Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح مسلم
كِتَاب الْإِيمَانِ
ایمان کے احکام و مسائل
84. باب أَدْنَى أَهْلِ الْجَنَّةِ مَنْزِلَةً فِيهَا:
باب: جنتوں میں سب سے کم تر درجہ والے کا بیان۔
حدیث نمبر: 480
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، ومُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ وَاتَّفَقَا فِي سِيَاقِ الْحَدِيثِ، إِلَّا مَا يَزِيدُ أَحَدُهُمَا مِنَ الْحَرْفِ بَعْدَ الْحَرْفِ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو حَيَّانَ ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: " أُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا بِلَحْمٍ، فَرُفِعَ إِلَيْهِ الذِّرَاعُ، وَكَانَتْ تُعْجِبُهُ، فَنَهَسَ مِنْهَا نَهْسَةً، فَقَالَ: أَنَا سَيِّدُ النَّاسِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَهَلْ تَدْرُونَ بِمَ ذَاكَ يَجْمَعُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ الأَوَّلِينَ وَالآخِرِينَ فِي صَعِيدٍ وَاحِدٍ؟ فَيُسْمِعُهُمُ الدَّاعِي، وَيَنْفُذُهُمُ الْبَصَرُ، وَتَدْنُو الشَّمْسُ، فَيَبْلُغُ النَّاسَ مِنَ الْغَمِّ وَالْكَرْبِ مَا لَا يُطِيقُونَ، وَمَا لَا يَحْتَمِلُونَ، فَيَقُولُ بَعْضُ النَّاسِ لِبَعْضٍ: أَلَا تَرَوْنَ مَا أَنْتُمْ فِيهِ، أَلَا تَرَوْنَ مَا قَدْ بَلَغَكُمْ، أَلَا تَنْظُرُونَ مَنْ يَشْفَعُ لَكُمْ إِلَى رَبِّكُمْ؟، فَيَقُولُ بَعْضُ النَّاسِ لِبَعْضٍ: ائْتُوا آدَمَ، فَيَأْتُونَ آدَمَ، فَيَقُولُونَ: يَا آدَمُ، أَنْتَ أَبُو الْبَشَرِ، خَلَقَكَ اللَّهُ بِيَدِهِ وَنَفَخَ فِيكَ مِنْ رُوحِهِ، وَأَمَرَ الْمَلَائِكَةَ فَسَجَدُوا لَكَ، اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، أَلَا تَرَى إِلَى مَا نَحْنُ فِيهِ، أَلَا تَرَى إِلَى مَا قَدْ بَلَغَنَا، فَيَقُولُ آدَمُ: إِنَّ رَبِّي غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا، لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ، وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ، وَإِنَّهُ نَهَانِي عَنِ الشَّجَرَةِ فَعَصَيْتُهُ، نَفْسِي، نَفْسِي، اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي، اذْهَبُوا إِلَى نُوحٍ، فَيَأْتُونَ نُوحًا، فَيَقُولُونَ: يَا نُوحُ، أَنْتَ أَوَّلُ الرُّسُلِ إِلَى الأَرْضِ، وَسَمَّاكَ اللَّهُ عَبْدًا شَكُورًا، اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، أَلَا تَرَى مَا نَحْنُ فِيهِ، أَلَا تَرَى مَا قَدْ بَلَغَنَا، فَيَقُولُ لَهُمْ: إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا، لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ، وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ، وَإِنَّهُ قَدْ كَانَتْ لِي دَعْوَةٌ، دَعَوْتُ بِهَا عَلَى قَوْمِي، نَفْسِي، نَفْسِي، اذْهَبُوا إِلَى إِبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ السَّلامُ، فَيَأْتُونَ إِبْرَاهِيمَ، فَيَقُولُونَ: أَنْتَ نَبِيُّ اللَّهِ وَخَلِيلُهُ مِنْ أَهْلِ الأَرْضِ، اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، أَلَا تَرَى إِلَى مَا نَحْنُ فِيهِ، أَلَا تَرَى إِلَى مَا قَدْ بَلَغَنَا، فَيَقُولُ لَهُمْ إِبْرَاهِيمُ: إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا، لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ، وَلَا يَغْضَبُ بَعْدَهُ مِثْلَهُ، وَذَكَرَ كَذَبَاتِهِ، نَفْسِي، نَفْسِي، اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي، اذْهَبُوا إِلَى مُوسَى، فَيَأْتُونَ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلامُ، فَيَقُولُونَ: يَا مُوسَى، أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ، فَضَّلَكَ اللَّهُ بِرِسَالَاتِهِ وَبِتَكْلِيمِهِ عَلَى النَّاسِ، اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، أَلَا تَرَى إِلَى مَا نَحْنُ فِيهِ، أَلَا تَرَى مَا قَدْ بَلَغَنَا، فَيَقُولُ لَهُمْ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلامُ: إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا، لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ، وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ، وَإِنِّي قَتَلْتُ: نَفْسًا لَمْ أُومَرْ بِقَتْلِهَا، نَفْسِي، نَفْسِي، اذْهَبُوا إِلَى عِيسَى عَلَيْهِ السَّلامُ، فَيَأْتُونَ عِيسَى، فَيَقُولُونَ: يَا عِيسَى، أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ وَكَلَّمْتَ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ، وَكَلِمَةٌ مِنْهُ أَلْقَاهَا إِلَى مَرْيَمَ وَرُوحٌ مِنْهُ، فَاشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، أَلَا تَرَى مَا نَحْنُ فِيهِ، أَلَا تَرَى مَا قَدْ بَلَغَنَا، فَيَقُولُ لَهُمْ عِيسَى عَلَيْهِ السَّلامُ: إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا، لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ، وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ، وَلَمْ يَذْكُرْ لَهُ ذَنْبًا، نَفْسِي، نَفْسِي، اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي، اذْهَبُوا إِلَى مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيَأْتُونِّي، فَيَقُولُونَ: يَا مُحَمَّدُ، أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ، وَخَاتَمُ الأَنْبِيَاءِ، وَغَفَرَ اللَّهُ لَكَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ، اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، أَلَا تَرَى مَا نَحْنُ فِيهِ، أَلَا تَرَى مَا قَدْ بَلَغَنَا، فَأَنْطَلِقُ، فَآتِي تَحْتَ الْعَرْشِ فَأَقَعُ سَاجِدًا لِرَبِّي، ثُمَّ يَفْتَحُ اللَّهُ عَلَيَّ وَيُلْهِمُنِي مِنْ مَحَامِدِهِ وَحُسْنِ الثَّنَاءِ عَلَيْهِ شَيْئًا، لَمْ يَفْتَحْهُ لِأَحَدٍ قَبْلِي، ثُمَّ يُقَالُ: يَا مُحَمَّدُ، ارْفَعْ رَأْسَكَ، سَلْ تُعْطَهْ، اشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَأَرْفَعُ رَأْسِي، فَأَقُولُ: يَا رَبِّ، أُمَّتِي، أُمَّتِي، فَيُقَالُ: يَا مُحَمَّدُ، أَدْخِلِ الْجَنَّةَ مِنْ أُمَّتِكَ مَنْ لَا حِسَابَ عَلَيْهِ مِنَ البَابِ الأَيْمَنِ مِنَ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ، وَهُمْ شُرَكَاءُ النَّاسِ فِيمَا سِوَى ذَلِكَ مِنَ الأَبْوَابِ، وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، إِنَّ مَا بَيْنَ الْمِصْرَاعَيْنِ مِنْ مَصَارِيعِ الْجَنَّةِ لَكَمَا بَيْنَ مَكَّةَ وَهَجَرٍ، أَوْ كَمَا بَيْنَ مَكَّةَ وَبُصْرَى "،
ابو حیان نے ابو زرعہ سے اور انہوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نےکہا: ایک دن رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گوشت لایا گیا اور دستی اٹھا کر آپ کو پیش کی گئی کیونکہ آپ آپ کو مرغوب تھی، آپ نے اپنےدندان مبارک سے ایک بار اس میں سے تناول کیا اور فرمایا: میں قیامت کے دن تمام انسانوں کا سردار ہوں گا۔ کیا تم جانتے ہو یہ کیسے ہو گا؟ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تمام اگلون اور پچھلوں کو ایک ہموار چٹیل میدان میں جمع کرے گا۔ بلانے والا سب کو اپنی آواز سنائے گا اور (اللہ کی) نظر سب کے آر پار (سب کو دیکھ رہی) ہو گی۔ سورج قریب ہو جائے گا اور لوگوں کو اس قدر غم اور کرب لاحق ہو گا جوان کی طاقت سے زیادہ اور ناقابل برداشت ہو گا۔ لوگ ایک دوسرے کہیں گے: کیا دیکھتے نہیں تم کس حالت میں ہو؟ کیا دیکھتے نہیں تم پر کیسی مصیبت آن پڑی ہے؟ کیا تم کوئی ا یسا شخص تلاش نہیں کرتے جو تمہاری سفارش کردے؟ یعنی تمہارے رب کے حضور۔چنانچہ لوگ ایک دوسرے سے کہیں گے: آدم رضی اللہ عنہ کے پاس چلو تو وہ آدم رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے: اے آدم! آپ سب انسانوں کے والد ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے بنایا اور آپ میں اپنی (طرف سے) روح پھونکی اور فرشتوں کو حکم دیا تو انہوں نے آپ کو سجدہ کیا۔ آپ اپنے رب کے حضور ہماری سفارش فرمائیں۔ آپ دیکھتے نہیں ہم کس حال میں ہیں؟ کیا آپ دیکھتے نہیں ہم پر کیسی مصیبت آن پڑی ہے؟ آدم رضی اللہ عنہ جواب دیں گے: میرا رب آج اتنے غصے میں ہے جتنے غصے میں اسے سے پہلے کبھی نہیں آیا اور نہ اس کے بعد کبھی آئے گا اور یقیناً اس نے مجھے ایک خاص درخت (کےقریب جانے) سے روکا تھا لیکن میں نے اس کی نافرمانی کی تھی، مجھے اپنی جان کی فکر ہے، مجھے اپنی جان بچانی ہے۔تم کسی اور کے پاس جاؤ، نوح رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤ۔ لوگ نوح رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے: اے نوح! آپ (اہل) زمین کی طرف سے بھیجے گئے سب سے پہلے رسول ہیں اور ا للہ تعالیٰ نے آپ کو شکر گزار بندے کا نام دیا ہے۔ آپ دیکھتے نہیں ہم کس حال میں ہیں؟ آپ دیکھتے نہیں ہم پر کیا مصیبت آن پڑی ہے؟ وہ انہیں جوا ب دیں گے: آج میرا رب اتنے غصے میں ہے جتنے غصے میں نہ وہ اس سے پہلے کبھی آیا نہ آیندہ کبھی آئے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ میرے لیے ایک دعا (خاص کی گئی) تھی وہ میں نے اپنی قوم کےخلاف مانگ لی۔ (آج تو) میری اپنی جان (پر بنی) ہے۔ مجھے اپنی جان (کی فکر) ہے۔ تم ابراہیم رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤ، چنانچہ لوگ ابراہیم رضی اللہ عنہ کے پاس حاضر ہوں گے اور عرض گزار ہوں گے: آپ اللہ کے نبی اور اہل زمین میں سے اس کے خلیل (صرف اس کے دوست) ہیں، اپنے رب کے حضور ہماری سفارش فرمائیں، آپ دیکھتے نہیں ہم کس حال میں ہیں؟ کیا آپ دیکھتے نہیں ہم پر کیا مصیبت آن پڑی ہے؟ تو ابراہیم رضی اللہ عنہ ان سے کہیں گے: میرارب اس قدر غصے میں ہے کہ اس سے پہلے کبھی اتنے غصے میں نہیں آیا اور نہ آیندہ کبھی آئے گا اور اپنے (تین) جھوٹ یاد کریں گے، (اور کہیں) مجھے اپنی جان کی فکر ہے، مجھے تو اپنی جان کی بچانی ہے۔ کسی اورکے پاس جاؤ، موسیٰ رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤ۔ لوگ موسیٰ رضی اللہ عنہ کے خدمت میں حاضر ہوں گے اورعرض کریں گے: اے موسیٰ!آپ اللہ کےرسول ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے پیغام اور اپنی ہم کلامی کے ذریعے سے فضیلت عطا کی، اللہ کے حضور ہمارے لیے سفارش کیجیے، آپ دیکھتے نہیں ہم کس حال میں ہیں؟ آپ دیکھتے نہیں ہم پر کیا مصیبت آن پڑی ہے؟ موسیٰ رضی اللہ عنہ ان سے کہیں گے: میرا ب آج اس قدر غصے میں ہے کہ نہ اس سے پہلے کبھی اس قدر غصے میں آیا اور نہ اس کے بعد آئے گا۔ میں ایک جان کو قتل کر چکا ہوں جس کے قتل کا مجھے حکم نہ دیا گیا تھا۔ میری جان (کا کیا ہو گا) میری جان (کیسے بچے گی؟) عیسیٰ رضی اللہ عنہ کے پا س جاؤ۔ لوگ عیسیٰ رضی اللہ عنہ کے پاس آئیں گے اور عرض کریں گے: اے عیسیٰ! آپ اللہ کا کلمہ ہیں جسے اس نے مریم رضی اللہ عنہ کی طرف القاء کیا اور اس کی روح ہیں، اس لیے آپ اپنے رب کے حضور ہماری سفارش فرمائیں، آپ ہماری حالت نہیں دیکھتے جس میں ہم ہیں؟ کیا آپ نہیں دیکھتے ہم پر کیسی مصیبت آن پڑی ہے؟ تو عیسیٰ رضی اللہ عنہ انہیں جواب دیں گے: میرا رب اتنے غصے میں ہے جتنے غصےمیں نہ وہ اس سے پہلے آیا اور نہ آیندہ کبھی آئے گا، وہ اپنی کسی خطا کا ذکر نہیں کریں گے، (کہیں گے مجھے) اپنی جان کی فکر ہے، مجھے اپنی جان بچانی ہے۔ میرے سوا کسی اور کے پاس جاؤ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ۔ لوگ میرے پاس ےئین گآ اور کہیں گے: اے محمد! آپ اللہ کے رسول اور آخری نبی ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلے پچھلے تمام گناہ (اگر ہوتے تو بھی) معاف کر دیے، اپنے رب کےحضور ہماری سفارش فرمائیں، آپ دیکھتے نہیں ہم کس حال میں ہیں؟ آپ دیکھتے نہیں ہم کیا مصیبت آن پڑی ہے؟ تو میں چل پڑوں گا اور عرش کے نیچے آؤں گا اور اپنے رب کے حضور سجدے میں گر جاؤں گا، پھر اللہ تعالیٰ مجھ پر اپنی ایسی تعریفوں اوراپنی ایسی بہترین ثنا (کے دروازے) کھول دے گا اور انہیں میرے دل میں ڈالے گا جو مجھ سے پہلے کسی کے لیے نہیں کھولے گئے، پھر (اللہ) فرمائےگا: اے محمد! اپنا سر اٹھائیے، مانگیے، آپ کو ملے گا، سفارش کیجیے، آپ کی سفارش قبول ہو گی۔ تو میں سر اٹھاؤں گا اور عرض کروں گا: اےمیرے رب! میری امت! میری امت! توکہا جائے گا: اے محمد! آپ کی امت کے جن لوگوں کا حساب و کتاب نہیں ان کو جنت کے دروازے میں سے دائیں دروازے سے داخل کر دیجیے اور وہ جنت کے باقی دروازوں میں (بھی) لوگوں کے ساتھ شریک ہیں۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! جنت کے دو کواڑوں کے درمیان اتنا (فاصلہ) ہے جتنامکہ اور (شہر بجر) یا مکہ اور بصری کے درمیان ہے۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گوشت لایا گیا اور آپ کو دستی کا گوشت پیش کیا گیا، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دستی مرغوب تھی۔ آپ نے اس سے دانتوں سے ایک دفعہ گوشت کاٹا اور فرمایا: قیامت کے دن میں تمام انسانوں کا سردار ہوں گا، اور کیا تم جانتے ہو یہ کیسے ہوگا؟ اللہ عز و جل قیامت کے دن تمام پہلوں اور پچھلوں کو ایک کھلے ہموارمیدان میں جمع کرے گا۔ منادی کی آواز سب کو سنائی دے گی اور دیکھنے والے کی نظر سب پر پڑے گی۔ آفتاب قریب ہو جائے گا اور لوگوں کو اس قدر غم اور مصیبت پہنچے گی جو ان کے لیے ناقابلِ برداشت ہو گی۔ جس کو وہ برداشت نہیں کر سکیں گے، تو لوگ ایک دوسرے کو کہیں گے: کیا تم دیکھ نہیں رہے ہو، تم کس حالت میں ہو؟ تمھیں کس قدر پریشانی اٹھانی پڑ رہی ہے؟ کیا تم کسی کو تلاش نہیں کرو گے؟ جو تمھارے رب کے حضور تمھاری سفارش کرے؟ تو لوگ ایک دوسرے کو کہیں گے آدم ؑ کے پاس چلو۔ پھر وہ آدم ؑ کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے اے آدم! آپ تمام انسانوں کے باپ ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے دستِ مبارک سے بنایا ہے، اور آپ میں اپنی خصوصی روح پھونکی، فرشتوں کو حکم دیا، تو وہ آپ کے حضور جھک گئے۔ آپ اپنے رب کے حضور ہماری سفارش فرمائیں! کیا آپ دیکھ نہیں رہے ہیں، ہم کس قدر پریشان ہیں؟ آپ دیکھ نہیں رہے ہمیں کس قدر مصیبت پہنچ چکی ہے؟ تو آدمؑ جواب دیں گے: یقیناً میرا رب آج اس قدر ناراض ہے، کہ اس سے پہلے کبھی اس قدر ناراض نہیں ہوا اور نہ ہی اس کے بعد اس قدر ناراض ہو گا۔ واقعہ یہ ہے کہ اس نے مجھے درخت سے روکا تھا، لیکن میں نے اس کی نافرمانی کی۔ آج مجھے تو اپنی ہی فکر ہے، تم میرے سوا کسی اور کے پاس جاؤ، نوح ؑ کے پاس جاؤ! تو لوگ نوح ؑ کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے: اے نوحؑ! آپ اہلِ زمیں کی طرف سب سے پہلے رسول ہیں، اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو شکر گزار بندہ کا نام دیا ہے۔ آپ اپنے رب کے حضور ہماری سفارش فرمائیں کیا! آپ دیکھ نہیں رہے ہیں ہم کس قدر پریشانی میں ہیں؟ کیا آپ دیکھ نہیں رہے ہیں ہمیں کس قدر مصیبت پہنچ چکی ہے؟ تو وہ انھیں جواب دیں گے: آج میرا رب اس قدر غصے میں ہے کہ اتنا کبھی اس سے پہلےغصہ میں نہیں آیا، نہ ہی اس کے بعد کبھی اس قدر غصے میں آئے گا۔ صورتِ حال یہ ہے، کہ مجھے ایک دعا کرنے کا حق حاصل تھا وہ میں نے اپنی قوم کےخلاف کر لی، آج تو مجھے اپنی فکر دامن گیر ہے۔ ابراہیم ؑ کے پاس جاؤ! تو لوگ ابراہیم ؑ کے پاس آئیں گے اور عرض گزار ہوں گے: آپ اللہ کے نبی اور اہلِ زمین میں سے اس کے خلیل ہیں، ہمارے لیے اپنے رب کے حضور سفارش فرمائیں! کیا آپ ہماری حالت دیکھ نہیں رہے ہیں؟ کیا ہم جس قدر تکلیف میں مبتلا ہیں وہ آپ کو نظر نہیں آ رہی؟ تو ابراہیم ؑ انھیں کہیں گے: میرا رب آج اس قدر غضب ناک ہے کہ اس قدر اس سے پہلے غضبناک نہیں ہوا اور نہ آئندہ ہوگا، اور اپنے توریوں کا تذکرہ کریں گے، مجھے تو اپنی ہی فکر دامن گیر ہے، میرے سوا کسی اور کے پاس جاؤ، موسیٰؑ کے پاس جاؤ! تو لوگ موسیٰؑ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کریں گے: اے موسیٰ! آپ اللہ کے رسول ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے پیغامات اور ہم کلامی کی لوگوں پر فضیلت بخشی ہے۔ ہماری خاطر اللہ کے حضور سفارش کیجیے۔ کیا آپ ہماری بے بسی کو نہیں دیکھ رہے؟ کیا ہم جس قدر تکلیف میں مبتلا ہیں، آپ اس کا ملاحظہ نہیں کر رہے؟ تو موسیٰؑ ؑ ان کو کہیں گے: میرا رب آج اس قدر غصہ میں ہے کہ اس سے پہلے اس قدر غضبناک نہیں ہوا، اور نہ ہی اس کے بعد اس قدر ناراض ہوگا، اور میں ایک جان کو قتل کر چکا ہوں، جس کے قتل کی مجھے اجازت نہ تھی۔ مجھے تو اپنی ہی فکر لاحق ہے، عیسیٰؑ کے پاس چلے جاؤ! لوگ عیسیٰ ؑ کے پاس آ کر عرض کریں گے: اے عیسیٰؑ! آپ اللہ کے رسول ہیں، اور آپ نے لوگوں سے پنگھوڑے میں گفتگو کی، آپ اللہ کا کلمہ ہیں، جس کا اس نے مریمؑ کی طرف القاء کیا، اور اس کی روح ہیں، اس لیے اپنے رب کے حضور ہماری سفارش فرمائیں! کیا آپ ہماری حالت کو نہیں دیکھ رہے؟ کیا آپ نہیں دیکھ رہے، ہم کس قدر مصائب میں مبتلا ہیں؟ تو عیسیٰؑ انھیں جواب دیں گے: میرا رب آج اس قدر غصہ میں ہے کہ اس سے پہلے کبھی اس قدر غصے میں نہیں ہوا، نہ اس کے بعد اس قدر غصے میں ہو گا۔ (وہ) اپنی کسی خطا کا ذکر نہیں کریں گے، مجھے اپنی ہی فکر ہے،میرے سوا کسی کے پاس جاؤ! محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ! تو لوگ میرے پاس آکر کہیں گے: اے محمدؐ! آپ اللہ کے رسول اور آخری نبی ہیں اور اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلے پچھلے تمام گناہ معاف کر دیے ہیں، اپنے رب کے حضور ہماری سفارش فرمائیں۔ کیا آپ ہماری حالت نہیں دیکھ رہے؟ کیا آپ دیکھ نہیں رہے ہم کس قدر تکلیف میں مبتلا ہیں؟ تو میں چلوں گا اور عرش کے نیچے آ کر اپنے رب کے حضور سجدہ میں گر جاؤں گا۔ پھر اللہ تعالیٰ مجھ پر اپنے محامد اور بہترین ثناء کا اظہار فرمائے گا، اور میرے دل میں ڈالے گا، مجھ سے پہلے کسی کو ان سے آگاہ نہیں کیا، پھر کہا جائے گا: اے محمد! اپنا سر اٹھا! مانگ! تمھیں ملے گا، سفارش کیجیے! تیری سفارش قبول ہوگی۔ تو میں سر اٹھا کر عرض کروں گا: اے میرے رب! میری امت! میری امت! (یعنی میری امت کو بخش دے) تو کہا جائے گا: اے محمد(صلی اللہ علیہ وسلم )! اپنی امت کے ان لوگوں کو جن کا حساب و کتا ب نہیں، جنت کے دروازوں میں سے دائیں دروازے سے داخل کیجیے اور وہ جنت کے باقی دروازوں میں لوگوں کے ساتھ شریک ہیں۔ اس ذات کی قسم! جس کے قبضہ میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے، جنت کے دروازوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا فاصلہ مکہ اور ہجر یا مکہ اور بصریٰ کے درمیان ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في ((احاديث الانبياء)) باب يزفون النسلان فى المشي ببرعة (3361) وفي، باب: قول الله عز وجل: ﴿ لَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَىٰ قَوْمِهِ ﴾ برقم (3340) وفي التفسير، باب: ﴿ ذُرِّيَّةَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوحٍ ۚ إِنَّهُ كَانَ عَبْدًا شَكُورًا ﴾ برقم (4712) والترمذى في ((جامعه)) في الزهد، باب: ما جاء في الشافعة وقال: هذا حديث حسن صحيح، برقم (2434) وفي الاطعمة، باب: ما جاء فى اى اللحم كان احب الى رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم (1837) باختصار - وابن ماجه في ((سننه)) في الاطعمة، باب: اطايب اللحم - مختصراً برقم (3307) انظر ((التحفة)) برقم (14927)»

صحیح مسلم کی حدیث نمبر 480 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 480  
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
:
(1)
فَنَهَسَ:
دانت سے کاٹنا۔
(2)
صَعِيد:
کھلی اور ہموار زمین۔
(3)
يَنْفُذُهُمُ الْبَصَرُ:
نظر تمام انسانوں کا احاطہ کرے گی،
دیکھنے والے سے کوئی اوجھل نہیں ہو گا۔
(4)
مَصَارِيعٌ:
مِصْراعٌ کی جمع ہے،
دروازے کے پٹ۔
ہجر اور بصری:
دو قدیمی معروف شہر ہیں،
جن کے درمیان کافی مسافت ہے۔
فوائد ومسائل:
(1)
سید اس شخصیت کوکہتےہیں،
جو سب سے برتر اورفائق ہو،
اورگھبراہٹ وپریشانی میں لوگ اس کی پناہ میں آئیں۔
قیامت کوتمام انسان،
