صحيح مسلم
كِتَاب الْإِيمَانِ
ایمان کے احکام و مسائل
84. باب أَدْنَى أَهْلِ الْجَنَّةِ مَنْزِلَةً فِيهَا:
باب: جنتوں میں سب سے کم تر درجہ والے کا بیان۔
حدیث نمبر: 481
وحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ الْقَعْقَاعِ ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: وُضِعَتْ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَصْعَةٌ مِنْ ثَرِيدٍ وَلَحْمٍ، فَتَنَاوَلَ الذِّرَاعَ، وَكَانَتْ أَحَبَّ الشَّاةِ إِلَيْهِ، فَنَهَسَ نَهْسَةً، فَقَالَ: " أَنَا سَيِّدُ النَّاسِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، ثُمَّ نَهَسَ أُخْرَى، فَقَالَ: أَنَا سَيِّدُ النَّاسِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَلَمَّا رَأَى أَصْحَابَهُ لَا يَسْأَلُونَهُ، قَالَ: أَلَا تَقُولُونَ كَيْفَهْ؟ قَالُوا: كَيْفَهْ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ "، وَسَاقَ الْحَدِيثَ بِمَعْنَى حَدِيثِ أَبِي حَيَّانَ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ وَزَادَ فِي قِصَّةِ إِبْرَاهِيمَ، فَقَالَ: وَذَكَرَ قَوْلَهُ: فِي الْكَوْكَبِ هَذَا رَبِّي سورة الأنعام آية 76، وقَوْله لِآلِهَتِهِمْ: بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هَذَا سورة الأنبياء آية 63، وقَوْله: إِنِّي سَقِيمٌ سورة الصافات آية 89، قَالَ: وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، إِنَّ مَا بَيْنَ الْمِصْرَاعَيْنِ مِنْ مَصَارِيعِ الْجَنَّةِ إِلَى عِضَادَتَيِ الْبَابِ لَكَمَا بَيْنَ مَكَّةَ وَهَجَرٍ، أَوْ هَجَرٍ وَمَكَّةَ، قَالَ: لَا أَدْرِي أَيَّ ذَلِكَ، قَالَ.
ایک دوسرے سند سے) عمارہ بن قعقاع نے ابو زرعہ سے، انہوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ثرید اور گوشت کا پیالہ رکھا گیا، آپ نے دستی اٹھائی، آپ کو بکری (کے گوشت) میں سب سے زیادہ یہی حصہ پسند تھا، آپ نےاس میں سے ایک بار اپنے داندان مبارک سے تناول کیا اور فرمایا: ”میں قیامت کےدن تمام لوگوں کاسردار ہوں گا۔“ پھر دوبارہ تناول کیا اور فرمایا: ”میں قیامت کے روز تمام انسانوں کا سردار ہوں گا۔“ جب آپ نے دیکھا کہ آپ کے ساتھی (اس کے بارےمیں) آپ سے کچھ نہیں پوچھ رہے تو آپ نے فرمایا: ” تم پوچھتے کیوں نہیں کہ یہ کیسے ہو گا؟ انہوں نے پوچھا: یہ کیسے ہو گا؟ اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: ”لوگ رب العالمین کے سامنےکھڑے ہو ں گے.....“ (عمارہ نے بھی) ابوزرعہ کے حوالے سے ابو حیان کی بیان کردہ حدیث کی طرح بیان کی اور ابراہیم رضی اللہ عنہ کے واقعے میں یہ اضافہ کیا: (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے) فرمایا: ابراہیم رضی اللہ عنہ نےستارے کے بارے میں اپنا قول: ”یہ میرا رب ہے“ اور ان کے معبودوں کے بارے میں یہ کہنا: ” بلکہ یہ کام ان کے بڑے نے کیا ہے“ اور یہ کہنا: ”میں بیمار ہوں“ یاد کیا۔ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے) فرمایا: ”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے! چوکھٹ کےدونوں بازؤں تک جنت کے کواڑوں میں سے (ہر) دو کواڑوں کے درمیان: اتنا فاصلہ ہے کہ جتنا مکہ اور ہجر کے درمیان، یا (فرمایا) ہجر اور مکہ کےدرمیان ہے۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے ثرید اور گوشت کا پیالہ رکھا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دستی کو اٹھا لیا اور آپ کو بکری کے گوشت سے سب سے زیادہ یہی حصہ پسند تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے ایک دفعہ دانتوں سے نوچا اور فرمایا: ”میں قیامت کے دن تمام لوگوں کا سردار ہوں گا۔“ پھر دوبارہ گوشت نوچا اور فرمایا: ”میں قیامت کے روز تمام انسانوں کا سردار ہوں گا۔“ جب آپ نے دیکھا، آپ کے ساتھی اس کا سبب نہیں پوچھ رہے تو آپ نے فرمایا: ”تم کیوں نہیں پوچھتے یہ کیوں ہو گا؟