Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح مسلم
كِتَاب الطَّهَارَةِ
طہارت کے احکام و مسائل
2. باب وُجُوبِ الطَّهَارَةِ لِلصَّلاَةِ:
باب: نماز کے لئے طہارت کا ہونا ضروری ہے۔
حدیث نمبر: 537
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ بْنُ هَمَّامٍ ، حَدَّثَنَا مَعْمَرُ بْنُ رَاشِدٍ ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ أَخِي وَهْبِ بْنِ مُنَبِّهٍ، قَالَ: هَذَا مَا حَدَّثَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ ، عَنْ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ أَحَادِيثَ مِنْهَا، وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا تُقْبَلُ صَلَاةُ أَحَدِكُمْ إِذَا أَحْدَثَ، حَتَّى يَتَوَضَّأَ ".
وہب بن منبہ کے بھائی ہمام بن منبہ سے روایت ہے، کہا: یہ وہ احادیث ہیں جو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہمیں سنائیں، پھر انہوں نے کچھ احادیث کا تذکرہ کیا، ان میں سے یہ بھی تھی: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے جب کوئی بے وضو ہو جائے، تو اس کی نماز قبول نہیں ہوتی یہاں تک کہ وضو کرے۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کسی کی نماز قبول نہیں ہوتی جب وہ بے وضو ہو جائے، حتیٰ کہ وہ (نئے سرے سے) وضو کرے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في ((صحيحه)) فى الوضوء، باب: لا تقبل صلاة بغير طهور برقم (135) وابوداؤد في ((سننه)) في الطهارة، باب: فرض الوضوء برقم (60) والترمذي في ((جـامـعـه)) في الطهارة، باب: ما جاء في الوضوء من الريح، وقال: هذا حديث غريب حسن صحيح برقم (76) انظر ((التحفة)) برقم (14694)»

صحیح مسلم کی حدیث نمبر 537 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 537  
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
نماز اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضر ی اور اس سے مخاطبت ومناجاۃ کی اولیٰ اور انتہائی شکل ہے۔
اس کا حق تو یہ تھا،
ہر نماز کے لیے سارے جسم کا غسل اور بالکل پاک صاف اچھا لباس پہننے کا حکم دیا جاتا،
لیکن اس پر عمل بہت مشکل ہوتا،
اس لیے اللہ تعالیٰ نے ازراہ کرم صرف اتنا ضروری قرار دیا کہ ان اعضاء کو دھولیا جائے جو عام طور پر لباس سے باہر رہتے ہیں۔
نیز وضو نہ ہونے کی حالت میں طبیعت میں ایک قسم کا روحانی تکدر اور انقباض ہوتا ہے،
اور وضو کرنے کے بعد انسان کی طبیعت میں انشراح اور انبساط کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے،
اور انسان کے باطن میں ایک لطافت اور نورانیت پیدا ہوجاتی ہے،
اسی لیے نماز کے لیے وضو کو لازمی شرط قرار دیا گیا،
جس کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 537   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 135  
´نماز بغیر پاکی کے قبول ہی نہیں ہوتی`
«. . . أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا تُقْبَلُ صَلَاةُ مَنْ أَحْدَثَ حَتَّى يَتَوَضَّأَ " قَالَ رَجُلٌ مِنْ حَضْرَمَوْتَ: مَا الْحَدَثُ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ؟ قَالَ: فُسَاءٌ أَوْ ضُرَاطٌ . . . .»
. . . انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہہ رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص حدث کرے اس کی نماز قبول نہیں ہوتی جب تک کہ وہ (دوبارہ) وضو نہ کر لے۔ حضر موت کے ایک شخص نے پوچھا کہ حدث ہونا کیا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ (پاخانہ کے مقام سے نکلنے والی) آواز والی یا بےآواز والی ہوا۔ . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/بَابُ لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُورٍ: 135]
تشریح:
خاص طور پر ہاتھ پیروں کا تین تین بار سے زائد دھونا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے۔ ابوداؤد کی روایت میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو میں سب اعضاء تین تین بار دھوئے، پھر فرمایا کہ جس نے اس پر زیادہ یا کم کیا اس نے براکیا اور ظلم کیا۔

ابن خزیمہ کی روایت میں صرف یوں ہے کہ جس نے زیادہ کیا، یہی صحیح ہے اور پچھلی روایت میں کم کرنے کا لفظ غیر صحیح ہے۔ کیونکہ تین بار سے کم دھونا بالاجماع برا نہیں ہے۔

