Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح مسلم
كِتَاب الْإِيمَانِ
ایمان کے احکام و مسائل
81. باب مَعْرِفَةِ طَرِيقِ الرُّؤْيَةِ:
باب: اللہ کے دیدار کی کیفیت کا بیان۔
حدیث نمبر: 451
حَدَّثَنِي حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَزِيدَ اللَّيْثِيِّ ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ أَخْبَرَهُ، " أَنَّ نَاسًا، قَالُوا لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَلْ نَرَى رَبَّنَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هَلْ تُضَارُّونَ فِي رُؤْيَةِ الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ؟ قَالُوا: لَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: هَلْ تُضَارُّونَ فِي الشَّمْسِ لَيْسَ دُونَهَا سَحَابٌ؟ قَالُوا: لَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: فَإِنَّكُمْ تَرَوْنَهُ كَذَلِكَ، يَجْمَعُ اللَّهُ النَّاسَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَيَقُولُ: مَنْ كَانَ يَعْبُدُ شَيْئًا فَلْيَتَّبِعْهُ، فَيَتَّبِعُ مَنْ كَانَ يَعْبُدُ الشَّمْسَ الشَّمْسَ، وَيَتَّبِعُ مَنْ كَانَ يَعْبُدُ الْقَمَرَ الْقَمَرَ، وَيَتَّبِعُ مَنْ كَانَ يَعْبُدُ الطَّوَاغِيتَ الطَّوَاغِيتَ، وَتَبْقَى هَذِهِ الأُمَّةُ فِيهَا مُنَافِقُوهَا، فَيَأْتِيهِمُ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى فِي صُورَةٍ غَيْرِ صُورَتِهِ الَّتِي يَعْرِفُونَ، فَيَقُولُ: أَنَا رَبُّكُمْ، فَيَقُولُونَ: نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْكَ، هَذَا مَكَانُنَا حَتَّى يَأْتِيَنَا رَبُّنَا، فَإِذَا جَاءَ رَبُّنَا عَرَفْنَاهُ، فَيَأْتِيهِمُ اللَّهُ تَعَالَى فِي صُورَتِهِ الَّتِي يَعْرِفُونَ، فَيَقُولُ: أَنَا رَبُّكُمْ، فَيَقُولُونَ: أَنْتَ رَبُّنَا، فَيَتَّبِعُونَهُ وَيُضْرَبُ الصِّرَاطُ بَيْنَ ظَهْرَيْ جَهَنَّمَ، فَأَكُونُ أَنَا، وَأُمَّتِي أَوَّلَ مَنْ يُجِيزُ، وَلَا يَتَكَلَّمُ يَوْمَئِذٍ إِلَّا الرُّسُلُ وَدَعْوَى الرُّسُلِ يَوْمَئِذٍ: اللَّهُمَّ سَلِّمْ سَلِّمْ، وَفِي جَهَنَّمَ كَلَالِيبُ مِثْلُ شَوْكِ السَّعْدَانِ، هَلْ رَأَيْتُمُ السَّعْدَانَ؟ قَالُوا: نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: فَإِنَّهَا مِثْلُ شَوْكِ السَّعْدَانِ، غَيْرَ أَنَّهُ لَا يَعْلَمُ مَا قَدْرُ عِظَمِهَا إِلَّا اللَّهُ، تَخْطَفُ النَّاسَ بِأَعْمَالِهِمْ، فَمِنْهُمُ الْمُؤْمِنُ بَقِيَ بِعَمَلِهِ، وَمِنْهُمُ الْمُجَازَى حَتَّى يُنَجَّى، حَتَّى إِذَا فَرَغَ اللَّهُ مِنَ الْقَضَاءِ بَيْنَ الْعِبَادِ، وَأَرَادَ أَنْ يُخْرِجَ بِرَحْمَتِهِ مَنْ أَرَادَ مِنْ أَهْلِ النَّارِ، أَمَرَ الْمَلَائِكَةَ أَنْ يُخْرِجُوا مِنَ النَّارِ، مَنْ كَانَ لَا يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا، مِمَّنْ أَرَادَ اللَّهُ تَعَالَى أَنْ يَرْحَمَهُ مِمَّنْ يَقُولُ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، فَيَعْرِفُونَهُمْ فِي النَّارِ يَعْرِفُونَهُمْ بِأَثَرِ السُّجُودِ تَأْكُلُ النَّارُ مِنَ ابْنِ آدَمَ، إِلَّا أَثَرَ السُّجُودِ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَى النَّارِ أَنْ تَأْكُلَ أَثَرَ السُّجُودِ، فَيُخْرَجُونَ مِنَ النَّارِ وَقَدِ امْتَحَشُوا فَيُصَبُّ عَلَيْهِمْ مَاءُ الْحَيَاةِ، فَيَنْبُتُونَ مِنْهُ كَمَا تَنْبُتُ الْحِبَّةُ فِي حَمِيلِ السَّيْلِ، ثُمَّ يَفْرُغُ اللَّهُ تَعَالَى مِنَ الْقَضَاءِ بَيْنَ الْعِبَادِ، وَيَبْقَى رَجُلٌ مُقْبِلٌ بِوَجْهِهِ عَلَى النَّارِ وَهُوَ آخِرُ أَهْلِ الْجَنَّةِ دُخُولًا الْجَنَّةَ، فَيَقُولُ: أَيْ رَبِّ اصْرِفْ وَجْهِي عَنِ النَّارِ، فَإِنَّهُ قَدْ قَشَبَنِي رِيحُهَا، وَأَحْرَقَنِي ذَكَاؤُهَا، فَيَدْعُو اللَّهَ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَدْعُوَهُ، ثُمَّ يَقُولُ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: هَلْ عَسَيْتَ إِنْ فَعَلْتُ ذَلِكَ بِكَ أَنْ تَسْأَلَ غَيْرَهُ؟ فَيَقُولُ: لَا أَسْأَلُكَ غَيْرَهُ، وَيُعْطِي رَبَّهُ مِنْ عُهُودٍ، وَمَوَاثِيقَ مَا شَاءَ اللَّهُ، فَيَصْرِفُ اللَّهُ وَجْهَهُ عَنِ النَّارِ، فَإِذَا أَقْبَلَ عَلَى الْجَنَّةِ وَرَآهَا، سَكَتَ مَا شَاءَ اللَّهُ، أَنْ يَسْكُتَ ثُمَّ يَقُولُ: أَيْ رَبِّ قَدِّمْنِي إِلَى بَابِ الْجَنَّةِ، فَيَقُولُ اللَّهُ لَهُ: أَلَيْسَ قَدْ أَعْطَيْتَ عُهُودَكَ، وَمَوَاثِيقَكَ، لَا تَسْأَلُنِي غَيْرَ الَّذِي أَعْطَيْتُكَ، وَيْلَكَ يَا ابْنَ آدَمَ، مَا أَغْدَرَكَ، فَيَقُولُ: أَيْ رَبِّ، وَيَدْعُو اللَّهَ حَتَّى يَقُولَ لَهُ: فَهَلْ عَسَيْتَ إِنْ أَعْطَيْتُكَ ذَلِكَ، أَنْ تَسْأَلَ غَيْرَهُ؟ فَيَقُولُ: لَا وَعِزَّتِكَ، فَيُعْطِي رَبَّهُ مَا شَاءَ اللَّهُ مِنْ عُهُودٍ، وَمَوَاثِيقَ، فَيُقَدِّمُهُ إِلَى بَابِ الْجَنَّةِ، فَإِذَا قَامَ عَلَى بَابِ الْجَنَّةِ، انْفَهَقَتْ لَهُ الْجَنَّةُ، فَرَأَى مَا فِيهَا مِنَ الْخَيْرِ وَالسُّرُورِ، فَيَسْكُتُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَسْكُتَ، ثُمَّ يَقُولُ: أَيْ رَبِّ أَدْخِلْنِي الْجَنَّةَ؟ فَيَقُولُ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى لَهُ: أَلَيْسَ قَدْ أَعْطَيْتَ عُهُودَكَ، وَمَوَاثِيقَكَ، أَنْ لَا تَسْأَلَ غَيْرَ مَا أُعْطِيتَ، وَيْلَكَ يَا ابْنَ آدَمَ، مَا أَغْدَرَكَ، فَيَقُولُ: أَيْ رَبِّ لَا أَكُونُ أَشْقَى خَلْقِكَ، فَلَا يَزَالُ يَدْعُو اللَّهَ، حَتَّى يَضْحَكَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى مِنْهُ، فَإِذَا ضَحِكَ اللَّهُ مِنْهُ، قَالَ: ادْخُلِ الْجَنَّةَ، فَإِذَا دَخَلَهَا، قَالَ اللَّهُ لَهُ: تَمَنَّهْ، فَيَسْأَلُ رَبَّهُ وَيَتَمَنَّى، حَتَّى إِنَّ اللَّهَ لَيُذَكِّرُهُ مِنْ كَذَا وَكَذَا، حَتَّى إِذَا انْقَطَعَتْ بِهِ الأَمَانِيُّ، قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: ذَلِكَ لَكَ وَمِثْلُهُ مَعَهُ "، قَالَ عَطَاءُ بْنُ يَزِيدَ، وَأَبُو سَعِيدٍ الْخُدْرِيُّ مَعَ أَبِي هُرَيْرَةَ: لَا يَرُدُّ عَلَيْهِ مِنْ حَدِيثِهِ شَيْئًا، حَتَّى إِذَا حَدَّثَ أَبُو هُرَيْرَةَ: أَنَّ اللَّهَ، قَالَ لِذَلِكَ الرَّجُلِ وَمِثْلُهُ مَعَهُ: قَالَ أَبُو سَعِيدٍ وَعَشَرَةُ أَمْثَالِهِ مَعَهُ: يَا أَبَا هُرَيْرَةَ، قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: مَا حَفِظْتُ إِلَّا قَوْلَهُ ذَلِكَ لَكَ وَمِثْلُهُ مَعَهُ، قَالَ أَبُو سَعِيدٍ: أَشْهَدُ أَنِّي حَفِظْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَوْلَهُ ذَلِكَ لَكَ، وَعَشَرَةُ أَمْثَالِهِ، قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: وَذَلِكَ الرَّجُلُ آخِرُ أَهْلِ الْجَنَّةِ دُخُولًا الْجَنَّةَ.
یعقوب بن ابراہیم نے حدیث بیان کی، کہا: میرے والد نے ہمیں ابن شہاب زہری سے حدیث سنائی، انہوں نے عطاء بن یزید لیثی سے روایت کی کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے انہیں بتایا: کچھ لوگوں نے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ اللہ کے رسول! کیا ہم قیامت کے دن اپنے رب کو دیکھیں گے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تمہیں پورے چاند کی رات کو چاند دیکھنے میں کوئی دقت محسوس ہوتی ہے؟ لوگوں نے کہا: نہیں، اے اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: جب بادل حائل نہ ہوں تو کیا سورج دیکھنے میں تمہیں کوئی دقت محسوس ہوتی ہے؟ صحابہ نے عرض کی: نہیں، اے اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: تم اسے (اللہ) اسی طرح دیکھو گے، اللہ تعالیٰ قیامت کےدن تمام لوگوں کو جمع کرے گا، پھر فرمائے گا: جو شخص جس چیز کی عبادت کرتا تھا اسی کے پیچھے چلا جائے، چنانچہ جوسورج کی پوجا کرتا تھا وہ سورج کے پیچھے چلا جائے گا، جو چاند کی پرستش کرتا تھا وہ ا س کے پیچھے چلا جائے گااور جو طاغوتوں (شیطانوں، بتوں وغیرہ) کی پوجا کرتا تھا وہ طاغوتی کے پیچھے چلا جائے گا اور صرف یہ امت، اپنے منافقوں سمیت، باقی رہ جائے گی۔ اس پر اللہ تبارک وتعالیٰ ان کے پاس اپنی اس صورت میں آئے گا جس کو وہ پہچان سکتےہوں گے، پھر فرمائے گا: میں تمہارارب ہوں۔ وہ کہیں گے: ہم تجھ سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں، ہم اسی جگہ ٹھہرے رہیں گے یہاں تک کہ ہمارارب ہمارے پاس آ جائے، جب ہمارا رب آئے گا ہم اسے پہچان لیں گے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ ان کے پاس اس صورت میں آئے گا جس میں وہ اس کو پہچانتے ہوں گے اور فرمائے گا: میں تمہارا پروردگار ہوں۔وہ کہیں گے، تو (ہی) ہمارا رب ہے اور اس کے ساتھ ہو جائیں گے، پھر (پل) صراط جہنم کے درمیانی حصے پر رکھ دیا جائے گاتو میں اور امت سب سے پہلے ہوں گے جو اس سے گزریں گے۔ اس دن رسولوں کے سوا کوئی بول نہ سکے گا۔ اور رسولوں کو پکار (بھی) اس دن یہی ہو گی: اے اللہ! سلامت رکھ، سلامت رکھ۔ اور دوزخ میں سعدان کے کانٹوں کی طرح مڑے ہوئے سروں والے آنکڑے ہوں گے، کیا تم نے سعدان دیکھا ہے؟ صحابہ نے جواب دیا: جی ہاں، اے اللہ کے رسول!آپ نے فرمایا: وہ (آنکڑے) سعدان کے کانٹوں کی طرح کے ہوں گے لیکن وہ کتنے بڑے ہوں گے اس کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا، وہ لوگ کو ان کے اعمال کا بدلہ چکانا ہوگا۔ یہاں تک کہ جب اللہ تعالیٰ بندوں کے درمیان فیصلے سے فارغ ہو جائے گا اور ارادہ فرمائے گا کہ اپنی رحمت سے، جن دوزخیوں کو چاہتا ہے، آگ سے نکالے تو وہ فرشتوں کو حکم دے گا کہ ان لوگوں میں سے جو اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں ٹھہراتے تھے، لا الہ الا اللہ کہنے والوں میں سے جن پر اللہ تعالیٰ رحمت کرنا چاہے گا انہیں آگ سے نکال لیں۔ فرشتے ان کو آگ میں پہچان لیں گے۔ وہ ا نہیں سجدوں کے نشان سے پہچانیں گے۔ آگ سجدے کے نشانات کے سوا، آدم کے بیٹے (کی ہر چیز) کو کھا جائے گی۔ (کیونکہ) اللہ تعالیٰ نے آگ پر سجدے کے نشانات کو کھانا حرام کر دیا ہے، چنانچہ وہ اس حال میں آگ سے نکالے جائیں گےکہ جل کر کوئلہ بن گئے ہوں گے، ان پر آپ حیات ڈالا جائے گا تو وہ اس کے ذریعے سے اس طرح اگ آئیں گے، جیسے سیلاب کی لائی ہوئی مٹی میں گھاس کا بیج پھوٹ کر اگ آتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے درمیان فیصلے سے فارغ ہو جائے گا۔ بس ایک شخص باقی ہو گا، جس نے آگ کی طرف منہ کیا ہو ا ہو گا، یہی آدمی، تمام اہل جنت میں سے، جنت میں داخل ہونے والا آخری شخص ہو گا۔وہ عرض کرے گا: میرا باپ! میرا چہرہ آگ سے پھیر دے کیونکہ اس کی بدبونے میری سانسوں میں زہر بھر دیا ہے اور اس کی تپش نے مجھے جلا ڈالا ہے، چنانچہ جب تک اللہ کو منظور ہو گا، وہ اللہ کو پکارتا رہے گاپھر اللہ تبارک و تعالیٰ فرمائے گا: کیا ایسا ہو گا کہ اگر میں تمہارے ساتھ یہ (حسن سلوک) کر دوں تو تم کچھ اور مانگنا شروع کر دو گے؟وہ عرض کرے گا: میں تجھ سے اور کچھ نہیں مانگوں گا۔ وہ اپنے رب عز وجل کو جو عہد و پیمان وہ (لینا) چاہے گا، دے گا، تو اللہ اس کا چہرہ دوزخ سے پھیر دے گاجب وہ جنت کی طرف رخ کرے گا اور اسے دیکھا گا تو جتنی دیر اللہ چاہے گا کہ وہ چپ رہے (اتنی دیر) چپ رہے گا، پھر کہے گا: میرا رب! مجھے جنت کے دروازے تک آگے کر دے، اللہ تعالیٰ اس سے کہے گا: کیا تم نے عہد و پیمان نہیں دیے تھے کہ جو کچھ میں نے تمہیں عطاکر دیا ہے اس کےسوا مجھ سے کچھ اور نہیں مانگو گے؟ تجھ پر ا فسوس ہے! آدم کے بیٹے! تم کس قدر عہد شکن ہو! وہ کہے گا: اے میرے رب! اور اللہ سے دعا کرتا رہے گا حتی کہ اللہ اس سے کہے گا: کیا ایسا ہو گا کہ اگر میں نے تمہیں یہ عطا کر دیا تو اس کے بعد تو اور کچھ مانگنا شروع کر دے گا؟ وہ کہے گا: تیری عزت کی قسم! (اور کچھ) نہیں (مانگوں گا۔) وہ اپنے رب کو، جواللہ چاہے گا، عہد و پیمان دے گا، اس پر اللہ اسے جنت کے دروازے تک آگے کر دے گا، پھرجب وہ جنت کے دروازے پر کھڑا ہو گا تو جنت اس کے سامنے کھل جائے گی۔ اس میں جو خیر اور سرور ہے وہ اس کو (اپنی آنکھوں سے) دیکھے گا۔ تو جب تک اللہ کو منظور ہو گا وہ خاموش رہے گا، پھر کہے گا: میرے رب! مجھے جنت میں داخل کر دے، تو اللہ تعالیٰ اس سے کہے گا، کیا تو نے پختہ عہد و پیمان نہ کیے تھے کہ جو کچھ تجھے دے دیا گیا ہے اس کے سوا اور کچھ نہیں مانگے گا؟ ابن آدم تجھ پر افسوس! تو کتنا بڑا وعدہ شکن ہے۔ وہ کہے گا: اے میرے رب! میں تیری مخلوق کا سب سے زیادہ بدنصیب شخص نہ بنوں، وہ اللہ تعالیٰ کو پکارتا رہے گا حتی کہ اللہ عزوجل اس پر ہنسے گا اور جب اللہ تعالیٰ ہنسے گا (تو) فرمائے گا: جنت میں داخل ہو جا۔ جب وہ اس میں داخل ہو جائے گا تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا، تمنا کر! تو وہ اپنے رب سے مانگے گا اور تمنا کرے گا یہاں تک کہ اللہ اسے یاد دلائے گا، فلاں چیز (مانگ) فلاں چیز (مانگ) حتی کہ جب اس کی تمام آرزوئیں ختم ہو جائیں گی تواللہ تعالیٰ فرمائے گا: یہ سب کچھ تیرا ہے اور اس کے ساتھ اتنا ہی اور بھی۔ عطاء بن یزید نے کہا کہ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بھی ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ موجود تھے، انہوں نے ان کی کسی بات کی تردید نہ کی لیکن جب ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے یہ بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ اس آدمی سے فرمائے گا: یہ سب کچھ تیرا ہوا اور اس کے ساتھ اتناہی اور بھی تو ابوسعید رضی اللہ عنہ فرمانے لگے: ابو ہریرہ! اس کے ساتھ اس سے دس گنا (اور بھی)، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: مجھے تو آپ کا یہی فرمان یاد ہے: یہ سب کچھ تیرا ہے اور اس کے ساتھ اتناہی اور بھی۔ ابو سعید رضی اللہ عنہ نے کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سن کر آپ کا یہ فرمان دیکھا ہے: یہ سب تیرا ہوا اور اس سے دس گنا اور بھی۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ جنت میں داخل ہونے والا سب سے آخری شخص ہو گا
