Note: Copy Text and Paste to word file

صحيح البخاري
أَبْوَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ
کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں («صفة الصلوة»)
106. بَابُ الْجَمْعِ بَيْنَ السُّورَتَيْنِ فِي الرَّكْعَةِ:
باب: ایک رکعت میں دو سورتیں ایک ساتھ پڑھنا۔
وَيُذْكَرُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ السَّائِبِ قَرَأَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمُؤْمِنُونَ فِي الصُّبْحِ حَتَّى إِذَا جَاءَ ذِكْرُ مُوسَى، وَهَارُونَ أَوْ ذِكْرُ عِيسَى أَخَذَتْهُ سَعْلَةٌ فَرَكَعَ وَقَرَأَ عُمَرُ فِي الرَّكْعَةِ الْأُولَى بِمِائَةٍ وَعِشْرِينَ آيَةً مِنْ الْبَقَرَةِ وَفِي الثَّانِيَةِ بِسُورَةٍ مِنَ الْمَثَانِي وَقَرَأَ الْأَحْنَفُ بِالْكَهْفِ فِي الْأُولَى وَفِي الثَّانِيَةِ بِيُوسُفَ أَوْ يُونُسَ، وَذَكَرَ أَنَّهُ صَلَّى مَعَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ الصُّبْحَ بِهِمَا وَقَرَأَ ابْنُ مَسْعُودٍ بِأَرْبَعِينَ آيَةً مِنْ الْأَنْفَالِ وَفِي الثَّانِيَةِ بِسُورَةٍ مِنْ الْمُفَصَّلِ، وَقَالَ قَتَادَةُ: فِيمَنْ يَقْرَأُ سُورَةً وَاحِدَةً فِي رَكْعَتَيْنِ أَوْ يُرَدِّدُ سُورَةً وَاحِدَةً فِي رَكْعَتَيْنِ كُلٌّ كِتَابُ اللَّهِ ‏‏.‏
‏‏‏‏ اور سورت کے آخری حصوں کا پڑھنا اور ترتیب کے خلاف سورتیں پڑھنا یا کسی سورت کو (جیسا کہ قرآن شریف کی ترتیب ہے) اس سے پہلے کی سورت سے پہلے پڑھنا اور کسی سورت کے اول حصہ کا پڑھنا یہ سب درست ہے۔ اور عبداللہ بن سائب سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز میں سورۃ مومنون تلاوت فرمائی، جب آپ موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام کے ذکر پر پہنچے یا عیسیٰ علیہ السلام کے ذکر پر تو آپ کو کھانسی آنے لگی، اس لیے رکوع فرما دیا اور عمر رضی اللہ عنہ نے پہلی رکعت میں سورۃ البقرہ کی ایک سو بیس آیتیں پڑھیں اور دوسری رکعت میں مثانی (جس میں تقریباً سو آیتیں ہوتی ہیں) میں سے کوئی سورت تلاوت کی اور احنف رضی اللہ عنہ نے پہلی رکعت میں سورۃ الکہف اور دوسری میں سورۃ یوسف یا سورۃ یونس پڑھی اور کہا کہ عمر رضی اللہ عنہ نے صبح کی نماز میں یہ دونوں سورتیں پڑھی تھیں۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے سورۃ الانفال کی چالیس آتیں (پہلی رکعت میں) پڑھیں اور دوسری رکعت میں مفصل کی کوئی سورۃ پڑھی اور قتادہ رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کے متعلق جو ایک سورۃ دو رکعات میں تقسیم کر کے پڑھے یا ایک سورۃ دو رکعتوں میں باربار پڑھے فرمایا کہ ساری ہی کتاب اللہ میں سے ہیں۔ (لہٰذا کوئی حرج نہیں)
وَقَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، كَانَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ يَؤُمُّهُمْ فِي مَسْجِدِ قُبَاءٍ وَكَانَ كُلَّمَا افْتَتَحَ سُورَةً يَقْرَأُ بِهَا لَهُمْ فِي الصَّلَاةِ مِمَّا يَقْرَأُ بِهِ افْتَتَحَ بِ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ سورة الإخلاص آية 1حَتَّى يَفْرُغَ مِنْهَا ثُمَّ يَقْرَأُ سُورَةً أُخْرَى مَعَهَا، وَكَانَ يَصْنَعُ ذَلِكَ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ فَكَلَّمَهُ أَصْحَابُهُ فَقَالُوا: إِنَّكَ تَفْتَتِحُ بِهَذِهِ السُّورَةِ ثُمَّ لَا تَرَى أَنَّهَا تُجْزِئُكَ حَتَّى تَقْرَأَ بِأُخْرَى، فَإِمَّا تَقْرَأُ بِهَا وَإِمَّا أَنْ تَدَعَهَا وَتَقْرَأَ بِأُخْرَى، فَقَالَ: مَا أَنَا بِتَارِكِهَا إِنْ أَحْبَبْتُمْ أَنْ أَؤُمَّكُمْ بِذَلِكَ فَعَلْتُ وَإِنْ كَرِهْتُمْ تَرَكْتُكُمْ وَكَانُوا يَرَوْنَ أَنَّهُ مِنْ أَفْضَلِهِمْ وَكَرِهُوا أَنْ يَؤُمَّهُمْ غَيْرُهُ، فَلَمَّا أَتَاهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرُوهُ الْخَبَرَ، فَقَالَ: يَا فُلَانُ مَا يَمْنَعُكَ أَنْ تَفْعَلَ مَا يَأْمُرُكَ بِهِ أَصْحَابُكَ وَمَا يَحْمِلُكَ عَلَى لُزُومِ هَذِهِ السُّورَةِ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ فَقَالَ: إِنِّي أُحِبُّهَا، فَقَالَ: حُبُّكَ إِيَّاهَا أَدْخَلَكَ الْجَنَّةَ ‏‏.‏
عبیداللہ بن عمر نے ثابت رضی اللہ عنہ سے انہوں نے انس رضی اللہ عنہ سے نقل کیا کہ انصار میں سے ایک شخص (کلثوم بن ہدم) قباء کی مسجد میں لوگوں کی امامت کیا کرتا تھا۔ وہ جب بھی کوئی سورۃ (سورۃ فاتحہ کے بعد) شروع کرتا تو پہلے «قل هو الله أحد‏» پڑھ لیتا۔ پھر کوئی دوسری سورۃ پڑھتا۔ ہر رکعت میں اس کا یہی عمل تھا۔ اس کے ساتھیوں نے اس سلسلے میں اس پر اعتراض کیا اور کہا کہ تم پہلے یہ سورۃ پڑھتے ہو اور صرف اسی کو کافی خیال نہیں کرتے بلکہ دوسری سورۃ بھی (اس کے ساتھ) ضرور پڑھتے ہو۔ یا تو تمہیں صرف اسی کو پڑھنا چاہئے ورنہ اسے چھوڑ دینا چاہئے اور بجائے اس کے کوئی دوسری سورۃ پڑھنی چاہئے۔ اس شخص نے کہا کہ میں اسے نہیں چھوڑ سکتا اب اگر تمہیں پسند ہے کہ میں تمہیں نماز پڑھاؤں تو برابر پڑھتا رہوں گا ورنہ میں نماز پڑھانا چھوڑ دوں گا۔ لوگ سمجھتے تھے کہ یہ ان سب سے افضل ہیں اس لیے وہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کے علاوہ کوئی اور شخص نماز پڑھائے۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو ان لوگوں نے آپ کو واقعہ کی خبر دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بلا کر پوچھا کہ اے فلاں! تمہارے ساتھی جس طرح کہتے ہیں اس پر عمل کرنے سے تم کو کون سی رکاوٹ ہے اور ہر رکعت میں اس سورۃ کو ضروری قرار دے لینے کا سبب کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہ! میں اس سورۃ سے محبت رکھتا ہوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس سورۃ کی محبت تمہیں جنت میں لے جائے گی۔
حدیث نمبر: 775
حَدَّثَنَا آدَمُ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا وَائِلٍ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى ابْنِ مَسْعُودٍ، فَقَالَ:" قَرَأْتُ الْمُفَصَّلَ اللَّيْلَةَ فِي رَكْعَةٍ، فَقَالَ: هَذًّا كَهَذِّ الشِّعْرِ، لَقَدْ عَرَفْتُ النَّظَائِرَ الَّتِي كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرُنُ بَيْنَهُنَّ، فَذَكَرَ عِشْرِينَ سُورَةً مِنْ الْمُفَصَّلِ سورتيِن في كُلِّ رَكْعَةٍ".