«فساء» ہوا کو کہتے ہیں جو ہلکی آواز سے آدمی کے مقعد سے نکلتی ہے اور «ضراط» وہ ہوا جس میں آواز ہو۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 135   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6954  
6954. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ تم میں سے کسی کی نماز قبول نہیں کرتا جب وہ بے وضو ہو جائے حتیٰ کہ وہ وضو کرے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6954]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کو لاکر امام بخاری نے ان لوگوں کا رد کیا جو کہتے ہیں اگر آخر قعدہ کرکے آدمی گوز لگائے تو نماز پوری ہو جائے گی گویا یہ نماز پوری کرنے کا حیلہ ہے۔
اہل حدیث کہتے ہیں کہ نماز صحیح نہیں ہوگی کیوں کہ سلام پھیرنا بھی نماز کا ایک رکن ہے۔
صحیح حدیث میں آیا ہے کہ (تحلیلها التسلیم)
تو گویا ایسا ہوا کہ نماز کے اندر حدث ہوا اور ایسی نماز باب کی حدیث کی رو سے صحیح نہیں ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6954   

  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 6954  
´نماز ختم کرنے میں ایک حیلے کا بیان`
«. . . عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَا يَقْبَلُ اللَّهُ صَلَاةَ أَحَدِكُمْ إِذَا أَحْدَثَ حَتَّى يَتَوَضَّأَ . . .»
. . . ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ تم میں سے کسی ایسے شخص کی نماز قبول نہیں کرتا جسے وضو کی ضرورت ہو یہاں تک کہ وہ وضو کر لے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْحِيَلِ: 6954]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 6954 کا باب: «بَابٌ في الصَّلاَةِ:»
باب اور حدیث میں مناسبت:
کتاب الحیل میں «باب فى الصلاة» لانے کا کیا مقصد؟ اور تحت الباب جس حدیث کو ذکر فرمایا ہے اس کی کس طرح سے ترجمۃ الباب کے ساتھ مناسبت ہو گی؟ دراصل امام بخاری رحمہ اللہ نے ان حضرات کا رد فرمایا ہے جن کا کہنا ہے کہ آخری قعدہ کر کے آدمی گوز لگائے تو نماز پوری ہو جائے گی، لہٰذا ان کا یہ بہانہ نماز پوری کرنے کا حیلہ ہے، اسی لیے امام بخاری رحمہ اللہ نے باب فی الصلوۃ قائم فرمایا اور تحت الباب جس حدیث کا ذکر فرمایا اس حدیث سے ان کے حیلے کا قلعہ قمہ کرنا مقصود ہے۔
ابن بطال رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«فيه ردّ على من قال إن من أحدث فى القعدة الأخيرة أن صلاته صحيحة لأنه أتي بما يضادها، و تعقب بأن الحدث فى أثنائها مفسد لها فهو كالجماع فى الحج لو طرأ فى خلاله لأفسده وكذا فى آخره.» [فتح الباري لابن حجر: 282/13]
اس میں ان حضرات کا رد ہے جو اس بات کے قائل ہیں کہ آخری قعدہ (نماز) میں وضو ٹوٹ جانے سے نماز ہو جاتی ہے، کیوں کہ اس نے نماز کے متضاد ایک فعل کیا ہے، (اس بات کا) تعقب کیا گیا ہے کہ اثنائے نماز حدث اس کے لیے فساد کا باعث ہے جیسے صبح کے اثناء میں اگر جماع کر لیا تو وہ اسے فاسد کر دے گا، (بعین اسی طرح سے اگر نماز میں کسی وقت بھی وضو ٹوٹ جائے تو وہ نماز فاسد ہو گی، اس شخص کو دوبارہ نماز پڑھنا ہو گی)۔
ابن المنیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«أشار البخارى بهذه الترجمة إلى الرد على قول من قال بصحة صلاة من أحدث عمدًا فى أثناء الجلوس الأخير و يكون حدثه كسلامه بأن ذالك من الحيل التصحيح الصلاة مع الحدث.» [فتح الساري:: 282/13]
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس ترجمۃ الباب سے ان حضرات کے رد کی جانب اشارہ کیا ہے جن کا کہنا ہے کہ آخری تشہد میں جان بوجھ کر وضو توڑنے والے کی نماز مکمل ہو گئی اور اس کا حدث اس کے سلام پھیرنے کے مانند ہے، کہ یہ حدیث کے ساتھ تصحیح نماز کے لیے حیل میں سے ہے۔
ابن المنیر اور ابن حجر العسقلانی رحمہما اللہ کی گزارشات سے یہ معلوم ہوا کہ جن حضرات کا یہ موقف ہے کہ آخری تشہد میں جان بوجھ کر اگر وضو ٹوٹے تو اس کی نماز درست ہو گی، تو جان لینا چاہیے کہ یہ بھی نماز کے حیلے میں سے ہے کیوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا واضح فرمان جو تحت الباب منقول ہے کہ اللہ تعالی اس کی نماز قبول نہیں کرتا جس کو وضو کی ضرورت ہو، لہذا اگر صرف سلام بھی باقی رہ گیا ہو تو وہ صلاۃ کا اعادہ کرے گا، کیوں کہ سلام پھیرنا بھی اس کے ایک ضروری ترین رکن میں سے ہے، صحیح حدیث میں واضح الفاظ موجود ہیں: «تحليلها التسليم» لہٰذا جب نماز میں حدث ہوا تو باب کے تحت اور اس کی حدیث کے تحت نماز نہ ہو گی۔