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ کچھ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ! کیا ہم قیامت کے دن اپنے رب کو دیکھ پائیں گے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چودھویں کا چاند دیکھنے میں (اژدحام کی وجہ سے) ایک دوسرے کو تکلیف پہنچاتے ہو؟ صحابہؓ نے عرض کیا: نہیں اے اللہ کے رسولؐ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا سورج جب اس کے ورے بادل حائل نہ ہوں، دیکھنے میں ایک دوسرے کو تکلیف پہنچاتے ہو؟ صحابہؓ نے عرض کیا: نہیں اے اللہ کے رسولؐ! آپ نے فرمایا: تم اللہ کو بھی اسی طرح (بغیر تکلیف و دشواری کے) دیکھو گے۔ اللہ تعالیٰ قیامت کو تمام لوگوں کو جمع کرے گا، پھر فرمائے گا: جو کسی کی بندگی کرتا تھا اسی کے ساتھ ہو جائے۔ پھر جو شخص سورج کی پوجا کرتا تھا وہ سورج کے پیچھے چلا جائے گا، جو چاند کی پرستش کرتا تھا اسی کے ساتھ ہو جائے گا، اور جو طاغوتوں (غیر اللہ) کی پوجا کرتا تھا وہ طاغوتوں کے ساتھ ہو جائے گا، اور یہ امت رہ جائے گی، اس میں منافق بھی ہوں گے، تو ان کے پاس اللہ تبارک و تعالیٰ ایسی صورت میں آئے گا جس کو وہ پہچانتے نہیں ہوں گے اور فرمائے گا: میں تمھارا رب ہوں۔ وہ کہیں گے: ہم تجھ سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے ہیں، ہم اس جگہ ٹھہریں گے، یہاں تک کہ ہمارے پاس ہمارا رب آ جائے۔ جب ہمارا رب آ جائے گا، ہم اسے پہچان لیں گے۔ تو اللہ ان کے پاس اس صورت میں آئے گا جس میں وہ اس کو پہچان لیں گے اور فرمائے گا: میں تمھارا رب ہوں۔ وہ کہیں گے: تو ہی ہمارا رب ہے اور اس کے ساتھ ہو جائیں گے۔ پھر جہنم کی پشت پر پلِ صراط رکھا جائے گا، تو میں اور میری امت سب سے پہلے اس سے گزریں گے، اور رسولوں کے سوا اس دن کسی کو یارائے گفتگو نہ ہو گا۔ اور رسولوں کی پکار اس دن یہی ہو گی، اے اللہ! بچا! بچا! اور دوزخ میں سعدان نامی جھاڑی کے کانٹوں کی طرح لوہے کے مڑے ہوئے سروں والے آنکڑے (کنڈے) ہوں گے (جن پر گوشت بھونا جاتا ہے)۔ کیا تم نے سعدان جھاڑی کو دیکھا ہے؟ صحابہؓ نے جواب دیا: جی ہاں! اے اللہ کے رسولؐ! آپ نے فرمایا: وہ آنکڑے (سلاخیں) سعدان کے کانٹوں جیسے ہوں گے، لیکن ان کی جسامت اور بڑائی کی مقدار کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا، اور وہ لوگوں کو ان کے بد اعمال کی بنا پر اچک لیں گے (ان میں پھنسنے والے اپنے عملوں کے سبب ہلاک ہوں گے) ان میں مومن ہوں گے جو اپنے عملوں کے سبب بچ جائیں گے، اور ان میں سے بعض بدلہ دیے جائیں گے حتیٰ کہ نجات دیے جائیں گے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ بندوں کے فیصلہ سے فارغ ہو جائے گا، اور اپنی رحمت سے دوزخیوں کو آگ سے نکالنا چاہے گا جن کے بارے میں اس کا ارادہ ہو گا، تو وہ فرشتوں کو حکم دے گا: کہ وہ ان لوگوں کو آگ سے نکال دیں جو اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں ٹھہراتے تھے۔ ان میں سے جن کو وہ اپنی رحمت سے نوازنا چاہے گا، ان میں سے جو "لا إله إلا اللہ" کہتے تھے اور فرشتے ان کو آگ میں پہچان لیں گے، وہ انھیں سجدوں کے نشان سے پہچانیں گے۔ آگ ابنِ آدم سے سجدوں کے نشان کے سوا ہر چیز کو ہڑپ کر جائے گی۔ اللہ تعالیٰ نے آگ پر سجدے کے نشان کو جلانا حرام ٹھہرایا ہے۔ وہ آگ سے اس حال میں نکالے جائیں گے کہ وہ جل چکے ہوں گے۔ ان پر آبِ حیات ڈالا جائے گا۔ وہ اس سے یوں پھلیں پھولیں گے جس طرح قدرتی دانہ سیلاب کے ڈیلٹا (پانی کے بہاؤ کے ساتھ آنے والی مٹی اور خس و خاشاک) میں اگتا ہے۔ (یعنی بہت جلد ترو تازہ ہو کر اٹھ کھڑے ہوں گے) پھر جب اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ کرنے سے فارغ ہو جائے گا، اور ایک شخص باقی رہ جائے گا جس کا چہرہ آگ کی طرف ہوگا، اور یہی آدمی جنت میں داخل ہونے والا آخری شخص ہو گا۔ وہ عرض کرے گا: اے میرے رب! میرا چہرہ آگ سے پھیر دے، کیونکہ اس کی بدبو نے مجھ میں زہر بھر دیا ہے، یا میری شکل و صورت بدل دی ہے، اور اس کی تپش نے مجھے جلا ڈالا ہے۔ جب تک اللہ تعالیٰ کو منظور ہوگا، وہ پکارتا رہے گا، پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا: کہیں ایسا تو نہیں کہ اگر میں تیرے ساتھ ایسا کردوں (تیرا سوال پورا کردوں) تو اور سوال کر دے؟ وہ عرض کرے گا: میں تجھ سے اور سوال نہیں کروں گا، اور اللہ جو عہد وپیمان چاہے گا، دے دے گا۔ تو اللہ اس کا چہرہ دوزخ سے پھیر دے گا۔ پھر جب وہ جنت کی طرف متوجہ ہوگا اور اسے دیکھے گا، جب تک اللہ چاہے گا وہ خاموش رہے گا، پھر کہے گا: اے میرے رب! مجھے جنت کے دروازے تک آگے کردے! اللہ تعالی فرمائے گا: کیا تو نے اپنے عہد وپیمان نہیں دیے تھے، کہ جو کچھ میں نے تمھیں دیا ہے اس کے سوا سوال نہیں کرے گا۔ تو تباہ ہو! اے آدم کے بیٹے! تو کس قدر بے وفا ہے! وہ کہے گا: اے میرے رب! اور اللہ سے دعا کرے گا حتیٰ کہ اللہ اسے فرمائے گا: کہیں ایسا تو نہیں اگر میں تیرا یہ سوال پورا کردوں، تو تو اور مانگنا شروع کر دے؟ وہ کہے گا: تیری عزت کی قسم! اور نہیں مانگوں گا، اور اپنے رب کو اللہ جو عہد وپیمان چاہے گا دے دے گا۔ پھر اللہ اسے جنت کے دروازے تک آگے کر دے گا۔ جب وہ جنت کے دروازے پر کھڑا ہوگا، جنت اس کے لیے کھل جائے گی اور وہ اس کی خیرات اور فرحت و مسرت انگیز چیزوں کو دیکھے گا، تو جب تک اللہ کو خاموشی منظور ہو گی خاموش رہے گا، پھر کہے گا: اے میرے رب! مجھے جنت میں داخل کردے! تو اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا: کیا تو نے اپنے پختہ عہد وپیمان نہیں دیے تھے، کہ جو کچھ تجھے دیا گیا ہے اس کے سوا نہیں مانگے گا۔ تجھ پر افسوس ہے، اے ابنِ آدم! تو کس قدر دغا باز ہے! وہ کہے گا: اے میرے رب! میں تیری مخلوق میں سب سے بد نصیب نہ بنوں۔ آپؐ نے فرمایا: وہ اللہ عز و جل سے فریاد کرتا رہے گا حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ ہنسے گا اور جب اللہ تعالیٰ ہنس پڑے گا، تو فرمائے گا جنت میں داخل ہو جا! جب وہ اس میں داخل ہو جائے گا، اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تمنا کر! تو وہ اپنے رب سے سوال کرے گا اور تمنا کرے گا حتیٰ کہ اللہ اسے یاد دلائے گا، فلاں فلاں چیز کی تمنا کر! یہاں تک کہ جب اس کی تمام آرزوئیں ختم ہوجائیں گی، تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا: یہ سب کچھ تجھے دیا اور اتنا مزید اور۔ عطاء بن یزیدؒ بیان کرتے ہیں ابو سعیدؓ بھی ابو ہریرہؓ کے ساتھ موجود تھے، اس کی حدیث کی کسی چیز کی تردید نہیں کر رہے تھے، حتیٰ کہ جب ابو ہریرہؓ نے بیان کیا: کہ اللہ تعالیٰ اس آدمی سے فرمائے گا: یہ سب کچھ تجھے دیا اور اتنا اور بھی دیا تو ابو سعیدؓ نے کہا: اس کے ساتھ اس سے دس گنا زائد اے ابو ہریرہ! ابو ہریرہؓ نے کہا: مجھے تو یہی یاد ہے: تیرے لیے یہ سب کچھ ہے اور اتنا مزید اور۔ ابو سعیدؓ نے کہا: میں اللہ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول یاد ہے: تجھے یہ سب کچھ حاصل ہےاور اس سے دس گنا زائد۔ ابو ہریرہ ؓ نے کہا: اور یہ آدمی جنت میں داخل ہونے والا آخری فرد ہو گا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في ((صحيحه)) في التوحيد، باب: قول الله تعالى: ﴿ وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَّاضِرَةٌ ‎، إِلَىٰ رَبِّهَا نَاظِرَةٌ ﴾ برقم (7437) وفى الرقاق، باب: الصراط جسر جهنم برقم (6573) مطولا والنسائي في ((المجتبى)) 229/2 في التطبيق، باب: موضع السجود باختصار - انظر ((التحفة)) برقم (14213)»

صحیح مسلم کی حدیث نمبر 451 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 451  
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
:
(1)
تُضَارُّونَ:
ایک دوسرے کو تکلیف پہنچانا،
باب مفاعلہ سے ہے،
جو ضر (تکلیف پہنچانا یا نقصان پہنچانا)
سے ماخوذ ہے۔
اگر ضَرَّ،
يَضُرُّ ضَرًّا سے مانیں تو معنی ہو گا:
دکھ اور تکلیف پہنچنا اور مضارع مجہول ہو گا،
مفاعلہ کی صورت میں معروف ہو گا۔
اور مفاعلہ کی صورت میں (ر)
مشدد ہو گی اصل میں ہے تضاررون۔
(2)
الطَّوَاغِيتُ:
طَاغُوْتٌ کی جمع ہے،
اللہ تعالیٰ کے سوا،
ہر معبود پر اس کا اطلاق ہوتا ہے،
وہ جاندار ہو یا بے جان۔
(2)
يُضْرَبُ الصِّرَاطُ:
پل بچھا دیا جائے گا۔
(4)
أَوَّلَ مَنْ يُجِيزُ:
جوز سے ماخوذ ہے،
کسی مقام سے آگے بڑھنا،
مسافت طے کرنا۔
جَازَ الْمَكَانَ اور أَجَازَ الْمَكَانَ دونوں کا معنی ایک ہے،
گزرنا،
آگے بڑھنا۔
(5)
كَلَالِيبٌ:
كلاب کی جمع ہے،
لوہے کی مڑے ہوئے سر کی سلاخ،
آنکڑا،
جس پر گوشت بھونا جاتا ہے۔
(6)
شَوْك السَّعْدَانِ:
شَوْكٌ کی جمع أَشْوَاكٌ کانٹا،
سعدان ایک خاردار جھاڑی ہے جس کے کانٹے بڑے بڑے ہوتے ہیں۔
(7)
بَقِيَ بِعَمَلِهِ:
اپنے عمل کے سبب بچ گیا،
لیکن ہندوستانی و پاکستانی نسخوں میں الموبق بعمله ہے۔
جو وبق (ہلاکت و تباہی)
سے ماخوذ ہے،
یعنی عملوں کے سبب ہلاک ہو کیا گیا۔
(8)
الْمُجَازَى:
جزاء سے ماخوذ ہے،
بدلہ دیا گیا۔
(9)
قَدِ امْتَحَشُوا:
مَخُشَ سے ماخوذ ہے،
چمڑے کا جل کر ہڈی کا ننگا ہو جانا۔
یعنی وہ جل چکے ہوں گے۔
(10)
حَبَّةٌ (ح)
پر زیر ہے،
جمع حِبَبٌ،
قدرتی بیج۔
(11)
قَشَبَنِي:
قشب سے ماخوذ ہے،
کھانے میں زہر ملانا۔
یعنی مجھ میں زہر بھر دی ہے،
میرے لیے اذیت و تباہی کا باعث ہے۔
یا بقول بعض میری شکل و صورت کو بدل دیا ہے۔
فوائد ومسائل:
(1)
قیامت کو جنت میں جانے سے پہلے ہی مومنوں کو اللہ تعالیٰ کا دیدار ہوگا،
آغاز میں منافق بھی ساتھ ہوں گے،
لیکن پھرمومنوں اور منافقوں کے درمیان آڑ حائل ہوجائے گی،
جیسا کہ سورۂ حدید: 13 میں آیا ہے۔
(2)
اللہ تعالیٰ کی ایک ایسی صورت ہے جس میں دیکھ کر مومنوں کو یقین ہوجائے گا کہ یہ اللہ تعالیٰ ہے،
اس صورت کے بغیر ان کے دلوں میں اس کا یقین پیدا نہیں ہوگا،
اس لیے وہ اس کے اللہ تعالیٰ ہونے پر مطمئن نہیں ہوں گے اور انکار کر دیں گے۔
(3)
اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کی رؤیت کو چودھویں رات کے چاند،
یا صاف سورج کے دیکھنے سے تشبیہ دی گئی؟ اس طرح رؤیت کی رؤیت سے تشبیہ ہے،
رؤیت دیدار مرئی دیکھی ہوئی چیزی یعنی اللہ تعالیٰ کی سورج وقمر سے تشبیہ نہیں ہے،
بلکہ اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کو سورج وچاند کے دیکھنے سے تشبیہ دی ہے،
کہ دیکھنے میں کوئی اژدھام اور تکلیف ومشقت نہیں ہے،
اللہ تعالیٰ کو چاند اور سورج سے تشبیہ نہیں دی ہے۔
مقصد یہ ہے جس طرح چاند اور سورج کے دیکھنے کے لیے اژدھام اور دھکم پیل کی صورت پیدا نہیں ہوتی،
ہر انسان بغیر کسی وقت وتکلیف کے اپنی اپنی جگہ دیکھ لیتا ہے۔
اس طرح اللہ تعالیٰ کا دیدار ہر مومن کو اپنی اپنی جگہ ہوجائے گا،
بھیڑ اور دھکم پیل نہیں ہوگی،
اور کسی کو اذیت وتکلیت سے دوچار نہں ہونا پڑے گا۔
(4)
اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کے ضحك (ہنسی)
اتیان (آمد)
صورت (شکل)
اور گفتگو (قول وکلام)
کا اثبات کیا گیا ہے- اللہ تعالیٰ ان چیزوں سے متصف ہے،
لیکن ان کی کیفیت وصفت کو بیان کرنا ممکن ہے،
اس لیے تشبیہ وتمثیل یا تاویل وتعطیل درست نہیں ہے۔
خالق کی صفات،
اس کے شایا ن شان ہیں۔
اور مخلوق کی صفات ان کی حیثیت اور مقام کے مطابق ہیں،
اس لیے صفات کے اثبات سے تشبیہ وتمثیل لازم نہیں آتی۔
(5)
اس حدیث میں جہنم کی پشت پر پل لگانے کا تذکرہ ہوا جس سے لوگوں نے گزرنا ہے،
اس کو ہولناکی کی بنا پر انبیاءؑ بھی "سَلِّمْ سَلِّمْ" بچا بچا کی صدا بلند کریں گے۔
(پل کی تفصیل اپنی جگہ پر آئے گی) (6)
جہنم میں داخلہ کے بعد موحد انجام کار دوزخ سے نکال لیے جائیں گی،
اس کی تفصیل احادیث شفاعت میں آئے گی۔
(7)
جنت میں داخل ہونے والے آخری فرد کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا مکالمہ واضح طور پر اللہ تعالی کے لیے کلام ثابت کر رہا ہے،
اور یہ کلام لفظی ہے،
جس کو وہ فرد سنے گا اورجواب دے گا،
اس لیے متکلمین کی طرح صفت کلام میں تاویل کرنا درست نہیں ہے،
کہ اللہ کا کلام،
کلام نفسی ہے جو حروف وصورت سے خالی ہے،
کیونکہ کلام نفسی کو تو دوسرا سن نہیں سکتا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 451   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 7437  
´دنیا کی آنکھ سے کوئی بھی اللہ کو نہیں دیکھ سکتا`
«. . . أَنَّ النَّاس قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَلْ نَرَى رَبَّنَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ؟، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هَلْ تُضَارُّونَ فِي الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ؟ . . .»
. . . لوگوں نے پوچھا: یا رسول اللہ! کیا ہم قیامت کے دن اپنے رب کو دیکھیں گے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا، کیا چودھویں رات کا چاند دیکھنے میں کوئی دشواری ہوتی ہے؟ . . . [صحيح البخاري/كِتَاب التَّوْحِيدِ/بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَاضِرَةٌ إِلَى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ:: 7437]
تخريج الحديث:
[115۔ البخاري فى: 97 كتاب التوحيد: 24 باب قول الله تعالىٰ: وجوه يومئذ ناضرة۔۔۔ 22 مسلم 183]

لغوی توضیح:
«تُضَارُوْنَ» تم تکلیف محسوس کرتے ہو۔
«صَحْوًا» صاف، جب آسمان پر بادل نہ ہو۔
«الْاَوْثَان» جمع ہے «وَثَن» کی، معنی ہے بت۔
«غُبَّرَات» باقی رہنے والے۔
«سَرَاب» وہ ریت جو دوپہر کو چمک کی وجہ سے پانی معلوم ہوتی ہے۔
«الْحَسْر» پل
«مَدْحَضَةٌ مَزِلَّةٌ» دونوں کا ایک ہی معنی ہے، پھسلنے کی جگہ۔
«خَطَاطِيفُ» جمع ہے خطاف کی اور «کـَلالِیب» جمع ہے «كلوب» کی، دونون کا معنی ایک ہی ہے، ایسا لوہا جوسرے سے مڑا ہوا ہو۔
«حَسَكَة» سعدان بوٹی کے کانٹے۔
«اَجَاوِيد» جمع ہے «اَجْوَاد» کی اور «اجَواد» جمع ہے «جَوَاد» کی، معنی ہے تیز رفتار، عمدہ۔
«الْخَيْل» گھوڑے۔
«الرُّكَاب» اونٹ۔
«مَخْدُوش» خراشیں لگے ہوئے، نوچے ہوئے۔
«مَكْدُوْس» دھکیلے گئے۔
«مَنَاشَدَه» مطالبہ۔
«امْتُحِشُوْا» جنہیں جلا دیا گیا۔
«حَافَتَيْه» اس کے دونوں کنارے۔
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 115   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1212  
1212- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: لوگوں نے عرض کی: یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم)! کیا قیامت کے دن ہم اپنے پروردگار کا دیدار کریں گے؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: دوپہر کے و قت جب بادل موجود نہ ہوں، تو کیا تمہیں سورج کو دیکھنے میں کچھ مشکل محسوس ہوتی ہے؟ لوگوں نے عرض کی: جی نہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چودھویں رات میں جب بادل موجود نہ ہوں، تو کیا تمہیں چاند کو دیکھنے میں مشکل ہوتی ہے؟ لوگوں نے عرض کی: جی نہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم! جس کے دست قدرت میں میری جان ہے، تمہیں اپنے پروردگار۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1212]
فائدہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ قیامت والے دن لوگوں کو اپنا دیدار کروائیں گے، اس حدیث سے منکرین وجود باری تعالیٰ کا رد ہوتا ہے۔
بات کی پختگی کے لیے قسم کھا نا جائز ہے، اللہ تعالیٰ کلام بھی کرتے ہیں۔ دنیا کی جتنی چیزیں انسان کے تابع ہیں خود انسان ان پر ذرہ برابر بھی طاقت نہیں رکھتا، اللہ تعالیٰ نے ان کو مسخر کیا ہے، اللہ تعالیٰ قیامت والے دن جسم کے تمام اعضاء کو قوت گویائی عطا فرمائے گا۔
اس حدیث سے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ ہم قیامت اور روز قیامت ہونے والے تمام غیبی معاملات پر ایمان رکھتے ہیں، جنت برحق ہے، جہنم برحق ہے، جنت کی نعمتیں برحق ہیں اور جہنم کی سزائیں برحق ہیں، پل صراط برحق ہے، جنت کے دروازے برحق ہیں۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1210   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 806  
806. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا ہم روز قیامت اپنے پروردگار کو دیکھیں گے؟آپ نے فرمایا: شب بدر کے چاند جس پر کوئی ابر نہ ہو (اسے دیکھنے میں) تمہیں کوئی شک ہوتا ہے؟ صحابہ کرام نے کہا: اللہ کے رسول! نہیں۔ آپ نے فرمایا: تو کیا تم آفتاب (کے دیکھنے) میں شک کرتے ہو جبکہ اس پر ابر نہ ہو؟ صحابہ کرام نے کہا: اللہ کے رسول! ہرگز نہیں۔ آپ نے فرمایا: اسی طرح تم اپنے پروردگار کو دیکھو گے۔ قیامت کے دن جب لوگ اٹھائے جائیں گے تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا: جو (دنیا میں) جس کی پوجا کرتا تھا وہ اس کے پیچھے جائے، چنانچہ کوئی تو سورج کے ساتھ ہو جائے گا اور کوئی چاند کے پیچھے ہو لے گا اور کوئی بتوں اور شیاطین کے پیچھے چلے گا۔ باقی اس امت کے (مسلمان) لوگ رہ جائیں گے جن میں منافق بھی ہوں گے۔ ان کے پاس اللہ تعالیٰ (ایک نئی صورت میں) تشریف لائے گا اور فرمائے گا: میں تمہارا رب ہوں۔ وہ عرض کریں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:806]
حدیث حاشیہ:
امام المحدثین حضرت امام بخاری ؒ سجدے کی فضیلت بیان کرنے کے لیے اس طویل حدیث کو لائے ہیں۔
اس میں ایک جگہ مذکور ہے کہ اللہ پاک نے دوزخ پر حرام کیا ہے کہ وہ اس پیشانی کو جلائے جس پر سجدے کے نشانات ہیں۔
ان ہی نشانات کی بنا پر بہت سے گنہگاروں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر دوزخ سے نکالا جائے گا باب اور حدیث میں یہی مطابقت ہے۔
باقی حدیث میں اور بھی بہت سی باتیں مذکور ہیں۔
ایک یہ کہ اللہ کا دیدار برحق ہے جو اس طرح حاصل ہوگا جیسے چودہویں رات کے چاند کا دیدار عام ہوتا ہے، نیز اس حدیث میں اللہ پاک کا آنا اور اپنی صورت پر جلوہ افروز ہونا اور اہل ایمان کے ساتھ شفقت کے ساتھ کلام کرنا۔
قرآن مجید کی بہت سی آیات اور بہت سی احادیث صحیحہ جن میں اللہ پاک کی صفات مذکور ہیں۔
ان کی بنا پر اہل حدیث اس پر متفق ہیں کہ اللہ پاک ان جملہ صفات سے موصوف ہے۔
وہ حقیقتاً کلام کرتا ہے جب وہ چاہتا ہے فرشتے اس کی آواز سنتے ہیں اور وہ اپنے عرش پر ہے۔
اسی کی ذات کے لیے جہت فوق ثابت ہے۔
اس کا علم اور سمع و بصر ہر ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے۔
اس کو اختیار ہے کہ وہ جب چاہے جہاں چاہے جس طرح چاہے آئے جائے۔
جس سے بات کرے اس کے لیے کوئی امر مانع نہیں۔
حدیث ہذا میں دوزخ کا بھی ذکر ہے سعدان نامی گھاس کا ذکر ہے جس کے کانٹے بڑے سخت ہیں اور پھر دوزخ کا سعدان جس کی بڑائی اور ضرر رسانی خدا ہی جانتاہے کہ کس حد تک ہوگی۔
نیز حدیث میں ماءالحیاة کا ذکر ہے۔
جو جنت کا پانی ہوگا اور ان دوزخیوں پر ڈالا جائے گا جو دوزخ میں جل کر کوئلہ بن چکے ہوں گے۔
اس پانی سے ان میں زندگی لوٹ آئے گی۔
آخر میں اللہ پاک کا ایک گنہگار سے مکالمہ مذکو رہے جسے سن کر اللہ پاک ہنسے گا۔
اس کا یہ ہنسنا بھی برحق ہے۔
الغرض حدیث بہت سے فوائد پر مشتمل ہے۔
حضرت الامام کی عادت مبارکہ ہے کہ ایک حدیث سے بہت سے مسائل کا استخراج کرتے ہیں۔
ایک مجتہد مطلق کی شان یہی ہونی چاہئے۔
پھر حیرت ہے ان حضرات پر جو حضرت امام بخاری ؒ جیسے فاضل اسلام کو مجتہد مطلق تسلیم نہیں کرتے۔
ایسے حضرات کو بنظر انصاف اپنے خیال پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 806   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:806  
806. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا ہم روز قیامت اپنے پروردگار کو دیکھیں گے؟آپ نے فرمایا: شب بدر کے چاند جس پر کوئی ابر نہ ہو (اسے دیکھنے میں) تمہیں کوئی شک ہوتا ہے؟ صحابہ کرام نے کہا: اللہ کے رسول! نہیں۔ آپ نے فرمایا: تو کیا تم آفتاب (کے دیکھنے) میں شک کرتے ہو جبکہ اس پر ابر نہ ہو؟ صحابہ کرام نے کہا: اللہ کے رسول! ہرگز نہیں۔ آپ نے فرمایا: اسی طرح تم اپنے پروردگار کو دیکھو گے۔ قیامت کے دن جب لوگ اٹھائے جائیں گے تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا: جو (دنیا میں) جس کی پوجا کرتا تھا وہ اس کے پیچھے جائے، چنانچہ کوئی تو سورج کے ساتھ ہو جائے گا اور کوئی چاند کے پیچھے ہو لے گا اور کوئی بتوں اور شیاطین کے پیچھے چلے گا۔ باقی اس امت کے (مسلمان) لوگ رہ جائیں گے جن میں منافق بھی ہوں گے۔ ان کے پاس اللہ تعالیٰ (ایک نئی صورت میں) تشریف لائے گا اور فرمائے گا: میں تمہارا رب ہوں۔ وہ عرض کریں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:806]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے سجدے کی فضیلت کا پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس پیشانی کو نہیں جلائے گا جس پر سجدے کے نشانات ہوں گے۔
اور انہی نشانات کی وجہ سے بے شمار گناہ گاروں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر جہنم سے نکال لیا جائے گا۔
جو لوگ دنیا میں نماز کی نعمت سے محروم رہے ہوں گے لیکن کلمۂ شہادت ادا کر کے اسلام قبول کیا ہو گا انہیں جہنم کے عذاب سے کیسے نجات ملے گی؟ ان کے جسم پر سجدے کے آثار و علامات نہیں ہوں گے جن سے فرشتے شناخت کر کے انہیں جہنم سے نکال لائیں تو کیا وہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہیں گے؟ غالبا ایسے لوگوں کو خود اللہ تعالیٰ جہنم سے نکالے گا جبکہ تمام انبیاء، صلحاء اور فرشتوں کی سفارشات سے بےشمار لوگ جہنم سے نجات حاصل کر چکے ہوں گے اور جنت میں انہیں داخلہ مل چکا ہو گا۔
تب اللہ تعالیٰ فرمائے گا:
اب میری سفارش رہ گئی ہے۔
پھر اللہ تعالیٰ مٹھی بھر کر ایسے لوگوں کو جہنم سے نکالے گا جنہوں نے دنیا میں کبھی اچھا کام نہیں کیا ہو گا۔
ان کے پاس دھندلا سا ایمان ہو گا جو انبیاء، صلحاء اور فرشتوں کی نگاہوں سے پوشیدہ رہے گا۔
(صحیح البخاري، التوحید، حدیث: 7439)
واللہ أعلم۔
(2)
اس کے متعلق اختلاف ہے کہ دوزخ کی آگ سے نمازی کے جسم کا کون سا حصہ محفوظ رہے گا؟ علامہ نووی ؒ کی رائے ہے کہ تمام اعضائے سجدہ، یعنی پیشانی، دونوں ہاتھ، دونوں گھٹنے اور دونوں پاؤں جہنم کی آگ سے محفوظ رہیں گے جبکہ قاضی عیاض کا موقف ہے کہ صرف پیشانی جس سے سجدہ ہوتا ہے وہی محفوظ ہو گی کیونکہ حدیث میں ہے کہ گناہ گار لوگوں میں سے کچھ لوگ آدھی پنڈلی، کچھ گھٹنوں اور کچھ کمر تک آگ میں رہیں گے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قدم اور گھٹنے آگ سے محفوظ نہیں رہیں گے، اس لیے صرف پیشانی کو محفوظ کہہ سکتے ہیں۔
ایک دوسری حدیث سے بھی اسی موقف کی تائید ہوتی ہے کہ کچھ لوگوں کو دوزخ میں عذاب ہو گا مگر ان کے چہروں کے دائرے اس سے محفوظ ہوں گے۔
علامہ نووی رحمہ اللہ نے پہلی حدیث کا جواب بایں الفاظ دیا ہے کہ اس میں خاص لوگوں کا حال بیان ہوا ہے لیکن عام گناہ گار اہل ایمان کے تمام اعضائے سجدہ آگ سے محفوظ رہیں گے جیسا کہ مذکورہ بالا حدیث کا تقاضا ہے، اس لیے جہنم میں سزا پانے والے اہل ایمان کی دو اقسام ہیں اور دونوں قسم کی احادیث کے موارد بھی الگ الگ ہیں۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی قاضی عیاض کے استدلال کا جواب دیا ہے کہ آخرت کے احوال کو دنیا کے احوال پر قیاس نہیں کرنا چاہیے۔
ممکن ہے کہ کمر تک آگ میں جلنے والوں کے گھٹنے اور قدم دوزخ کی آگ سے بالکل متاثر نہ ہوں اور اعضائے سجدہ اس سے محفوظ رہیں۔
پھر لکھا ہے کہ چہرے کے دائروں والی حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ نہ صرف پیشانی بلکہ چہرے کے پورے دائرے سجدے کی برکت سے محفوظ رہیں گے۔
اس بنا پر پیشانی کے استثناء والی بات بھی محل نظر ہے۔
(فتح الباري: 556/11 و 481/2) (3)
حضرت ابو ہریرہ اور حضرت ابو سعید خدری ؓ کے بیانات میں کوئی تضاد نہیں کیونکہ فضائل اعمال میں اقل کو ابتدائی اور اکثر کو آخری حالات پر محمول کیا جاتا ہے۔
اس بنا پر حضرت ابو ہریرہ ؓ کی حدیث میں کم از کم قطعۂ جنت کا بیان ہے جس کے متعلق رسول اللہ ﷺ کو پہلے مطلع کیا گیا اور حضرت ابو سعید خدری ؓ سے مروی حدیث میں زیادہ سے زیادہ رحمت الٰہی کا بیان ہے جس پر رسول اللہ ﷺ کو بعد میں مطلع کیا گیا اور بیان کے وقت حضرت ابو ہریرہ ؓ اس پر مطلع نہ ہو سکے۔
(عمدة القاري: 552/4)
واللہ أعلم۔
(4)
اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کی بے شمار صفات کا اثبات ہے جن پر آگے کتاب الرقاق، حدیث: 6573 اور کتاب التوحید، حدیث: 7437 میں گفتگو ہو گی۔
بإذن اللہ۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 806