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عمرو بن مرہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے ابووائل شقیق بن مسلم سے سنا کہ ایک شخص عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ میں نے رات ایک رکعت میں مفصل کی سورۃ پڑھی۔ آپ نے فرمایا کہ کیا اسی طرح (جلدی جلدی) پڑھی جیسے شعر پڑھے جاتے ہیں۔ میں ان ہم معنی سورتوں کو جانتا ہوں جنہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک ساتھ ملا کر پڑھتے تھے۔ آپ نے مفصل کی بیس سورتوں کا ذکر کیا۔ ہر رکعت کے لیے دو دو سورتیں۔
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 775 کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:775  
حدیث حاشیہ:
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے جن جوڑا جوڑا سورتوں کی نشاندہی کی ہے ان میں سے بعض موجودہ ترتیب مصحف سے مختلف ہیں جن کی تفصیل بایں طور بیان ہوئی ہے:
٭ سورۂ رحمٰن اور سورۂ نجم۔
٭سورۂ قمر اور سورۂ حاقہ۔
٭سورۂ زاریات اور سورۂ طور۔
٭ سورۂ واقعہ اور سورۂ نون۔
٭سورۂ معارج اور سورۂ نازعات۔
٭ سورۂ مطففین اور سورۂ عبس۔
٭سورۂ دھر اور سورۂ قیامہ۔
٭ سورۂ مزمل اور سورۂ مدثر۔
٭سورۂ نبااور سورۂ مرسلات۔
٭ سورۂ تکویر اور سورۂ دخان۔
انھیں مفصل کی سورتیں اکثریت کی بنا پر کہا جاتا ہے کیونکہ سورۂ دخان مفصل میں سے نہیں۔
(فتح الباري: 336/2)
اس حدیث سے ایک رکعت میں دو سورتیں پڑھنے اور موجودہ ترتیب کے خلاف پڑھنے کا جواز معلوم ہوتا ہے۔
والله أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 775   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1007  
´ایک رکعت میں دو سورتیں پڑھنے کا بیان۔`
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص ان کے پاس آیا اور کہنے لگا: میں نے آج رات ایک رکعت میں پوری مفصل پڑھ ڈالی، تو انہوں نے کہا: یہ تو شعر کی طرح جلدی جلدی پڑھنا ہوا، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم «حمٓ» سے اخیر قرآن تک مفصل کی صرف بیس ہم مثل سورتیں ملا کر پڑھتے تھے ۱؎۔ [سنن نسائي/باب سجود القرآن/حدیث: 1007]
1007۔ اردو حاشیہ: حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے مصحف میں سورتوں کی ترتیب مصحف عثمانی سے کچھ مختلف تھی، اس لیے ان کی مفصل سورتوں کی ترتیب کا موجودہ قرآن مجید کی ترتیب سے اختلاف تھا۔ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے پاس نزولی ترتیب تھی۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1007   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1396  
´قرآن کے حصے اور پارے مقرر کرنے کا بیان۔`
علقمہ اور اسود کہتے ہیں کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس ایک شخص آیا اور کہنے لگا: میں ایک رکعت میں مفصل پڑھ لیتا ہوں، انہوں نے کہا: کیا تم اس طرح پڑھتے ہو جیسے شعر جلدی جلدی پڑھا جاتا ہے یا جیسے سوکھی کھجوریں درخت سے جھڑتی ہیں؟ لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دو ہم مثل سورتوں کو جیسے نجم اور رحمن ایک رکعت میں، اقتربت اور الحاقة ایک رکعت میں، والطور اور الذاريات ایک رکعت میں، إذا وقعت اور نون ایک رکعت میں، سأل سائل اور النازعات ایک رکعت میں، ويل للمطففين اور عبس ایک رکعت میں، المدثر اور المزمل ایک رکعت میں، هل أتى اور لا أقسم بيوم القيامة ایک رکعت میں، عم يتسائلون اور المرسلات ایک رکعت میں، اور اسی طرح الدخان اور إذا الشمس كورت ایک رکعت میں ملا کر پڑھتے تھے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ ابن مسعود کی ترتیب ہے، اللہ ان پر رحم کرے۔ [سنن ابي داود/أبواب قراءة القرآن وتحزيبه وترتيله /حدیث: 1396]
