مسند احمد
مسند النساء
0
1224. حَدِيثُ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا
0
حدیث نمبر: 27101
قَالَ: قَالَ: فَلَمَّا أَرَدْتُ أَنْ أَخْرُجَ , قَالَتْ: اجْلِسْ حَتَّى أُحَدِّثَكَ حَدِيثًا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا مِنَ الْأَيَّامِ فَصَلَّى صَلَاةَ الْهَاجِرَةِ، ثُمَّ قَعَدَ، فَفَزِعَ النَّاسُ، فَقَالَ: " اجْلِسُوا أَيُّهَا النَّاسُ، فَإِنِّي لَمْ أَقُمْ مَقَامِي هَذَا لِفَزَعٍ، وَلَكِنَّ تَمِيمًا الدَّارِيَّ فأخبَرَنِي خبرًا منعني القيلولة من الفرح وقرة العين , فأحببت أن أنشر عليكم فرح نبيكم , أخبرني أَنَّ رَهْطًا مِنْ بَنِي عَمِّهِ رَكِبُوا الْبَحْرَ، فَأَصَابَتْهُمْ رِيحٌ عَاصِفٌ، فَأَلْجَأَتْهُمْ الرِّيحُ إِلَى جَزِيرَةٍ لَا يَعْرِفُونَهَا، فَقَعَدُوا فِي قُوَيْرِبٍ بِالسَّفِينَةِ حَتَّى خَرَجُوا إِلَى الْجَزِيرَةِ، فَإِذَا هُمْ بِشَيْءٍ أَهْلَبَ كَثِيرِ الشَّعْرَ، لا يَدْرُونَ أَرَجُلٌ هُوَ أَوْ امْرَأَة، فَسَلَّمُوا عَلَيْهِ، فَرَدَّ عَلَيْهِمْ السَّلَامَ، قَالُوا: أَلَا تُخْبِرُنَا؟ قَالَ: مَا أَنَا بِمُخْبِرِكُمْ، وَلَا بِمُسْتَخْبِرِكُمْ، وَلَكِنْ هَذَا الدَّيْرَ قَدْ رَهِقْتُمُوهُ، فَفِيهِ مَنْ هُوَ إِلَى خَبَرِكُمْ بِالْأَشْوَاقِ أَنْ يُخْبِرَكُمْ وَيَسْتَخْبِرَكُمْ، قَالَ: قُلْنَا: فَمَا أَنْتَ؟ قَالَ: أَنَا الْجَسَّاسَةُ، فَانْطَلَقُوا حَتَّى أَتَوْا الدَّيْرَ، فَإِذَا هُمْ بِرَجُلٍ مُوثَقٍ شَدِيدِ الْوَثَاقِ، مُظْهِرٍ الْحُزْنَ، كَثِيرِ التَّشَكِّي، فَسَلَّمُوا عَلَيْهِ، فَرَدَّ عَلَيْهِم، فَقَالَ: مِمَّنْ أَنْتُمْ؟ قَالُوا: مِنَ الْعَرَبِ، قَالَ: مَا فَعَلَتْ الْعَرَبُ، أَخَرَجَ نَبِيُّهُمْ بَعْدُ، قَالُوا: نَعَمْ، قَال: فَمَا فَعَلُوا؟ قَالُوا: خَيْرًا , آمَنُوا بِهِ وَصَدَّقُوهُ، قَالَ: ذَلِكَ خَيْرٌ لَهُمْ، وَكَانَ لَهُ عَدُوٌّ، فَأَظْهَرَهُ اللَّهُ عَلَيْهِمْ، قَالَ: فَالْعَرَبُ الْيَوْمَ إِلَهُهُمْ وَاحِدٌ، وَدِينُهُمْ وَاحِد، وَكَلِمَتُهُمْ وَاحِدَةٌ؟ قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: فَمَا فَعَلَتْ عَيْنُ زُغَرَ؟ قَالُوا: صَالِحَةٌ يَشْرَبُ مِنْهَا أَهْلُهَا لِشَفَتِهِمْ، وَيَسْقُونَ مِنْهَا زَرْعَهُمْ، قَالَ: فَمَا فَعَلَ نَخْلٌ بَيْنَ عَمَّانَ وَبَيْسَانَ؟ قَالُوا: صَالِحٌ يُطْعِمُ جَنَاهُ كُلَّ عَامٍ؟ قَالَ: فَمَا فَعَلَتْ بُحَيْرَةُ الطَّبَرِيَّةِ؟ قَالُوا: مَلْأَى، قَالَ: فَزَفَرَ، ثُمَّ زَفَرَ، ثُمَّ زَفَرَ , ثُمَّ حَلَفَ: لَوْ خَرَجْتُ مِنْ مَكَانِي هَذَا، مَا تَرَكْتُ أَرْضًا مِنْ أَرْضِ اللَّهِ إِلَّا وَطِئْتُهَا، غَيْرَ طَيْبَةَ، لَيْسَ لِي عَلَيْهَا سُلْطَانٌ"، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِلَى هَذَا انْتَهَى فَرَحِي ثَلَاثَ مِرَارٍ , إِنَّ طَيْبَةَ الْمَدِينَةَ، إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَ حَرَمِي عَلَى الدَّجَّالِ أَنْ يَدْخُلَهَا"، ثُمَّ حَلَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" وَالَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ، مَا لَهَا طَرِيقٌ ضَيِّقٌ، وَلَا وَاسِعٌ، فِي سَهْلٍ، وَلَا فِي جَبَلٍ، إِلَّا عَلَيْهِ مَلَكٌ شَاهِرٌ بِالسَّيْفِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، مَا يَسْتَطِيعُ الدَّجَّالُ أَنْ يَدْخُلَهَا عَلَى أَهْلِهَا" , قَالَ عَامِرٌ: فَلَقِيتُ الْمُحَرَّرَ بْنَ أَبِي هُرَيْرَةَ، فَحَدَّثْتُهُ حَدِيثَ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ، فَقَالَ: أَشْهَدُ عَلَى أَبِي أَنَّهُ حَدَّثَنِي كَمَا حَدَّثَتْكَ فَاطِمَةُ، غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّهُ نَحْوَ الْمَشْرِقِ" , قَالَ: ثُمَّ لَقِيتُ الْقَاسِمَ بْنَ مُحَمَّدٍ، فَذَكَرْتُ لَهُ حَدِيثَ فَاطِمَة، فَقَالَ: أَشْهَدُ عَلَى عَائِشَةَ أَنَّهَا حَدَّثَتْنِي كَمَا حَدَّثَتْكَ فَاطِمَةُ، غَيْرَ أَنَّهَا قَالَتْ:" الْحَرَمَانِ عَلَيْهِ حَرَامٌ مَكَّةُ وَالْمَدِينَةُ" .
امام شعبی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ جب میں وہاں سے جانے لگا تو انہوں نے مجھ سے فرمایا کہ بیٹھ جاؤ، میں تمہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث سناتی ہوں، ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم باہر نکلے اور ظہر کی نماز پڑھائی جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نماز پوری کر لی تو فرمایا کہ بیٹھے رہو! منبر پر تشریف فرما ہوئے، لوگ حیران ہوئے تو فرمایا: ”لوگو! اپنی نماز کی جگہ پر ہی بیٹھے رہو! میں نے تمہیں کسی بات کی ترغیب یا اللہ سے ڈرانے کے لئے جمع نہیں کیا۔ میں نے تمہیں صرف اس لئے جمع کیا ہے کہ تمیم داری میرے پاس آئے اور اسلام پر بیعت کی اور مسلمان ہو گئے اور مجھے ایک بات بتائی جس نے خوشی اور آنکھوں کی ٹھنڈک سے مجھے قیلولہ کرنے سے روک دیا، اس لئے میں نے چاہا کہ تمہارے پیغمبر کی خوشی تم تک پھیلا دوں چنانچہ انہوں نے مجھے خبر دی کہ وہ اپنے چچا زاد بھائیوں کے ساتھ ایک بحری کشتی میں سوار ہوئے، اچانک سمندر میں طوفان آ گیا، وہ سمندر میں ایک نامعلوم جزیرہ کی طرف پہنچے یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا تو وہ چھوٹی چھوٹی کشتیوں میں بیٹھ کر جزیرہ کے اندر داخل ہوئے تو انہیں وہاں ایک جانور ملا جو موٹے اور گھنے بالوں والا تھا، انہیں سمجھ نہ آئی کہ وہ مرد ہے یا عورت انہوں نے اسے سلام کیا اس نے جواب دیا، انہوں نے کہا تو کون ہے؟ اس نے کہا: اے قوم! اس آدمی کی طرف گرجے میں چلو کیونکہ وہ تمہاری خبر کے بارے میں بہت شوق رکھتا ہے، ہم نے اس سے پوچھا کہ تم کون ہو؟ اس نے بتایا کہ میں جساسہ ہوں، چنانچہ وہ چلے یہاں تک کہ گرجے میں داخل ہو گئے، وہاں ایک انسان تھا جسے انتہائی سختی کے ساتھ باندھا گیا تھا وہ انتہائی غمگین اور بہت زیادہ شکایت کرنے والا تھا، انہوں نے اسے سلام کیا، اس نے جواب دیا اور پوچھا تم کون ہو؟ انہوں نے کہا ہم عرب کے لوگ ہیں، اس نے پوچھا کہ اہل عرب کا کیا بنا؟ کیا ان کے نبی کا ظہور ہو گیا؟ انہوں نے کہا: ہاں! اس نے پوچھا: پھر اہل عرب نے کیا کیا؟ انہوں نے بتایا کہ اچھا کیا، ان پر ایمان لے آئے اور ان کی تصدیق کی اس نے کہا کہ انہوں نے اچھا کیا وہ ان کے دشمن تھے لیکن اللہ نے انہیں ان پر غالب کر دیا، اس نے پوچھا کہ اب عرب کا ایک خدا، ایک دین اور ایک کلمہ ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں! اس نے پوچھا: زغر چشمے کا کیا بنا؟ انہوں نے کہا کہ صحیح ہے، لوگ اس کا پانی خود بھی پیتے ہیں اور اپنے کھیتوں کو بھی اس سے سیراب کرتے ہیں، اس نے پوچھا: عمان اور بیسان کے درمیان باغ کیا کیا بنا؟ انہوں نے کہا کہ صحیح ہے اور ہر سال پھل دیتا ہے، اس نے پوچھا: بحیرہ طریہ کا کیا بنا؟ انہوں نے کہا کہ بھرا ہوا ہے، اس پر وہ تین مرتبہ بےچینی اور قسم کھا کر کہنے لگا: اگر میں اس جگہ سے نکل گیا، تو اللہ کی زمین کا کوئی حصہ ایسا نہیں چھوڑوں گا جسے اپنے پاؤں تلے روند نہ دوں، سوائے طیبہ کے کہ اس پر مجھے کوئی قدرت نہیں ہو گی“، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہاں پہنچ کر میری خوشی بڑھ گئی (تین مرتبہ فرمایا) مدینہ ہی طیبہ ہے اور اللہ نے میرے حرم میں داخل ہونا دجال پر حرام قرار دے رکھا ہے“، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قسم کھا کر فرمایا: ”اس ذات کی قسم جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں، مدینہ کا کوئی تنگ یا کشادہ، وادی اور پہاڑ ایسا نہیں ہے جس پر قیامت تک کے لئے تلوار سونتا ہوا فرشتہ مقرر نہ ہو، دجال اس شہر میں داخل ہونے کی طاقت نہیں رکھتا۔ عامر کہتے ہیں کہ پھر میں محرر بن ابی ہریرہ رحمہ اللہ سے ملا اور ان سے حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کی یہ حدیث بیان کی تو انہوں نے کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ میرے والد صاحب نے مجھے یہ حدیث اسی طرح سنائی تھی جس طرح حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے آپ کوئی سنائی ہے البتہ والد صاحب نے بتایا تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”وہ مشرق کی جانب ہے۔“ پھر میں قاسم بن محمد رحمہ اللہ سے ملا اور ان سے یہ حدیث فاطمہ ذکر کی انہوں نے فرمایا: میں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے مجھے بھی یہ حدیث اسی طرح سنائی تھی جیسے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے آپ کو سنائی ہے، البتہ انہوں نے یہ فرمایا تھا کہ دونوں حرم یعنی مکہ اور مدینہ دجال پر حرام ہوں گے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، م: 2942، وهذا اسناد ضعيف لضعف مجالد بن سعيد، وقد توبع