
”. . . حمران مولیٰ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے واسطے سے خبر دی، انہوں نے عثمان رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ انہوں نے وضو کا پانی منگوایا اور اپنے دونوں ہاتھوں پر برتن سے پانی (لے کر) ڈالا۔ پھر دونوں ہاتھوں کو تین دفعہ دھویا۔ پھر اپنا داہنا ہاتھ وضو کر کے پانی میں ڈالا۔ پھر کلی کی، پھر ناک میں پانی دیا، پھر ناک صاف کی۔ پھر تین دفعہ اپنا منہ دھویا اور کہنیوں تک تین دفعہ ہاتھ دھوئے، پھر اپنے سر کا مسح کیا۔ پھر ہر ایک پاؤں تین دفعہ دھویا۔ پھر فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ میرے اس وضو جیسا وضو فرمایا کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص میرے اس وضو جیسا وضو کرے اور (حضور قلب سے) دو رکعت پڑھے جس میں اپنے دل سے باتیں نہ کرے۔ تو اللہ تعالیٰ اس کے پچھلے گناہ معاف کر دیتا ہے . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/بَابُ الْمَضْمَضَةِ فِي الْوُضُوءِ:: 164]
� تشریح:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ وضو میں کلی کرنا بھی ضروریات سے ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 164
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 164
164. حضرت عثمان ؓ کے آزاد کردہ غلام حضرت حمران سے روایت ہے، انہوں نے حضرت عثمان ؓ کو دیکھا کہ انہوں نے وضو کے لیے پانی منگوایا، پھر اسے اپنے دونوں ہاتھوں پر ڈالا اور انہیں تین مرتبہ دھویا، اس کے بعد اپنا دایاں ہاتھ برتن میں ڈالا، کلی کی اور ناک میں پانی چڑھایا، پھر اسے صاف کیا۔ بعد ازیں اپنا چہرہ تین مرتبہ دھویا، اپنے دونوں ہاتھ کہنیوں تک تین بار دھوئے، پھر سر کا مسح کیا، پھر ہر پاؤں کو تین دفعہ دھویا۔ اس کے بعد انہوں نے فرمایا: میں نے نبی ﷺ کو اپنے اس وضو کی طرح وضو کرتے دیکھا ہے، نیز آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا: ”جس شخص نے میرے اس وضو کی طرح وضو کیا اور دو رکعت بایں طور پڑھیں کہ اپنے دل سے باتیں نہ کیں تو اللہ تعالیٰ اس کے سابقہ گناہ معاف کر دے گا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:164]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ وضومیں کلی کرنا بھی ضروریات سے ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 164
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6433
6433. حمران بن ابان سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس وضو کا پانی لے کر حاضر ہوا جبکہ وہ چبوترے پر بیٹھے ہوئے تھے۔ انھوں نے اچھی طرح وضو کرنےکے بعد فرمایا: میں نے نبی کریم ﷺ کو اسی جگہ وضو کرتے دیکھا ہے، آپ نے اچھی طرح وضو کیا، پھر فرمایا: ”جس نے اس طرح وضوکیا، پھر مسجد میں آیا اور دو رکعتیں ادا کیں، پھر وہیں بیٹھا رہا تو اس کے سابقہ گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔“ انھوں نے کہا: نبی کریم ﷺ نے (یہ بھی) فرمایا: ”اس پر مغرور نہ ہوجاؤ۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6433]
حدیث حاشیہ:
روایت میں سیدنا حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا ذکر خیر ہے بلکہ سنت نبوی پر ان کا قدم بہ قدم عمل پیرا ہونا بھی مذکور ہے۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی محبت اہل سنت کا خاص نشان ہے جیسا کہ حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا تھا۔
چنانچہ شرح فقہ اکبر ص 96 میں یہ یوں مذکور ہے۔
''سئل أبو حنیفة عن مذھب أھل السنة و الجماعة فقال إن تفضل الشیخین أي أبا بکر وعمر ونحب الختنیین أي عثمان و علیا و أن نری المسح علی الخفین ونصلي خلف کل بر و فاجر'' حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے مذہب اہل سنت والجماعت کی تعریف پوچھی گئی تو آپ نے بتلایا کہ ہم شیخین یعنی حضرت ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما کو جملہ صحابہ پر فضیلت دیں اور دونوں دامادوں یعنی حضرت علی اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہما سے محبت رکھیں موزوں پر مسح کو جائز سمجھیں اور ہر نیک وبد امام کے پیچھے اقتداء کریں یہی اہل سنت والجماعت کا مذہب ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6433
حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 159
´ وضو میں ہر عضو کو تین تین بار دھونا (سنت ہے) `
«. . . أَنَّ حُمْرَانَ مَوْلَى عُثْمَانَ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ رَأَى عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ دَعَا بِإِنَاءٍ، فَأَفْرَغَ عَلَى كَفَّيْهِ ثَلَاثَ مِرَارٍ فَغَسَلَهُمَا، ثُمَّ أَدْخَلَ يَمِينَهُ فِي الْإِنَاءِ فَمَضْمَضَ وَاسْتَنْشَقَ، ثُمَّ غَسَلَ وَجْهَهُ ثَلَاثًا وَيَدَيْهِ إِلَى الْمِرْفَقَيْنِ ثَلَاثَ مِرَارٍ، ثُمَّ مَسَحَ بِرَأْسِهِ، ثُمَّ غَسَلَ رِجْلَيْهِ ثَلَاثَ مِرَارٍ إِلَى الْكَعْبَيْنِ، ثُمَّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ تَوَضَّأَ نَحْوَ وُضُوئِي هَذَا، ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ لَا يُحَدِّثُ فِيهِمَا نَفْسَهُ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ " . . . .»