آدمؑ سےلےکر آخری فرد تک آپ کی جھنڈےتلےہوں گے،
اورآپ سےسفارش کےطالب ہوں گے،
اس لیے آپ ﷺ نےتحدیث نعمت کے طور پر فرمایا:
کہ میں قیامت کوتمام انسانوں کاسردارہوں گا۔
(2)
آپ ﷺنے دنیا میں اس بات کا اظہار فرمایاہے،
کہ شفاعت کبریٰ کا اہل میں ہوں اورکوئی رسول اس کام کےلیے آمادہ نہ ہوگا۔
قیامت کے روز آپ ﷺ کی پیشین گوئی کے مطابق لوگ تدریجاً آپ کےپاس پہنچیں گے،
آپ کی امت کاکوئی فردبھی یہ مشورہ نہ دے سکے گا،
کہ سفارش تو آخری رسول کی قبول ہونی ہے،
چلو اس کےپاس چلیں،
تا کہ عملاً آپ ﷺ کی فضیلت وبرتری کا سب انسانوں کےسامنےظہورہوسکے۔
(3)
انبیاءؑ کے بیان کردہ عذرمعاف ہوچکےہیں،
کیونکہ ان میں سےکسی سےقصور و کوتاہی شعوری طورپرسرزدنہیں ہوگی،
اس کےباوجود،
انہوں نے توبہ واستغفار کا ورد جاری رکھا،
لیکن قیامت کی وحشت اور ہولناکی کی بنا پر وہ ان معاف شدہ باتوں کویادکر کے سفارش کرنےسےمعذرت کااظہارفرمائیں گے۔
(4)
اللہ تعالیٰ صفتِ غضب سےمتصف ہے،
لیکن اس کی کیفیت کوبیان کرناممکن نہیں ہے،
اس لیےکسی قسم کی تاویل وتعطیل کی ضرورت نہیں ہے۔
(5)
اس حدیث میں حضرت ابراہیمؑ نےتین کذبات بولنے کی بنا پر سفارش سےمعذرت کا اظہارفرمایا ہے،
عربی زبان میں علامہ انباری کے بقول (کذب)
کالفظ پانچ معانی کےلیے استعمال ہوتاہے۔
علامہ انباری نے مثالیں بھی دی ہیں،
تفصیل کے لیے دیکھئے تاج العروس:
(1/449) (1)
جھوٹ۔
(2)
چوک جانا۔
(3)
آرزو اور امید کا خاک میں ملنا۔
(4)
کسی کو دھوکا میں رکھنا۔
(5)
توریہ وتعریض سے کام لینا۔
یعنی ایساقول جو بظاہر خلاف واقعہ نظر آتا ہے،
لیکن اگرغورو فکر سے کام لیا جائے،
تو وہ بالکل واقعہ کےمطابق ہوتا ہے۔
جن واقعات کوحضرت ابراہیمؑ نے کذبات سےتعبیرکیا ہے،
تو ان میں تینوں اقوال بظاہر خلافِ واقعہ نظرآتےہیں،
لیکن اگرغور کیا جائے تو وہ تینوں اقوال بالکل واقعہ کےمطابق ہیں،
یہ حضرت ابراہیمؑ کی شان کی رفعت وبلندی ہے،
کہ انہوں نے توریہ وتعریض کوبھی جو بالکل جائز اور درست ہے،
اپنی شان رفیع سے فروتر سمجھا،
اور ان کو کذب سےتعبیرکیا۔
(6)
احادیث صحیحہ میں شفاعت کبریٰ جو تمام انسانوں کے حساب وکتاب شروع کرنے کے لیے ہوگی،
کا تذکرہ موجودنہیں ہے،
بلکہ آپ کی امت کے گناہ گاروں کی سفارش کا ذکرہے،
اس کی وجہ یہ ہے کہ سفارش کبریٰ کا اسلام کا نام لیوا فرقوں میں سےکوئی فرقہ منکر نہیں ہے،
جبکہ گناہ گاروں کی سفارش کا خوارج اورمعتزلہ وغیرہما نے انکارکیا ہے،
اس لیے گناہ گاروں کی سفارش کےلیے احادیث کے بیان پر زور دیا گیا،
اورمتفقہ سفارش کے تذکرہ کونظر اندازکردیا گیا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 480   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 3340  
´شفاعت محمدیہ کا اثبات`
«. . . عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي دَعْوَةٍ فَرُفِعَ إِلَيْهِ الذِّرَاعُ وَكَانَتْ تُعْجِبُهُ فَنَهَسَ مِنْهَا نَهْسَةً، وَقَالَ: أَنَا سَيِّدُ الْقَوْمِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ . . .»
. . . ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ` ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک دعوت میں شریک تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دستی کا گوشت پیش کیا گیا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت مرغوب تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دستی کی ہڈی کا گوشت دانتوں سے نکال کر کھایا۔ پھر فرمایا کہ میں قیامت کے دن لوگوں کا سردار ہوں گا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ/بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: إِنَّا أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَى قَوْمِهِ...: 3340]
تخريج الحديث:
[120۔ البخاري فى: 65 كتاب التفسير: 17 سورة الإسراء: 5 باب ذرية من حملنا مع نوح 3340، مسلم 194]
لغوی توضیح:
«فَنَهَسَ» دانتوں سے نوچا۔
«صَعِيْد وَاحِد» ایک چٹیل میدان۔
فھم الحدیث: ان احادیث میں شفاعت محمدیہ کا اثبات ہے۔ روز قیامت جب تمام انبیاء اپنی اپنی لغزشوں کو یاد کر کے کانپ رہے ہوں گے اس وقت صرف اور صرف ہمارے پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی شفاعت کے لیے آگے بڑھیں گے۔ یہ چیز آپ کے تمام انبیاء سے افضل ہونے کی بھی دلیل ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت حاصل کرنے کے لیے یہ دعا پڑھنی چاہیے «اللّٰهُمَّ رَبَّ هٰذِهِ الدَّعْوَةِ التَّامَّةِ وَالصَّلَاةِ الْقَائِمَةِ آتِ مُحَمَّدًا الْوَسِيْلَةَ وَالْفَضِيْلَةَ وَابْعَثْهُ مَقَامًا مَّحْمُودًا الَّذِيْ وَعَدْتَّهُ» ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ جو بھی اذان سن کر یہ دعا پڑھے گا اسے میری شفاعت نصیب ہوگی۔ [بخاري: كتاب الأذان: باب الدعاء عند النداء 614]
جس روایت میں ہے کہ جس نے میری قبر کی زیارت کی اس کے لیے میری شفاعت واجب ہو گئی، وہ موضوع و من گھڑت ہے۔ [موضوع ارواء الغليل 4؍336 ضعيف الجامع الصغير 5607]