ابن المنیر رحمہ اللہ مزید لکھتے ہیں:
«عدّ قول أبى حنيفة أن المحدث عمدًا فى أثناء الجلوس الأخير كالمسلّم، من التحيّل لتصحيح الصلاة مع الحدث، لأن البخاري رحمه الله بنى على أن التحلّل من الصلاة ركن منها، فلا يقبل مع الحدث.» [المتواري على ابواب البخاري: ص 341]
یعنی امام بخاری رحمہ اللہ نے شمار کیا ہے کہ محدث جان کر آخری ثنائے جلوس میں اپنی نماز میں برقرار رہے گا، یہ حدث کے ساتھ تصحیح نماز کے لیے حیل میں سے ہے، امام بخاری رحمہ اللہ یہ ثابت کرنا چاہ رہے ہیں کہ سلام نماز کے رکن میں سے ہے، پس وہ قبول نہ ہو گی حدیث کے ساتھ۔
علامہ بدرالدین بن جماعۃ رحمہ اللہ بھی یہی مناسبت دیتے ہیں، آپ کا کہنا ہے کہ سلام پھیرنا نماز کا ایسا ہی رکن ہے جس طرح تکبیر کہنا، جب حدث واقع ہو جائے گا تو نماز درست نہ ہو گی۔
«مقصوده فى ذكر الحيل الردّ على من صحح صلاته من الحدث فى التشهد الأخير لأنه متحمل فى صلاته مع وجود الحديث، و مراده أن هذا الحديث فى صلاته فلا يصح لأن للتحلل منها ركنا فيها بحديث و تحليلها التسليم، فالتحلل ركن منها كما أن التحرم بالتكبير ركن منها.» [مناسبات تراجم البخاري: ص 126]
علامہ قسطلانی رحمہ اللہ ارشاد الساری میں ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
«ووجه تعلق الحديث بالترجمة: قيل: لأنه قصد الرد على الحنفية، حيث صحوا صلاة من أحدث فى الجلسة الأخيرة، و قالوا: إن التحلل يحصل بكل ما يضاد الصلاة فهم.» [ارشاد الساري: 316/11]
یعنی ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت اس جہت سے ہے کہ کہا گیا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ ترجمۃ الباب اور حدیث کے ذریعے حنفیہ کا رد کرنا چاہتے ہیں، ان کے نزدیک جلسہ اخیر میں اگر حدث ہو جائے تو نماز درست ہو گی، اور یہ کہا کہ یہ بھی حیلہ ہے کہ حدث کے ساتھ نماز کا ہونا، لہٰذا یہاں پر ان کا رد کرنا مقصود ہے کہ محدث کا نماز میں ہونا کسی طریقے میں بھی نماز درست نہ ہو گی، کیوں تحلل یعنی سلام نماز کا رکن ہے، جیسا کہ حدیث میں آتا ہے: «تحليلها التسليم» جیسا کہ تکبیر نماز کا رکن ہے۔
ابن بطال رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«فيه رد على من قال: ان من أحدث فى القعدة الأخيرة أن صلاته صحيحة.» [عمدة القاري شرح صحيح البخاري، 159/24]
اس میں رد ہے ان حضرات کا جن کا کہنا ہے کہ قاعدہ اخیرہ میں اگر وضو ٹوٹ گیا تو نماز درست ہو گی۔
ان اقتباسات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اگر نمازی کا وضو ٹوٹ جائے، اس وقت جب آدمی تشہد میں سلام پھیرنے کے قریب ہو تو اس وقت بھی اس کا وضوٹ ٹوٹ جائے تو اسے نماز کا شروع سے اعادہ کرنا ہو گا، لیکن افسوس یہ ہے کہ احناف کے نزدیک اس بندے کی نماز درست ہو گی، شارحین کی اکثریت اسی طرف گئی ہے مگر علامہ عینی رحمہ اللہ کا برداشت کا دامن ہاتھ سے چھوٹا اور آپ رحمہ اللہ نے امام بخاری رحمہ اللہ ہی کا رد کرنا چاہا، چنانچہ علامہ عینی رحمہ اللہ نے حنفیہ کا دفاع کرتے ہوئے کتاب الحیل میں حیلہ کرتے ہوئے فرمایا:
«قلت لا مطابقة بين الحديث و الترجمة أصلاً فإنه لا يدل أصلاً على شيئي من الحيل، وقول الكرماني، فهم متحيلون فى صحة الصلاة مع وجود الحدث، كلام مردود غير مقبول أصلاً لأن الحنفية ما صححوا صلاة من أحدث فى القعدة الأخيرة بالحيلة، و ما للحيلة دخل أصلاً فى هذا، بل حكموا بذالك لقول صلى الله عليه وسلم، لابن مسعود رضي الله عنه، إذا قلت هذا أو فعلت هذا فقد تمت صلاتك، رواه أبوداؤد فى سننه و لفظه: إذا قلت هذا أو قضيت هذا فقد قضيت صلاتك ان شئت أن تقوم و إن شئت أن تقعد فاقعد، رواه أحمد . . . . . و قوله: وجه الرد أنه محدث فى صلاته، فلا تصح غير صحيح لأن صلاته قد تمت، و قوله لحديث: و تحليلها التسليم استدلال غير صحيح، لأنه خبر من أخبار الآحاد فلا يدل على الفرضية.» [عمدة القاري شرح صحيح البخاري، 159،160/24]