”. . . حمران عثمان کے مولیٰ نے خبر دی کہ انہوں نے عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو دیکھا، انہوں نے (حمران سے) پانی کا برتن مانگا۔ (اور لے کر پہلے) اپنی ہتھیلیوں پر تین مرتبہ پانی ڈالا پھر انہیں دھویا۔ اس کے بعد اپنا داہنا ہاتھ برتن میں ڈالا۔ اور (پانی لے کر) کلی کی اور ناک صاف کی، پھر تین بار اپنا چہرہ دھویا اور کہنیوں تک تین بار دونوں ہاتھ دھوئے پھر اپنے سر کا مسح کیا پھر (پانی لے کر) ٹخنوں تک تین مرتبہ اپنے دونوں پاؤں دھوئے۔ پھر کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو شخص میری طرح ایسا وضو کرے، پھر دو رکعت پڑھے، جس میں اپنے نفس سے کوئی بات نہ کرے۔ تو اس کے گذشتہ گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں۔ . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/بَابُ الْوُضُوءِ ثَلاَثًا ثَلاَثًا: 159]
تخريج الحديث:
[135۔ البخاري فى: 4 كتاب الوضوي: 24 باب الوضوء ثلاثًا ثلاثًا 159،مسلم 226،أبوداؤد 106]
لغوی توضیح:
«فَمَضْمَضَ» کلی کی۔
«اسْتَنْشَقَ» ناک میں پانی ڈالا۔
«الْمِرْفَقَيْن» کی واحد «الْمِرْفَق» ہے، معنی ہے کہنی۔
«لَا يُحَدِّثُ فِيْهِمَا نَفْسَهُ» وہ اپنے نفس سے کوئی بات نہ کرے، یعنی دنیوی امور میں سے کوئی چیز یا ایسی بات جس کا نماز سے کوئی تعلق نہیں۔
فهم الحديث:
اس اور آئندہ حدیث میں وضو کا مسنون طریقہ ذکر ہوا ہے۔ یہاں یہ یاد رہے کہ وضو سے پہلے نیت بھی ضروری ہے کیونکہ تمام اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہی ہے۔ [بخاري: كتاب بدء الوحي 1 مسلم 1907 ابوداود 2201 ترمذي 1647 حميدي 28] اور نیت کا تعلق صرف دل کے ساتھ ہے جیسا کہ امام نووی رحمہ الله نے بھی یہ وضاحت فرمائی ہے۔ [شرح المهذب 352/1]
زبان کے ساتھ نیت کو امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ، امام ابن قیم رحمہ اللہ، سعودی مستقل فتویٰ کمیٹی اور دیگر علماء بدعت شمار کرتے ہیں۔ [مجموع الفتاوي لا بن تيميه 262/18 غاثة اللهفان 158/1 فتاوي اللجنة الدائمة 203/5]
وضو کی ابتدا میں بسم اللہ پڑھنا بھی ضروری ہے جیسا کہ ایک روایت میں ہے کہ جس نے ابتدائے وضو میں بسم اللہ نہ پڑھی اس کا وضوء نہیں۔ [صحيح: صحيح أبوداود: كتاب الطهارة 92، أبوداود 101، ابن ماجه 399]
اعضائے وضو تین تین مرتبہ دھونا مستحب ہے واجب نہیں، کیونکہ ایک ایک مرتبہ اعضاء دھونا بھی ثابت ہے۔ [بخاري: كتاب الوضوء: باب الوضوء مرة مرة 157 ترمذي 42 أبوداود 138] اس لیے اگر کوئی ایک ایک بار بھی اعضاء دھوئے گا تو اس کا وضوء ہو جائے گا۔ البتہ سر کا مسح ہمیشہ ایک مرتبہ کرنا ہی مسنون ہے۔ اور سر کے مسح کے حکم میں کانوں کا مسح بھی شامل ہے۔ [صحيح: السلسلة الصحيحة 36]
نیز گردن کا مسح کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں جیسا کہ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ، امام ابن قیم رحمہ اللہ اور سعودی مستقل فتویٰ کمیٹی نے یہی فتویٰ دیا ہے۔ [مجموع الفتاويٰ 127/21 زاد المعاد 195/1 فتاويٰ اللجنة الدائمة 236/5]
اور امام نووی رحمہ اللہ نے تو اسے بدعت کہا ہے۔ [المجموع للنووي 489/1]
جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 135
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 84
´کلی کرنے اور ناک میں پانی ڈالنے کا بیان۔`
حمران بن ابان کہتے ہیں کہ میں نے عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو دیکھا آپ نے وضو کیا تو اپنے دونوں ہاتھوں پر تین دفعہ پانی انڈیلا، انہیں دھویا، پھر کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا، پھر تین مرتبہ اپنا چہرہ دھویا، پھر کہنی تک اپنا دایاں ہاتھ دھویا، پھر اسی طرح بایاں ہاتھ دھویا، پھر اپنے سر کا مسح کیا، پھر اپنا دایاں پیر تین بار دھویا، پھر اسی طرح بایاں پیر دھویا، پھر کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے میرے اس وضو کی طرح وضو کیا، اور فرمایا: ”جو میرے اس وضو کی طرح وضو کرے اور دو رکعت نماز پڑھے، اور دل میں کوئی اور خیال نہ لائے تو اس کے گزشتہ گناہ بخش دیئے جائیں گے“ ۱؎۔ [سنن نسائي/صفة الوضوء/حدیث: 84]
84۔ اردو حاشیہ:
➊ مضمضہ اور استنشاق کا ذکر اگرچہ قرآن مجید میں صراحتاً نہیں ہے، مگر احادیث میں ان کا بکثرت ذکر آیا ہے۔ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: «إذا توضا أحدکم فلیجعل في أنفه ماء ثم لینشر» ”جب تم میں سے کوئی ایک وضو کرے تو اسے چاہیے کہ اپنی ناک میں پانی ڈالے، پھر اسے جھاڑے۔“ [سنن أبي داود، الطھارة، حدیث 140]