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 120   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2434  
´قیامت کے دن کی شفاعت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گوشت پیش کیا گیا، اس میں سے آپ کو دست کا گوشت دیا گیا جو کہ آپ کو بہت پسند تھا، اسے آپ نے نوچ نوچ کر کھایا، پھر فرمایا: قیامت کے دن میں لوگوں کا سردار رہوں گا، کیا تم لوگوں کو اس کی وجہ معلوم ہے؟ وہ اس لیے کہ اس دن اللہ تعالیٰ ایک ہموار کشادہ زمین پر اگلے پچھلے تمام لوگوں کو جمع کرے گا، جنہیں ایک پکارنے والا آواز دے گا اور انہیں ہر نگاہ والا دیکھ سکے گا، سورج ان سے بالکل قریب ہو گا جس سے لوگوں کا غم و کرب اس قدر بڑھ جائے گا جس کی نہ وہ طاقت رکھیں گے اور نہ ہی اسے برداشت کر س۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب صفة القيامة والرقائق والورع/حدیث: 2434]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس حدیث میں نبی اکرم ﷺ کی اس شفاعت کا بیان ہے جب سارے انبیاء اپنی اپنی بعض لغزشوں کے حوالے سے شفاعت کرنے سے معذرت کریں گے،
چونکہ انبیاء علیہم السلام ایمان و تقوی کے بلند مرتبے پر فائز ہوتے ہیں،
اس لیے ان کی معمولی غلطی بھی انہیں بڑی غلطی محسوس ہوتی ہے،
اسی وجہ سے وہ بار گاہ الٰہی میں پیش ہونے سے معذرت کریں گے،
لیکن نبی اکرم ﷺ اللہ کے حکم سے سفارش فرمائیں گے،
اس سے آپ ﷺ کی فضیلت ثابت ہوتی ہے،
آپ کی شفاعت مختلف مرحلوں میں ہوگی،
آپ اپنی امت کے حق میں شفاعت فرمائیں گے،
جو مختلف مرحلوں میں ہوگی،
اس حدیث میں پہلے مرحلہ کا ذکر ہے،
جس میں آپ کی شفاعت پر اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جنت میں لے جانے کی اجازت دے گا جن پر حساب نہیں ہوگا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2434   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7206  
حضرت مقداد بن اسود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا:"قیامت کے دن سورج مخلوق سے قریب کیا جائے گا، یہاں تک کہ وہ ان سے ایک میل کے بقدر جائے گا۔"سلیم بن عامر رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں،اللہ کی قسم! میں نہیں جانتا میل سے ان کی مراد کیا تھی کیا زمین کی مسافت یا وہ میل جس سے آنکھوں میں سرمہ ڈالا جاتا ہے آپ نے فرمایا:"لوگ اپنے اعمال کے بقدرپسینہ میں شرابورہوں گے(یعنی جس قدر اعمال زیادہ برے ہوں گے، اس... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:7206]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
قیامت میں پیش آنے والے ان واقعات و مناظر کی واقعی اور حقیقی صورت کا صحیح تصور اس دنیا میں مکمل طور پر نہیں کیا جاسکتا،
پورا انکشاف بس اس وقت ہوگا،
جب انسان حقائق سے دوچار ہوگا اور یہ مناظر اس کی آنکھوں کے سامنے آجائیں گے،
کیونکہ آخرت کے امورکودنیاپرقیاس نہیں کیا جاسکتا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 7206   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3361  
3361. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی ﷺ کی خدمت میں ایک مرتبہ گوشت پیش کیا گیا تو آپ نے فرمایااللہ تعالیٰ قیامت کے دن پہلے اور پچھلے لوگوں کو ایک ہمواراور وسیع میدان میں جمع کرے گا، اس طرح کہ پکارنے والا سب کو اپنی بات سنا سکے گا اور دیکھنے والا سب کو ایک ساتھ دیکھ سکے گا اور سورج لوگوں کے بالکل قریب ہوگا۔ پھر آپ نے پوری حدیث شفاعت کا ذکر کیا (اور فرمایا:) لوگ حضرت ابراہیم ؑ کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے کہ آپ روئے زمین پر اللہ کے نبی اور اس کے خلیل تھے، ہمارے لیے اپنے رب کے حضور سفارش کریں تو انھیں اپنی خلاف واقعہ باتیں یاد آجائیں گی تو وہ فرمائیں گے۔ آج تو مجھے اپنی فکر ہے تم لوگ حضرت موسیٰ ؑ کے پاس جاؤ۔ حضرت انس ؓ نے نبی ﷺ سے یہ حدیث بیان کرنے میں حضرت ابو ہریرہ ؓ کی متابعت کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3361]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے جاہل نادان مسلمانوں کی مذمت نکلی جو اپنے مصنوعی اماموں اور پیروں پر بھروسا کئے بیٹھے ہیں۔
کہ قیامت کے دن وہ ان کو بخشوالیں گے۔
مقلدین ائمہ اربعہ میں سے اکثر جہال کا یہی خیال ہے کہ ان کے امام ان کی بخشش کے ذمہ دار ہیں، ایسے ناقص خیالات سے ہر مسلمان کو بچنا بہت ضروری ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3361   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4712  
4712. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں گوشت لایا گیا اور دستی کا حصہ آپ کو پیش کیا گیا۔ چونکہ آپ کو دستی کا گوشت بہت پسند تھا، اس لیے آپ نے اسے دانتوں سے نوچ نوچ کر کھایا۔ پھر آپ نے فرمایا: قیامت کے دن میں لوگوں کا سردار ہوں گا۔ کیا تمہیں علم ہے کہ یہ کس وجہ سے ہو گا؟ اللہ تعالٰی تمام اگلے پچھلے لوگوں کو ایک چٹیل میدان میں جمع کر دے گا۔ اس دوران میں پکارنے والا سب کو اپنی آواز سنائے گا اور ان سب پر اس کی نظر پہنچے گی سورج بالکل قریب آ جائے گا، چنانچہ لوگوں کو غم اور تکلیف اس قدر ہوگی جو ان کی طاقت سے باہر اور ناقابل برداشت ہو گی۔ لوگ آپس میں کہیں گے: تم دیکھتے نہیں کہ ہماری کیا حالت ہو گئی ہے؟ کیا کوئی ایسا مقبول بندہ نہیں جو اللہ کے حضور تمہاری سفارش کرے؟ پھر وہ ایک دوسرے سے کہیں گے کہ حضرت آدم ؑ کے پاس جانا چاہئے، چنانچہ سب لوگ حضرت۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4712]