“ انھوں نے پوچھا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اس کا سبب کیا ہو گا؟ آپ نے فرمایا: ”لوگ اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑے ہوں گے۔“ عمارہ نے بھی حدیث مذکورہ بالا سند سے ابو حیان نے ابو زرعہ کی حدیث کی طرح بیان کی اور ابراہیم ؑ کے واقعہ میں یہ اضافہ کیا: ”کہ ابراہیم ؑ نے کہا: میں نے کواکب (ستاروں) کے بارے میں کہا: ﴿هَـٰذَا رَبِّي﴾ ”یہ میرا رب ہے“ اور ان کے معبودوں کے بارے میں کہا: ”بلکہ یہ کام ان کے بڑے نے کیا ہے“ اور کہا: ”میں بیمار ہوں۔“ اور رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے اس کی قسم! جنت کے دروازوں کے دونوں پٹوں کا فاصلہ چوکھٹ تک اتنا ہے جتنا مکہ اور ہجر کے درمیان، یا ہجر اور مکہ کے درمیان کا فاصلہ۔“ مجھے یاد نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے کس شہر کا نام لیا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (14914)»
صحیح مسلم کی حدیث نمبر 481 کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 481
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
:
عِضَادَتَيِ الْبَابِ:
دروازے کی چوکھٹ،
اطراف،
جوانب کی لکڑیاں۔
فوائد ومسائل:
(1)
حضرت ابراہیم ؑ کاستاروں،
چاند اورسورج کو ﴿هَـٰذَا رَبِّي﴾ کہنا،
یا تو استفہام انکاری کے لہجہ میں تھا،
کہ کیا یہ غروب ہونے والےمیرا رب ہوسکتےہیں؟ یا بطور استہزاء وتبکیت کے،
کہ تمہارے عقیدہ اورنظریہ کے مطابق یہ میرا رب ہے،
جس طرح قرآن مجید ﴿ذُقْ إِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْكَرِيمُ﴾ ”چکھ تو ہی ہے بڑا عزت والا،
شریف ہے“ یعنی:
تو اپنے آپ کو بڑا عزت والا سردارسمجھتا تھا،
یا قرآن مجیدمعبودان باطلہ کو ان کے ماننے والوں کےنظریہ کےمطابق آلہہ کانام دیتاہے۔
یا استدراج کے لیے ہیں،
کہ آہستہ آہستہ ان کوایسی گرفت میں لیاجائے،
کہ اس سے نکل نہ سکیں اوراعتراف حقیقت کے بغیر ان کےپاس کوئی چارہ نہ رہے،
جیساکہ سورۂ انبیاءمیں ان کااعتراف موجودہے ﴿فَرَجَعُوا إِلَىٰ أَنفُسِهِمْ فَقَالُوا إِنَّكُمْ أَنتُمُ الظَّالِمُونَ﴾ ”تو وہ اپنے دلوں کی طرف لوٹے اور کہنے لگے آگے:
یقینا تم خود ہی ظالم ہو۔
“ (2)
بتوں کے پاش پاش کرنے کے بارےمیں کہا:
”بلکہ ان کےبڑے نے کیا ہے۔
“ اس میں درحقیقت اشتہارلکھتاہے،
اس میں درحقیقت جس چیز کی بظاہر نفی کی ہے،
اس کا بظاہر اثبات مقصود ہے،
جیسا کہ انسان خوش نویس ہے،
وہ ایک بہت خوبصورت اشتہار لکھتا ہے،
اس کا ایک جاہل دوست پوچھتاہے:
کیا یہ اشتہار تو نے لکھا ہے؟ تو وہ آگےسے جواب دیتاہے:
نہیں جناب! یہ تو آپ نے لکھاہے۔
حضرت ابراہیمؑ کا مقصود تھا:
کہ یہ توتمہیں معلوم ہی ہے،
یہ کام یہ بت نہیں کرسکتے،
تو پھرمیرے سوا یہ کام کس نے کیا ہے؟ یعنی جن کوتم نفع ونقصان کامالک سمجھتےہو،
یہ اپناتحفظ بھی نہیں کرسکتے،
اورجس نے ان کو پاش پاش کیا ہے،
اس کی نشاہدہی نہیں کرسکتے،
تویہ تمہارےمعبودکیسےبن گئے؟ (3)
آپؑ نے اپنی قوم کے تہوارمیں شرکت سے بچنے اور ان کی عدم موجودگی سے فائدہ اٹھانے کے لیے فرمایا:
﴿إِنِّي سَقِيمٌ﴾ ”میں بیمارہوں“ سقم:
مزاج کے اعتدال سے ہٹ جانےکوکہتےہیں۔
آپ قوم کی بت پرستی کی وجہ سےفکرمند اور پر یشان تھے،
اس کو سقم سےتعبیرکیا،
یا یہ مقصدتھا کہ میں تمہارے ساتھ چلا گیا تو تمہاری حرکات قبیحہ کو دیکھ کربیمارہوجاؤں گا۔
جیساکہ قرآن مجیدمیں ہے:
﴿إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُم مَّيِّتُونَ﴾ (الزُّمر: 30)
”تمہیں بھی مرنا ہے اور انہیں بھی مرناہے۔
“ یہ مطلب تو نہیں ہے،
تم اور وہ اب مرےہوئےہیں۔
اس لیے آپ نے توریہ وتعریض سے کام لیا،
اورلوگوں نےسمجھا،
آپؑ فی الحال بیمارہیں (جسمانی اورظاہری اعتبارسے)
۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 481