1396. اردو حاشیہ:
➊ شیخ البانی ؒ کے نزدیک اس میں صورتوں کی تفصیل صحیح نہیں ہے۔
➋ قرآن مجید کو ترتیل اور فہم کے بغیر پڑھنا مکروہ ومعیوب ہے۔ البتہ عامی اور سادہ لوگ مستثنٰی ہیں۔
➌ رسول اللہﷺ کا نماز تہجد میں سورۃبقرہ۔ نساء۔ اور آل عمران وغیرہ پڑھنا بعض اوقات پرمحمول ہے۔ ورنہ آپ کی قراءت متوسط ہوا کرتی تھی۔
➍ رسول اللہ ﷺ نے اپنے حین حیات قرآن مجید مدون۔ ومرتب کروا دیا تھا۔ مگر وہ مختلف اوراق تختیوں اور چمڑے کے ٹکڑوں پر لکھا گیا تھا۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور بعداذاں حضرت عثمان رض اللہ عنہ نے ایک مصحف اور ایک قراءت پر جمع فرما دیا۔ مختلف صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کے پے پاس جو اپنے اپنے نسخے تھے۔ ان کی ترتیب مختلف تھی۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1396   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 602  
´ایک رکعت میں دو سورتیں پڑھنے کا بیان۔`
ابووائل شقیق بن سلمہ کہتے ہیں: ایک شخص نے عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے لفظ «غَيْرِ آسِنٍ» یا «يَاسِنٍ» کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: کیا تم نے اس کے علاوہ پورا قرآن پڑھ لیا ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں، انہوں نے کہا: ایک قوم اسے ایسے پڑھتی ہے جیسے کوئی خراب کھجور جھاڑ رہا ہو، یہ ان کے گلے سے آگے نہیں بڑھتا، میں ان متشابہ سورتوں کو جانتا ہوں جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ملا کر پڑھتے تھے۔ ابووائل کہتے ہیں: ہم نے علقمہ سے پوچھنے کے لیے کہا تو انہوں نے ابن مسعود رضی الله عنہ سے پوچھا: انہوں نے بتایا کہ یہ مفصل کی بیس سورتیں ہیں ۱؎ نبی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/أبواب السفر/حدیث: 602]
اردو حاشہ:
1؎:
وہ سورتیں یہ ہیں:
﴿الرَّحْمنُ﴾ اور ﴿النَّجْم﴾ کو ایک رکعت میں،
﴿اِقْتَرَبَتْ﴾ اور ﴿الْحَآقَّہ﴾ کو ایک رکعت میں،
﴿الذّارِیَات﴾ اور ﴿الطُّوْر﴾ کو ایک رکعت میں،
واقعہ اور نون کو ایک رکعت میں،
﴿سَأَلَ سَائِلٌ﴾ اور ﴿وَالنَّازِعَات﴾ کو ایک رکعت میں،
﴿عَبَسَ﴾ اور ﴿وَیْلٌ لِّلْمُطَفِّفِیْن﴾ کو ایک رکعت میں،
﴿الْمُدَّثِّرْ﴾ اور ﴿الْمُزَّمِّل﴾ کو ایک رکعت میں،
﴿هَلْ أَتَی عَلَی الْإِنْسَانِ﴾ اور ﴿لَاأُقْسِمُ﴾ کو ایک رکعت میں،
﴿عَمَّ یَتَسَألُوْن﴾ اور ﴿الْمُرْسَلَات﴾ کو ایک رکعت میں،
اور ﴿الشَّمْس کُوِّرَتْ﴾ اور الدُّخَان کو ایک رکعت میں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 602   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1908  
