Note: Copy Text and to word file

مسند الحميدي
أَحَادِيثُ أَبِي ذَرٍّ الْغِفَارِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
حدیث نمبر 135
حدیث نمبر: 135
135 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، ثنا سُفْيَانُ، عَنْ يَحْيَي بْنِ سَعِيدٍ، عَنِ الْمُرَقَّعِ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ أَنَّهُ قَالَ: «إِنَّمَا كَانَ فَسْخُ الْحَجِّ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَنَا خَاصَّةً»
135- سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے حج کو فسخ (حج تمتع) کرنے کا حکم ہمارے لیے مخصوص تھا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏أسناده صحيح، أخرجه مسلم 1224، ومعجم شيوخ ابي يعلي: 29، والبيهقي فى سننه الكبير، برقم: 8825، والحميدي فى ”مسنده“، برقم: 132»
مسند الحمیدی کی حدیث نمبر 135 کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:135  
فائدہ:
اس حدیث پر فوائد، ح: 132 میں گزر چکے ہیں۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 135   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2985  
´جو لوگ کہتے ہیں کہ حج کا فسخ یعنی اس کو عمرہ میں تبدیل کر دینے کا حکم صحابہ کے لیے خاص تھا ان کی دلیل۔`
ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حج تمتع اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خاص تھا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 2985]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
یہ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کی رائے ہے جو درست نہیں کیونکہ حدیث: 2980 میں رسول اللہﷺ کا ارشاد بیان ہوچکا ہےکہ یہ حکم ہمیشہ کے لیے ہے۔
ممکن ہے حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نے یہ فرمان رسول اللہ ﷺ سے نہ سنا ہو، نہ کسی صحابی سے سنا ہو۔
یا اگر کسی صحابی سے سنا ہے تو ممکن ہے کہ کسی وجہ سے اس پر اطمینان نہ ہوا ہو۔
واللہ اعلم
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2985   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:132  
132- سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے حج کو فسخ (حج تمتع) کرنے کا حکم ہمارے لیے مخصوص تھا۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:132]
فائدہ:
اس حدیث میں جو حج کو عمرہ میں تبدیل کیا گیا تھا، اس کا ذکر ہے، اس کی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ چونکہ حج کے مہینوں میں عمرے کو مکروہ خیال کیا جا تا تھا، اس غلط نظریے کی تردید کی غرض سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح کیا تھا۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں (عون المعبود: 209/10)
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 132   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2967  
حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں، دو متعے ہمارے لیے ہی جائز تھے، یعنی، حج تمتع اور عورتوں سے متعہ۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:2967]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نزدیک حج کو فسخ کر کے عمرہ کرنا اور پھر حج کرنا،
یعنی متع فسخ الحج حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرح اس سال کے ساتھ خاص تھا اب جائز نہیں ہے،
اسی طرح عورتوں سے متع کی اجازت عہد نبوی میں تھی آخر کار اس کی اجازت منسوخ ہو گئی تھی،
آج کل جو انسان قربانی ساتھ لے کر نہ جائے اسے میقات سے صرف عمرہ احرام باندھنا چاہیے اور حج تمتع کی نیت کرنی چاہیے تاکہ اس اختلاف سے نکل سکے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2967