مزید آپ نے فرمایا: «بالغ في الاستنشاق الا ان تکون صائما» ”ناک میں پانی چڑھانے میں مبالغہ کر الا یہ کہ تو روزے سے ہو۔“ ان احادیث میں ناک میں پانی چڑھانے کا حکم ہے اور حکم وجوب کا تقاضا کرتا ہے، نیز کلی کے متعلق فرمایا: «اذا توضات فمضمض» ”جب تو وضو کرے تو کلی کر۔“ اس حدیث سے یہ بھی پتا چلا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو میں کلی کرنے کا حکم دیا ہے جس سے کلی کا وجوب ثابت ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں ﴿فاغسلوا وجوھکم﴾ چہرا دھونے کا حکم ہے جبکہ چہرے میں ناک اور منہ بھی شامل ہے، لہٰذا ان کا حکم بھی وجوب کا ہو گا۔ الگ ناموں کی وجہ سے اصل مسمی سے خارج نہ ہوں گے، جیسے رخسار اور آنکھیں چہرے سے خارج نہیں ہوتے۔ مضمضمہ اور استنشاق کے وجوب کی مؤید یہ دلیل بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری زندگی ان کا التزام کیا ہے۔ آپ سے یا صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم سے کہیں یہ نہیں ملتاکہ کبھی آپ نے انہیں چھوڑا ہو، نیز آپ کا وضو فرمانا حکم وضو والی آیت کی عملی تفسیر تھا، اس لیے ان کا حکم بھی وجوب ہی کا ہو گا۔ جن علماء نے ”عشر من السنن“ کی بنا پر مضمضہ اور اشتنشاق کو سنت قرار دیا ہے کیونکہ اس حدیث میں مضمضہ اور استنشاق کا بھی ذکر ہے، اسی حدیث میں باقی امور فطرت کے بارے میں ان کا کیا خیال ہے؟ کیونکہ ان امور فطرت کو بجا لانا ضروری ہے، جیسے زیر ناف کے بالوں کا مونڈنا اور بغلوں کی صفائی وغیرہ تو کیا انہیں چھوڑا بھی جا سکتا ہے؟ تو اگر سنت سے ان کی مراد اصطلاحی سنت جو فقہاء کے ہاں واجب کے مقابلے میں ہوتی ہے تو یہ بات صراحتاً مذکورہ دلائل کی روشنی میں مرجوح ہے۔ بہرحال وضو اور غسل میں دونوں کا بجا لانا ضروری ہے اگر انہیں وضو میں ترک کر دیا جائے تو وضو باطل ہو گا اور دوبارہ وضو کرنا چاہیے۔ یہ موقف جلیل ائمہ کی ایک جماعت کا ہے، جیسے امام احمد، اسحاق اور عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ وغیرہ۔ دیکھیے [جامع الترمذي، الطھارة، حدیث: 27]
➋ فطری طور پر بھی مضمضمہ اور استنشاق ضروری ہیں کیونکہ نماز کے تمام اور اد و اذکار کی ادائیگی منہ اور ناک کے ذریعے سے ہی ہوتی ہے۔ اگر یہ دو عضو صاف نہ کیے گئے تو نہ صرف یہ کہ ادائیگی میں خرابی واقع ہو گی بلکہ قریبی نمازیوں اور فرشتوں کو بدبو سے تکلیف بھی ہو گی۔
➌ ”اس کے گزشتہ سب گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔“ اس سے مراد قابل معافی گناہ ہیں، مثلاً: صغائر، جبکہ کبائر کی معافی کے لیے توبہ و استغفار ضروری ہے۔
➍ وضو کے بعد دو رکعتیں پڑھنا مستحب ہے۔ اور یہ جس وقت بھی وضو کیا جائے اس وقت پڑھی جا سکتی ہے۔
➎ اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ وضو کرتے ہوئے ترتیب کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 84
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 85
´کس ہاتھ سے کلی کرے؟`
حمران سے روایت ہے کہ انہوں نے عثمان رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ انہوں نے وضو کا پانی منگوایا، اور اسے برتن سے اپنے دونوں ہاتھ پر انڈیلا، پھر انہیں تین بار دھویا، پھر اپنا داہنا ہاتھ پانی میں ڈالا ۱؎ اور کلی کی، اور ناک صاف کی، پھر تین بار اپنا چہرہ دھویا اور کہنیوں تک تین بار ہاتھ دھوئے، پھر اپنے سر کا مسح کیا، پھر اپنے دونوں پیروں میں سے ہر پیر کو تین تین بار دھویا، پھر کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ نے میرے اس وضو کی طرح وضو کیا، اور فرمایا: ”جو میرے اس وضو کی طرح وضو کرے، پھر کھڑے ہو کر دو رکعت نماز پڑھے، دل میں کوئی اور خیال نہ لائے تو اس کے گزشتہ گناہ بخش دئیے جائیں گے۔“ [سنن نسائي/صفة الوضوء/حدیث: 85]
85۔ اردو حاشیہ: ”کہنیوں تک“ سے مراد کہنیوں سمیت دھونا ہے کیونکہ یہاں «إلی» ”تک“ «مع» ”سمیت“ کے معنی میں ہے۔ دیکھیے: [ذخیرۃ العقبیٰ شرح سنن النسائي: 276/2]
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 85
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 116
´دھونے کی حد یعنی ہاتھ اور پاؤں کہاں تک دھوئے؟`
حمران مولی عثمان سے روایت ہے کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے وضو کا پانی مانگا، اور وضو کیا، تو انہوں نے اپنے دونوں ہتھیلی تین بار دھو لی، پھر کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا، پھر اپنا چہرہ تین بار دھویا، پھر اپنا دایاں ہاتھ کہنی تک تین بار دھویا، پھر اسی طرح اپنا بایاں ہاتھ دھویا، پھر اپنے سر کا مسح کیا، پھر اپنا دایاں پاؤں ٹخنے تک تین بار دھویا، پھر اسی طرح بایاں پاؤں دھویا، پھر کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے میرے اسی وضو کی طرح وضو کیا، پھر کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو میرے اس وضو کی طرح وضو کرے، پھر کھڑے ہو کر دو رکعت نماز پڑھے، اور اپنے دل میں دوسرے خیالات نہ لائے تو اس کے گزشتہ گناہ معاف کر دیئے جائیں گے“ ۱؎۔ [سنن نسائي/صفة الوضوء/حدیث: 116]