علامہ عینی رحمہ اللہ کے کلام کا خلاصہ یہ ہے کہ آپ کہتے ہیں کہ ترجمۃ الباب اور حدیث میں مطابقت نہیں ہے، اور نہ ہی یہ باب حیل پر کچھ اصل ہے، آپ کا کہنا ہے کہ حنفیہ نے کوئی حیلہ نہیں کیا، بلکہ اس کام کا (کہ آخری قاعدے میں اگر وضو ٹوٹے تو نماز ٹوٹے گی نہیں) یہ حکم حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں موجود ہے، جیسا کہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ والی حدیث جسے امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے اپنی سنن میں ذکر فرمائی ہے:
«إذا قلت هذا أو قضيت هذا فقد قضيت صلاتك إن شئت أن تقوم و إن شئت أن تقعد فأقعد.» [سنن ابي داود: رقم الحدیث970]
یعنی جب تم یہ کہہ لو، یا فرمایا: پھر کر لو تو تم نے اپنی نماز پوری کر لی، اگر چاہو تو اٹھ جاؤ اور اگر چاہو تو بیٹھے رہو، یہ نفی ہے اس بات کی کہ سلام فرض ہے نماز میں کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار دیا تھا نمازی کو کہ اگر چاہے وہ بیٹھے یا پھر اگر چاہے تو کھڑا ہو جائے، مزید اس روایت کے بارے میں جس کے الفاظ یہ ہیں: «تحليلها التسليم» تو اس کے بارے میں علامہ عینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ یہ استدلال صحیح نہیں ہے، کیوں کہ یہ روایت خبر واحد سے تعلق رکھتی ہے اور نماز کی ابتدا کے بارے میں جو حکم ہے: «تحريمها التكبير» اس کو بھی علامہ صاحب نے غیر صحیح قرار دیا ہے۔
علامہ عینی حنفی رحمہ اللہ کے اشکالات کے جوابات:
علامہ عینی رحمہ اللہ نے جو پہلی دلیل پیش کیا ہے کہ «إذا قلت هذا أو قضيت هذا . . . . .» یہ روایت مرفوع حدیث نہیں ہے، بلکہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول ہے، حفاظ کرام اس پر متفق ہیں کہ یہ جملہ مدرج ہے، لہٰذا مرفوع حدیث کو چھوڑ کر «مُدْرَجْ» پر عمل کرنا کسی بھی طریقے سے درست نہیں ہے بلکہ اگر مزید غور کیا جائے تو سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا یہ قول موجود ہے کہ «مفتاح الصلاة التكبير، و انقضاؤها التسليم إذا سلّم الامام فقم إن شئت.»
یہ قول سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا اس روایت کے خلاف ہے جس کو علامہ عینی رحمہ اللہ نے ذکر فرمایا ہے، غالباً اس موقع پر یہی کہا جائے گا کہ علامہ عینی رحمہ اللہ یہ حنفی اصول بھول گئے کہ «أن الراوي إذا خالف الرواية، تكون الرواية متروكة» یعنی جب راوی اپنی ہی بیان کردہ روایت کے خلاف کرے تو اس کی بیان کردہ روایت مردود ہو گی، لہٰذا حنفی اصولوں کے مدنظر علامہ عینی صاحب کی بات رد کر دی جائے گی، دوسری بات یہ کہ علامہ عینی رحمہ اللہ نے روایت «تحليلها التسليم» کو اخبار آحاد گردانا ہے، غالباً اگر اخبر آحاد ہوں یا تواتر، اگر حدیث صحت کے ساتھ ہے تو حجت ہو گی، قرآن مجید نے بھی خبر واحد کی حجیت کو مسلم قرار دیا ہے، دلائل کے باوجود اگر کوئی قبول نہ کرے تو اس کا اپنا معاملہ ہے، اور جہاں تک تعلق ہے «تحريمها التكبير» کا تو علامہ عینی رحمہ اللہ نے اسے بھی غیر صحیح قرار دیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ «كبّر» سے مراد صلاۃ ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے: « ﴿وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ﴾ [المدثر: 3]، المراده فى الصلاة إذا لا يجب خارج الصلاة . . . . .» اگر تحقیق کی نظر سے دیکھا جائے تو علامہ عینی رحمہ اللہ کی بات محل نظر ہے، کیوں کہ سورہ المدثر کی یہ آیات مکہ میں نازل ہوئیں، نماز کی فرضیت سے قبل تو کس طرح سے وہ نماز کے کسی اہم رکن کی تخصیص کر پائے گی؟ دراصل یہاں تکبیر سے مراد مطلق تکبیر ہے، اگر آیت پر غور کیا جائے اور اصول تفسیر کو مدنظر رکھا جائے تو یہی بات واضح ہوتی ہے۔
یاد رکھیں، قرآن مجید کا خلاصہ اور اس کی تبیین سنت کرتی ہے، پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے «تحليلها التسليم» سلام پھیرنے کو اور «تحريمها التكبير» کو وہ تکبیر مراد لی جس کے ذریعے نماز میں بندہ شامل ہوتا ہے، لہٰذا امام عینی رحمہ اللہ کا ترجمۃ الباب اور حدیث پر اعتراض تار عنکبوت سے بھی کمزور تھا، اوراق اجازت نہیں دیتے اور نہ ہی استیعاب مقصود ہے ورنہ علامہ عینی رحمہ اللہ نے جو دلائل دیئے ہیں اس پر ایک تفصیلی مقالہ بھی لکھا جا سکتا ہے۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 269   

