مسند الحميدي
أَحَادِيثُ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
سیدنا علی ابن ابو طالب رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
حدیث نمبر 40
حدیث نمبر: 40
40 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، ثنا سُفْيَانُ، ثنا مُطَرِّفُ بْنُ طَرِيفٍ سَمِعْتُ الشَّعْبِيَّ يَقُولُ: أَخْبَرَنِي أَبُو جُحَيْفَةَ قَالَ: قُلْتُ لِعَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ:" هَلْ عِنْدَكَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْءٌ سِوَي الْقُرْآنِ؟ فَقَالَ: لَا وَالَّذِي فَلَقَ الْحَبَّةَ وَبَرَأَ النَّسَمَةَ إِلَّا أَنْ يُعْطِيَ اللَّهُ عَبْدًا فَهْمًا فِي كِتَابِهِ، أَوْ مَا فِي الصَّحِيفَةِ قُلْتُ: وَمَا فِي الصَّحِيفَةِ؟ قَالَ: الْعَقْلُ، وَفِكَاكُ الْأَسِيرِ، وَأَنْ لَا يُقْتَلَ مُسْلِمٌ بِكَافِرٍ"
40- ابوحجیفہ بیان کرتے ہیں: میں نے سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا: آپ کے پاس قرآن کے علاوہ کوئی اور ایس چیز ہے، جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملی ہو، تو انہوں نے جواب دیا: جی نہیں۔ اس ذات کی قسم! جس نے دانے کو چیرا ہے اور جان کو پیدا کیا ہے (ہمارے پاس ایسا کچھ نہیں ہے) صرف وہ چیز ہے، جو اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندے کو اپنی کتاب کے بارے میں فہم عطا کردیتا ہے یا وہ کچھ ہے، جو اس صحیفے میں موجود ہے۔ میں نے دریافت کیا: اس صحیفے میں کیا ہے؟ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: دیت کے بارے میں، قیدی کو رہائی دلانے کے بارے میں (احکام ہیں اور یہ حکم ہے کہ) کوئی مسلمان کسی کافر کے بدلے میں قتل نہیں کیا جائے گا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه أحمد: 79/1، والبخاري فى العلم: 111، وأخرجه أبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“: 382/1 برقم 338»
مسند الحمیدی کی حدیث نمبر 40 کے فوائد و مسائل
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:40
فائدہ:
اس حدیث میں یہ ذکر ہوا ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں ان کے دور میں بھی بعض لوگوں نے غلط باتیں مشہور کر دی تھیں۔ ان میں سے ایک یہ بھی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں ”علم باطن“ عطا فرمایا تھا۔ اس غلط عقیدے کی تردید سید ناعلی رضی اللہ عنہ نے خود فرمائی اور وضاحت کر دی کہ میرے پاس قرآن مجید کا فہم ہے، اور کچھ احادیث میرے پاس ہیں۔ ان میں یہ چیزیں موجود ہیں: قصاص کے احکام، قیدی آزاد کرنے کے احکام، اور یہ کہ کسی مسلمان کو کافر کے بدلے میں قتل نہیں کیا جائے گا۔ اسی طرح بعض لوگوں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف ”علم جفر“ بھی منسوب کیا ہے، جس کے ذریعے لوگ اپنے خیال میں ماضی اور مستقبل کی غیب کی باتیں معلوم کرتے ہیں۔ یہ سب تو ہم پرستی اور بے بنیاد چیزیں ہیں جن کا قرآن و حدیث میں کہیں ذکر نہیں ہے۔ گمراہ فرقے اپنے باطل افکار و نظریات کو ثابت کرنے کے لیے کس طرح عجیب وغریب من گھڑت واقعات کا سہارا لیتے ہیں، اللہ تعالی ہمیں ان سے محفوظ رکھے، آمین۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 40