116۔ اردو حاشیہ:
➊ یہ حدیث پیچھے گزر چکی ہے، دیکھیے: [حدیث: 84]
امام صاحب اس حدیث کو دوبارہ لا کر یہ بتلانا چاہتے ہیں کہ پاؤں کو ٹخنوں سمیت دھویا جائے گا، یہ نہیں کہ وضو کرتے وقت کہنیوں اور ٹخنوں کو ترک کر دیا جائے گا۔
➋ یہ بھی معلوم ہوا کہ جب پاؤں ننگے ہوں، یعنی موزے یا جرابیں نہ پہنی ہوں تو بجائے مسح کرنے کے، انہیں دھونا چاہیے۔ واللہ أعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 116
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 146
´مسنون وضو کرنے والے کا ثواب۔`
عثمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ”جو شخص بھی اچھی طرح وضو کرے، پھر نماز پڑھے، تو اس کے اس نماز سے لے کر دوسری نماز پڑھنے تک کے دوران ہونے والے گناہ بخش دئیے جائیں گے۔“ [سنن نسائي/صفة الوضوء/حدیث: 146]
146۔ اردو حاشیہ:
➊ ان احادیث کے ظاہر سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ ان اعمال سے سابقہ تمام گناہ معاف ہو جاتے ہیں، خواہ صغیرہ ہوں یا کبیرہ اور یقیناًً یہ اللہ تعالیٰ کی وسیع رحمت اور عظیم قدرت کا لازمہ ہے، نیز «من عمل» ”جونسا بھی عمل ہو۔“ سے اسی موقف کی تائید ہوتی ہے۔ لیکن جمہور علماء نے دیگر روایات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا ہے کہ یہاں گناہوں سے صغیرہ گناہ مراد ہیں، بشرطیکہ کبائر سے اجتناب کرے۔ کبائر کی معافی کے لیے توبہ ضروری ہے تفصیل کے لیے دیکھیے: [فتح الباری: 342/1، تحت حدیث: 159، و شرح مسلم للنوی: 141/3، تحت حدیث: 228]
➋ آئندہ نماز تک کے گناہوں کی معافی کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان پر مؤاخذہ نہیں فرمائے گا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 146
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث285
´وضو (طہارت) کا ثواب۔`
عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے غلام حمران کہتے ہیں کہ میں نے عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو مسجد کے قریب چبوترے پہ بیٹھا ہوا دیکھا، انہوں نے وضو کا پانی منگایا، اور وضو کیا، پھر کہنے لگے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے اسی بیٹھنے کی جگہ پر دیکھا کہ آپ نے اسی طرح وضو کیا جس طرح میں نے کیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے میرے اس وضو کی طرح وضو کیا اس کے پچھلے تمام گناہ بخش دئیے جائیں گے“، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اس بشارت سے دھوکے میں نہ آ جانا (کہ نیک اعمال چھوڑ دو)۔“ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 285]
اردو حاشہ: (1) (مقاعد)
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر کے پاس یا مسجد کے پاس ایک جگہ تھی جہاں لوگ فارغ اوقات میں مل بیٹھتے تھے۔
(2)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نبی اکرم ﷺ کے اقوال وافعال کو یاد رکھتے تھے ان کے مطابق عمل کرتے اور دوسروں کو اسی طرح کرکے دکھاتے تھے تاکہ اچھی طرح سمجھ میں آجائیں۔
(3)
تعلیم کا ایک موثر طریقہ یہ بھی ہے کہ استاد خود کام کرکے دکھائے تاکہ شاگرد اسے دیکھ کر اس کے مطابق کرنے کی کوشش کریں۔
خصوصا وضو نماز حج عمرہ وغیرہ جیسے عملی مسائل میں یہ طریقہ بہت مفید ہے۔
(4)
مغرور نہ ہونا یا دھوکا نہ کھانا اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص یہ سوچ کرغرور نہ کرے کہ میرے سب گناہ معاف ہوچکے ہیں اور میں بالکل پاک باز اور پاک دامن ہوں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 285
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 538
حضرت عثمان ؓ کے آزاد کردہ غلام حمران ؓ سے روایت ہے، کہ عثمانؓ نے مجھے وضو کے لیے پانی لانے کا کہا اور وضو کیا، تو دونوں ہتھیلیاں (ہاتھ) تین مرتبہ دھوئیں، پھر کلی کی اور (ناک میں پانی ڈال کر) ناک جھاڑی، پھر تین دفعہ چہرہ دھویا، پھر دایاں ہاتھ کہنیوں تک تین دفعہ دھویا، اس طرح بایاں دھویا، پھر اپنے سر کا مسح فرمایا، پھر اپنا دایاں پاؤں ٹخنوں سمیت تین مرتبہ دھویا، پھر اس طرح بایاں پاؤں دھویا، پھر کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا، آپ ﷺ نے میرے اس وضو... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:538]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
:
اسْتَنْثَرَ:
ناک میں پانی ڈال کر اس کو جھاڑنا۔
اہل لغت،
فقہاء اور محدثین سب کی اکثریت نے یہی معنی کیا ہے،
اگرچہ ابن اعرابی اور ابن قتیبہ نے اس کا معنی:
ناک میں پانی ڈالنا کیا ہے،
جو درست نہیں،
کیونکہ بعض روایات میں "اِسْتِنْثَار" سے پہلے "اِسْتِنْشَاق" (ناک میں پانی چڑھانا)
کا ذکر موجود ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 538