  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 135  
´نماز بغیر طہارت قبول نہیں ہوتی`
«. . . قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا تُقْبَلُ صَلَاةُ مَنْ أَحْدَثَ حَتَّى يَتَوَضَّأَ . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص حدث کرے اس کی نماز قبول نہیں ہوتی جب تک کہ وہ (دوبارہ) وضو نہ کر لے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ: 135]
فوائد و مسائل:
باب اور حدیث میں مناسبت:
بظاہر حدیث کا باب عمومیت پر دلالت کر تا ہے جب کہ «حدث» ہوا کے خارج ہونے پر دلالت کرتی ہے۔ دراصل امام بخاری رحمہ اللہ نے جو باب قائم فرمایا ہے یہ باب خود ایک حدیث ہے جسے امام ابوعیسیٰ ترمذی وغیرہ نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے کہ نماز بغیر طہارت قبول نہیں ہوتی اور چوری کے مال میں سے صدقہ قبول نہیں ہوتا مگر وہ حدیث امام بخاری رحمہ اللہ کی شرط کے موافق نہ تھی۔ مناسبت باب اور حدیث کچھ اس طرح سے ہے کہ اللہ تعالیٰ بغیر وضوء کے نماز قبول نہیں فرماتا تو اگر کسی سے «حدث» یعنی ہوا خارج ہو جائے تو وہ نماز کو دہرائے گا اب وہ دوبارہ نماز کو قائم نہیں کر سکتا جب تک کہ وہ وضو نہیں کرے گا کیوں کہ وضو کے بغیر نماز قبول نہیں ہے۔ اس حکم میں مرد اور عورت دونوں یکساں ہیں یا وہ دبر سے نکلے یا فرج سے۔

