صحيح مسلم
كِتَاب الْإِيمَانِ
ایمان کے احکام و مسائل
81. باب مَعْرِفَةِ طَرِيقِ الرُّؤْيَةِ:
باب: اللہ کے دیدار کی کیفیت کا بیان۔
حدیث نمبر: 455
قَالَ مُسْلِم: قَرَأْتُ عَلَى عِيسَى بْنِ حَمَّادٍ زُغْبَةَ الْمِصْرِيِّ، هَذَا الْحَدِيثَ فِي الشَّفَاعَةِ، وَقُلْتُ لَهُ: أُحَدِّثُ بِهَذَا الْحَدِيثِ عَنْكَ، أَنَّكَ سَمِعْتَ مِنَ اللَّيْثِ بْنِ سَعْدٍ؟ فَقَالَ: نَعَمْ، قُلْتُ لِعِيسَى بْنِ حَمَّادٍ : أَخْبَرَكُمُ اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ يَزِيدَ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِلَالٍ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، أَنَّهُ قَالَ: قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنَرَى رَبَّنَا؟ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هَلْ تُضَارُّونَ فِي رُؤْيَةِ الشَّمْسِ إِذَا كَانَ يَوْمٌ صَحْوٌ؟ قُلْنَا: لَا "، وَسُقْتُ الْحَدِيثَ حَتَّى انْقَضَى آخِرُهُ وَهُوَ نَحْوُ حَدِيثِ حَفْصِ بْنِ مَيْسَرَةَ، وَزَادَ بَعْدَ قَوْلِهِ: بِغَيْرِ عَمَلٍ عَمِلُوهُ وَلَا قَدَمٍ قَدَّمُوهُ، فَيُقَالُ لَهُمْ: لَكُمْ مَا رَأَيْتُمْ وَمِثْلُهُ مَعَهُ، قَالَ أَبُو سَعِيدٍ: بَلَغَنِي أَنَّ الْجِسْرَ، أَدَقُّ مِنَ الشَّعْرَةِ وَأَحَدُّ مِنَ السَّيْفِ، وَلَيْسَ فِي حَدِيثِ اللَّيْثِ، فَيَقُولُونَ: رَبَّنَا أَعْطَيْتَنَا مَا لَمْ تُعْطِ أَحَدًا مِنَ الْعَالَمِينَ وَمَا بَعْدَهُ، فَأَقَرَّ بِهِ عِيسَى بْنُ حَمَّادٍ.
امام مسلم نے کہا: میں نے شفاعت کے بارے میں یہ حدیث عیسیٰ بن حماد زغبہ مصری کے سامنے پڑھی اور ان سے کہا: (کیا) یہ حدیث میں آپ کے حوالے سے بیان کروں کہ آپ نے اسے لیث بن سعد سے سنا ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں! (امام مسلم نےکہا:) میں نے عیسیٰ بن حماد سے کہا: آپ کو لیث بن سعد نےخالدبن یزید سے خبر دی، انہوں نے سعید بن ابی ہلال سے، انہوں نے زید بن اسلم سے، انہوں نے عطاء بن یسار سے، انہوں نے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے کہاکہ ہم نے عرض کی: اللہ کے رسول! کیا ہم اپنے رب کو دیکھ سکیں گے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب چمکتا ہوا بے ابر دن ہو تو کیا تمہیں سورج کو دیکھنے میں کوئی زحمت ہوتی ہے؟“ ہم نے کہا: نہیں۔ (امام مسلم نے کہا:) میں حدیث پڑھتا گیا یہاں تک کہ وہ ختم ہوگئی اور (سعید بن ابی ہلال کی) یہ حدیث حفص بن میسرہ کی (مذکورہ) حدیث کی طرح ہے۔ انہوں نے کیا اور بغیر کسی قدم کے جوانہوں نے آگے بڑھایا“ کے بعد یہ اضافہ کیا: ”چنانچہ ان سے کہا جائے گا: تمہارے لیے وہ سب کچھ ہے جو تم نے دیکھا ہے اور اس کے ساتھ اتنا ہی اور۔“ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا: مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ پل بال سے زیادہ باریک اور تلوار کی ادھار سے زیادہ تیز ہو گا۔ لیث کی روایت میں یہ الفاظ: ” تووہ کہیں گے: اے ہمارے رب! تو نے ہمیں وہ کچھ دیا ہے جو جہان والوں میں سے کسی کو نہیں دیا“ اور اس کے بعد کے الفاظ نہیں ہیں۔ چنانچہ عیسیٰ بن حماد نے اس کا اقرار کیا (کہ انہوں نے اوپر بیان کی گئی سند کے ساتھ لیث سے یہ حدیث سنی۔)