ابو وائل سے روایت ہے کہ، نہیک بن سنان نامی ایک آدمی حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آیا اور پوچھنے لگا، اے ابو عبدالرحمان! آپ اس کلمے کو کیسےپڑھتے ہیں؟ آپ اسے الف سمجھتے ہیں یا ﴿مِّن مَّاءٍ غَيْرِ‌ آسِنٍ﴾ یا ﴿مِّن مَّاءٍ غَيْرِ‌ ياسِنٍ﴾ (پانی جس کا ذائقہ اور رنگ بدلا نہیں ہوگا) تو حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس سے پوچھا: اس لفظ کے سوا تمام قرآن مجید کی تحقیق تم نے کر لی ہے؟ اس نے کہا: میں تمام مفصل سورتیں ایک رکعت میں پڑھتا ہوں۔ اس پر حضرت... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:1908]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
آسِن:
وہ پانی جس کا ذائقہ اور رنگ بدل جائے اس کو ماء آسن یا ماء ياسن کہتے ہیں۔
(2)
هَذًّا كَهَذِّ الشِّعرِ:
جس طرح اشعار کو جلدی جلدی بلا سوچے سمجھے یاد کیا جاتا ہے اور نقل کیا جاتا ہے،
اس طرح تم نے بلا سوچے سمجھے ایک رکعت میں اتنی سورتیں پڑھ ڈالیں،
شعروں کی نقل و روایت میں تیزی ہوتی ہے لیکن مجمع میں پڑھتے وقت ترنم اور خوش الحانی کی جاتی ہے۔
(3)
لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ:
ترقوة ہنسلی کو کہتے ہیں،
یعنی قراءت دل تک نہیں پہنچتی اور اس کو متاثر نہیں کرتی،
محض زبان پر رواں رہتی ہے،
یا اوپر نہیں اٹھتی اور اللہ تعالیٰ کے ہاں شرف قبولیت حاصل نہیں کر پاتی۔
فوائد ومسائل:
قرآن مجید کی پہلی سات سورتوں کو طوال کہتے ہیں اور بعد والی دو سورتیں جن کی آیات سو سےاوپر ہیں،
مئین کہلاتی ہیں اور ان کے بعد والی جن کی آیات سو سے کم ہیں،
مثانی کہلاتی ہیں اور اس کے بعد سورۃ حجرات سے شروع ہونے والی سورتیں مفصل کہلاتی ہیں،
حجرات سے سورۃ بروج تک طوال مفصل اس سے آگے ﴿لَمْ يَكُنِ الَّذِينَ كَفَرُوا﴾ تک اوساط مفصل اور اس سے آگے آخر تک قصار مفصل ہیں،
گویا کہ نہیک نامی انسان نے آخری منزل ایک رکعت میں پڑھی تو حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا تم نے ٹھہرٹھہر کر،
غوروفکر اور تدبر کے ساتھ قرآءت نہیں کی اور ابن نمیر کی روایت میں نہیک بن سنان کا نام نہیں ہے بلکہ بنو بجیلہ کے ایک آدمی کی آمد کا ذکر ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1908   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1913  
ابووائل بیان کرتے ہیں، کہ ایک آدمی حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آیا اور کہا: میں نے آج رات مفصل سورتیں ایک رکعت میں پڑھی ہیں تو عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فریا: شعرو، كی سی تيزي كے ساتھ؟ اور عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فر یا: مجھے وہ نظائرمعلوم ہیں جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ملا کر پڑھا کرتے تھے، انھوں نے مفصل سورتوں میں سے بیس سورتیں بتائیں جنھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو دوملا کر ایک رکعت میں پڑھتے تھے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:1913]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
(1)
شقیق ابو وائل کا نام ہے اور اُم عبد حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی والدہ ہیں۔
(2)
سورتوں کے جوڑے جوڑے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نسخہ کی روسے یہ ہیں۔
(1)
الرَّحْمَـٰنُ۔
وَالنَّجْمِ۔
(2)
اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ اور الْحَاقَّةُ۔
(3)
وَالطُّورِ اور الذَّارِيَاتِ۔
(4)
الْوَاقِعَةُ اور نون۔
(5)
سَأَلَ سَائِلٌ اور وَالنَّازِعَاتِ۔
(6)
وَيْلٌ لِّلْمُطَفِّفِينَ اور عَبَسَ۔
(7)
الْمُدَّثِّرُ اور الْمُزَّمِّلُ۔
(8)
هَلْ أَتَىٰ عَلَى الْإِنسَانِ اور لَا أُقْسِمُ۔
(9)
عَمَّ يَتَسَاءَلُونَ اور وَالْمُرْسَلَاتِ۔
(10)
دُخَانٍ اور إِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ۔
ان میں حٰم والی سورت صرف دُخَانٍ ہےاور تغلیباً إِذَا الشَّمْسُ کو آل حاميم میں شمار کیا گیا ہے۔
(3)
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مقصد یہ ہے کہ قرآن مجید ٹھہر ٹھہر کر،
معانی و مطالب غور وفکر کرتے ہوئے پڑھنا چاہیے جو انسان ایک رکعت میں ایک منزل پا لیتا ہے وہ اس پر غور وفکر نہیں کر سکتا اس لیے جو انسان قرآن مجید کے معانی سے آگاہ نہیں ہے وہ جس قدر چاہے پڑھ سکتا ہے،
بعض صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے ایک رکعت میں قرآن مکمل طور پڑھنا ثابت ہے کیونکہ اس وقت وہ صرف قرآءت کرتے تھے،
الفاظ کے معانی اورمطلب پر غور وفکر کو دوسرےاوقات میں اٹھا رکھتے تھے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تین راتوں سے کم میں قرآن مجید پڑھنے کی اجازت نہیں دی۔
(بخاری)
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1913   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4996  
4996. سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: میں نے ان جڑواں سورتوں کو جانتا ہوں جنہں نبی کریم ﷺ ہر رکعت میں دو دو پڑھتے تھے اس کی بعد سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ مجلس سے اٹھ گئے ان کے ساتھ سیدنا علقمہ بھی گھر میں داخل ہوئے۔ پھر جب وہ باہر آئے ہم نے ان سے پوچھا وہ کون سی سورتیں ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ وہ سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ کی ترتیب کے مطابق، آغاز مفصل کی بیس سورتیں ہیں جن کی آخری سورتیں حم والی ہیں۔ حم الدخان اور عم یتسالون بھی انہیں میں سے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4996]
حدیث حاشیہ:
ابوذر کی روایت میں یوں ہے۔
حم کی سورتوں سے میں حم دخان اور عم یتساءلون۔
ابن خزیمہ کی روایت میں یوں ہے ان میں پہلی سورت سورۃ رحمان ہے اور آخیر کی دخان۔
اس روایت سے یہ نکلا کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا مصحف عثمانی ترتیب پر نہ تھا نہ نزول کی ترتیب پر کہتے ہیں۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کا مصحف بہ ترتیب نزول تھا۔
شروع میں سورۃ اقرأ پھر سورۃ مدثر، پھر سورۃ قلم اور اسی طرح پہلے سب مکی سورتیں تھیں۔
پھر مدنی سورتیں اور مصحف عثمانی کی ترتیب صحابہ رضی اللہ عنہ کی رائے اور اجتہاد سے ہوئی تھی۔
جمہور علماء کا یہی قول ہے یعنی سورتوں کی ترتیب لیکن آیتوں کی ترتیب باتفاق علماء توقیفی ہے، یعنی پہلی لکھی ہوئی حضرت جبریل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہہ دیتے تھے اس آیت کو وہاں رکھو اور اس آیت کو وہاں تو آیتوں میں تقدیم تاخیر کسی طرح جائز نہیں اور اسی مضمون کی ایک حدیث ہے جس کو حاکم اور بیہقی نے نکالا۔
حاکم نے کہا وہ صحیح ہے۔