◈ امام شمس الدین السفیری الشافعی (المتوفی956ھ) رقمطراز ہیں:
«خروج شيئي من قبله او دبره، ولا فرق بين ان يكون الخارج عيناً، أو ريحاً ولو كان الرياح الخارج من فرج المراة و ذكر الرجل» [شرح صحيح البخاري للسفيري، ج3، ص106]

◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«وهذه الترجمة لفظ حديث رواه مسلم وغيره من حديث ابن عمر و ابوداؤد وغيره من طريقه ابي المليح بن أسامة عن أبيه وله طرق كثيرة لكن ليس فيها شيئ على شرط البخاري، فلهذا اقتصر على ذكره فى الترجمة وأورد فى الباب ما يقوم مقامه» [فتح الباري ج1ص312]
یعنی یہاں جو مراد ہے وہ یہ ہے وضو اور غسل کے لئے۔ اور یہ ترجمہ الباب اس کے (الفاظ) مسلم میں ہیں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے جس کو امام ابوداؤد نے نکالا جس کے بہت سے طرق ہیں لیکن وہ امام بخاری رحمہ اللہ کی شرائط پر نہیں ہیں اسی لئے ترجمہ الباب میں اختصار فرمایا۔
لہٰذا امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ جب «حدث» سے وضو ٹوٹ جاتا ہے اور اب بغیر وضو کے نماز نہ ہو گی۔ لہٰذا باب میں بھی اسی طرف اشارہ ہے کہ بغیر وضو کے نماز قبول نہیں چاہے وہ حدث اکبر ہو یا حدث اصغر۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب عمومیت پر قائم فرمایا ہے، اور استدلال خاص حدیث شریف سے فرمایا ہے۔ جو خاص نماز کے لئے ہے کیونکہ سائل کا سوال بھی اسی مسئلہ پر تھا۔

◈ بدر الدین بن جماعتہ رحمہ اللہ، فرماتے ہیں:
«ان قيل ترجمة على العموم، واستدلال بالخصوص لان المراد بالحديث المذكور فى الصلاة خاصة، لانه سائلا ساله على ذالك» [مناسبات تراجم البخاري۔ ص 27]

◈ ڈاکٹر عبدالکریم محسن رقمطراز ہیں:
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا حدیث سے فساء اور ضراط مراد لینا اس امر کی بناء پر تھا کہ ان کی رائے میں ذکر کو چھونا، بیوی کا مبنی بر شہوت لمس اور منہ بھر کے قے آنا ناقض وضو نہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا بھی یہی مسلک معلوم ہوتا ہے، جیسا کہ باب «من لم يرالوضؤ الا من المخرجين» آگے باب آئے گا۔ [توفيق الباري شرح صحيح البخاري ج1 ص201]
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے حدیث کو فساء اور ضراط کے ساتھ خاص کیا۔ کیونکہ نماز میں یہی دو چیزیں لاحق ہوا کرتی ہیں۔

◈ ابن المنیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اگر آپ یہ کہیں کہ ترجمۃ الباب عموم پر کیوں ہے؟ اور حدیث سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ «حدث فى الصلاة» ہے تو یہ اس لیے ہے کہ پھسکی یا پاد «فساد أوضراط» یہی غالب ہے جو نماز میں واقع ہوتی ہے نہ کہ پیشاب یا پاخانہ۔ [المتواري، ص 69]

◈ صاحب اوجز المسالک رقمطراز ہیں:
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فساء اور ضراط کے اعم اور اغلب ہونے کے سبب سے ذکر فرما دیا۔ یہ نہیں کہ نقص و ضوان ہی دونوں کے اندر منحصر ہے۔ لہٰذا اگر پیشاب یا پاخانہ کرے تب بھی وضو واجب ہو گا مگر چونکہ کثیرالوقوع یہی دو چیزیں تھیں، اس لئے انہیں کو ذکر کر دیا۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 118   

  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 135  
´مسلمان اور طہارت و پاکیزگی دونوں لازم و ملزوم ہیں`
«. . . أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا تُقْبَلُ صَلَاةُ مَنْ أَحْدَثَ حَتَّى يَتَوَضَّأَ " قَالَ رَجُلٌ مِنْ حَضْرَمَوْتَ: مَا الْحَدَثُ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ؟ قَالَ: فُسَاءٌ أَوْ ضُرَاطٌ . . . .»
. . . انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہہ رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص حدث کرے اس کی نماز قبول نہیں ہوتی جب تک کہ وہ (دوبارہ) وضو نہ کر لے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/بَابُ لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُورٍ: 135]
تخريج الحديث:
[134۔ البخاري فى: 90 كتاب الحيل: 2 باب فى الصلاة 135، مسلم 225، أبوداود 60، ترمذي 76]