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 539
حضرت عثمان ؓ کے مولیٰ حمران سے روایت ہے، کہ اس نے عثمان ؓ کو دیکھا، انھوں نے پانی کا برتن منگوایا، اپنی ہتھیلیوں پر تین دفعہ پانی ڈال کر دھویا، پھر اپنا دایاں ہاتھ برتن میں ڈال کر کلی کی اور ناک میں پانی ڈال کر جھاڑا، پھر اپنا چہرہ تین دفعہ دھویا اور اپنے دونوں ہاتھ کہنیوں سمیت تین مرتبہ دھوئے، پھر سر کا مسح کیا، پھر اپنے دونوں پاؤں تین دفعہ دھوئے پھر کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جس نے میرے اس وضو کی طرح وضو کیا، پھر دو رکعتیں پڑھیں، ان میں اپنے آپ سے... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:539]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوا آپ نے کلی اور ناک میں پانی اکٹھا ڈالا،
کلی الگ اور استنثار کےلیے پانی الگ نہیں لیا،
دوسری احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کام بھی تین دفعہ کیاجائے،
اگرچہ ایک دفعہ بھی جائز۔
(2)
آپ نے ہاتھ کہنیوں سمیت اور پاؤں ٹخنوں سمیت دھوئے ہیں،
پاؤں پر مسح نہیں کیا،
اور سر کا مسح بھی ایک دفعہ کیا،
مرات (بار بار)
کا تذکرہ موجود نہیں ہے۔
(3)
دوسری احادیث کی روشنی میں یہ بات ثابت ہوتی ہے،
کہ وضو سے صغیرہ (چھوٹے)
گناہ معاف ہوتے ہیں۔
(4)
"نَفْسَهُ" کا لفظ "لَا يُحَدِّثُ" کا مفعول ہے،
اس لیے منصوب ہے،
فاعل بن کر مرفوع نہیں ہے،
اس لیے حدیث کا یہ مقصد ہے،
کہ وہ خود قصداً خیالات نہیں لاتا اور کسی معاملہ پر غور وفکر یا سوچ وبچار نہیں کرتا،
اگر اسکے مقصد وارادہ کے بغیر خیالات آجائیں اور وہ ان کے درپے نہ ہو،
تو وہ حدیث نفس نہیں ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 539
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 544
حضرت عثمان ؓ کےمولیٰ حمران سے روایت سنائی: کہ میں عثمان بن عفان ؓ کے پاس پانی لایا، تو انھوں نے وضو کیا، پھر کہا: کچھ لوگ رسول اللہ ﷺ سے حدیثیں بیان کرتے ہیں، جن کی حقیقت کو میں نہیں جانتا، مگر میں نے رسول اللہ کو دیکھا، آپ ﷺ نے میرے وضوء کی طرح وضوء کیا، پھر فرمایا: ”جس نے اس طرح وضو کیا، اس کے گزشتہ گناہ معاف ہو جائیں گے، اور اس کی نماز اور مسجد کی طرف جانا نفل (زائد ثواب کا باعث) ہو گا۔“ ابنِ عبدہ کی روایت میں ہے: میں عثمان... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:544]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
:
"طهور" اور "وضوء" کے پہلے حرف پر اگر پیش ہو،
تو ان کا معنی:
”پاکیزگی حاصل کرنا اور وضو کرنا ہو گا“ اور اگر اس پر زبر ہو تو معنی ”پانی“ ہو گا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 544
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 548
حمران (مولیٰ عثمان) سے روایت ہے، کہ ایک دن حضرت عثمان بن عفانؓ نے بہت اچھی طرح وضو کیا، پھر کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا، آپ نے بہت اچھی طرح وضو کیا پھر فرمایا: ”جس نے اس طرح وضو کیا، پھر مسجد کو محض نماز کے ارادے سے گیا، تو اس کے گزشتہ گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔“ [صحيح مسلم، حديث نمبر:548]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
:
(1)
لَا يَنْهَزُهُ:
اس کو اٹھاتی نہیں،
اس کو حرکت نہیں دیتی۔
(2)
مَا خَلَا:
گزرے ہوئے،
گزشتہ۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 548
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:159
159. حضرت عثمان بن عفان ؓ کے مولیٰ حمران سے روایت ہے، انہوں نے کہا: حضرت عثمان ؓ نے ایک دفعہ پانی کا برتن منگوایا اور اپنے ہاتھوں پر تین مرتبہ پانی ڈال کر انہیں دھویا، پھر دائیں ہاتھ کو برتن میں ڈال کر پانی لیا، کلی کی، ناک میں پانی ڈالا اور اسے صاف کیا۔ پھر اپنے منہ اور دونوں ہاتھوں کو کہنیوں سمیت تین دفعہ دھویا۔ بعد ازاں سر کا مسح کیا، پھر اپنے پاؤں ٹخنوں سمیت تین بار دھوئے۔ پھر کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو بھی میرے اس وضو کی طرح وضو کرے اور اس کے بعد دو رکعت ادا کرے اور ان کی ادائیگی کے دوران میں کوئی خیال دل میں نہ لائے تو اس کے سابقہ تمام گناہ بخش دیے جائیں گے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:159]
حدیث حاشیہ:
1۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود یہ ہے کہ اعضائے وضو کو تین تین بار دھونا بھی مستحب و مسنون ہے لیکن اس روایت میں ہاتھ اور چہرے کو تین تین دفعہ دھونے کا ذکر ہے لیکن کلی کے لیے منہ میں اور ناک میں پانی ڈالنے کے متعلق مرات کا ذکر نہیں لیکن چونکہ یہ دونوں چہرے میں شامل ہیں اور چہرے ہی کے باطن کے ساتھ ان کا تعلق ہے اس لیے ظاہر ہے کہ ان کا عمل بھی تین تین بار ہوگا۔