بخاری نے علامات النبوۃ میں وصل کیا۔
حافظ صاحب فرماتے ہیں۔
علی تالیف ابن مسعود فیه دلالة علی أن تألیف ابن مسعود علی غیر التألیف العثماني وکان أوله الفاتحة ثم البقرة ثم النساء ثم آل عمران ولم یکن علی ترتیب النزول و یقال إن مصحف علی کان علی ترتیب النزول أوله اقرأ ثم المدثر ثم النون والقلم ثم المزمل ثم تبت ثم التکویر ثم سبح اسم و ھکذا إلی آخر المکي ثم المدني واللہ أعلم۔
(فتح الباري)
یعنی لفظ علی تالیف ابن مسعود میں دلیل ہے کہ حضرت ابن مسعود کا تالیف کردہ قرآن شریف مصحف عثمانی سے غیر تھا اس میں اول سورۃ فاتحہ پھر سورۃ بقرہ پھر سورۃ نساء پھر سورۃ آل عمران درج تھیں اور ترتیب نزول کے موافق نہ تھا ہاں کہا جاتا ہے کہ مصحف علی ترتیب نزول پر تھا۔
وہ سورۃ اقرأ سے شروع ہوتا تھا۔
پھر سورۃ مدثر پھر سورۃ نون پھر سورۃ مزمل پھر سورۃ تبت پھر سورۃ تکویر پھر سورۃ سبح اسم پھر اس طرح پہلے کی سورتیں پھر مدنی سورتیں اس میں درج تھیں۔
بہرحال جو ہوا منشائے الٰہی کے تحت ہوا کہ آج دنیائے اسلام میں مصحف عثمانی متداول ہے اور دیگر مصاحف کو قدرت نے خود گم کر دیا تا کہ نفس قرآن پر امت میں اختلاف پیدا نہ ہو سکے۔
بعون اللہ ایسا ہی ہوا اور قیامت تک ایسا ہی ہوتا رہے گا۔
﴿وَ لَو کَرِہَ الکَافِرُونَ﴾ ۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4996   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4996  
4996. سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: میں نے ان جڑواں سورتوں کو جانتا ہوں جنہں نبی کریم ﷺ ہر رکعت میں دو دو پڑھتے تھے اس کی بعد سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ مجلس سے اٹھ گئے ان کے ساتھ سیدنا علقمہ بھی گھر میں داخل ہوئے۔ پھر جب وہ باہر آئے ہم نے ان سے پوچھا وہ کون سی سورتیں ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ وہ سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ کی ترتیب کے مطابق، آغاز مفصل کی بیس سورتیں ہیں جن کی آخری سورتیں حم والی ہیں۔ حم الدخان اور عم یتسالون بھی انہیں میں سے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4996]
حدیث حاشیہ:

ہم اس سے پہلے کتاب الصلاۃ میں ان سورتوں کی تفصیل بیان کر آئے ہیں جنھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں دو، دو کر کے پڑھا کرتے تھے۔

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مصحف کی ترتیب مصحف عثمانی سے مختلف تھی۔
اس میں پہلے سورہ فاتحہ، پھر سورہ بقری، اس کے بعد سورہ نساء، پھر سورہ آل عمران تھی اور وہ ترتیب نزولی کے مطابق بھی نہ تھا۔

بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مصحف ترتیب نزول کے مطابق تھا اور سورہ اقرأ سے شروع ہوتا تھا، پھر سورہ مدثر اس کے بعد سورہ نون، یعنی پہلے مکی سورتوں کا اور پھر مدنی سورتوں کا اندراج تھا۔

بہرحال آج دنیا میں مصحف عثمانی ہی رائج ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اسے پزیرائی دی ہے جو دوسرے مصاحف کو نہیں مل سکی۔
غالباً اس مصحف کی وہی ترتیب ہے جس کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جبرئیل علیہ السلام سے آخری دور کیا تھا۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4996