مسند احمد
مسند النساء
0
1184. حَدِيثُ صَفِيَّةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهَا
0
حدیث نمبر: 26866
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، عَنْ ثَابِتٍ ، قَالَ: حَدَّثَتْنِي شُمَيْسَةُ أَوْ سُمَيَّةُ ، قَالَ: عَبْدُ الرَّزَّاقِ هُوَ فِي كِتَابِي سُمَيَّةُ , عَنْ صَفِيَّةَ بِنْتِ حُيَيٍّ , أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَجَّ بِنِسَائِهِ، فَلَمَّا كَانَ فِي بَعْضِ الطَّرِيقِ، نَزَلَ رَجُلٌ، فَسَاقَ بِهِنَّ، فَأَسْرَعَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" كَذَاكَ سَوْقُكَ بِالْقَوَارِيرِ" يَعْنِي النِّسَاءَ , فَبَيْنَا هُمْ يَسِيرُونَ، بَرَكَ بِصَفِيَّةَ بِنْتِ حُيَيٍّ جَمَلُهَا، وَكَانَتْ مِنْ أَحْسَنِهِنَّ ظَهْرًا، فَبَكَتْ , وَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ أُخْبِرَ بِذَلِكَ، فَجَعَلَ يَمْسَحُ دُمُوعَهَا بِيَدِهِ، وَجَعَلَتْ تَزْدَادُ بُكَاءً وَهُوَ يَنْهَاهَا، فَلَمَّا أَكْثَرَتْ، زَبَرَهَا وَانْتَهَرَهَا، وَأَمَرَ النَّاسَ بِالنُّزُولِ، فَنَزَلُوا، وَلَمْ يَكُنْ يُرِيدُ أَنْ يَنْزِلَ , قَالَتْ: فَنَزَلُوا، وَكَانَ يَوْمِي، فَلَمَّا نَزَلُوا، ضُرِبَ خِبَاءُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَدَخَلَ فِيهِ، قَالَتْ: فَلَمْ أَدْرِ عَلَامَ أُهْجَمُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ وَخَشِيتُ أَنْ يَكُونَ فِي نَفْسِهِ شَيْءٌ مِنِّي فَانْطَلَقْتُ إِلَى عَائِشَةَ، فَقُلْتُ لَهَا: تَعْلَمِينَ أَنِّي لَمْ أَكُنْ أَبِيعُ يَوْمِي مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشَيْءٍ أَبَدًا، وَإِنِّي قَدْ وَهَبْتُ يَوْمِي لَكِ عَلَى أَنْ تُرْضِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِّي، قَالَتْ: نَعَمْ، قَالَ: فَأَخَذَتْ عَائِشَةُ خِمَارًا لَهَا قَدْ ثَرَدَتْهُ بِزَعْفَرَانٍ، فَرَشَّتْهُ بِالْمَاءِ لِيُذَكِّيَ رِيحَهُ، ثُمَّ لَبِسَتْ ثِيَابَهَا، ثُمَّ انْطَلَقَتْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَرَفَعَتْ طَرَفَ الْخِبَاءِ، فَقَالَ لَهَا:" مَا لَكِ يَا عَائِشَةُ؟ إِنَّ هَذَا لَيْسَ بِيَوْمِكِ" , قَالَتْ: ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ، فَقَالَ: مَعَ أَهْلِهِ، فَلَمَّا كَانَ عِنْدَ الرَّوَاحِ، قَالَ لِزَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ:" يَا زَيْنَبُ، أَفْقِرِي أُخْتَكِ صَفِيَّةَ جَمَلًا"، وَكَانَتْ مِنْ أَكْثَرِهِنَّ ظَهْرًا، فَقَالَتْ: أَنَا أُفْقِرُ يَهُودِيَّتَكَ، فَغَضِبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ سَمِعَ ذَلِكَ مِنْهَا، فَهَجَرَهَا، فَلَمْ يُكَلِّمْهَا حَتَّى قَدِمَ مَكَّةَ وَأَيَّامَ مِنًى فِي سَفَرِهِ، حَتَّى رَجَعَ إِلَى الْمَدِينَةِ، وَالْمُحَرَّمَ وَصَفَرَ، فَلَمْ يَأْتِهَا، وَلَمْ يَقْسِمْ لَهَا، وَيَئِسَتْ مِنْهُ، فَلَمَّا كَانَ شَهْرُ رَبِيعٍ الْأَوَّلِ، دَخَلَ عَلَيْهَا، فَرَأَتْ ظِلَّهُ، فَقَالَتْ: إِنَّ هَذَا لَظِلُّ رَجُلٍ، وَمَا يَدْخُلُ عَلَيَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَمَنْ هَذَا؟ فَدَخَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا رَأَتْهُ , قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا أَدْرِي مَا أَصْنَعُ حِينَ دَخَلْتَ عَلَيَّ؟ قَالَتْ: وَكَانَتْ لَهَا جَارِيَةٌ، وَكَانَتْ تَخْبَؤُهَا مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: فُلَانَةُ لَكَ، فَمَشَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى سَرِيرِ زَيْنَبَ، وَكَانَ قَدْ رُفِعَ، فَوَضَعَهُ بِيَدِهِ، ثُمَّ أَصَابَ أَهْلَهُ، وَرَضِيَ عَنْهُمْ .
