صحيح البخاري
أَبْوَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ
کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں («صفة الصلوة»)
105. بَابُ الْجَهْرِ بِقِرَاءَةِ صَلاَةِ الْفَجْرِ:
باب: فجر کی نماز میں بلند آواز سے قرآن مجید پڑھنا۔
حدیث نمبر: 774
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:" قَرَأَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا أُمِرَ وَسَكَتَ فِيمَا أُمِرَ، وَمَا كَانَ رَبُّكَ نَسِيًّا لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ".
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اسماعیل بن علیہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ایوب سختیانی نے عکرمہ سے بیان کیا، انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے، آپ نے بتلایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جن نمازوں میں بلند آواز سے قرآن مجید پڑھنے کا حکم ہوا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں بلند آواز سے پڑھا اور جن میں آہستہ سے پڑھنے کا حکم ہوا تھا ان میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آہستہ سے پڑھا اور تیرا رب بھولنے والا نہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی تمہارے لیے بہترین نمونہ ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 774 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:774
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت ابن عباس ؓ سری نمازوں میں قراءت کی نفی کرتے تھے، چنانچہ حدیث میں ہےکہ حضرت ابن عباس کے چند شاگرد ان کے پاس آئے۔
انھوں نے آپ سے دریافت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نماز ظہر اور نماز عصر میں کچھ پڑھا کرتے تھے؟ آپ نے فرمایا:
نہیں۔
انھوں نے دوبارہ عرض کیا:
شاید آپ آہستہ اپنے جی میں پڑھتے ہوں؟ فرمایا:
یہ پہلے موقف سے بھی گھٹیا ہے۔
آپ تو عبد مامور تھے اور اللہ کے احکام لوگوں تک پہنچانے کے پابند تھے۔
(سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 808)
بعض دفعہ آپ قراءت کے متعلق شکوک وشبہات کا اظہار کرتے جیسا کہ ایک روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا مجھے پتہ نہیں کہ رسول الله ﷺ نماز ظہر اور نماز عصر میں کچھ پڑھا کرتےتھے یا نہیں؟ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 809)
اس روايت سے معلوم ہوتا ہے کہ ابن عباس ؓ قراءت کے متعلق شک میں مبتلا تھے، حالانکہ حضرت خباب بن ارت اور حضرت ابو قتادہ ؓ نے ظہر اور عصر کی نماز میں قراءت کرنا نقل فرمایا ہے، اس لیے قراءت کا اثبات اس کی نفی پر مقدم ہے۔
شاید امام بخاری ؒ نے مذکورہ روایت حضرت ابن عباس ؓ کے اختیار کردہ موقف کے جواب میں پیش کی ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ ہمارے لیے نمونہ ہیں تو آپ سے تو قراءت کرنا ثابت ہے، اس لیے ہمیں بھی آپ کی پیروی کرتے ہوئے نماز ظہر اور عصر میں قراءت کرنی چاہیے۔
بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ بھی ان نمازوں میں قراءت کے قائل تھے۔
جیسا کہ ابو العالیہ ؒ کہتے ہیں:
میں نے ان سے سوال کیا کہ آیا مجھے نماز ظہر اور نماز عصر میں قراءت کرنی چاہیے؟تو انھوں نے فرمایا:
قرآن تیرا امام ہے، اس سے تھوڑا بہت ضرور پڑھنا چاہیے۔
(فتح الباري: 330/2) (2)
علامہ خطابی ؒ فرماتے ہیں کہ اگر اللہ چاہتا تو نماز کے متعلق جملہ کیفیات وحالات کو قرآن میں بیان کردیتا اور اللہ تعالیٰ نے اسے سہو و نسیان سے نظر انداز نہیں کیا بلکہ رسول اللہ ﷺ کے بیان پر چھوڑ دیا گیا ہے، کیونکہ قرآن کا بیان آپ کے فرائض منصبی میں شامل تھا اور آپ نے اپنے عمل سے اسے بیان کردیا ہے، اس لیے قرآن کے اجمال کی وضاحت کے لیے رسول اللہ ﷺ کے افعال کی پیروی ضروری ہے۔
(فتح الباري: 330/2)
اس وضاحت سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ پر قرآن کے علاوہ بھی وحی آتی تھی جسے قرآن کریم نے سورۂ قیامہ میں "بیان" سے تعبیر کیا ہے، لہٰذا ان حضرات کو غور کرنا چاہیے جو دینی احکام میں صرف قرآن پر اعتماد کرتے ہیں اور رسول اللہ ﷺ کا بیان، یعنی احادیث مبارکہ ان کے نزدیک ناقابل اعتبار ہیں بلکہ یہ حضرات ان احادیث کو عجمی سازش قرار دیتے ہیں۔
أعاذنا الله من الزيغ والضلال
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 774