صحيح مسلم
كِتَاب الْإِيمَانِ
ایمان کے احکام و مسائل
60. باب بَيَانِ الْوَسْوَسَةِ فِي الإِيمَانِ وَمَا يَقُولُهُ مَنْ وَجَدَهَا:
باب: ایمان میں وسوسہ کا بیان اور وسوسہ آنے پر کیا کہنا چاہیے؟
حدیث نمبر: 342
حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ يَعْقُوبَ الصَّفَّارُ ، حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ عَثَّامٍ ، عَنْ سُعَيْرِ بْنِ الْخِمْسِ ، عَنْ مُغِيرَةَ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عَلْقَمَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: سُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْوَسْوَسَةِ، قَالَ: " تِلْكَ مَحْضُ الإِيمَانِ ".
حضرت عبد اللہ (بن مسعود (رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے وسوسے کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: ”یہی تو خالص ایمان ہے۔
حضرت عبدللہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے وسوسہ کے بارے میں سوال ہوا آپ نے فرمایا: ”یہ تو خالص ایمان ہے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - ((التحفة)) برقم (9446)»
صحیح مسلم کی حدیث نمبر 342 کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 342
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
وسوسہ کا سبب یا وجہ ایمان ہے،
کیونکہ شیطان اس کے دل میں وسوسے ڈالتا ہے جس کے گمراہ کرنے سے وہ نا امید ہوتا ہے۔
اورجو لوگ کافر وفاسق ہیں اور اس کے قابو میں ہیں ان کے دل میں اسے وسوسہ ڈالنے کی کیا ضرورت ہے،
اس لیے وسوسہ ایمان کی علامت ہے،
بشرطیکہ انسان اس کو ناگوار خیال کرے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 342