مسند احمد
مِنْ مُسْنَدِ الْقَبَائِلِ
0
1325. مِنْ حَدِيثِ أَسْمَاءَ ابْنَةِ يَزِيدَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا
0
حدیث نمبر: 27579
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ يَزِيدَ الْأَنْصَارِيَّةِ ، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْتِي، فَذَكَرَ الدَّجَّالَ، فَقَالَ: " إِنَّ بَيْنَ يَدَيْهِ ثَلَاثَ سِنِينَ، سَنَةٌ تُمْسِكُ السَّمَاءُ ثُلُثَ قَطْرِهَا، وَالْأَرْضُ ثُلُثَ نَبَاتِهَا، وَالثَّانِيَةُ تُمْسِكُ السَّمَاءُ ثُلُثَيْ قَطْرِهَا، وَالْأَرْضُ ثُلُثَيْ نَبَاتِهَا، وَالثَّالِثَةُ تُمْسِكُ السَّمَاءُ قَطْرَهَا كُلَّهُ، وَالْأَرْضُ نَبَاتَهَا كُلَّهُ، فَلَا يَبْقَى ذَاتُ ضِرْسٍ، وَلَا ذَاتُ ظِلْفٍ مِنَ الْبَهَائِمِ إِلَّا هَلَكَتْ، وَإِنَّ أَشَدَّ فِتْنَتِهِ: أَنْ يَأْتِيَ الْأَعْرَابِيَّ، فَيَقُولَ: أَرَأَيْتَ إِنْ أَحْيَيْتُ لَكَ إِبِلَكَ، أَلَسْتَ تَعْلَمُ أَنِّي رَبُّكَ؟"، قَالَ: فَيَقُولُ:" بَلَى، فَتَمَثَّلَ الشَّيَاطِينُ لَهُ نَحْوَ إِبِلِهِ، كَأَحْسَنِ مَا تَكُونُ ضُرُوعُهَا، وَأَعْظَمِهِ أَسْنِمَةً"، قَالَ:" وَيَأْتِي الرَّجُلَ قَدْ مَاتَ أَخُوهُ وَمَاتَ أَبُوهُ، فَيَقُولُ: أَرَأَيْتَ إِنْ أَحْيَيْتُ لَكَ أَبَاكَ، وَأَحْيَيْتُ لَكَ أَخَاكَ، أَلَسْتَ تَعْلَمُ أَنِّي رَبُّكَ؟، فَيَقُولُ: بَلَى، فَتَمَثَّلَ لَهُ الشَّيَاطِينُ نَحْوَ أَبِيهِ، وَنَحْوَ أَخِيهِ"، قَالَتْ: ثُمَّ خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِحَاجَةٍ، ثُمَّ رَجَعَ، قَالَتْ: وَالْقَوْمُ فِي اهْتِمَامٍ وَغَمٍّ مِمَّا حَدَّثَهُمْ بِهِ، قَالَتْ: فَأَخَذَ بِلُجْمَتَيِ الْبَابِ، وَقَالَ:" مَهْيَمْ أَسْمَاءُ؟"، قَالَتْ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَقَدْ خَلَعْتَ أَفْئِدَتَنَا بِذِكْرِ الدَّجَّالِ، قَالَ:" وَإِنْ يَخْرُجْ وَأَنَا حَيٌّ، فَأَنَا حَجِيجُهُ، وَإِلَّا فَإِنَّ رَبِّي خَلِيفَتِي عَلَى كُلِّ مُؤْمِنٍ"، قَالَتْ أَسْمَاءُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا وَاللَّهِ لَنَعْجِنُ عَجِينَتَنَا، فَمَا نَخْتَبِزُهَا حَتَّى نَجُوعَ، فَكَيْفَ بِالْمُؤْمِنِينَ يَوْمَئِذٍ؟، قَالَ:" يَجْزِيهِمْ مَا يَجْزِي أَهْلَ السَّمَاءِ مِنَ التَّسْبِيحِ وَالتَّقْدِيسِ" .
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ان کے گھر میں تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خروج دجال سے تین سال قبل آسمان ایک تہائی بارش اور زمین ایک تہائی نباتات روک لے گی، دوسرے سال آسمان دو تہائی بارش اور زمین دو تہائی پیداوار روک لے گی اور تیسرے سال آسمان اپنی مکمل بارش اور زمین اپنی مکمل پیداوار روک لے گی اور ہر موزے اور کھر والا ذی حیات ہلاک ہو جائے گا، اس موقع پر دجال ایک دیہاتی سے کہے گا، یہ بتاؤ کہ اگر میں تمہارے اونٹ زندہ کر دوں ان کے تھن بھرے اور بڑے ہوں اور ان کے کوہان عظیم ہوں تو کیا تم مجھے اپنا رب یقین کر لو گے؟ وہ کہے گا، ہاں! چنانچہ شیاطین اس کے سامنے اونٹوں کی شکل میں آئیں گے اور وہ دجال کی پیروی کرنے لگے گا۔ اسی طری دجال ایک اور آدمی سے کہے گا، یہ بتاؤ کہ اگر میں تمہارے باپ، تمہارے بیٹے اور تمہارے اہل خانہ میں سے ان تمام لوگوں کو جنہیں تم پہچانتے ہو زندہ کر دوں تو کیا تم یقین کر لو گے کہ میں ہی تمہارا رب ہوں، وہ کہے گا ہاں! چنانچہ اس کے سامنے شیاطین ان صورتوں میں آ جائیں گے اور وہ دجال کی پیروی کرنے لگے گا“، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے اور اہل خانہ رونے لگے، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم واپس آئے، ہم اس وقت رو رہے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”تم کیوں رو رہے ہو؟“ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ نے دجال کا جو ذکر کیا ہے، واللہ ! میرے گھر میں جو باندی ہے، وہ آٹا گوندھ رہی ہوتی ہے، ابھی وہ اسے گوندھ کر فارغ نہیں ہونے پاتی کہ میرا کلیجہ بھوک کے مارے پارہ پارہ ہوتا ہوا محسوس ہوتا ہے تو اس دن ہم کیا کریں گے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس دن مسلمانوں کے لئے کھانے پینے کے بجائے تکبیر اور تسبیح و تحمید ہی کافی ہو گی، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مت روؤ، اگر میری موجودگی میں دجال نکل آیا تو میں اس سے مقابلہ کروں گا اور اگر میرے بعد اس کا خروج ہوا تو ہر مسلمان پر اللہ میرا نائب ہے۔“
حكم دارالسلام: هذا إسناده ضعيف لضعف شهر ابن حوشب، وقوله: "ان يخرج الدجال وانا حيي، فانا حجيجه" صحيح لغيره