صحيح مسلم
كِتَاب الْإِيمَانِ
ایمان کے احکام و مسائل
25. باب بَيَانِ خِصَالِ الْمُنَافِقِ:
باب: منافق کی خصلتوں کا بیان۔
حدیث نمبر: 214
وحَدَّثَنِي أَبُو نَصْرٍ التَّمَّار وَعَبْدُ الأَعْلَى بْنُ حَمَّادٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِمِثْلِ حَدِيثِ يَحْيَى بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ الْعَلَاءِ، ذَكَرَ فِيهِ: وَإِنْ صَامَ وَصَلَّى، وَزَعَمَ أَنَّهُ مُسْلِمٌ.
حماد بن سلمہ نے داؤد بن ابی ہندہ سے، انہوں نے سعید بن مسیب کے حوالے سے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی جو یحییٰ بن محمد کی علاء سے بیان کردہ روایت کے مطابق ہے اور اس میں بھی یہ الفاظ ہیں: ”خواہ روزہ رکھے، نماز پڑھے اور اپنے آپ کو مسلمان سمجھے۔“
حضرت ابو ہریرہ ؓ نے مذکورہ حدیث بیان کی اور اس میں ہے: ”اگرچہ وہ روزہ رکھے، نماز پڑھے اور اپنے آپ کو مسلمان سمجھتا ہو۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (14096)»
صحیح مسلم کی حدیث نمبر 214 کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 214
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
(1)
آيَةُ الْمُنَافِقِ ثَلَاثٌ،
آیة مفرد ہے اور ثلاثٌ جمع ہے اس طرح افراد جمع میں مطابقت نہیں ہے،
تواس کا جواب یہ ہے:
کہ آیة کا لفظ جنس کے لیے ہےجس کا اطلاق جمع پر بھی ہوتا ہے،
یا ثلاث کو مجموعی اعتبار سے ایک سمجھا گیا ہے۔
(2)
عبداللہ بن عمرؓ کی روایت میں "أَرْبَعٌ" چار ہے اور ابوہریرہؓ کی روایت میں "ثلاثٌ" تین ہے،
اگر دونوں روایتوں کو سامنے رکھا جائے تو یہ خصلتیں پانچ بنتی ہیں:
(1)
جھوٹ بولنا۔
(2)
عہد کی خلاف ورزی کرنا۔
(3)
وعدہ کو پورا نہ کرنا۔
(4)
جھگڑے میں گالی گلوچ کرنا۔
(5)
اور امانت میں خیانت کرنا۔
اس کا جواب یہ ہے کہ ابرہریرہؓ کی روایت میں تین میں حصر مقصود نہیں ہے،
اس لیے ابوہریرہؓ کی دوسری روایت میں جنہیں علامات کہا گیا ہے،
وہاں علامات میں سے ہے اور عدد کے اظہار سے مقصود اس سے زائد کی نفی نہیں ہے،
موقع محل کے بدلنے سے کہیں ایک صفت کو چھوڑ دیا گیا ہے اور کہیں اس کی جگہ دوسری کا تذکرہ کر دیا گیا ہے،
یا تین کہنے کی وجہ یہ ہے کہ باقی باتیں ان کے اندر آجاتی ہیں،
کیونکہ اعمال انسانی کا تعلق تین چیزوں سے ہے:
نیت،
قول اور فعل،
وعدہ کی خلاف ورزی کا تعلق نیت سے ہے،
کیونکہ وعدہ کی خلاف ورزی اس صورت میں قابل مذمت ہے جب کہ وعدہ کرتے وقت ہی عدم وفا کی نیت ہو،
جیسا کہ ایک حدیث ہے:
"إِذََا وَعَدَ وَھُوَ یُحَدِّثُ نَفْسَهُ أَنَّهُ یُخْلِفُ" ”کہ وعدہ کرتے وقت ہی دل میں خلاف ورزی کا خیال تھا۔
“ اگر وعدہ کرتے وقت وفا کی نیت تھی،
لیکن کسی سبب وروکاوٹ کی بنا پر کوشش کے باوجود وعدہ پورا نہ کرسکا تو یہ نفاق کی علامت نہیں ہوگی۔
اس حدیث کے بارے میں حافظ ابن حجرؒ نے لکھا ہے:
"لَا بَأْسَ بِهِ"،
اور فائدہ فتح الباری سے ماخوذ ہے۔
(فتح الباری: 1۔
122 دارالسلام)
یہ سنن ابی داود،
سنن ترمذی کی حدیث کا ترجمہ ہے- حوالہ مذکورہ بالا۔
کذب اور گالی گلوچ کا تعلق قول سے ہے،
بدعہدی اور خیانت کا تعلق فعل سے ہے۔
(3)
ان حدیثوں میں "إِذَا" کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کا معنی یہ ہے کہ یہ کام اس کا وطیرہ،
رویہ اور پختہ عادت ہیں اور اس کی زندگی کا معمول ہیں،
تو پھر یہ عادات وخصائل منافقانہ ہیں،
اور اگر کبھی کبھار سر زد ہوں تو پھر یہ نفاق کی علامت یا نشانی نہیں ہیں،
حدیث کا مقصد یہ ہے کہ یہ اوصاف وخصائل مومن کے شایان شان نہیں ہیں،
یہ تو ان لوگوں کی عادات ہیں،
جن کا ایمان پختہ نہیں ہے۔
نفاق کی دو قسمیں ہیں:
(1)
ایک کا تعلق ایمان اور عقیدہ سے ہے جو کفر کی بدترین صورت ہے کہ ﴿إِنَّ الْمُنَافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ﴾ ”کہ منافق دوزخ کے سب سے سنگین،
نچلے طبقہ میں ہوں گے۔
“ (2)
دوسری قسم کا تعلق،
عمل وکردار سے ہے کہ کسی شخص کی سیرت وعمل منافقوں جیسا ہو،
اس کا تعلق ایمان وعقیدہ سے نہیں ہے،
مذکورہ چیزوں کا تعلق انسان کی سیرت وکردار سے ہے،
اس طرح یہ نفاق عملی ہوگا اور ایک مسلمان کےلیے جس طرح یہ ضروری ہے کہ وہ کفر وشرک اور اعتقادی نفاق کی نجاست وآلودگی سے بچے،
اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ منافقانہ اعمال واخلاق کی گندگی سے بھی اپنے آپ کو محفوظ رکھے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 214