حضرت صفیہ سے مروی ہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ازواج مطہرات کو بھی اپنے ساتھ لے کر گئے تھے، ابھی راستے ہی میں تھے کہ ایک آدمی اتر کر ازواج مطہرات کی سواریوں کو تیزی سے ہانکنے لگا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان آبگینوں (عورتوں) کو آہستہ ہی لے کر چلو دوران سفر حضرت صفیہ کا اونٹ بدک گیا، ان کی سواری سب سے عمدہ اور خوبصورت تھی، وہ رونے لگیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا تو تشریف لائے اور اپنے دست مبارک سے ان کے آنسو پونچھنے لگے، لیکن وہ اور زیادہ رونے لگیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم انہیں برابر منع کرتے رہے لیکن جب دیکھا کہ وہ زیادہ ہی روتی جا رہی ہیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سختی سے جھڑک کر منع فرمایا: اور لوگوں کو پڑاؤ کرنے کا حکم دیدیا حالانکہ اس مقام پر پڑاؤ کا ارادہ نہ تھا، لوگوں نے پڑاؤ ڈال لیا، اتفاق سے اس دن حضرت صفیہ ہی کی باری بھی تھی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ایک خیمہ لگادیا گیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خیمے میں تشریف لے گئے۔ حضرت صفیہ کہتی ہیں کہ میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کیسے جاؤں؟ مجھے ڈر تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے ناراض نہ ہوگئے ہوں، چنانچہ میں حضرت عائشہ کے پاس چلی گئی اور ان سے کہا آپ جانتی ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی باری کا دن کسی بھی چیز کے عوض نہیں بیچ سکتی، لیکن آج میں اپنی باری کے دن آپ کو اس شرط پر دیتی ہوں کہ آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مجھ سے راضی کردیں۔ حضرت عائشہ نے حامی بھرلی اور اپنا دوپٹہ لے کر جسے انہوں نے زعفران میں رنگا ہوا تھا، اس پر پانی کے چھینٹے مارے تاکہ اس کی مہک پھیل جائے پھر نئے کپڑے پہن کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف چل پڑیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خیمے کے قریب پہنچ کر انہوں نے پردے کا ایک کونا اٹھایا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیکھ کر فرمایا عائشہ! کیا بات ہے آج تمہاری باری تو نہیں ہے؟ انہوں نے عرض کیا یہ تو اللہ کا فضل ہے جسے چاہے عطاء کردے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ دوپہر اپنی زوجہ محترمہ (حضرت عائشہ) کے ساتھ قیلولہ فرمایا۔ جب روانگی کا وقت آیا تو نبی علیہ السلا نے حضرت زینب بنت جحش سے فرمایا جن کے پاس سواری میں گنجائش زیادہ تھی کہ اپنی بہن صفیہ کو اپنے ساتھ اونٹ پر سوار کرلو، حضرت زینب کے منہ سے نکل گیا کہ میں آپ کی یہودیہ بیوی کو اپنے ساتھ سوار کروں گی؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کرنا راض ہوگئے اور ان سے ترک کلام فرما لیا حتی کہ مکہ مکرمہ پہنچے، منیٰ کے میدان میں ایام گزارے پھر مدینہ منورہ واپس آئے محرم اور صفر کا مہینہ گزرا لیکن حضرت زینب کے پاس نہیں گئے حتی کہ باری کے دن بھی نہیں گئے، جس سے حضرت زینب ناامید سی ہوگئیں۔ جب ربیع الاول کا مہینہ آیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے یہاں تشریف لے گئے، وہ سوچنے لگیں کہ یہ سایہ تو کسی آدمی کا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آنے والے نہیں تو یہ کون ہے؟ اتنی دیر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم گھر کے اندر آگئے، حضرت زینب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر کہنے لگیں یا رسول اللہ! خوشی سے مجھے سمجھ نہیں آرہا کہ آپ کی تشریف آوری پر کیا کروں؟ ان کی ایک باندی تھی جو ان کے لئے خیمہ تیار کرتی تھی، انہوں نے عرض کیا کہ فلاں باندی آپ کی نذر پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم حضرت زینب کی چارپائی تک چل کر آئے اور اس پر اپنا ہاتھ رکھ دیا پھر ان سے تخلیہ فرمایا اور ان سے راضی ہوگئے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة سمية، وقد خالف جعفر بن سليمان حماد بن سلمة، فجعله من حديث صفية بنت حيي، إنما رواه حماد من حديث عائشة