لغوی توضیح: «الطَّهَارَة» پاکیزگی، صفائی ستھرائی، پاک ہونا، پاک کرنا۔ اصطلاحاً حدث کو رفع کرنے اور نجاست کو زائل کرنے کا نام طہارت ہے۔ طہارت و نظافت کو اسلام میں بہت اہمیت حاصل ہے اور اس اہمیت کا اندازہ اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ طہارت کو نصف ایمان کہا گیا ہے۔ طہارت کے بغیر اسلام کا اولین حکم، نماز، درجہ قبولیت کو نہیں پہنچتا (جیسا کہ درج بالا حدیث میں ہے)۔ طہارت کو نماز کی کنجی قرار دیا گیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے نماز کے لیے بدن، لباس اور جگہ کی طہارت کو شرط کہا ہے۔ نماز کے حکم سے بھی پہلے ہر مسلمان کو یہ احساس دلانے کے لیے کہ مسلمان اور طہارت و پاکیزگی دونوں لازم و ملزوم ہیں، کفر سے اسلام میں داخل ہونے والے ہر شخص پر غسل فرض کیا گیا ہے۔ یقیناً یہ احکام ہمارے لیے ہر مقام پر طہارت و پاکیزگی کو ترجیح دینے کے لیے کافی ہیں۔
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 134   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 76  
´ہوا خارج ہونے سے وضو کے ٹوٹ جانے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں کسی کو «حدث» ہو جائے (یعنی اس کا وضو ٹوٹ جائے) ۱؎ تو اللہ اس کی نماز قبول نہیں کرتا جب تک کہ وہ وضو نہ کر لے۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الطهارة/حدیث: 76]
اردو حاشہ:
1؎:
اسی جملہ میں باب سے مطابقت ہے،
یعنی:
ہوا کے خارج ہونے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 76   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:135  
135. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس شخص کا وضو ٹوٹ جائے (اسے حدث ہو جائے) اس کی نماز قبول نہیں ہوتی جب تک وضو نہ کرے۔ ایک حضرمی نے پوچھا: اے ابوہریرہ! حدث کیا ہے؟ انہوں نے کہا: فساء یا ضراط (یعنی وہ ہوا جو پاخانے کے مقام سے خارج ہو)۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:135]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری کا مقصد یہ ہے کہ نماز کے لیے طہارت شرط ہے اس کے بغیر کوئی نماز درست نہ ہوگی۔
خواہ نماز فرض ہو یا نفل یا نماز جنازہ، دوران اقامت میں ادا کی جائے یا اثنائے سفر میں اگر طہارت نہیں تو قبولیت کا ادنیٰ درجہ بھی حاصل نہیں ہو گا۔
ادنیٰ ٰدرجے سے مراد یہ ہے کہ فرض ادا ہو جائے خواہ ثواب ملے یا نہ ملے۔
اگر طہارت کے ساتھ نماز شروع کی تھی پھر دوران نماز وضو ٹوٹ گیا تو بھی ناقابل قبول ہے گویا نماز کا کوئی حصہ بھی طہارت کے بغیر درست نہیں۔
بعض لوگ بنا کے قائل ہیں یعنی وہ کہتے ہیں کہ جہاں سے نماز ٹوٹی تھی وضو کر کے وہیں سے نماز پڑھ کر نماز پوری کر لے، لیکن اس کی کوئی صحیح دلیل نہیں۔
ایک ضعیف حدیث اس مسئلہ بنا کی بنیاد ہے جب کہ ضعیف حدیث سے کوئی مسئلہ ثابت نہیں ہوتا۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جواب دوران نماز میں حدث پیش آنے سے متعلق ہے کہ اس سے مراد فساء، یعنی ریح کا بغیر آواز کے خارج ہونا، یا ضراط، یعنی ریح کا آواز کے ساتھ خارج ہونا ہے۔
کیونکہ دوران نماز میں عام طور پر خروج ریح کی صورت ہی پیش آتی ہے بصورت دیگر نواقض وضو تو اس کے علاوہ اور بھی ہیں۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو کتاب الحیل (6954)
میں بھی بیان کیا ہے۔
وہاں حیلہ گری کی تردید مقصود ہے لیکن وہاں کسی حیلے کی وضاحت نہیں کی جس پر اس حدیث کا انطباق ہوتا ہو۔
بخاری کے شارح ابن بطال نے اس کی تشریح بایں الفاظ کی ہے کہ اس سے ان حضرات کی تردید مقصود ہے جنھوں نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ آخری تشہد میں ہوا نکلنے کا اندیشہ ہو تو سلام پھیرنے کے بجائے اگر قصداً ہوا خارج کردی جائے تو نماز صحیح ہے یہ موقف اس لیے غلط ہے کہ نماز کی تکمیل سلام ہی سے ہوتی ہے اور بزور ہوا کا خارج کرنا یا ہونا کسی صورت میں سلام کا بدل نہیں ہو سکتا لہٰذا ایسی نماز باطل ہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد ہے کہ اس قسم کی حیلہ گری اسلام میں ناجائز اور حرام ہے۔
(شرح البخاري لإبن بطال: 312/8)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 135   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6954  
6954. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ تم میں سے کسی کی نماز قبول نہیں کرتا جب وہ بے وضو ہو جائے حتیٰ کہ وہ وضو کرے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6954]
حدیث حاشیہ:

