مسند احمد
مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ
0
1135. حَدِيثُ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ الْأَشْجَعِيِّ الْأَنْصَارِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
0
حدیث نمبر: 23997
حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي صَفْوَانُ بْنُ عَمْرٍو ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ الْأَشْجَعِيِّ ، قَالَ: خَرَجْتُ مَعَ مَنْ خَرَجَ مَعَ زَيْدِ بْنِ حَارِثَةَ مِنَ الْمُسْلِمِينَ فِي غَزْوَةِ مُؤْتَةَ، وَرَافَقَنِي مَدَدِيٌّ مِنَ الْيَمَنِ لَيْسَ مَعَهُ غَيْرُ سَيْفِهِ، فَنَحَرَ رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ جَزُورًا، فَسَأَلَهُ الْمَدَدِيُّ طَائِفَةً مِنْ جِلْدِهِ، فَأَعْطَاهُ إِيَّاهُ، فَاتَّخَذَهُ كَهَيْئَةِ الدَّرَقِ، وَمَضَيْنَا فَلَقِينَا جُمُوعَ الرُّومِ، وَفِيهِمْ رَجُلٌ عَلَى فَرَسٍ لَهُ أَشْقَرَ، عَلَيْهِ سَرْجٌ مُذَهَّبٌ، وَسِلَاحٌ مُذَهَّبٌ، فَجَعَلَ الرُّومِيُّ يُغْرِي بِالْمُسْلِمِينَ، وَقَعَدَ لَهُ الْمَدَدِيُّ خَلْفَ صَخْرَةٍ، فَمَرَّ بِهِ الرُّومِيُّ، فَعَرْقَبَ فَرَسَهُ، فَخَرَّ وَعَلَاهُ فَقَتَلَهُ، وَحَازَ فَرَسَهُ وَسِلَاحَهُ فَلَمَّا فَتَحَ اللَّهُ لِلْمُسْلِمِينَ بَعَثَ إِلَيْهِ خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ فَأَخَذَ مِنْهُ السَّلَبَ، قَالَ عَوْفٌ: فَأَتَيْتُهُ، فقلت: يا خالد، أما علمت أن رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَضَى بِالسَّلَبِ لِلْقَاتِلِ؟ قَالَ: بَلَى، وَلَكِنِّي اسْتَكْثَرْتُهُ , قُلْتُ: لَتَرُدَّنَّهُ إِلَيْهِ أَوْ لَأُعَرِّفَنَّكَهَا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبَى أَنْ يَرُدَّ عَلَيْهِ، قَالَ عَوْفٌ: فَاجْتَمَعَا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَصَصْتُ عَلَيْهِ قِصَّةَ الْمَدَدِيِّ وَمَا فَعَلَهُ خَالِدٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا خَالِدُ، " مَا حَمَلَكَ عَلَى مَا صَنَعْتَ؟" قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، اسْتَكْثَرْتُهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا خَالِدُ، رُدَّ عَلَيْهِ مَا أَخَذْتَ مِنْهُ"، قَالَ عَوْفٌ: فَقَالت: دُونَكَ يَا خَالِدُ، أَلَمْ أَفِ لَكَ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" وَمَا ذَاكَ؟" فَأَخْبَرْتُهُ، فَغَضِبَ رَسُولُ اللَّهِ، وَقَالَ: يَا خَالِدُ،" لَا تَرُدَّهُ عَلَيْهِ، هَلْ أَنْتُمْ تَارِكُو إِلَيَّ أُمَرَائِي، لَكُمْ صَفْوَةُ أَمْرِهِمْ، وَعَلَيْهِمْ كَدَرُهُ" ، قَالَ الْوَلِيدُ : سَأَلْتُ ثَوْرًا عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ فَحَدَّثَنِي، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ ، عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ الْأَشْجَعِيِّ ، نَحْوَهُ.
حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ شام کی طرف ہم ایک غزوے میں شریک ہوئے ہمارے امیر حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ تھے قبیلہ حمیر کا ایک آدمی ہمارے ساتھ آکر شامل ہوگیا وہ ہمارے خیمے میں رہنے لگا اس کے پاس تلوار کے علاوہ کوئی اور چیز یا اسلحہ بھی نہ تھا اس دوران ایک مسلمان نے ایک اونٹ ذبح کیا وہ شخص مسلسل تاک میں رہا حتی کے موقع پا کر ایک ڈھال کے برابر اس کی کھال حاصل کرلی اور اسے زمین پر بچھا دیا جب وہ خشک ہوگئی تو اس کے لئے ڈھال بن گئی۔
ادھر یہ ہوا کہ دشمن سے ہمارا آمنا سامنا ہوگیا جن میں رومی اور بنو قضاعہ کے عرب مشترکہ طور پر جمع تھے انہوں نے ہم سے بڑی سخت معرکہ آرائی کی رومیوں میں ایک آدمی ایک سرخ وسفید گھوڑے پر سوار تھا جس کی زین بھی سونے کی تھی اور پٹکا بھی مخلوط سونے کا تھا یہی حال اس کی تلوار کا تھا وہ مسلمانوں پر بڑھ چڑھ کر حملہ کر رہا تھا اور وہ حمیری آدمی مسلسل اس کی تاک میں تھا حتیٰ کہ جب وہ رومی اس کے پاس سے گذرا تو اس نے عقب سے نکل کر اس پر حملہ کردیا اور اس کے گھوڑے کی پنڈلی پر تلوار ماری جس سے وہ نیچے گرگیا پھر اس نے تلوار کا ایسا بھرپور ہاتھ مارا کہ اس رومی کو قتل کردیا۔
فتح حاصل ہونے کے بعد جب اس نے اس کا سامان لینے کا ارادہ کیا اور لوگوں نے بھی گواہی دی کہ اس رومی کو اسی نے قتل کیا ہے تو حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے اس کو کچھ سامان دے دیا اور کچھ سامان کو روک لیا اس نے عوف رضی اللہ عنہ کے خیمے میں واپس آکر ان سے اس واقعے کا تذکرہ کیا تو انہوں نے کہا کہ تم دوبارہ ان کے پاس جاؤ انہیں تمہارا سامان تمہیں دے دینا چاہئے چناچہ وہ دوبارہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے پاس گیا لیکن انہوں نے پھر انکار کردیا اس پر حضرت عوف رضی اللہ عنہ کو ملے گا؟ انہوں نے کہا کیوں نہیں حضرت عوف رضی اللہ عنہ نے فرمایا پھر اس کے مقتول کا سامان اس کے حوالے کرنے میں آپ کے لئے کیا رکاوٹ ہے؟ حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں اسے بہت زیادہ سمجھتا ہوں حضرت عوف رضی اللہ عنہ نے فرمایا اگر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا روئے انور دیکھ سکا تو ان سے اس کا ذکر ضرور کروں گا۔
جب وہ مدینہ منورہ پہنچ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور آپ کو اس کی خبر دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خالد رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ تجھے کس نے اس کو سامان دینے سے منع کیا؟ حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! میں نے (اس سامان کو) بہت زیادہ سمجھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے سامان دے دو پھر وہ حضرت عوف رضی اللہ عنہ کے پاس سے گذرے تو انہوں نے حضرت خالد رضی اللہ عنہ کی چادر کھینچی اور فرمایا میں نے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا تھا وہی ہوا ہے نا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات سن لی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہوگئے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے خالد! اب اسے نہ دینا (اور آپ نے فرمایا) کیا تم میرے نگرانوں کو چھوڑ نہیں سکتے؟ کیونکہ تمہاری اور ان کی مثال ایسی ہے جیسے کسی آدمی نے اونٹ یا بکریاں چرانے کے لئے خریدیں پھر (ان جانوروں) کے پانی پینے کا وقت دیکھ کر ان کو حوض پر لایا اور انہوں نے پانی پینا شروع کردیا تو صاف صاف پانی انہوں نے پی لیا اور تلچھٹ چھوڑ دیا تو صاف یعنی عمدہ چیزیں تمہارے لئے ہیں اور بری چیزیں نگرانوں کے لئے ہیں۔
حكم دارالسلام: إسناداه صحيحان، م: 1753