حدیث حاشیہ:
ایک روایت میں یوں ہے کہ عیسٰی فرمائیں گے عیسائی لوگوں نے مجھ کو خدا کا بیٹا بنا رکھا تھا میں ڈرتا ہوں پروردگار مجھ سے کہیں پوچھ نہ لے کہ تو اللہ یا اللہ کا بیٹا تھا؟ مجھے آج یہی غنیمت معلوم ہوتا ہے کہ میری مغفرت ہو جائے۔
حمیر سے صنعاء خیبر یمن کا پایئہ تخت مراد ہے بصرٰی سام کے ملک میں ہے۔
حدیث میں حضرت نوح ؑ کا ذکر ہے یہی باب سے مطابقت ہے۔
اس حدیث میں شفاعت کبریٰ کا ذکر ہے جس کا شرف سیدناو مولانا حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کو حاصل ہوگا۔
باب اور آیت میں مطابقت حضرت نوح کے ذکر سے ہے جہاں یا نوحُ إنكَ أولُ الرُسُلِ إلی أھل الأرض۔
الفاظ مذکور ہیں۔
حضرت آدمؑ کے بعد عام رسالت کا مقام حضرت نوح ؑ کو حاصل ہوا۔
آپ کو آدم ثانی بھی کہا گیا ہے۔
کیونکہ طوفان نوح کے بعد انسانی نسل کے مورث اعلیٰ صرف آپ ہی ہیں۔
آپ کے چار بیٹے ہوئے جن میں سام کی نسل سے عرب فارس ہند وغیرہ ہیں اور یافث کی نسل سے روس ترک چین جاپان وغیرہ ہیں اور ھام کی نسل سے حبش اور اکثر افریقہ والے اور نوح کی نسل سے رٹرز فرانس جرمن آسٹریلیا اٹالیا اور مصر و یونان وغیرہ ہیں۔
اسی حقیقت کے پیش نظرآپ کو اول الرسل کہا گیا ہے۔
ورنہ آپ سے پہلے اور بھی کئی نبی ہو چکے ہیں مگر وہ عام رسول نہیں تھے۔
روایت میں ابراہیم ؑ سے منسوب تین جھوٹ یہ ہیں۔
پہلا جبکہ بت پرستوں کے تہوار میں عدم شرکت کے لئے لفظ ﴿إني سَقِیم﴾ (الصافات: 89)
استعمال کئے اور بت شکنی کا معاملہ بڑے بت پر ڈالتے ہوئے کہا ﴿بَل فَعَلَهُ کَبیرُھُم ھَذَا﴾ (الأنبیاء: 63)
استعمال کئے اور بت شکنی کا معاملہ بڑے بت پر ڈالتے ہیں اور سارہ کو اپنی بہن کہا اگرچہ یہ ظاہر اً جھوٹ نظر آتے ہیں مگر حقیقت کے لحاظ سے یہ جھوٹ نہ تھے پھر یہ ذات باری غنی اور صمد سے ہے وہ معمولی کام پر بھی گرفت کر سکتا ہے۔
اسی لئے حضرت ابراہیم ؑ نے اس موقع پر اظہار معذرت فرمایا۔
(صلی اللہ علیهم أجمعین)
انی سقیم میں بیمار ہوں اسلئے میں تمہارے ساتھ تمہاری تقریب میں چلنے سے معذور ہوں۔
آپ بظاہر تندرست تھے۔
مگر آپ کے دل میں ان کی نازیبا حرکتوں کا سخت صدمہ تھا اور مسلسل صدمات سے انسان کی طبیعت ناساز ہونا بعید نہیں ہے۔
لہٰذا حضرت ابراہیم ؑ کا ایسا کہنا جھوٹ نہ تھا۔
بت شکنی کا معاملہ بڑے بت پر بطور استہزاء ڈالا تھا تاکہ مشرکین خود اپنی حماقت کا احساس کرسکیں۔
قرآن مجید کے بیان کا سیاق وسباق بتلا رہا ہے کہ حضرت ابراہیمؑ کا یہ کہنا صرف اس لئے تھا تاکہ مشرکین خوداپنی زبان سے اپنے معبودان باطلہ کی کمزوری کا اعتراف کر لیں چنانچہ انہوں نے کیا۔
جس پر حضرت ابراہیم ؑ نے ان سے کہا کہ اف لکم ولما تعبدون من دون اللہ صد افسوس تم پر اور تمہارے معبودان باطلہ پر جن کو تم کمزور کہتے ہو، معبود بنائے بیٹھے ہو۔
بیوی کو بہن کہنا دینی لحاظ سے تھا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا میں وہ ہی ایک عورت ذات تھی جو ایسے نازک وقت میں حضرت ابراہیم ؑ کے ہم مذہب تھیں۔
بہر حال یہ تنیوں امور بظاہر جھوٹ نظر آتے ہیں مگر حقیقت کے لحاظ سے جھوٹ بالکل نہیں ہیں اور انبیاء کرامؑ کی ذات اس سے بالکل بری ہوتی ہے کہ ان سے جھوٹ صادر ہو۔
(صلی اللہ علیهم أجمعین)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4712   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3340  
3340. حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: ہم ایک دعوت میں نبی کریم ﷺ کے ہمراہ تھے، آپ کو دستی کا گوشت پیش کیا گیا جو آپ کو انتہائی پسند تھا۔ آپ اسے اپنے دانتوں سے نوچ نوچ کر کھانے لگے اور فرمایا: میں قیامت کے دن تمام لوگوں کا سردار ہوں گا۔ کیا تمھیں معلوم ہے کہ یہ کس لیے؟ وجہ یہ ہےکہ اللہ تعالیٰ پہلے اور پچھلے لوگوں کو ایک میدان میں جمع کرے گا، دیکھنے والا ان کو دیکھ سکے گا اور ہر پکارنے والا ان کو اپنی آواز سناسکے گا اور سورج ان کے قریب آچکا ہوگا توکچھ لوگ کہیں گے: کیا تم اپنا حال نہیں دیکھتے کہ کیا(غم اور کرب) تمھیں لاحق ہواہے؟ کوئی ایسا آدمی تلاش کرو جو تمہارے رب کے حضور تمہاری سفارش کرسکے؟ تو کچھ کہیں گے: تمہارا باپ آدم ؑ موجود ہے، چنانچہ لوگ ان کے پاس آئیں گے اور عرض کریں گے: اے آدم ؑ! آپ ابو البشر ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے بنایا، پھر آپ کے اندر اپنی روح۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3340]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث کے مطابق رسول اللہ ﷺ مطلق طور پر تمام کائنات کے سردار ہیں اور قیامت کے دن صرف آپ کی سیادت ظاہر ہوگی۔