سر کے مسح کے ساتھ بھی مرات کا ذکر نہیں ہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ آئندہ ایک مستقل عنوان قائم کر کے ثابت کریں گے کہ سر کا مسح ایک بار ہے۔
اگرچہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت عطاء رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ابراہیم التیمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سر کا مسح تین دفعہ کرنا منقول ہے لیکن صحیح موقف یہی ہے کہ سر کا مسح ایک مرتبہ ہی ہے۔
2۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ابن شہاب زہری سے دو روایات نقل کی ہیں۔
دراصل امام زہری رحمۃ اللہ علیہ کے دو استاذ ہیں:
ایک حضرت عطاء بن ابی یزید جس میں ہے کہ وضو کے بعد اخلاص کے ساتھ دو رکعت ادا کرنے سے سابقہ گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔
دوسرے استاذ حضرت عرو ہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں جس میں وضو کے بعد مطلق طور پر نماز پڑھنے کا ذکر ہے اور اس میں ان گناہوں کی تحدید کی گئی ہے جو اس عمل مبارک سے معاف ہو جائیں گے یعنی جو اس نماز سے دوسری نماز تک ہوں گے نیز اس آخری روایت میں اتنا اضافہ ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قرآن کریم کی ایک آیت کو مدنظر رکھتے ہوئے۔
یہ حدیث بیان فرمائی۔
حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس آیت کا ذکر نہیں فرمایا البتہ حضرت عروہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آیت کریمہ کی نشاندہی فرمائی ہے۔
اس بنا پر حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس ارشاد کے دو مفہوم ہو سکتے ہیں۔
(1)
۔
اس حدیث میں معمولی سے عمل پر غیر معمولی اجر و ثواب کا وعدہ ہے ممکن ہے کہ کوئی سننے والا اسے مبالغہ یا کسی راوی کے سہوونسیان پر محمول کرے پھر میرے اس بیان کی تکذیب کر ڈالے جو دراصل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب ہو گی اس اندیشہ تکذیب کے پیش نظر میں اسے بیان نہیں کرنا چاہتا لیکن قرآن کریم کی اس آیت کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کرتا ہوں جس میں کتمان علم پر وعید ہے۔
(2)
۔
اس عمل پر جو غیر معمولی اجرو ثواب کا وعدہ ہے اس پر انسان فریب اور دھوکے میں مبتلا ہو سکتا ہے کہ اب گناہ معاف ہو گئے ہیں مزید کام کرنے کی ضرورت نہیں۔
لوگوں کی اس فریب خوردگی کی بنا پر دل نہیں چاہتا کہ اسے بیان کروں لیکن مجھے کتمان علم کی وعید کا خوف ہے۔
اس لیے بیان کرتا ہوں۔
اس اندیشے کا خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذکر فرمایا ہے چنانچہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ الفاظ بھی نقل فرمائے ہیں”اس قدر اجرو ثواب ملنے پر دھوکے میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے۔
“ (صحیح البخاري، الرقاق، حدیث: 6433)
اس کا مطلب یہ ہے کہ سہل پسند لوگوں کو اس بات پر مطمئن نہیں ہونا چاہیے کہ پروانہ مغفرت ملنے کے بعد دیگر اعمال کی کیا ضرورت ہے؟ بلکہ انہیں سوچنا چاہیے کہ جب اس معمولی کام پر اس قدر ثواب کی بشارت ہے تو بڑے بڑے کاموں کے بجا لانے پر اللہ کی عنایات کا کیا عالم ہو گا۔
اس لیے زیادہ سے زیادہ عمل خیر کی کوشش ہونی چاہیے، فریب نفس میں مبتلا ہو کر اعمال خیر کو ترک نہیں کرنا چاہیے۔
3۔
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کے بعد جس آیت کا حوالہ دیا ہے وہ یہ ہے:
﴿إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ ۚ﴾ ”بے شک نیکیاں برائیوں کو ختم کر دیتی ہیں۔
“ (ھود11: 114)
اس آیت کے پیش نظر حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ارشاد کا یہ مطلب ہوگا کہ مجھے تکذیب کے ڈر سے یہ بات ذکر نہیں کرنی چاہیے تھی لیکن قرآن کریم سے اس بیان کی تائید ہو رہی ہے کہ نیکیا ں کرنے سے برائیاں خود بخود ختم ہو جاتی ہیں۔
قرآن کریم کی اس تائید کے بعد مجھے خطرہ نہیں کہ یہ حدیث عوام الناس کے لیے کسی تردد کا باعث ہوگی۔
(مؤطا امام مالك، الطهارة، حدیث: 160)
4۔
پہلی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ وضو کے بعددو رکعت تحیۃ الوضو ہیں لیکن ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد تحیۃ المسجد ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جو شخص وضو کرنے کے بعد مسجد میں آئے اور دو رکعت ادا کرے تو اس کے سابقہ گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔
(صحیح البخاري، الرقاق، حدیث: 6433)
لیکن اس بشارت کے لیے شرط یہ ہے کہ انھیں حضور قلب سے ادا کیا جائے دوران نماز میں خیالات منتشر نہ ہوں از خود خیالات کو دعوت نہ دی جائے۔
اگر غیر اختیاری طور پر خیالات آ رہے ہیں تو وہ چنداں نقصان دہ نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے از خود آنے والے خیالات و وساوس سے درگزر فرمایا ہے۔
