صحيح مسلم
كِتَاب الْإِيمَانِ
ایمان کے احکام و مسائل
71. باب نُزُولِ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ حَاكِمًا بِشَرِيعَةِ نَبِيِّنَا مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
باب: عیسیٰ علیہ السلام کے نازل ہونے اور ان کے شریعت محمدی کے موافق چلنے اور اللہ تعالیٰ کا اس امت کو عزت اور شرف عطا فرمانا اور اس بات کی دلیل کہ اسلام سابقہ ادیان کا ناسخ ہے اور قیامت تک ایک جماعت اسلام کی حفاظت میں کھڑی رہے گی۔
حدیث نمبر: 390
وحَدَّثَنَاه عَبْدُ الأَعْلَى بْنُ حَمَّادٍ وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، قَالُوا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ . ح وحَدَّثَنِيهِ حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي يُونُسُ . ح وحَدَّثَنَا حَسَنٌ الْحُلْوَانِيُّ وَعَبْدُ بْنُ حميد ، عَنْ يَعْقُوبَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ صَالِحٍ كُلُّهُمْ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، بِهَذَا الإِسْنَادِ، وَفِي رِوَايَةِ ابْنِ عُيَيْنَةَ: إِمَامًا مُقْسِطًا وَحَكَمًا عَدْلًا، وَفِي رِوَايَةِ يُونُسَ: حَكَمًا عَادِلًا، وَلَمْ يَذْكُرْ: إِمَامًا مُقْسِطًا، وَفِي حَدِيثِ صَالِحٍ: حَكَمًا مُقْسِطًا، كَمَا قَالَ اللَّيْثُ وَفِي حَدِيثِهِ مِنَ الزِّيَادَةِ: وَحَتَّى تَكُونَ السَّجْدَةُ الْوَاحِدَةُ خَيْرًا مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا، يَقُولُ أَبُو هُرَيْرَةَ: اقْرَءُوا إِنْ شِئْتُمْ وَإِنْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ سورة النساء آية 159 الآيَةَ.
سفیان بن عیینہ، یونس اور صالح نے (ابن شہاب) زہری سے (ان کی) اسی سند سے روایت نقل کی۔ ابن عیینہ کی روایت میں ہے: ” انصاف کرنے والے پیشوا، عادل حاکم“ اور یونس کی روایت میں: ”عادل حاکم“ ہے، انہوں نے ”انصاف کرنے والے پیشوا“ کا تذکرہ نہیں کیا۔ اور صالح کی روایت میں لیث کی طرح ہے: ”انصاف کرنےوالے حاکم“ اور یہ اضافہ بھی ہے: ”حتی کہ ایک سجدہ دنیا اور اس کی ہرچیز سے بہتر ہو گا۔“ (کیونکہ باقی انبیاء کےساتھ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرمکمل ایمان ہو گا، او راولو العزم نبی جو صاحب کتاب و شریعت تھا۔ آپ کی امت میں شامل ہو گا اور اسی کے مطابق فیصلے فرما رہا ہو گا۔) پھر ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ (آخر میں) کہتے ہیں: چاہو تو یہ آیت پڑھ لو: ” اہل کتاب میں سے کوئی نہ ہو گا مگر عیسیٰ کی وفات سے پہلے ان پر ضرور ایمان لائے گا (اور انہی کے ساتھ امت محمدیہ میں شامل ہو گا۔)“
سفیانؒ، یونسؒ اور ابو صالحؒ، زہریؒ سے مذکورہ بالا روایت نقل کرتے ہیں۔ ابنِ عینیہؒ کی روایت میں ہے: «إِمَامًا مُقْسِطًا، وَحَكَمًا عَدْلًا» ”منصف امام، عادل حکمران۔“ اور یونسؒ کی روایت میں صرف «حَكَمًا عَادِلًا» ہے، «إِمَامًا مُقْسِطًا» نہیں۔ اور جیسا کہ لیثؒ کی روایت میں یہ اضافہ ہے: ”حتیٰ کہ ایک سجدہ دنیا وما فیہا سے بہتر ہو گا۔“ ابو ہریرہ ؓ آخر میں فرماتے: چاہو تو یہ آیت پڑھ لو! ”اہلِ کتاب میں سے ہر شخص عیسیٰ کی وفات سے پہلے ان پر ایمان لائے گا۔“ ﴿وَإِن مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ ۖ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكُونُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا﴾ (النساء: 159) ”اور قیامت کے دن وہ انھی پر گواہ ہوں گے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في ((صحيحه)) في احاديث الانبياء، باب: نزول عيسی ابن مريم عليهما السلام برقم (3448) انظر ((التحفة)) برقم (13178)»
صحیح مسلم کی حدیث نمبر 390 کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 390
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حضر ت ابوہریرہ ؓحضرت عیسی علیہ السلام کے نزول کی تائید میں سورہ نساء کی اس آیت کی تلاوت فرماتے تھے جس سے ثابت ہوا کہ "قَبْلَ مَوْتِهِ" میں ضمیر مجرور عیسی ٰ علیہ السلام کی طرف راجع ہے،
کہ ان کے نزول کے وقت تمام یہود ونصاریٰ ان پر ایمان لے آئیں گے۔
ان کی عبدیت کہ بندہ ہیں،
الہٰ نہیں،
اور ابنیت کہ مریم کے بیٹے ہیں،
ابن اللہ نہیں کا اقرار کریں گے،
اور اسلام کو قبول کر لیں گے،
کیونکہ آج تو اہل کتاب سے جزیہ لے کر ان کو،
ان کے دین پر رہنے دیا جاتا ہے،
اس وقت وہ جزیہ کو قبول نہیں کریں گے۔
رسول اللہ ﷺ نے جزیہ کے قبول کرنے کے وقت کی تعیین فرما دی ہے،
کہ عیسی علیہ السلام کی آمد تک قبول ہے۔
عیسی علیہ السلام آپ ﷺ کی شریعت کے تابع ہوں گے،
اوراس کے مطابق عمل کریں گے۔
قادیان کا متبنی نعوذ باللہ اگر مسیح موعود تھا،
تو اس کی ماں کا نام مریم کیوں نہیں تھا۔
اہل کتاب اس پر ایمان کیوں نہیں لائے،
صلیب کیوں توڑی نہیں جا سکی؟ اور خنزیر کی فراوانی کیوں ہے؟۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 390