تمام انبیاء اور دیگر لوگ آپ کے جھنڈے تلے ہوں گے۔

اس حدیث میں حضرت نوح ؑ کے متعلق آیا ہے کہ آپ اول الرسل ہیں یعنی اولوالعزم رسولوں میں سے پہلے ہیں جنھیں اللہ کے راستے میں سخت آزمائشوں سے دوچار ہونا پڑا نیز حضرت نوح ؑ وہ پہلے رسول ہیں جو اہل ارض کے لیے مبعوث ہوئے تھے حقیقت کے اعتبار سے حضرت آدم ؑ پہلے رسول ہیں لیکن ان کی رسالت صرف اپنی اولاد تک تھی وہ بھی ان کی تعلیم و تربیت کے لیے تھی اس کے برعکس حضرت نوح ؑ کی رسالت تمام امت کے لیے تھی جو تمام شہروں میں پھیل چکی تھی جبکہ حضرت آدم ؑ کی اولاد صرف ایک شہر تک محدود تھی۔
چونکہ اس روایت میں حضرت نوح ؑ کا ذکر ہے اس لیے امام بخاری ؒ نے اسے بیان کیا ہے۔
قرآن کریم میں ان کا تذکرہ متعدد مرتبہ آیا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3340   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3361  
3361. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی ﷺ کی خدمت میں ایک مرتبہ گوشت پیش کیا گیا تو آپ نے فرمایااللہ تعالیٰ قیامت کے دن پہلے اور پچھلے لوگوں کو ایک ہمواراور وسیع میدان میں جمع کرے گا، اس طرح کہ پکارنے والا سب کو اپنی بات سنا سکے گا اور دیکھنے والا سب کو ایک ساتھ دیکھ سکے گا اور سورج لوگوں کے بالکل قریب ہوگا۔ پھر آپ نے پوری حدیث شفاعت کا ذکر کیا (اور فرمایا:) لوگ حضرت ابراہیم ؑ کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے کہ آپ روئے زمین پر اللہ کے نبی اور اس کے خلیل تھے، ہمارے لیے اپنے رب کے حضور سفارش کریں تو انھیں اپنی خلاف واقعہ باتیں یاد آجائیں گی تو وہ فرمائیں گے۔ آج تو مجھے اپنی فکر ہے تم لوگ حضرت موسیٰ ؑ کے پاس جاؤ۔ حضرت انس ؓ نے نبی ﷺ سے یہ حدیث بیان کرنے میں حضرت ابو ہریرہ ؓ کی متابعت کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3361]
حدیث حاشیہ:

عنوان سابق میں تھا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم ؑ کو اپنا خلیل بنایا،اس حدیث میں اس کی وضاحت فرمائی کہ لوگ بھی قیامت کے دن اس بات کی گواہی دیں گے کہ واقعی آپ اللہ کے خلیل ہیں۔

حضرت انس ؓ کی متابعت کو امام بخاری ؒ نے خود ہی متصل سند سے بیان کیا ہے۔
اس کے الفاظ ہیں کہ حضرت نوح ؑ لوگوں سے کہیں گے:
تم حضرت ابراہیمؑ کے پاس جاؤ جوخلیل الرحمٰن ہیں۔
(صحیح البخاري، التوحید، حدیث: 7440)
اس حدیث میں حضرت ابراہیم ؑ کے خلیل اللہ ہونے کا ذکرہے، اور عنوان بھی اسی سے متعلق ہے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3361   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4712  
4712. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں گوشت لایا گیا اور دستی کا حصہ آپ کو پیش کیا گیا۔ چونکہ آپ کو دستی کا گوشت بہت پسند تھا، اس لیے آپ نے اسے دانتوں سے نوچ نوچ کر کھایا۔ پھر آپ نے فرمایا: قیامت کے دن میں لوگوں کا سردار ہوں گا۔ کیا تمہیں علم ہے کہ یہ کس وجہ سے ہو گا؟ اللہ تعالٰی تمام اگلے پچھلے لوگوں کو ایک چٹیل میدان میں جمع کر دے گا۔ اس دوران میں پکارنے والا سب کو اپنی آواز سنائے گا اور ان سب پر اس کی نظر پہنچے گی سورج بالکل قریب آ جائے گا، چنانچہ لوگوں کو غم اور تکلیف اس قدر ہوگی جو ان کی طاقت سے باہر اور ناقابل برداشت ہو گی۔ لوگ آپس میں کہیں گے: تم دیکھتے نہیں کہ ہماری کیا حالت ہو گئی ہے؟ کیا کوئی ایسا مقبول بندہ نہیں جو اللہ کے حضور تمہاری سفارش کرے؟ پھر وہ ایک دوسرے سے کہیں گے کہ حضرت آدم ؑ کے پاس جانا چاہئے، چنانچہ سب لوگ حضرت۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4712]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث میں حضرت نوح ؑ کے متعلق صراحت ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے شکر گزار بندے تھے۔
عنوان میں ذکر کردہ آیت میں حضرت نوحؑ کی اس صفت کا حوالہ تھا۔
عنوان اور حدیث میں یہی مطابقت ہے۔

علامہ عینی ؒ نے مفسرین کے حوالے سے لکھا ہے کہ حضرت نوح ؑ جب کھانا کھاتے تو کہتے تھے کہ اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے کھانا کھلایا، اگروہ چاہتا تو مجھے بھوکا رکھتا۔
جب پانی پیتے تو کہتے کہ اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے پانی پلایا، اگر وہ چاہتا تو مجھے پیاسا رکھتا۔
جب لباس پہنتے تو کہتے:
اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے لباس پہنایا، اگر وہ چاہتا تو مجھے برہنہ رکھتا۔
جب جوتا پہنتے تو کہتے:
اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے جوتا پہنچایا، اگر وہ چاہتا تو مجھے ننگے پاؤں رکھتا۔
جب قضائے حاجت سے فارغ ہوتے تو کہتے! اللہ کا شکر ہے جس نے اذیت سے نجات دی اور مجھے صحت سے نوازا، اگر وہ چاہتا تو اسے روک لیتا۔
اس شکر گزاری کی وجہ سے آپ کو عبدالشکور کا لقب دیا گیا ہے۔
(عمدة القاری: 114/13)
حدیث کے متعلق دیگر مباحث کتاب احادیث الانبیاء میں گزر چکے ہیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4712