5۔
فضائل اعمال کے سلسلے میں جہاں جہاں مغفرت کا ذکر ہے۔
اس سے مراد صغیرہ گناہوں کی معافی ہے، اس لیے کہ کبیرہ گناہ تو بہ کے بغیر معاف نہیں ہوتے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے شرک، قتل ناحق اور زنا جیسے کبیرہ گناہوں کی سزابیان کرنے کے بعد ﴿إِلَّا مَن تَابَ﴾ ”مگر جو شخص ان میں سے توبہ کرے“ سے استثنا ذکر کیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ کبیرہ گناہوں کی تلافی کے لیے توبہ ضروری ہے صغیرہ گناہوں کی تلافی کبیرہ گناہوں سے اجتناب کو قراردیا گیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿إِن تَجْتَنِبُوا كَبَائِرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ﴾ ”اگر تم ممنوعات کی بڑی بڑی باتوں سے اجتناب کرو گے تو ہم تمھارے صغیرہ گناہوں کو تم سے خود ہی معاف کردیں گے۔
“ (النساء4: 31)
پھر اچھے کام کرنا از خود برائیوں کو مٹا دیتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ ۚ﴾ ”بے شک نیکیاں برائیوں کو ختم کر دیتی ہیں۔
“ (ھود11: 114)
گناہوں کی بخشش کا قرآنی ضابطہ یہی ہے احادیث میں بھی اس کی وضاحت ہے کیونکہ ایک نماز سے دوسری نماز تک کے گناہ ختم ہو جاتے ہیں بشرطیکہ کبیرہ گناہوں کا مرتکب نہ ہو۔
(صحیح مسلم، الطهارة، حدیث: 543(228)
جمعہ ادا کرنے سے دوسرے جمعے تک کفارہ بن جاتا ہے بشرطیکہ کبائر کا ارتکاب نہ کرے۔
(صحیح مسلم، الطهارة، حدیث: 550(233)
اسی طرح ایک رمضان کے روزے رکھنے سے دوسرے رمضان تک کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں جبکہ کبائر سے اجتناب کیا جائے۔
(صحیح مسلم، الطهارة، حدیث: 552(233)
اس وضاحت سے معلوم ہوا کہ مذکورہ احادیث میں جو بشارت دی گئی ہے وہ صغیرہ گناہوں سے متعلق ہے کبیرہ گناہ اور حقوق العباد اس میں شامل نہیں اگرچہ بعض اہل علم نے اس کو عام رکھا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ جب کوئی حدیث کے مطابق وضو کرے گا اور نماز پڑھے گا تو اسے خود بخود ندامت ہوگی۔
جو توبہ کے لیے اساس ہے۔
نیز مومن کی شان سے یہ بعید ہے کہ وہ کبائر کا ارتکاب کرےاور اگر کبھی بشری تقاضے کے مطابق ان کا صدور ہو جائے تو اسے توبہ کیے بغیر چین نہیں آتا۔
(وَللنّاسِ فِيمَا يَعْشَقُونَ مَذَاهِبُ)
احادیث میں اکیلے وضو کے متعلق یہ فضیلت ہے کہ آدمی کے ہاتھوں منہ اور پاؤں سے سر زد ہونے والے گناہ ان کے دھونے سے معاف ہو جاتے ہیں پھر اس کا مسجد کی طرف آنا اور نماز ادا کرنا ایک اضافی عمل ہوتا ہے جو رفع درجات کا باعث بن جاتا ہے۔
(صحیح مسلم، الطهارة، حدیث:
577(244)
نماز کے متعلق بھی احادیث میں آیا ہے کہ جو شخص وضو کرتا ہے اور نماز پنجگانہ ادا کرتا ہے، اس سے اس کے گناہوں کی میل کچیل اس طرح صاف ہو جائے گی جس طرح گھر کے آگے بہنے والی نہر میں پانچ دفعہ نہانے سے صفائی ہو جاتی ہے۔
(صحیح البخاري، مواقیت الصلاة، حدیث: 528)
لیکن بعض لوگوں کا ”تدبر“ قرآن و حدیث میں ٹکراؤ پیدا کر کے احادیث کے انکار کی راہ ہموار کرتا ہے۔
چنانچہ”امام تدبر“نے لکھا ہے”بخشش کا یہ سستا نسخہ قرآن کے خلاف پڑتا ہے۔
“ (تدبر حدیث: 262/1)
6۔
حدیث میں نماز اور وضو دونوں کا ذکر ہے اور یہ ایک اتفاقی امر ہے بصورت دیگر اگر کوئی شخص پہلے سے وضو کیے ہوئے ہے اور اس نے نماز ادا کی تو اسے بھی مغفرت حاصل ہوگی۔
اگر اس سے پہلے کوئی ایسا کام کیا جس سے گناہ معاف ہو چکے ہیں تو حدیث میں بیان شدہ عمل خیر ترقی درجات کا باعث ہوگا۔
اگر کسی کے کبیرہ گناہ ہیں تو امید ہے کہ اس بابرکت عمل سے ان کی سنگینی کو ضرور ہلکا کر دیا جائے گا۔
(عمدۃ القاري: 450/2)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 159
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:164
164. حضرت عثمان ؓ کے آزاد کردہ غلام حضرت حمران سے روایت ہے، انہوں نے حضرت عثمان ؓ کو دیکھا کہ انہوں نے وضو کے لیے پانی منگوایا، پھر اسے اپنے دونوں ہاتھوں پر ڈالا اور انہیں تین مرتبہ دھویا، اس کے بعد اپنا دایاں ہاتھ برتن میں ڈالا، کلی کی اور ناک میں پانی چڑھایا، پھر اسے صاف کیا۔ بعد ازیں اپنا چہرہ تین مرتبہ دھویا، اپنے دونوں ہاتھ کہنیوں تک تین بار دھوئے، پھر سر کا مسح کیا، پھر ہر پاؤں کو تین دفعہ دھویا۔ اس کے بعد انہوں نے فرمایا: میں نے نبی ﷺ کو اپنے اس وضو کی طرح وضو کرتے دیکھا ہے، نیز آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا: ”جس شخص نے میرے اس وضو کی طرح وضو کیا اور دو رکعت بایں طور پڑھیں کہ اپنے دل سے باتیں نہ کیں تو اللہ تعالیٰ اس کے سابقہ گناہ معاف کر دے گا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:164]
حدیث حاشیہ:
وضو میں کلی کرنا ضروری ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کلی سمیت وضو فرمایا ہے اور کسی صحابی سے اس کا ترک ثابت نہیں۔
اس سلسلے میں آپ کا حکم بھی مروی ہے جو واجب الاتباع ہے۔
چنانچہ لقیط بن صبرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو آپ نے فرمایا:
”جب تو وضو کرنے لگے تو کلی کر۔
“ (سنن أبي داود، الطھارة، حدیث: 144)
بہرحال وضو میں استنشاق کی طرح کلی بھی مطلوب ہے البتہ استنشاق میں زیادہ تاکید ہے۔
غالباً یہی وجہ ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے استنشاق اور استنثارکو مضمضے (کلی)
پر مقدم کیا ہےحالانکہ عمل کے لحاظ سے کلی پہلے ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 164
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6433
6433. حمران بن ابان سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس وضو کا پانی لے کر حاضر ہوا جبکہ وہ چبوترے پر بیٹھے ہوئے تھے۔ انھوں نے اچھی طرح وضو کرنےکے بعد فرمایا: میں نے نبی کریم ﷺ کو اسی جگہ وضو کرتے دیکھا ہے، آپ نے اچھی طرح وضو کیا، پھر فرمایا: ”جس نے اس طرح وضوکیا، پھر مسجد میں آیا اور دو رکعتیں ادا کیں، پھر وہیں بیٹھا رہا تو اس کے سابقہ گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔“ انھوں نے کہا: نبی کریم ﷺ نے (یہ بھی) فرمایا: ”اس پر مغرور نہ ہوجاؤ۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6433]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث میں شیطان کی طرف سے دھوکا دینے کی ایک صورت بیان کی گئی ہے کہ اب تمہارے پہلے گناہ تو معاف کر دیے گئے ہیں، لہذا مزید گناہ سرعام کرو۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
تم اس دھوکے میں مت پڑو کہ تمہارے سب گناہ معاف ہو گئے ہیں بلکہ اس سے صرف صغیرہ گناہ معاف ہوتے ہیں۔
باقی رہے کبیرہ گناہ تو وہ توبہ و استغفار سے معاف ہوں گے۔
اسی طرح جو حقوق العباد ہیں وہ بھی حق داروں کے معاف کرنے سے ہی معاف ہوں گے۔
(2)
واضح رہے کہ جو انسان ڈھٹائی اور اصرار سے صغیرہ گناہ کرتا ہے۔
ایسا گناہ بھی کبیرہ کا درجہ رکھتا ہے۔
یاد رہے کہ حضرت حمران سے تین قسم کی روایات مروی ہیں:
٭صرف وضو کرنے سے گناہ معاف ہو جائیں گے، پھر اس کی نماز اور نماز کے لیے مسجد کی طرف جانا ایک اضافی عمل ہے جس کا الگ سے ثواب ملنے کی توقع ہے۔
(صحیح مسلم، الطھارة، حدیث: 544 (229)
٭ جب اچھی طرح وضو کر کے دو رکعت پڑھے اور دلی خیالات میں مصروف نہ ہو تو اس کے سابقہ گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔
(صحیح البخاري، الوضوء، حدیث: 159)
اس میں فرض نماز کا ذکر نہیں ہے۔
٭ اچھی طرح وضو کر کے فرض نماز باجماعت یا مسجد میں ادا کرے تو اس نماز سے پہلے کیے گئے گناہ معاف ہو جاتے ہیں بشرطیکہ کبیرہ گناہ کا مرتکب نہ ہو۔
(صحیح مسلم، الطھارة، حدیث: 543 (228)
اس میں دلی خیالات کو ترک کرنے کی پابندی نہیں ہے۔
واللہ أعلم (3)
امام بخاری رحمہ اللہ کا اس حدیث سے مقصود یہ ہے کہ انسان کو دھوکے باز شیطان کی طرف سے ہوشیار رہنا چاہیے، ایسا نہ ہو کہ انسان سمجھے کہ سب گناہ معاف کر دیے گئے اب فکر ہی کیا ہے؟
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6433
الشيخ محمد فاروق رفیع حفظہ اللہ، فوائد و مسائل، صحیح ابن خزیمہ ح : 2
سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ انہوں نے وضو کے لیے پانی منگوایا اور بلاط (پتھریلی زمین) پر وضو کیا۔ پھر فرمایا، میں تم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہوئی ایک حدیث سناتا ہوں... [صحيح ابن خزيمه: 2]
➊ «فَأَحْسَنَ الْوُضُوءَ» سے مراد ہے کہ وہ وضو کی صفات اور آداب کا مکمل اہتمام کرے نیز اس حدیث میں وضو کے آداب اور شروط سیکھنے اور اس سیکھے ہوئے مسنون طریقے پر محتاط عمل کرنے کے اہتمام کا بیان ہے اور یہ حرص ہو کہ وضو اس طریقہ سے کیا جائے جو طریقہ صحیح اور معتبر ہو، اختلاف میں الجھنے سے گریز کرے، چنانچہ وضو کرنے والے کے لیے زیادہ مناسب ہے کہ وہ وضو کے ان مسائل، وضو کے آغاز میں «بسم الله» پڑھنا، وضو کی نیت کرنا، کلی کرنا، ناک میں پانی چڑھانا، ناک جھاڑنا، تمام سر کا مسح کرنا، کانوں کا مسح کرنا، اعضائے وضو کو ملنا، پے در پے وضو کرنا اور وضو میں ترتیب کا اہتمام کرنے کا حریص ہو اور بالا جماع وضو کے لیے پاک پانی کی تحصیل بھی لازم ہے۔ [نووي: 110/3]
➋ مذکورہ طریقہ وضو سے دو نمازوں کے درمیانی وقفہ کے صغیرہ گناہ معاف ہوتے ہیں، البتہ صغیرہ گناہ نہ ہوں تو کبیرہ گناہوں میں تخفیف ہو جاتی ہے اور اگر انسان صغائر و کبائر سے پاک ہو تو اس کے درجات بلند ہوتے اور نیکیوں میں اضافہ ہوتا ہے نیز اس حدیث میں مسنون طریقہ کے مطابق اچھے طریقے سے وضو کرنے کی ترغیب کا بیان ہے۔
صحیح ابن خزیمہ شرح از محمد فاروق رفیع، حدیث/صفحہ نمبر: 2