امام مسلم فرماتے ہیں: میں نے سفارش کے بارے میں یہ حدیث عیسیٰ بن حماد زغبہ مصری کو سنائی، اور اس سے کہا: یہ حدیث میں آپ سے بیان کرتا ہوں، آپ نے اسے لیث بن سعید سے سنا ہے؟ تو اس (عیسیٰ) نے کہا: ہاں! میں نے عیسیٰ بن حماد کو کہا: آپ کو لیث بن سعد نے خالد بن یزید کے واسطہ سے سعید بن ابی ہلال کی زید بن اسلم سے عطاء بن یسار کی ابو سعید خدری ؓ سے خبر دی ہے، کہ انھوں نے کہا: ہم نے پوچھا: اے اللہ کے رسولؐ! کیا ہم اپنے رب کو دیکھ سکیں گے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب مطلع صاف ہو، کیا تم آفتاب کے دیکھنے میں کوئی تکلیف محسوس کرتے ہو؟“ ہم نے کہا: نہیں! امام مسلم فرماتے ہیں: میں نے آخر تک عیسیٰ کو حدیث سنائی جو حفص بن میسرہ کی حدیث جیسی ہے۔ اس نے اس کے بعد کہ ”بغیر اس کے انھوں نے کوئی عمل کیا ہو، یا نیکی آگے بھیجی ہو۔“ یہ اضافہ کیا، تو انھیں کہا جائے گا: ”تمھارے لیے ہے جو تم نے دیکھا، اور اتنا ہی اس کے ساتھ اور۔“ ابو سعید بیان کرتے ہیں، مجھے یہ بات پہنچی ہے، ”کہ پُل بال سے زیادہ باریک اور تلوار کی دھار سے زیادہ تیز ہو گا۔“ لیث کی روایت میں یہ الفاظ نہیں ہیں، ”تو وہ کہیں گے: اے ہمارے رب! تو نے ہمیں وہ کچھ دیا ہے جو جہان والوں میں سے کسی کو نہیں دیا“ اور اس کامابعد، عیسیٰ بن حماد نے میری اس حدیث کا اقرار کیا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، تقدم تخريجه فى الحديث السابق برقم (453)»
صحیح مسلم کی حدیث نمبر 455 کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 455
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
:
(1)
غُبَّرِ أَهْلِ الْكِتَابِ:
غبّر،
غَابِرٌ کی جمع ہے،
مراد وہ لوگ ہیں جو اپنے اصل دین پر قائم رہے۔
(2)
سَرَابٌ:
وہ ریتلی زمین،
جو گرمی کے موسم میں،
دور سے پانی کی طرح چمکتی ہے،
پیاسا پانی سمجھ کر وہاں پہنچتا ہے،
تو وہاں کچھ نہیں ہوتا۔
(3)
يَحْطِمُ بَعْضُهَا بَعْضًا:
حطم کا معنی توڑنا،
ریزہ ریزہ کر کے تباہ کرنا ہے،
اس لیے جہنم کا نام "حُطَمَة" بھی ہے،
کہ جو کچھ اس میں ڈالا جائے گا،
وہ اسے چور چور کر دے گی۔
(4)
يُكْشَفُ عَنْ سَاقٍ:
پنڈلی کھولی جائے گی۔
(5)
طَبَقَةٌ وَاحِدَةٌ:
طبق سے مراد،
پشت کے مہرے ہیں،
کہ وہ تختہ کی طرح ایک مہرہ بن جائیں گے،
اس لیے انسان جھک نہیں سکے گا۔
(6)
جِسْرٌ:
جیم پر زیر اور زبر دونوں آ سکتے ہیں،
پل۔
(7)
تَحِلُّ الشَّفَاعَةُ:
سفارش شروع ہو جائے گی،
سفارش کی اجازت مل جائے گی۔
(8)
دَحْضٌ:
اور مَزِلَّةٌ کا معنی ایک ہے،
ایسی جگہ جہاں قدم پھسل جائیں،
جم نہ سکیں۔
(9)
خَطَاطِيفٌ:
خُطَافٌ کی جمع ہے،
اچکنے والے آنکس۔
(10)
كَلَالِيبٌ:
كلوب کی جمع ہے،
گوشت بھوننے کی لوہے کی سلاخیں۔
(11)
حَسَكٌ:
خاردار پودا ہے،
یہاں مراد لوہے کے گھوکرو ہیں،
یعنی لوہے کا تیز اور مضبوط نوکوں والا گول سا دائرہ۔
(12)
أَجَاوِيد:
أَجْوَدٌ کی جمع ہے اور یہ جَوَادٌ کی جمع ہے،
عمدہ اور تیز رفتار سواری۔
(13)
رِكَابٌ:
راحلة کی من غير لفظها جمع ہے،
سواری کا اونٹ مراد ہے۔
(14)
خَيْلٌ:
مِنْ غَيْرِ لفظه:
فَرَسٌ کی جمع ہے،
گھوڑے۔
(15)
نَاجٌ مُسَلَّمٌ:
سے مراد وہ لوگ ہیں جو بالکل صحیح سالم بلا کسی اذیت و تکلیف کے گزر جائیں گے۔
(16)
مَخْدُوشٌ مُرْسَلٌ:
سے مراد وہ لوگ ہیں جو زخمی ہو کر،
چھوٹ جائیں گے اور نجات پا لیں گے۔
(17)
مَكْدُوسٌ:
جن کو ان کی جگہ سے ہٹا دیا جائے گا،
دھکا دے کر گرا دیا جائے گا۔
(18)
اسْتِقْصَاء الْحَقِّ:
حق پورا پورا وصول کرنا۔
(19)
حُمَمٌ:
حُمَمَةٌ کی جمع ہے،
کوئلہ۔
(20)
أَفْوَاهٌ:
علي غير قياس فَوْهَةٌ کی جمع ہے،
جنت کا اگلا حصہ مراد ہے۔
(21)
رِقَابٌ:
رَقَبَةٌ کی جمع ہے،
گردن۔
(22)
خَوَاتِمُ:
خَاتَمٌ کی جمع ہے،
انگوٹھی،
یہاں پر مراد پٹہ ہے جو علامت کے طور پر گردن میں ڈالا جائے گا۔
یا کوئی علامت و نشانی ہے جس سے وہ ممتاز ہو جائیں گے۔
(23)
حِبَّةٌ:
قدرتی بیج۔
(24)
حَمِيلٌ:
مَحْمُوْلٌ کے معنی میں ہے،
سیلاب کے ساتھ آنے والا خس و خاشاک مراد ہے۔
فوائد ومسائل:
(1)
قیامت کےدن مومنوں کو اللہ تعالیٰ کےدیکھنےمیں ہجوم اوراثردحام کی تکلیف نہ ہوگی،
جس طرح آفتاب ومہتاب،
جب صاف چمک رہےہوں،
توان کےدیکھنےمیں مشقت نہیں اٹھانی پڑتی۔
(2)
یہودونصاریٰ کااصل دین اسلام تھا،
اس لیے جولوگ آپ ﷺ کی آمدسے پہلےاس پرفوت ہوئے،
یا انہوں نےآپ کی آمد کےبعدآپ کومان لیا،
تووہ جنتی ہوں گے۔
(3)
اللہ تعالیٰ کی ایک ایسی صورت ہے،
جومومنوں کےدلوں میں منقش ہے،
جب وہ اس صورت میں ظاہرہوگا،
تووہ اس کوپہچان لیں گے،
جب تک وہ اس صورت میں ظاہرنہیں ہوگا،
انہیں اس کے اپنا رب ہونے کے یقین اوراطمینان نہیں ہوگا،
اس لیے وہ اس کا رب ہوناتسلیم نہیں کریں گے،
جب وہ اصل شکل میں،
جوان کےدلوں میں موجودہے،
آئےگا تو وہ مان لیں گے اس میں کسی قسم کی تاویل وتشبیہ یاتعطیل کی ضرورت نہیں ہے۔
(4)
اس حدیث میں کشف ساق پنڈلی کےکھلنے کا تذکرہ ہے،
اورقرآن مجیدمیں بھی ﴿يَوْمَ يُكْشَفُ عَن سَاقٍ﴾ (سورة ن)
موجود ہے،
وہ اپنی پنڈلی کھولے گا،
اس کی پنڈلی،
اس کی شان کےمطابق ہے،
جس طرح اس کی ذات بےمثال اورعدیم النظیرہے،
اس طرح،
اس کی صفات اورقرآن وحدیث میں وارد اعضاء وصفات بےمثل ہیں،
ان کی کنہ،
حقیقت یا ماہیت معلوم نہیں ہے۔
(5)
جولوگ دنیامیں،
دل کی گہرائی اوراخلاص وحسن نیت یا ایمان وایقان کےساتھ اللہ تعالیٰ کےحضورسجدہ ریزنہیں ہوئے،
ان کوقیامت کے دن سجدہ کی توفیق نہیں ملےگی،
اس لیے وہ آخرت میں ناکام ونامرادہوں گے۔
(6)
قیامت کےدن جہنم پرایک پل بچھایاجائےگا،
جوبال سےباریک اورتلوارکی دھارسےتیزہوگا،
اس سےلوگ اپنےاپنےعملوں کےمطابق گزریں گے،
اورجن کےنیک عمل حدمطلوب تک نہیں پہنچیں گے،
یاان کےعمل برےہوں گے،
وہ کٹ پھٹ کرجہنم میں گرجائیں گے۔
(7)
ملائکہ،
انبیاء اورمومن اپنے اپنے مقام کےمطابق سفارش کریں گے،
اورآخرمیں اللہ تعالیٰ ان تمام لوگوں کواپنےفضل وکرم کےنتیجہ میں مٹھی بھرکرنکال دے گا،
جن کےدل میں اللہ تعالیٰ کی توحیدپریقین ہوگا۔
اگرچہ انہیں کسی نیکی کرنے کا موقع نہ ملا،
یا انہوں نےایمان صحیح کےسواکوئی نیکی نہ کی،
تو انجام کار وہ بھی دوزخ سےنکل جائیں گے اوراللہ تعالیٰ کی رضامندی،
ایک ایسی نعمت عظمیٰ ہےکہ جنت کی تمام نعمتیں اس کےمقابلہ میں بےحقیقت اورہیچ ہیں،
اللہ تعالیٰ اپنےفضل وکرم سےہم سب کواپنی رضامندی اورخوشنودی سےنوازے۔
(آمین)
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 455