ایک حدیث میں ہے کہ نماز شروع کرتے وقت جب اللہ اکبر کہا جاتا ہے تو خارجی چیزیں حرام ہو جاتی ہیں، پھر سلام پھیرنے سے وہ حلال ہوتی ہیں۔
(سنن أبي داود، الطھارة، حدیث: 61)
اس کا مطلب یہ ہے کہ تکبیر تحریمہ اور سلام پھیرنا دونوں نماز کے رکن ہیں، جنھیں حدیث بالا کے مطابق باوضو ادا ہونا چاہیے۔
لیکن کچھ حضرات کا خیال ہے کہ آخری تشہد میں اگر کوئی شخص تشہد مکمل کرنے کے بعد جان بوجھ کر کوئی ایسا فعل سرانجام دے جو نماز کے منافی ہو اور سلام نہ پھیرے تو نماز مکمل ہے جیسا کہ شرح وقایہ میں ہے کہ سلام کے وقت جان بوجھ کر بے وضو ہو جائے تو نماز فاسد نہیں ہوگی۔
(شرح وقایة، کتاب الصلاة، باب صفة الصلاة: 510/1)

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان حضرات کی تردید کی ہے کیونکہ یہ حضرات نماز میں بے وضو ہونے کے باوجود نماز کی صحت کے لیے حیلہ کرتے ہیں، حالانکہ آخری تشہد میں بے وضو ہونے والا بھی بے وضو ہی ہے، لہذا اس کی نماز صحیح نہ ہوگی کیونکہ نماز سے باہر ہونا بھی نماز کا رکن ہے جو سلام پھیرنے سے پورا ہوتا ہے، اگر اس آخری رکن کو بے وضو ہو کرادا کیا گیا تو نماز نہیں ہوگی۔

حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ سلام بھی عبادت کی جنس میں سے ہے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کے ذکر اور اس کے بندوں کے لیے دعا پر مشتمل ہوتا ہے، لہذا کسی صورت "حدث فاحش" ذکر حسن کے قائم مقام نہیں ہو سکتا۔
(فتح الباري: 412/12)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6954   

  الشيخ محمد فاروق رفیع حفظہ اللہ، فوائد و مسائل، صحیح ابن خزیمہ ح : 11  
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بے وضو شخص کی نماز کی قبولیت کی نفی کی ہے جس نے وضو واجب کرنے والا حدث کیا ہو (جیسے پیشاب یا پاخانہ وغیرہ) نہ کہ ہر اس شخص کی نماز کی قبولیت کی نفی جو نماز کی ادائیگی کے لیے کھڑا ہوتا ہے... [صحيح ابن خزيمه ح: 11]
فواند:
امام نووی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں کہ یہ احادیث نص ہیں کہ نماز کے لیے طہارت (وضو یا تیمم) واجب ہے اور پوری امت کا اس مسئلہ پر اجماع ہے کہ طہارت صحت نماز کی شرط ہے۔ قاضی عیاض رحمہ اللہ کہتے ہیں: علماء کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ نماز کے لیے طہارت کب فرض ہوئی۔ چنانچہ ابن جہم کا موقف ہے کہ شروع اسلام میں وضو سنت تھا۔ پھر تیمم کے نزول کے بعد فرض ٹھہرا، لیکن جمہور علماء کا مذہب ہے کہ وضو شروع اسلام سے ہی فرض ہے، پھر علماء کا اس مسئلہ میں اختلاف ہے کہ آیا نماز کے لیے کھڑے ہونے والے ہر نمازی پر وضو فرض ہے یا بالخصوص بے وضو شخص پر وضو کرنا واجب ہے:
➊ چنانچہ سلف میں سے کچھ علماء کا موقف ہے کہ ہر نماز کے لیے وضو فرض ہے اور ان کی دلیل یہ آیت «إِذَا قُمتُم إلى الصَّلاةِ» [المائدة: 6] ہے۔
➋ ایک قوم کا مذہب ہے کہ شروع میں یہی حکم تھا پھر یہ حکم منسوخ ہو گیا۔
➌ ایک قول کے مطابق پر نماز کے لیے وضو کا حکم مندوب ہے۔
➍ ایک قول ہے کہ نماز کے لیے وضو محض بے وضو شخص پر واجب ہے لیکن ہر نماز کے لیے وضو کی تجدید مستحب ہے، اس
آخری قول پر تمام اہل فتوی کا اجماع ہے اور اب اس مسئلہ میں ان میں کوئی اختلاف باقی نہیں ہے۔
[نووي: 101/3، 102]
   صحیح ابن خزیمہ شرح از محمد فاروق رفیع، حدیث/صفحہ نمبر: 11